پاکستان عوامی تحریک: پنجاب حکومت کی ایک سالہ ’’کارکردگی‘‘ پر وائٹ پیپر کا اجراء

پاکستان عوامی تحریک پنجاب کی طرف سے صوبائی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی پر وائٹ پیپر جاری کردیا گیا۔ 2104ء میں حکومتی کارکردگی صرف اپنے اقتدار کو تحفظ فراہم کرنے تک محدود رہی اور عوام الناس کی بھلائی اور آسانی کے لئے خاطر خواہ انتظامات نہ کئے جاسکے۔ PAT پنجاب کی طرف سے جاری کئے گئے اس وائٹ پیپر کے تمام اعداد و شمار الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کی رپورٹس، قومی، بین الاقوامی جرائد کی رپورٹس، علاقائی اخبارات اور پولیس افسران و مختلف اداروں کے افسران سے گفتگو اور مانیٹرنگ کے ذریعے جمع کیے گئے ہیں۔ PAT کی طرف سے جاری کردہ اس وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ

  • پنجاب بھر میں سٹریٹ کرائم سمیت ماہانہ 3 لاکھ اور سالانہ 36 لاکھ چھوٹے بڑے جرائم ہوتے ہیں۔ جرائم کی شرح کم دکھانے کیلئے صرف 25 فیصد مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔
  • رواں سال پنجاب کی تاریخ میں سب سے زیادہ بچے اغواء ہوئے جن کی تعداد 12 ہزار 245 ہے۔ پنجاب میں ہر سال اغواء اور اغواء برائے تاوان کے 11 سے 12 ہزار واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ اغواء کے 22فیصد واقعات کی ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی۔
  • سال 2014ء میں پولیس مقابلوں میں 10 فیصد اور خواتین کے خلاف سنگین جرائم کے ارتکاب میں 19 فیصد اضافہ ہوا۔
  • 7 ہزار اندھے اور 14 فرقہ وارانہ قتل کی وارداتوں کے ساتھ پنجاب رواں سال سرفہرست صوبہ رہا۔
  • کشکول توڑنے کے دعویدار وزیر اعلیٰ پنجاب نے رواں سال 850 ملین ڈالر کے نئے قرضے لیے، اس سے پنجاب کے ذمہ واجب الادا قرضہ 452 ارب روپے سے بڑھ کر 580 ارب ہو گیا۔ ہر سال سود کی ادائیگی بڑھنے سے تعلیم، صحت سمیت سوشل سیکٹر کا ترقیاتی بجٹ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ پنجاب حکومت اقتدار کے سات سال بعد بھی فنانشل مینجمنٹ قائم نہیں کر سکی۔
  • سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ کوٹ رادھا کشن، سانحہ واہگہ بارڈر، نابیناؤں کے خلاف پولیس تشدد کے باعث دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہوئی اور حکومت کی نااہلی کھل کر سامنے آئی۔ بالخصوص سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شفاف تحقیقات کے راستے میں رکاوٹ بن کر پنجاب حکومت نے مجرمانہ کردار ادا کیا۔
  • پنجاب میں رواں سال 248 پولیس مقابلے ہوئے جن میں 25 پولیس افسر اور اہلکار جاں بحق ہوئے جبکہ 235 زیر حراست ملزم ماورائے عدالت مار دیے گئے۔ 6 ہزار قتل اور 22 ہزار اقدام قتل کی وارداتیں ہوئیں جو گزشتہ سال کی نسبت 20فیصد زیادہ ہیں۔
  • سرکاری ملازمین پر حملوں کی تعداد بھی بڑھی ہے جن میں پولیو ورکرز بھی شامل ہیں،گزشتہ سال 2013ء میں یہ تعداد 1438 تھی جبکہ 2014ء میں یہ تعداد بڑھ کر 1534 ہو گئی۔
  • گینگ ریپ کے کیسز سال 2103ء میں 5160 تھے، رجسٹرڈ 2269 ہوئے، سال 2014ء میں یہ تعداد بڑھ کر 6100 ہو گئی جبکہ 2402 واقعات کی ایف آئی آر درج کی گئی۔
  • خواتین کے خلاف ہونے والے 50 فیصد سنگین جرائم کی ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی۔ پنجاب میں خواتین کے خلاف جرائم کی روک تھام کے حوالے سے قانون سازی نہ کیے جانے پر بعض خواتین صوبائی وزراء نے بھی وزیراعلیٰ پنجاب کو احتجاجی مراسلہ لکھا۔
  • وزیراعلیٰ پنجاب کے سستی روٹی پروگرام اور مکینیکل تنور منصوبے کے باعث محکمہ خوراک 2012ء سے 80 ارب روپے کا مقروض چلا آ رہا ہے اور سود کی ادائیگی کی مد میں سالانہ 9 ارب روپے ادا ہو رہے ہیں۔ سود کی ادائیگی کیلئے آٹا مہنگا کیا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ کے غلط فیصلوں کی سز ا غریب اور قومی خزانہ بھگت رہا ہے۔ پنجاب حکومت 7 لاکھ ٹن گندم مخصوص تاجروں کے ذریعے سبسڈی دیکر ایکسپورٹ کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے جبکہ 50فیصد انتہائی غریب آبادی کو روٹی اور آٹا مہنگا مل رہا ہے اور سرپلس گندم گوداموں میں گل سڑ رہی ہے۔
  • سال 2014ء کی پہلی ششماہی میں تعلیم، صحت کا ترقیاتی بجٹ صرف 17 فیصد ریلیز ہو سکا۔
  • محکمہ صحت میں ڈاکٹرز کی 7 ہزار اور محکمہ تعلیم میں سبجیکٹ سپیشلسٹ کی 22 ہزار اسامیاں خالی ہیں جو بیڈگورننس کی بدترین مثال اور حکومت کی تعلیم اور صحت دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
  • عوام کو بروقت اور مفت طبی امداد دینے والے ریسکیو 1122 کارواں سال بجٹ 1650 ملین سے کم کر کے 1450 ملین کر دیا گیا، جس کے باعث سروس کی سہولت میں بتدریج کمی اور ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں بھی مشکل ہو رہی ہے۔
  • ہمارے حکمرانوں کے بارے یہ تاثر پختہ ہو چکا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کے نزدیک انسان نہیں پُل اور سڑکیں اہم ہیں۔ پنجاب حکومت کی نااہلی کے باعث رواں سال آلو، ٹماٹر، پیاز کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچیں اور ناجائز منافع خوری روکنے کیلئے حکومت کوئی حکمت عملی طے نہ کر سکی۔ حتی کہ چاول، گنے کے کاشتکار کا بری طرح استحصال کیا گیا اور انہیں ان اجناس کی پوری قیمت بھی نہیں ملی۔
  • سیلاب کی تباہی کے شکارکسانوں کو آٹے میں نمک کے برابر بھی معاوضہ نہیں دیا گیا اور متاثرہ کسانوں نے حکومت کے خلاف مظاہرے کیے۔ شوگر ملوں کے مالک حکمرانوں نے گنے کے کاشتکار کا استحصال کیا، گنے کی قیمت نہیں بڑھائی جبکہ سرمایہ دار طبقہ کو فائدہ پہنچانے کے لئے چینی کی قیمت بڑھادی گئی۔کسان اعلان کردہ قیمت وصول کرنے کیلئے صوبہ گیر مظاہرے کرتے رہے۔
  • خوراک میں ملاوٹ کے واقعات خوفناک حد تک بڑھے حتی کہ مردہ اور حرام جانوروں کے گوشت کی فروخت میں اضافہ ہوا۔
  • جعلی ادویات ساز فیکٹریاں پکڑی گئیں مگر سزا کسی کو نہیں ملی۔ گورنر پنجاب نے انکشاف کیا کہ پنجاب میں 700 زرعی ادویات بنانے والی کمپنیوں میں ساڑھے 6سو جعلی ہیں، اس پر بھی حکومت نے کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
  • جنوبی پنجاب کیلئے رکھی گئی رقوم تاحال 25 فیصد بھی جاری نہیں کی گئیں، جنوبی پنجاب کو ہر سال بری طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ پنجاب حکومت کے امتیازی سلوک کے باعث جنوبی پنجاب میں انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔

پاکستان عوامی تحریک پنجاب کے صوبائی صدر بشارت جسپال، جنرل سیکرٹری پنجاب فیاض وڑائچ اور میڈیا سیکرٹری عبدالحفیظ چودھری نے کہا ہے کہ عوامی تحریک بہت جلد پنجاب کے ہر محکمے کی کرپشن، بیڈگورننس پر بھی حقائق قوم کے سامنے لائے گی کہ کس طرح قوم کے خون پسینے کے جمع شدہ ٹیکسوں کی رقوم کرپشن اور لوٹ مار کی نذر ہو رہی ہیں۔