حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے اخلاق حسنہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری

ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین معاون : محمد شعیب بزمی

انسانی معاشرے ہمیشہ تعلیم و تربیت اور اخلاق حسنہ سے عروج اور استحکام حاصل کرتے ہیں۔ معاشرہ کے امن، خوشحالی اور استحکام کا راز علم، عمل اور اخلاق میں پوشیدہ ہے۔ اسی طرح قیادتیں بھی علم، عمل اور اخلاق حسنہ سے تشکیل پاتیں اور ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ اخلاق حسنہ کی اہمیت کے پیش نظر ہی اللہ رب العزت نے اپنے محبوب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلق عظیم کے اعلیٰ درجہ پر فائز کیا۔ ارشاد فرمایا:

اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ.

(القلم : 4)

’’بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حضرت سعد بن ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ آقا علیہ السلام کے اخلاق حسنہ جن کی تعریف قرآن مجید میں انک لعلی خلق عظیم کہہ کر کی گئی۔ وہ کیا ہیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا :

أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟

’’ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے‘‘۔

انہوں نے عرض کیا کہ پڑھتا ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :

فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ الْقُرْآن.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کا خلق قرآن ہی تو ہے۔‘‘

(صحيح، مسلم، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، 1 / 512، الرقم : 746)

یعنی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اخلاق حسنہ، خصائل حمیدہ، فضائل کریمہ اور انسان کی عادات شریفہ کا جو جو ذکر، جز، گوشہ اور پہلو بیان کیا ہے، ان ساری خوبیوں کے عملی پیکر اتم کا نام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اللہ رب العزت کے بیان کردہ اخلاق کو اگر تعلیمات کی شکل میں دیکھنا ہو تو اس وجود کا نام قرآن ہے اور اللہ رب العزت کے تعلیم کردہ اخلاق اور خصائل حمیدہ کو اگر ایک انسانی پیکر اور شخصی اسوہ و ماڈل کی صورت میں دیکھنا ہو تو ان کا نام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اخلاق کی ترویج و فروغ کو اپنی منصبی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :

إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الأَخَلَاقِ.

’’مجھے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے‘‘۔

(أخرجه البيهقي في السنن الکبري، 10 / 191، الرقم : 20571)

یعنی میری بعثت اس لئے کی گئی ہے کہ میں کائنات انسانی میں اخلاقی فضائل کو کمال اور عروج پر پہنچادوں۔ اخلاق (Morality) انسان کی خوبیوں اور اعلیٰ فضائل و خصائل میں سے ایک ایسا اعلیٰ مرتبہ، اعلیٰ رویہ، اعلیٰ طرز فکر، طرز عمل اور ایک ایسا عظیم خزانہ ہے جو دنیا کے تمام انسانی معاشروں میں بغیر انقطاع قائم و دائم رہا اور اس پر ہمیشہ سب کا عمل رہا۔ ہر دور میں اخلاق کی نہ صرف پذیرائی ہوئی بلکہ ہر دور کا انسان اخلاق کی عظمت سے متاثر ہوتے ہوئے اس کا معترف بھی ہوا۔ جوں جوں انسانی معاشرے، انسانی عقل، ادراک، نظریات اور تصورات ترقی کرتے جارہے ہیں، اسی طرح معاشرے کی ارتقاء پذیری کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار بھی بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی ہیں۔ بلاشک و شبہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت جہاں توحید، رسالت اور آخرت کی بنیادی تعلیمات پر مشتمل تھی وہاں ہر پیغمبر کی دعوت کا مرکزی نقطہ اخلاق حسنہ بھی تھا۔ ہر پیغمبر کی اپنی شخصیت اور اسوہِ مبارکہ کا مرکز و محور اخلاق حسنہ اور اعلیٰ اخلاقی اقدار تھے۔ جن سے انسانیت کو حسن کاملیت اور اپنے مراتب میں بلندی ملی۔

جب ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ چیز واضح نظر آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اخلاق حسنہ کے ہزارہا گوشوں کی تعلیم دی، انہیں اپنی عملی زندگی میں سمویا اور ان کے ذریعے اپنے اسوہِ حسنہ اور شخصیت مقدسہ کو فکری، علمی اور عملی طور پر انسانیت کے سامنے رکھا۔ الغرض اخلاقِ حسنہ کا نمونہ کامل اور پیکر اتم بن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات خلق اور افق انسانیت پر ظہور پذیر ہوئے۔

زیرِ نظر صفحات پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے اُن چند گوشوں کو بیان کرنا مقصود ہے جو آج پاکستان کے لئے بالخصوص اور پورے عالم اسلام و عالم انسانیت کے لئے بالعموم ناگزیر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی انفرادی، اجتماعی، معاشرتی، سماجی، سیاسی، تہذیبی، ثقافتی، روحانی اور قومی زندگی حتی کہ بین الاقوامی تعلقات میں بھی اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا کریں، انہیں مضبوط و مستحکم کریں اور ہمیشہ فروغ دیں۔ اسی میں پاکستان، امت مسلمہ اور تمام انسانی معاشروں کی ترقی کا راز مضمر ہے۔ ذیل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے انہی گوشوں کا تذکرہ کیاجارہا ہے جن کے ذریعے ہم نہ صرف انفرادی سطح پر امن و سکون حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اجتماعی سطح پر بھی تحمل و برداشت اور عفو و درگزر کے رویے تشکیل پاسکتے ہیں۔

تحمل و بردباری اور عفو و درگزر

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حلم، بردباری، تحمل، عفو و درگزر اور صبر و استقلال کی تعلیم دی۔ ان رویوں سے انفرادی و اجتماعی سطح پر سوسائٹی میں تحمل و برداشت جنم لیتا ہے۔ اسی تحمل و برداشت کے ذریعے سوسائٹی کے اندر Moderation اعتدال و توازن آتا ہے۔ یہ رویہ انسانوں اور معاشروں کو پرامن بناتا اور انتہا پسندی سے روکتا ہے۔ ایسا معاشرہ ہی عالم انسانیت کے لئے خیر اور فلاح کا باعث ہوتا ہے۔ وہی معاشرے مستحکم، پرامن، متوازن اور ترقی یافتہ ہوتے ہیں جو اخلاقی اقدار پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ میں سب سے اعلیٰ ترین پہلو ایک طرف حلم، تحمل، عفو و درگزر اختیار کرنا ہے اور دوسری طرف ناپسندیدہ اور شدید مصائب و آلام کے حالات میں صبرو استقامت اختیار کرنا ہے۔

اللہ رب العزت نے آقا علیہ السلام کو آداب و اخلاق خود سکھائے۔ ارشاد فرمایا :

خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ.

(الاعراف : 199)

’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں‘‘۔

یعنی اگر بداعمال، بداخلاق اور ناروا سلوک کرنے والے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادتی کریں تو آپ ان سے اعراض کریں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرائیل امین علیہ السلام سے پوچھا کہ جبرائیل علیہ السلام ! اللہ رب العزت کے اس حکم کی کیا منشاء ہے؟ اس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خود کچھ نہیں کہہ سکتا جب تک میں پیغام بھیجنے والے مولا کے پاس جاکر اس کا معنی دریافت نہ کروں۔ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام واپس گئے۔ اللہ رب العزت سے اس آیت کریمہ کا معنی پوچھ کر واپس آئے اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

يامحمد! ان الله تعالیٰ يامرک ان تعفو عمن ظلمک وتعطی من حرمک وتصل من قطعک.

(قرطبی، تفسير قرطبی،7 : 345)

’’(یارسول اللہ!) اللہ تعالیٰ نے (اس آیت میں) آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اس شخص کوجو آپ پر زیادتی کرے، معاف فرمادیں اور جو شخص آپ کو محروم رکھے، آپ اس کو عطا فرمائیں۔ جو شخص آپ سے رشتہ منقطع کرے آپ اس سے صلہ رحمی فرمائیں‘‘۔

یعنی اگر کوئی خونی رشتہ دار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زیادتی کرے، رشتے کو کاٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کٹے ہوئے خونی رشتے کو حسن اخلاق سے جوڑ دیں، سوسائٹی کا کوئی شخص اگر کسی زیادتی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کے حق سے محروم کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر بھی اپنی سخاوت کے باعث اسے عطا کرنے سے گریز نہ کریں اور اگر کوئی شخص صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے ظلم و زیادتی کا مرتکب ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے درگزر کرتے ہوئے معاف کردیں، انتقام نہ لیں۔

قرآن مجید میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انبیاء کرام کے صبر کی مثال دیتے ہوئے اخلاق حسنہ کے اس پہلو کی طرف متوجہ کیا جارہا ہے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا :

فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ.

’’(اے حبیب!) پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبر کیے جائیں جس طرح (دوسرے) عالی ہمّت پیغمبروں نے صبر کیا تھا‘‘۔

(الاحقاف : 35)

سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عفوو درگزر کے مظاہر

آیئے ان آیات قرآنی کی روشنی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہِ مبارکہ اور اخلاقِ حسنہ کے عملی نمونہ کا مطالعہ کرتے ہیں جس میں پاکستانی قوم اور معاشرے کے لئے ایک واضح پیغام ہے۔

غزوہ احد کے موقع پر آقا علیہ السلام کے دانت مبارک کا ایک کونہ شہید ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اقدس زخمی ہوگیا، خون مبارک بہہ نکلا اور ایک وقت کے لئے بے ہوشی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ صحابہ کرام کے لئے یہ ناقابل برداشت لمحات اور ناقابل تصور کیفیات تھیں۔ ان لمحات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا :

لودعوت عليهم.

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ پر ان لوگوں نے ظلم، مصائب و آلام اور جفاکاری کی انتہاء کردی ہے، اگر آپ چاہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے لئے بددعا کریں۔ اس پر آقا علیہ السلام نے جواب دیا :

انی لم ابعث لعانا ولکنی بعثت داعياً ورحمة.

یعنی میں اپنے اوپر ظلم اور زیادتی کرنے والوں کے لئے بد دعا نہیں کروں گا، اس لئے کہ میں لوگوں کو رحمت سے محروم کرنے والا بن کر مبعوث نہیں ہوا بلکہ میں تو خیر، فلاح اور نیکی و احسان کی طرف ایک ایسا دعوت دینے والا بن کر مبعوث ہوا ہوں کہ جو سر تاپا ہر اپنے پرائے کے لئے رحمت ہی رحمت ہے۔

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دست اقدس اٹھائے اور عرض کیا :

اَللّٰهُمَّ اهْدِ قَوْمِيْ فَاِنَّهُمْ لَايَعْلَمُوْن.

باری تعالیٰ میری قوم کو ہدایت دے یہ مجھے پہنچانتے نہیں ہیں۔

(صحيح مسلم، 4 : 2006، الرقم : 2599)

یعنی یہ لوگ میری حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں۔ میں ان کا کتنا ہمدرد اور خیر خواہ ہوں، اس سے یہ واقف نہیں ہیں۔ میں ان کی خیرو فلاح کا متمنی ہوں لیکن یہ اس حقیقت سے آشنا نہیں، ناسمجھ لوگ ہیں تو انہیں معاف کردے۔

قاضی عیاض نے الشفاء میں ایک روایت کا ذکر کیا ہے کہ اس مقام پر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :

بابی انت وامی یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ آپ کی عظمت، اخلاق، شفقت، رحمت اور اسوہ حسنہ پر قربان ہوجائیں۔۔۔ اپنی بے وفا و جفاکار قوم پر بھی رحمت و شفقت کے اس خوبصورت انداز پر قربان ہوجائیں۔۔۔ لقد دعا نوح علی قومه. ایسی مشکل کی گھڑیاں حضرت نوح علیہ السلام پر بھی آئی تھیں۔ جب وہ کشتی بناکر قوم کو چھوڑ کر روانہ ہوگئے تھے۔ جب قوم نوح کے آلام اور جفاکاری انتہاء پر پہنچے تو انہوں نے بھی اپنی قوم کے لئے بددعا کی، حالانکہ ان پر حملے نہ ہوئے تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اقدس پر حملے ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زخمی بھی ہوئے۔ نوح علیہ السلام نے عرض کیا تھا :

رَّبِّ لَا تََذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰـفِرِيْنَ دَيَّارًا.

’’اے میرے رب! زمین پر کافروں میں سے کوئی بسنے والا باقی نہ چھوڑ‘‘۔

(نوح : 26)

یعنی باری تعالیٰ ان ظالموں، کافروں نے ظلم اور جفاکاری کی حد کردی ہے، اب ان پر وہ عذاب بھیج کہ کافروں میں سے ایک جان بھی زمین پر زندہ نہ بچے۔

حضرت نوح علیہ السلام نے بھی تو بددعا کی تھی لیکن یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کی عظمت اور رحمت و شفقت پر ہم قربان جائیں۔۔۔ آپ کی عظمت، صبر و استقامت، وسعت ظرفی اور وسعت رحمت پر قربان جائیں۔۔۔ ولو دعوت علينا مثلها لهلکنا من عند آخرنا. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حضرت نوح علیہ السلام سے بھی زیادہ کڑا وقت آیا ہے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بددعا کردیتے تو اس دنیا کے آخری زمانے تک بھی ہماری نسلوں میں سے کوئی فرد نہ بچتا، تمام ہلاک اور تباہ و برباد ہوجاتے۔ فابيت ان تقول الاخيرا. مگر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے حق میں خیر، محبت، رحمت اور شفقت کے کلمہ کے سوا کوئی کلمہ زبان پر نہ لائے اور یہی کہتے رہے :

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِيْ فَاِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْن.

مولا! میری اس قوم کو معاف کردے، یہ میری حقیقت، میری رحمت، میری خیر خواہی، میری شفقت اور میری عظمت کو نہیں پہچانتے، انہیں معاف کردے۔

(کتاب الشفاء، قاضی عياض، 1 : 171)

اسوہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام سننے والو! کروڑوں عوامِ پاکستان! نبی آخرالزمان، رحمۃ للعالمین، خاتم النبیین کا کلمہ پڑھتے اور ان کی غلامی کا دم بھرنے والو! ہمیں آج اس امر پر غور کرنا ہوگا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ کیا تھا۔۔۔؟ ان کا اخلاق، سیرت، زندگی، طرز عمل، طرز معاشرت اور رویہ کیا تھا۔۔۔؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور غلامی کا حق ادا کرتے ہوئے ہمیں یہ کوشش کرنا ہوگی کہ آقا علیہ السلام کے طرز عمل اور اسوہِ حسنہ کا یہ عکس ہم اپنی زندگیوں میں پیدا کریں۔ اگر اس کا ہلکا سا عکس بھی ہماری زندگیوں میں آجائے تو اس ملک سے شر کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور خیر کے چشمے پھوٹ سکتے ہیں۔

مذکورہ حدیث مبارکہ میں درج ذیل نکات توجہ طلب ہیں کہ ظلم و ستم کے مقابلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شفقت و محبت کا کتنا وسیع اظہار فرمایا۔

  1. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنے مظالم اور مصائب پر صبر کرتے ہوئے خاموش رہتے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی اختیار نہ فرمائی۔
  2. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے لئے بددعا بھی کرسکتے تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بددعا نہیں کی بلکہ ان کی ہدایت اور مغفرت کی دعا کی۔
  3. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف دعا ہی کردیتے کہ باری تعالیٰ انہیں معاف کردے، انہیں ہدایت دے دے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بھی بڑھ کر ایسا اظہار فرمایا کہ انسانی عقل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقت و رحمت اور محبت کا تصور کرنے سے بھی قاصر ہے۔
  4. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف ہدایت اور مغفرت کی دعا کی بلکہ یہ کہہ کر دعا کی اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِی فَاِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ. وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کے درپے ہیں، ان کو ان سارے مظالم کے باوجود یہ کہہ کر دعا دے رہے ہیں کہ باری تعالیٰ یہ میری قوم ہے، ان کو معاف کردے، ان کو ہدایت دے دے اور پھر کفار کی طرف سے معذرت کے اظہار کے بغیر از خود اللہ کے حضور عرض کرتے ہیں:
اِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْن. باری تعالیٰ انہیں اس لئے معاف کردے کہ یہ مجھے پہچانتے نہیں ہیں۔ یہ مغالطے، بدگمانی اور بدعقیدگی میں ہیں، اس لئے بد زبان و بد عمل اور بدعقیدہ ہیں۔ اگر مجھے پہچانتے تو ایسا نہ کہتے اور نہ ایسا کرتے۔ پس آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی معذرت بھی اپنی طرف سے بیان فرمارہے ہیں۔ ایسا اخلاق انسانی تاریخ میں کسی شخص میں ہوا اور نہ ہوگا۔

٭ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نجد کے غزوہ سے واپس آرہے تھے کہ راستے میں دوپہر کا وقت ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھوڑی دیر آرام کرلیں۔ آقا علیہ السلام خود بھی ایک درخت کے نیچے آرام فرما ہوگئے۔ اتنے میں غورث بن حارث نامی ایک شخص آیا اور اس نے درخت کے ساتھ لٹکتی ہوئی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار اتار لی اور پوچھا کہ

من یمنعک منی۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو اب مجھ سے کون بچا سکتا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی استقامت، جرات اور شجاعت و بہادری کا اس لمحہ بھی یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے تین بار کہا : ’’اللہ‘‘۔ اس پر وہ کانپ اٹھا اور اس کے ہاتھوں سے تلوار گرگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ تلوار اٹھالی۔ وہ کانپنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسکرا کر اس کو معاف کردیا۔

(البخاری ،الصحيح، کتاب الجهاد، باب، من علق سيفه، بالشجر فی السفر عند القائلة 3 : 1065، رقم : 2753)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن کردار، حسن اخلاق اور حسن شفقت دیکھ کر وہ شخص جب اپنے قبیلے میں واپس لوٹا تو اس نے اپنی کافرو مشرک قبیلہ سے کہا :

جئتکم من عند خير الناس.

(المستدرک علی الصحيحين، 3 : 31، الرقم : 1322)

لوگو! سنو آج میں ایک ایسے شخص کو دیکھ کر آرہا ہوں کہ کائنات انسانی میں اس سے بہتر اخلاق و کردار کا کوئی اور شخص نہیں ہے۔ اسے خیر کی طرف، اسلام کی طرف جس چیز نے راغب کیا وہ کوئی دعوت و تبلیغ کا عمل نہ تھا، وہ کوئی توحید ورسالت اور آخرت کی دلیل نہ تھی، فقط آقا علیہ السلام کا معاف کردینا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن اخلاق اس شخص کی قلبی ہیت کے بدلنے کا باعث بن جاتا ہے۔

٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ زینب نامی ایک یہودیہ خاتون نے خیبر کے دن زہر آلود گوشت بھون کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ آقا علیہ السلام نے تناول فرمالیا۔ یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ آقا علیہ السلام کی خدمت میں یہودیہ خاتون نے گوشت بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تو انکار کردیتے کہ جس عورت نے بھیجا ہے وہ یہودیہ ہے، میں نہیں کھاتا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا نہ فرمایا۔ آج ہماری تنگ نظری اور تنگ فکری بھی ہر ایک کے سامنے ہے کہ غیر مسلم تو بڑی دور کی بات ہم دوسرے مسلک اور کسی نچلے درجے کے پیشے سے وابستہ لوگوں سے بھی تعلقات رکھنا گوارا نہیں کرتے۔ ہم نے اپنی سوچ اور اسلام کو تنگ نظر بنادیا ہے۔ اپنی طبیعت، فکر، نظریے اور اپنے مزاج کی تنگی کو ہم نے اسلام پر مسلط کردیا ہے۔ اسلام تو اتنا وسیع ہے جتنی رب العالمین کی ربوبیت وسیع ہے۔ اسلام میں تو اتنی وسعت ہے، جتنی رحمۃ للعالمین کی رحمت میں وسعت ہے۔ جس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہم کلمہ پڑھتے اور غلامی کا دم بھرتے ہیں، ان کی وسعت نظری اور وسعت فکری سے اسلام کے تشخص کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اندازہ کریں کہ خیبر میں محاذ آرائی یہودیوں سے ہے اور یہ لوگ مخالف اور محارب ہیں۔ جنگ ختم ہوجانے کے بعد ان مخالف و محارب یہودیوں میں سے ایک گھر سے زینب یہودیہ وہ گوشت بھون کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بطور دعوت بھیجتی ہے۔ عام انسانی عقل یہ کہتی ہے کہ آقا علیہ السلام رد فرمادیتے کہ یہ ہمارے دشمن ہیں اور یہودی ہیں، نہ کھاتے، فرمادیتے کہ یہ ہرگز جائز نہیں ہے۔

مگر آقا علیہ السلام کے عظیم حسن کردار، حسن اخلاق اور وسعت قلب و نظر کا عالم دیکھئے کہ یہ جانتے ہوئے کہ یہ کھانا یہودیوں کے گھر سے آیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر بھی تناول فرمایا۔ وہ زہر آلود تھا، چند لقمے کھائے تھے کہ گوشت کی بوٹیاں بول پڑیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے نہ کھایئے، میرے اندر زہر ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اس خاتون کو پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا کیونکہ اب نہ صرف ارادہِ قتل تھا بلکہ فعلِ قتل تھا، جو معجزانہ طور پر ناکام ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت بشیر بن برائ رضی اللہ عنہ نے بھی وہ گوشت کھایا لیکن موقع پر شہید ہوگئے۔ آقا علیہ السلام شہید نہ ہوئے کیونکہ فرمان باری تعالیٰ والله يعصمک من الناس کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے لے رکھی تھی۔اس عورت کو پکڑ کر لایا گیا کہ سزا دیں لیکن آقا علیہ السلام نے اس کو معاف کر دیا۔

(اخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب المغازی، باب الشاة التی سمت النبی بخيبر، 4 : 1551، رقم : 4003)

٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں آقا علیہ السلام ایک مقام پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے گلے میں ایک کھردری سی سخت قسم کی چادر لپیٹی ہوئی تھی۔ ایک اعرابی آیا، اسے کچھ طلب تھی۔ اس نے اپنی نادانی و جہالت کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادرکو پکڑ کر اس شدت سے کھینچا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک پر اس کا زخم آگیا، چادر کھینچ کر کہنے لگا! یامحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں محتاج ہوں۔ میرے گھر والے بھی بھوکے ہیں، پریشان ہیں، میں دو اونٹ لایا ہوں، میرے دونوں اونٹوں کو غلے اور اناج سے بھرکر مجھے واپس بھیجئے۔ اُس کے اس اندازِ طلب کے باوجود آقا علیہ السلام کے چہرہ انور پر ملال اور رنجیدگی کے اثرات نہیں آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے بندے سب مال اللہ کا ہے اور میں اس کا بندہ ہوں۔

فَضَحِکَ ثُمَّ اَمَرَ لَهُ بِعَطَاءٍ.

’’اور مسکرا پڑے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے مال عطا کرنے کا حکم فرمایا‘‘۔

(البخاری، الصحيح، کتاب الوضوء، باب صب الماء علی البول فی المسجد، 1 / 89، رقم : 219)

اس کی حاجت پوری کرنے کے بعد اس سے سوال کیا کہ یہ بتا:

ويقاد منک يااعرابی مافعلت بی.

جو کچھ تم نے میرے ساتھ کیا ہے؟ کیا خیال ہے اس کا بدلہ لیا جانا چاہئے یا نہیں؟ اس نے کہا : نہیں ہونا چاہئے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا : کیوں نہیں ہونا چاہئے؟ اس نے کہا :

لانک لا تکافی بالسيئة السيئة .(کتاب الشفاء، 1 : 86)

بدلہ نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور اخلاق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برے کاموں کا بدلہ برے کاموں سے نہیں دیتے، برائی کو برائی سے رد نہیں کرتے بلکہ برائی کو اچھائی کے ساتھ رد فرمانے والے ہیں۔ یہ آقا علیہ السلام کی وسعتِ اخلاق، وسعتِ ظرف، عظمتِ شفقت اور عظمت رحمت کا ایک اظہار ہے جس سے روشنی لینے کی ضرورت ہے۔

٭ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حالات جتنے بھی غصہ دلانے والی ہی کیوں نہ ہوں مگر میں نے پوری عمر یہ ہی دیکھا کہ ہر کیفیت میں آقا علیہ السلام نے عفو و درگزر اور بردباری کا اظہار فرمایا حتی کہ

ماضرب بيده شيئا قط الا ان يحاهد فی سبيل الله وما ضرب خادما قط ولا امراة.

(صحيح مسلم، 4 : 1814، الرقم : 2328)

کبھی بھی کسی کو ہاتھ سے نہیں مارا، سوائے جہاد کی صورت میں اپنے دفاع پر اور نہ عمر بھر کسی خادم اور نہ ہی کسی زوجہ کو مارا۔

لوگ عورتوں کو زمانہ جاہلیت میں بھی مارتے تھے اور آج بھی مارتے ہیں۔Domestic violence عورتوں پر تشدد ہماری سوسائٹی پر بہت بڑا داغ ہے۔ یہ بہت بڑی بدخلقی ہے۔ ہمارے ہاں بسبب جہالت لوگ عورتوں کو مارتے ہیں۔ یاد رکھیں عورتوں کی تذلیل وہی شخص کرتا ہے جو خود ذلیل اور کمینہ ہے اور اپنی بیوی اور عورتوں کو عزت وہی شخص دیتا ہے جو خود باعزت اور کریم ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اُن کا حیا کریں جن کے ساتھ پہلو بہ پہلو رہتے اور زندگی گزارتے ہیں۔ ہم بسا اوقات یہ قربتیں بھول کر ان کو ہاتھوں سے مارتے ہیں۔ یہ باعثِ شرم ہے۔ آقا علیہ السلام نےDomestic Violence کو کلیتاً رد کردیا۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پندرہ صدیاں قبل جب سارا معاشرہ ہر طرح کے استحصال سے لبریز تھا، جب غلاموں پر ظلم ہوتے تھے، زنجیروں میں باندھ کر کوڑے مارے جاتے تھے ا س وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غلاموں اور عورتوں پر تشدد سے منع فرمایا جبکہ مغربی دنیا انسانی حقوق کے تحت خواتین پر عدم تشدد کی باتیں آج کررہی ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے دس سال حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کی، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کبھی اف تک نہیں کہا۔ کسی کام کرنے میں یہ نہیں فرمایا کہ کیوں کیا اور نہ کرنے پر یہ نہیں فرمایا کہ کیوں نہیں کیا۔

(صحيح بخاری، کتاب الادب، باب حسن الخلق، 5 : 2245، الرقم : 5691)

٭ فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاتح کی شان کے ساتھ مکہ شہر میں داخل ہوئے تو وہ کفار مکہ جنہوں نے تلواروں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرکے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہجرت پر مجبور کیا، مدینہ کے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعاقب کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مدینہ میں جنگیں مسلط کی تھیں اور لمحہ بہ لمحہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پریشان اور دکھی کیا تھا، سکون اور راحت کی زندگی بسر کرنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ ان کفار و مشرکین کے شہر میں جب فاتح بن کر پہنچے تو وہ لوگ کانپ رہے تھے، انہیں ڈر تھا کہ انتقام لیا جائے گا، ہماری گردنیں کاٹ دی جائیں گی، سزا دی جائے گی، ہمارے مظالم کا بدلہ لیا جائے گا۔ لیکن صورت حال اُن کی سوچوں کے برعکس ہوئی۔ آقا علیہ السلام فتح مکہ کا خطبہ دے رہے ہیں اور اجتماع سے پوچھتے ہیں:

ماتقولون انی فاعل بکم.

اے اہل مکہ! مجھ پر اکیس سال تک ظلم اور جفا کرنے والو! مصائب و آلام کے پہاڑ گرانے والو! آج تم کیا سوچ رہے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟ اس پر وہ جواب دیتے ہیں:

خيراً اخ کريم ابن اخ کريم.

(البيهقی، السنن الکبریٰ، 9،118، رقم : 18055)

ہم خیر کی توقع کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیک اعلیٰ اخلاق والے، شفقت و محبت والے بھائی ہیں اور شفقت و محبت اور بزرگی والے باپ کے بیٹے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا جاؤ میں تمہیں وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا :

لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْکُمُ الْيَوْمَط يَغْفِرُ اﷲُ لَکُمْ.

’’جاؤ آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہوگی اللہ تمہیں معاف کردے گا‘‘ ۔

(يوسف : 92)

اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اِذْهَبُوْا فَاَنْتُمُ الطَّلَقَاء

اپنے گھروں کو چلے جاؤ آج میں نے تم سب کو معاف کردیا۔

اکیس سال دشمنی مسلط کرنے والی قوم پر جب فتح یاب ہوئے تو آقا علیہ السلام نے ایک کلمہ بھی سخت اور ایک عمل بھی شدت کا اختیار نہیں کیا اور انہیں معاف کردیا۔

٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ آقا علیہ السلام ایک مقام پر فجر کی نماز کے بعد بیٹھے تھے کہ کفارو مشرکین کے 80 افراد کا مسلح گروپ آقا علیہ السلام اور صحابہ پر حملہ آور ہوگیا۔ صحابہ کرام نے دفاع کیا، ان سب کو پکڑ لیا اور گرفتار کرکے آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں لے آئے۔ فاعتقہم رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں معاف فرماتے ہوئے رہا کردیا۔

(مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب قول الله تعالیٰ وهوالذی کف ايدی، 3 : 1442، رقم : 1808)

توریت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عفو و درگزر کا بیان

زید بن سعنہ نامی یہودی آقا علیہ السلام کو دیئے گئے قرض کی قبل از وقت واپسی کا مطالبہ لے کر حاضر ہوا۔ اس وقت قرض کی ادائیگی کا اہتمام آقا علیہ السلام کے پاس نہ تھا لیکن وہ یہودی مزید مہلت دینے کے لئے تیار نہ ہوا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ تم بیٹھ جاؤ میں تمہارے پاس ہی بیٹھا رہوں گا جب تک اللہ تعالیٰ تمہارے قرض کی واپسی کا سامان پیدا نہ فرمادے۔ نماز ظہر کا وقت تھا، اس دن کی ظہر سے لے کر اگلے دن کی فجر تک پانچ نمازوں کا وقت آقا علیہ السلام صرف اس کی تالیف قلب اور اطمینان کے لئے گھر نہ گئے، نہ آرام فرمایا، اس کے پاس بیٹھے رہے تاکہ اس کو یہ وہم نہ ہوکہ مجھے چھوڑ کر جارہے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کو طعن و تشنیع کرنے لگے اور برا بھلا کہنے لگے کہ اس نے کل سے آقا علیہ السلام کو روک رکھا ہے اور انہیں تکلیف میں مبتلا کیا ہے۔ اس پر آقا علیہ السلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا خبردار میرے رب نے مجھے کسی غیر مسلم پر ظلم کرنے اور زیادتی کرنے سے منع کررکھا ہے۔ اس نے زیادتی کی ہے تو کوئی بات نہیں، میرا اخلاق اور میرا منصب اجازت نہیں دیتا کہ میں اس سے بداخلاقی کروں۔

اس نے آقا علیہ السلام کے جب یہ کلمات سنے اور آپ کا حسن اخلاق اور طرزِ عمل دیکھا تو اسی وقت کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگیا اور کہا باخدا میں نے جو آپ کے ساتھ سلوک کیا اس کا ایک سبب تھا۔ میں یہودی ہوں، میں نے تورات میں پڑھ رکھا تھا کہ نبی آخرالزماں تشریف لائیں گے۔ ان کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا۔ ان کا مولد شہر مکہ ہوگا، ان کی ہجرت گاہ شہر مدینہ ہوگی۔ ان کی حکومت ملک شام کی حدوں تک پھیل جائے گی۔ ان کا کردار یہ ہوگا کہ نہ تو ان کی زبان میں ترشی ہوگی، نہ ان کے دل میں سختی ہوگی، نہ ان کی گفتگو میں کوئی سختی ہوگی، نہ فحش گو ہوں گے، نہ بے ہودہ بات کریں گے، نہ کسی کی زیادتی کا جواب زیادتی سے دیں گے۔ میں نے چونکہ تورات میں یہ اوصاف پڑھے تھے لہذا اس پڑھی ہوئی روایت کا امتحان لینے آیا تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہی محمد بن عبداللہ اور وہی رسول آخرالزماں ہیں تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتحان لوں۔ میں نے آپ کو سچا پایا۔

(تبريزی، مشکوٰة المصابيح، 3 : 268، 5832)

اسوہِ حسنہ کی اتباع کا عہد

یہ آقا علیہ السلام کے عفو و درگزر، صبر و استقامت، حلم اور تحمل برداشت اور بردباری کا اظہار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی اپنے آپ کو ان اخلاق حسنہ سے مزین کریں۔ اس موقع پر میں اُن تمام لوگوں کو معاف کرنے کا اعلان کرتا ہوں جنہوں نے میری ذاتیات پر حملے کرتے ہوئے میری کردار کشی کی، تہمتیں لگائیں اور مجھے برا بھلا کہا اور اُن تمام لوگوں سے معذرت خواہ ہوں جن کی میری کسی بھی بات سے دل آزاری ہوئی ہو۔ میری گفتگو، خطابات اور تحریروں کا مقصد قطعاً کسی کی ذاتیات پر حملے کرنا، تہمتیں لگانا ہرگز ہرگز نہ تھا، نہ ہے اور نہ کبھی ان شاء اللہ ہوگا۔ میں اسلام کے احیاء اور عوام پاکستان کی سربلندی و حقوق کی بحالی کا مقصد اور مشن لے کر آگے بڑھ رہا ہوں۔ اس راستے میں اسلام اور آئین و قوانین کی روشنی میں ہر استحصالی طاقت سے لڑتا رہوں گا مگر کبھی اخلاقی اقدار کو فراموش نہ کروں گا۔

اس مشن کو آگے لے کر بڑھنے والے میرے بیٹے، بیٹیاں سن لیں! جس مشن پر آپ کاربند ہیں یہ خارزار وادی ہے۔ ممکن ہے لوگ آپ کی ذاتیات پر حملے کرتے رہیں، جھوٹی تہمتیں لگاتے رہیں، گالی گلوچ کرتے رہیں، کردار کشی کرتے رہیں مگر آپ تمام کو میری تربیت، تعلیم اور حکم یہ ہے کہ آقا علیہ السلام کے اخلاق حسنہ سے عمر بھر نہ ہٹنا۔ کوئی جتنی بھی آپ کو گالی دے، برا بھلا کہے مگر آپ گالی کا جواب کبھی گالی سے نہ دیں۔ آپ کو اپنے اخلاق سے کبھی نیچے نہیں اترنا۔ یہ رفقاء و کارکنان کو میرا حکم ہے کہ کردار کشی کے جواب میں کسی کی ذاتی کردار کشی نہ کریں۔ بلکہ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا. کے تحت درگزر کریں۔۔۔ دلیل کی بات کو دلیل سے رد کریں مگر ذاتیات پر نہ جائیں۔۔۔ اخلاق سے نیچے نہ اتریں۔۔۔ لغو بات کا جواب نہ دیں۔۔۔ ہر شخص اسی کردار، اخلاق اور دین اسلام کے تقاضوں کا خیال رکھے۔ اگر ان امور کا خیال نہیں رکھے گا تو اس کا میرے ساتھ اور میرے مشن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہماری زندگی کبھی بھی اسوہِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ سے ہٹ کر نہیں ہونی چاہئے۔ مشن مصطفوی کے حصول کے لئے پرخار راستے آئیں گے، بڑے بڑے مشکلات کے مرحلے آئیں گے، آپ کے صبر کے امتحان ہوں گے، حملے ہوں گے، تہمتیں ہوں گی، کردار کشی ہوگی، ہر روز جھوٹی خبریں چلیں گی۔ ان حالات میں آپ کو صبر، استقامت، تحمل، حلم اور بردباری کا اظہار اسوہ ِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نگاہ کے سامنے رکھ کر کرنا ہوگا۔

آقا علیہ السلام نے جس صبرو تحمل کی تعلیم دی اور جس عظیم صبرو تحمل کا اپنے عمل مبارک سے اظہار کیا اگر ہماری قوم اور معاشرہ اس راہ پر چلے اور ہر شخص اخلاق کا پیکر بننے کی کوشش کرے، عفوو درگزر اپنائے اور تحمل اور بردباری کا راستہ اختیار کرے تو پورے معاشرے میں خیر پیدا ہوسکتی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ گالی کی قوت کے بجائے دلیل کی قوت کو رواج دیں۔۔۔ ہمیں چاہئے کہ تہمت کے طریق بجائے شرافت اور عظمت کی قوت کو رواج دیں۔۔۔ چاہئے کہ بداخلاقی کے بجائے اخلاق کی قوت کو رواج دیں۔۔۔ اسی صورت ہماری قوم اور امت مسلمہ عظمتوں سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔