الفقہ: آپ کے دینی مسائل

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: مطلقہ اور بیوہ عورت کی عدت کے متعلق رہنمائی فرما دیں؟

جواب: قرآن مجید میں عدت کے حوالے سے درج ذیل واضح و صریح ارشادات مذکور ہیں۔ بیوہ عورت کی عدت کے متعلق اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّعَشْرًاج فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْکُمْ فِيْمَا فَعَلْنَ فِيْ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ط وَاﷲُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ.

(البقرة، 2: 234)

’’اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں، پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آ پہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مؤاخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اس سے اچھی طرح خبردار ہے‘‘۔

دوسرے مقام پر حاملہ مطلقہ، مطلقاً مطلقہ اور بڑی عمر کی مطلقہ عورتوں کی عدت کے حوالے سے یوں رہنمائی فرمائی:

وَالّٰئِیْ يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَآئِکُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَـلٰـثَةُ اَشْهُرٍ وَالّٰئِیْ لَمْ يَحِضْنَط وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّط وَمَنْ يَّتَّقِ اﷲَ يَجْعَلْ لَّهُ مِنْ اَمْرِهِ يُسْرًاo

(الطلاق، 65: 4)

’’اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر تمہیں شک ہو (کہ اُن کی عدّت کیا ہو گی) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے اور وہ عورتیں جنہیں (ابھی) حیض نہیں آیا (ان کی بھی یہی عدّت ہے)، اور حاملہ عورتیں (تو) اُن کی عدّت اُن کا وضعِ حمل ہے، اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ اس کے کام میں آسانی فرما دیتا ہے‘‘۔

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی عدت کے بارے واضح ارشادات موجود ہیں۔ آیئے چند احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں:

أَنَّ امْرَأَةً مِنْ أَسْلَمَ يُقَالُ لَهَا سُبَيْعَةُ کَانَتْ تَحْتَ زَوْجِهَا تُوُفِّيَ عَنْهَا وَهِيَ حُبْلَی فَخَطَبَهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْکَکٍ فَأَبَتْ أَنْ تَنْکِحَهُ فَقَالَ وَاﷲِ مَا يَصْلُحُ أَنْ تَنْکِحِيهِ حَتَّی تَعْتَدِّي آخِرَ الْأَجَلَيْنِ فَمَکُثَتْ قَرِيبًا مِنْ عَشْرِ لَيَالٍ ثُمَّ جَائَتْ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ انْکِحِي.

’’حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا زوجہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ بنو اسلم کی سبیعہ نامی ایک عورت کا خاوند فوت ہوگیا اور وہ اس وقت حاملہ تھی۔ تو ابو السنابل بن بعکک نے اُسے نکاح کا پیغام دیا تو اس نے نکاح کرنے سے انکار کردیا۔ ابو السنابل نے کہا کہ خدا کی قسم تیرے لئے نکاح کرنا اس وقت تک مناسب نہیںہے۔ جب تک تو بھی عدت پوری نہ کرلے۔ چنانچہ ابھی دس روز ہی گزرے تھے (کہ بچہ پیدا ہوگیا) اور وہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو گئی تو آپ نے فرمایا کہ تم نکاح کرلو‘‘۔

(بخاري، الصحيح، 5: 2037، رقم: 5012، دار ابن کثير اليمامة بيروت)

٭ حضرت زینب نے فرمایا کہ میں حضرت اُم حبیبہ زوجہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ اُن کے والد ماجد حضرت ابو سفیان بن حرب کا انتقال ہوگیا تھا۔ تو حضرت اُم حبیبہ رضی اﷲ عنہا نے خوشبو منگائی جس میں خلوق یاکسی اور چیز کی زردی تھی۔ پھر انہوں نے وہ خوشبو ایک لڑکی کو لگائی اور تھوڑی سی اپنے رخسار پر بھی مل لی اور فرمایا کہ خدا کی قسم، مجھے خوشبو کی حاجت نہیں لیکن میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ

لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤمِنُ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَی مَيِّتٍ فَوْقَ ثَـلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا.

’’کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں جو اﷲ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو کہ تین دن سے زیادہ کسی میت کا سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے اُس کا سوگ چار ماہ دس دن ہے‘‘۔

(بخاري، الصحيح، 5: 2042، رقم: 5024)

٭ حضرت زینب فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت ام سلمہ (اپنی والدہ ماجدہ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ

جَائَتْ امْرَأَةٌ إِلَی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اﷲِ إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا وَقَدْ اشْتَکَتْ عَيْنُهَا أَفَتَکْحُلُهَا فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا کُلَّ ذَلِکَ يَقُولُ (لَا) ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ وَقَدْ کَانَتْ إِحْدَاکُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَی رَأْسِ الْحَوْلِ.

’’ایک عورت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئی: یارسول اﷲ! میری بیٹی کا خاوند فوت ہوگیا ہے اور اس کی آنکھ میں تکلیف ہے تو کیا ہم اسے سرمہ لگادیں؟ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو تین مرتبہ انکار فرمایا اور ہر دفعہ آپ فرماتے کہ نہیں۔ پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ سوگ چار ماہ دس دن ہے۔ حالانکہ زمانہ جاہلیت کے اندر تم میں سے عورت ایک سال کے بعد مینگنیاں پھینکتی تھی‘‘۔

(بخاري، الصحيح، 5: 2042، رقم: 5024)

٭ حفصہ بنت سیرین نے حضرت ام عطیہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کی ہے کہ

کُنَّا نُنْهَی أَنْ نُحِدَّ عَلَی مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا وَلَا نَکْتَحِلَ وَلَا نَطَّيَّبَ وَلَا نَلْبَسَ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ وَقَدْ رُخِّصَ لَنَا عِنْدَ الطُّهْرِ إِذَا اغْتَسَلَتْ إِحْدَانَا مِنْ مَحِيضِهَا فِي نُبْذَةٍ مِنْ کُسْتِ أَظْفَارٍ وَکُنَّا نُنْهَی عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ.

’’ہمیں منع فرمایا گیا کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کریں مگر خاوند کا چار مہینے دس دن تک اور نہ سرمہ لگائیں نہ خوشبو استعمال کریں اور نہ رنگے ہوئے کپڑے پہنیں، سوائے پہلے سے رنگے ہوئے کپڑے اور ہمیں یہ اجازت ملی کہ پاکی کی حالت میں جب ہم میں سے کوئی حیض سے فارغ ہو تو اظفار کی عود کا استعمال کرلے اور ہمیں جنازے کے پیچھے جانے سے منع فرمایا گیا۔‘‘

(بخاري، الصحيح، 5: 2043، رقم: 5027)

محدثینِ کرام نے مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں جو لکھا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ

’’دور جاہلیت میں بیوہ مکمل ایک سال اس طرح عدت گزارتی کہ سب سے الگ گندے، تاریک، تنگ کمرے میں رہتی۔ سال بھر نہ پانی استعمال کرتی، نہ لباس بدلتی، نہ اہل خانہ کے ساتھ ان کے برتنوں میں کھانا کھاتی، نہ بستر بدلتی، نہ ناخن ترشواتی، نہ ہاتھ منہ دھوتی، نہ غسل کرتی، سال بھر اس طرـح گذارتی۔ پھر ایک تقریب منعقد ہوتی جس میں وہ کسی مرغی یا پرندے پر ہاتھ پھرتی تو وہ اس کے زہر سے مر جاتا اور اس کے بال جھڑ جاتے، اس کے بعد اونٹ یا کسی اور جانور کی مینگنیاں لاتے وہ مینگنیاں پھینکتی ہوئی باہر آتی‘‘۔
  • (عيني، عمدة القاري، 21: 3، 4)

  • (عسقلاني، فتح الباري، 9: 489)

  • (النووي، شرح صحيح مسلم، 10: 114)

عدت کے حوالے سے فقہاء کرام بیان کرتے ہیں کہ

عدة الحامل وضع الحمل لقوله تعالی {وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّط} أطلقها فشمل الحرة والأمة المسلمة والکتابية مطلقة أو متارکة في النکاح الفاسد أو وطيء بشبهة والمتوفی عنها زوجها لاطلاق الآية.

وقال ابن مسعود رضی الله عنه من شآء بأهلته ان سورة النساء القصری نزلت بعد التي في البقرة يريد بالقصری {يٰـاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ} وبالطولی {وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ} الآية. وفي رواية من شآء لاعنته وفي رواية حالفته وکانوا اذا اختلفوا في أمر يقولون لعنة اﷲ علی الکاذب منا قالوا وهي مشروعة في زماننا کما في غاية البيان وفتح القدير

وقال عمر رضی الله عنه لو وضعت وزوجها علی سريره لا نقضت عدتها ويحل لها أن تتزوج. عن علي و ابن عباس رضي اﷲ عنهم تعتد الحامل المتوفي عنها زوجها بأبعد الأجلين يعني لا بد من وضع الحمل ومضي أربعة أشهر وعشر... قال في المحيط علي کرم اﷲ وجهه تعتد بأبعد الأجلين وهما الاشهر و وضع الحمل.

(ابن نجيم، البحرالرائق، 4: 145)

(مذکورہ بالا عبارت البحرالرائق کی ہے لیکن الجامع الصغیر، المبسوط، الہدایۃ اور فتح القدیر میں بھی یہی مؤقف ہے۔)

’’حاملہ کی عدت بچے کی پیدائش ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے‘‘۔ یہ (حکم) مطلق ہے۔ سو (یہ حکم) شامل ہے آزاد عورت کو، مسلمان ہو یا کتابی باندی کو، طلاق والی یا نکاح فاسد کی صورت میں یا وطی بالشبہ کی صورت میں الگ کی گئی کو، یا جس کا خاوند فوت ہو جائے۔

عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو چاہے میں اس سے مباہلہ کرتا ہوں کہ چھوٹی سورہِ نسآء یعنی سورہِ طلاق، سورہِ بقرہ کے حکم کے بعد نازل ہوئی ہے (یعنی سورہِ بقرہ میں بیوہ کی عدت جو چار ماہ دس دن مذکور ہے اس سے حاملہ کی عدت مستثنی ہے کہ اس کی عدت وضع حمل یعنی بچے کی پیدائش ہے)۔ ایک روایت میں ہے جو چاہے میں اس سے لعان کر سکتا ہوں۔ ایک روایت میں ہے، حلف اٹھاتا ہوں اور جب لوگ کسی بات میں اختلاف کرتے تو کہتے، ہم میں سے جھوٹے پر اﷲ کی لعنت۔ علماء نے کہا ہمارے زمانہ میں یہ (تحالف) جائز ہیں۔ جیسا کہ غایۃ البیان اور فتح القدیر میں ہے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر خاوند کی میت چارپائی یا پھٹے پر پڑی ہو اور بیوہ کا بچہ پیدا ہو جائے تو بھی عدت ختم اور اس بی بی کو کسی اور سے نکاح کرنا جائز ہے۔

حضرت علی اور ابن عباس رضي اﷲ عنہم سے روایت ہے کہ حاملہ بیوہ دُور والی(طویل) عدت گذارے یعنی وضع حمل (بچے کی پیدائش) اور چار ماہ دس دن بھی گذارے۔

امام سرخسی نے محیط میں حضرت علی کرم اﷲ وجہ کا قول نقل کیا ہے کہ چار ماہ دس دن اور وضع حمل میں سے جو زیادہ ہو وہ عدت گذارے‘‘۔

مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے قوی مؤقف یہی ہے کہ حاملہ بیوہ کی عدت بھی وضع حمل ہی ہے۔ جیسا کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ سے، سبیعہ نامی عورت کو شوہر فوت ہونے کے چند روز بعد ہی وضع حمل ہونے پر نکاح کی اجازت مل گئی تھی۔ جب عورت نکاح کر سکتی ہے تو پھر نئے شوہر کے لئے زیب وزینت بھی کر سکتی ہے۔ چونکہ شرعاً سوگ سے مراد زیب وزینت ترک کرنا ہے۔ لہٰذا حاملہ بیوہ کا سوگ بھی عدت کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گا۔