افسوسناک مذہبی و دعوتی رویے

ڈاکٹرنعیم مشتاق

اسلام کو دوسروں کے سامنے کس طرح پیش کریں؟ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر بدقسمتی سے زندگی کے عملی تجربات کو سامنے رکھ کر ہمارے ہاں کوئی واضح اور حقیقی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا۔ موجودہ تبلیغی تنظیموں کا طریقہ کار ثوابی ہے، انقلابی نہیں۔ ان طریقوں سے مبلّغ کو اس کی کوششوں پر ثواب ضرور ملتا ہے مگر وہ معاشرے میں کوئی قابل ذکر تبدیلی پیدا نہیں کر سکتا۔ انقلابی اور مؤثر طریقہ تبلیغ کی بنیاد حقیقت پر مبنی ہوتی ہے۔ حقیقی طریقہ تبلیغ میں قربانی زیادہ ہوتی ہے اور یہ قربانی ثواب کی ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنے حصے میں ملنے والا ثواب قربان کر کے اسلام کی سربلندی کے لیے کام کریں تو آج اسلام کے عروج کا نظارہ ایک مرتبہ پھر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ اگر محض ثواب کی نیت رکھ کر جنت میں گھر بنانے میں مشغول ہو جائیں تو پھر معاشرے میں ایسی تبدیلی ہرگز پیدا نہیں ہوتی جو اسلام کا منشاء و مقصود ہے۔

آج ہم صرف ثواب کے حصول کے لیے کام کرتے ہیں تاکہ اللہ اور اس کا رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  خوش ہو جائیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے حصول کا طریقہ صرف ثوابی کام کرنا نہیں بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اسلام کی سربلندی کی نیت رکھ کر دین کی خدمت کی جائے۔ ثواب کو ثانوی حیثیت دیتے ہوئے صرف نتائج کے حصول کے لیے کام کیا جائے تاکہ اسلام کے احیاء اور تجدید دین کے ثمرات انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنے اور پرائے سب اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ افسوس! آج ہر مبلّغ کو جنت میں گھر بنانے کی فکر تو ہے مگر اس دنیا میں اسلام کے گھر کی حالت کی کسی کو فکر نہیں۔

معاشرے میں تبلیغی و مذہبی موثریت کا نہ پایا جانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارے موجودہ مذہبی و تبلیغی نظام میں کچھ کمزوریاں اور نقائص ایسے ہیں جن کی وجہ سے ہمیں اس محاذ پر کماحقہ کامیابی نصیب نہیں ہورہی۔ زیر نظر تحریر میں موجودہ مذہبی و تبلیغی نظام میں موجود کمزوریوں اور سقم کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ ان کا سدِّباب ہوسکے اور اسلام کی حقیقی فروغ و اشاعت ممکن ہوسکے۔

موجودہ مذہبی صورتِ حال

جب ہمارے مبلغین اور داعیین اسلام کی دعوت کا علم لے کر نکلتے ہیں تو ان میں سے اکثریت اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃ کے الوہی پیغام کو شعوری یا لاشعوری طور پر نظر انداز کردیتی ہے۔ جس بناء پر اُن کی دعوت میں موثریت پیدا نہیں ہوتی۔ ذیل میں اُن چند مذہبی و رویوں اور تبلیغی کمزوریوں کا ذکر کیا جارہا ہے جو بدقسمتی سے ہمارے نظامِ دعوت میں موجود ہیں:

1۔ حلیہ پرستی ہے، کردار پرستی نہیں

دعوتِ دین کا ذمہ اٹھانے والی جماعتوں کا ایک قابلِ ذکر ’’کارنامہ‘‘ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے ’’فکری و نظریاتی تشخص‘‘ کے نام پر مخصوص حلیوں کو فروغ دے کر یہ بات معاشرے کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ صرف مخصوص حلیے کے لوگ ہی اسلام سے محبت کرنے والے ہیں اور اس حلیے کو نہ اپنانے والے دنیا پرست۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کردار کا اندازہ حلیوں سے لگایا جاتا ہے۔ داڑھی رکھ کر مخصوص حلیہ اپنانے والے کو مذہبی طبقہ جس عزت سے نوازتا ہے وہ کوٹ اور ٹائی والے کلین شیو کو اتنا ہی عزت کا حقدار نہیں سمجھتا، خواہ وہ داڑھی والے سے علم اور عمل میں کئی گنا بہتر ہی کیوں نہ ہو۔

کلین شیو اگر زیارت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا دعویٰ کرے تو مشکوک اور اگر داڑھی والا یہ کہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے کرم فرمایا اور میری بیماری کے ایام میں خواب میں میرے پاس تشریف لائے اور اپنی زیارت سے نوازا تو یہ بیان قومی اخبارات میں نمایاں سرخی کے طور پر چھپے، عقیدت مند اس پر کتابیں لکھیں۔ ان مذہبی جماعتوں کے قائدین نے اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے فضل کو حلیوں کے تابع کر دیا ہے۔ اب تو قلب و باطن کی پاکیزگی و طہارت کا اندازہ بھی داڑھی کی لمبائی سے لگایا جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’خدائے زندہ کی قسم، ایسے لوگ بھی ہیں جن کی آنکھوں سے ایک آنسو بھی نہ ٹپکا اور وہ ان ہزاروں سے زیادہ روتے ہیں جو آنسو بہاتے ہیں‘‘ مگر ہمارے ہاں تو جو کوئی صرف لفظ ’’اللہ‘‘ کی آخری ’’ہ‘‘ کو جس قدر درد انگیز آواز میں نکالتا ہے وہ اسی قدر قربتِ الٰہی سے فیض یاب سمجھا جاتا ہے۔

اس حلیہ پرستی سے سب سے بڑا نقصان یہ پہنچا کہ اب دعوت ِ اسلام کی ذمہ داری مخصوص طبقات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ پہلے ہر مسلمان اپنا ذاتی فرض سمجھتا تھا کہ اپنے ذاتی عمل سے اسلام کی سربلندی کے لیے کام کرے مگر اب یہ صرف مذہبی طبقوں کی ذمہ داری رہ گئی ہے۔ پہلے پورا معاشرہ دعوتِ اسلام کے لیے مل جل کر کام کرتا تھا، اب اس کام کے لیے تنخواہ دار مبلّغ رکھے جاتے ہیں۔ پہلے دعوت ِ اسلام ہر مسلمان کی زندگی کاحصہ تھی مگر اب یہ معاشرے کے ایک خاص طبقے کی ذمہ داریوں کا حصہ رہ گئی ہے۔

2۔ جماعت پرستی ہے، اسلام پرستی نہیں

حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ہمارے لیے دین کا تصور لے کر مبعوث ہوئے مگر ہم نے آج اپنے طرز ِ تبلیغ میں دین کے تصور پر مسلک کو زیادہ اہمیت دے رکھی ہے، بلکہ صورتِ حال مزید خراب ہوتے ہوئے یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب مسلک کی جگہ مذہبی سیاسی جماعتوں نے لے لی ہے۔ (جو شخصیت پرستی کے رجحان کی جدید شکل ہے)۔

آج قرآن مجید کو پڑھنے کے بجائے ان جماعتوں کے ترتیب کردہ نصاب زیادہ پڑھائے جاتے ہیں۔ رجوع الی القرآن کی بات صرف تقریر کو سجانے کی غرض سے کی جاتی ہے۔ اگر یہ صرف اسلام کی دعوت کا کام ہے، جماعت پرستی نہیں تو یہ کیسا اسلام ہے جس کے فروغ کے لیے مختلف جماعتیں آپس کے فروعی اختلافات کو بھی براشت نہیں کرتیں اور ایک دوسرے پر کفرو شرک کے فتوے لگائے جاتے ہیں۔

اسلام پرستی تو یہ کہتی ہے کہ وتعاونوا علی البر والتقویٰ یعنی نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو مگر ہماری دینی جماعتوں کے قائدین کو نیکی اور تقویٰ صرف حصولِ اقتدار میں نظر آتا ہے، تبلیغِ اسلام میں نہیں۔ یہاں اقتدار کی ہوس میں بڑے بڑے سیاسی اتحاد تو ہو سکتے ہیں مگر اسلام کی مؤثر اور جدید طرز تبلیغ کے لیے فروعی اختلافات کو نظر انداز کرنا جماعتوں کی بقا اور نیک نامی کے لیے خطرناک سمجھے جاتے ہیں۔

اکثر و بیشتر مذہبی لیڈروں نے یہ وطیرہ بنا رکھا ہے کہ وہ دوسروں سے تعاون تو مانگتے ہیں مگر خود کسی کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ لہٰذا جواباً دوسرے بھی عدم تعاون کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مظلوموں کی مدد کے لیے رسولِ اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے جوانی میں معاہدہ ’’حلف الفضول‘‘ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ہجرت مدینہ کے بعد زمانہ عروج میں بھی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  فرمایا کرتے تھے کہ آج بھی مجھے کوئی اس طرح کے معاہدہ کی طرف بلائے تو میں تیار ہوں۔ اسوہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی روشنی میں تعاون کرنا تو درکنار آج ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ایک دوسرے کو حریف سمجھنے لگ جاتے ہیں۔

اپنے معمولی کام پر بھی مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے جبکہ دوسرے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیں تو تعریف کا ایک لفظ ادا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اتحاد و اتفاق کی باتیں محض دکھاوا ہوتی ہیں جبکہ اندر سے ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ قول و فعل کے تضاد، منافقت اور اس شانِ افتراق کے ساتھ اسلام کے نعرے بھی جاری رہتے ہیں۔ اس ساری منافقت اور تضاد کا باعث یہ ہے کہ جماعت کے نظم و ضبط کی پابندی کو تو ضروری خیال کیا جاتا ہے مگر اسلام کے اصول و قوانین اور تعلیمات کو یکسر نظر انداز کیا جارہا ہے۔

3۔ شخصیت پرستی ہے، فکر پرستی نہیں

’’تم نے کل جلسہ میں ہم سب کے ساتھ مل کر ’’زندہ باد‘‘ کے نعرے کیوں نہیں لگائے؟‘‘

’’میں طبعاً خاموش رہتا ہوں۔ مجھے اچھا نہیں لگتا اور یہ میری عادت ہے، نفرت نہیں‘‘۔

’’یہ کیسی عادت ہے؟ سیدھی طرح کیوں نہیں کہتے کہ اب تم ہماری فکر اور نظریے سے متفق نہیں۔ اللہ نے کتنی مدت کے بعد امت مسلمہ کی فلاح و بہبود کے لیے ’’قائد‘‘ کو پیدا کیا اور تمہیں اس انعام الٰہی کا شکر ادا کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوتی۔ آئندہ ہمارے ساتھ مت بیٹھا کرو‘‘۔

یہ گفتگو مجھے ایک مذہبی یونیورسٹی کے طالب علم نے سنائی جو مجھ سے یہ مشورہ لینے آیا تھا کہ ’’سر! اب میرے تمام یونیورسٹی کے ساتھی طالب علم محض اس لیے مجھ سے کتراتے ہیں کہ میں جلسے جلوسوں میں اپنی مذہبی جماعت کے بانی کے جوشیلے نعرے نہیں لگاتا۔ میں تو اس مذہبی یونیورسٹی میں اس لیے اسلام پڑھنے آیا تھا تاکہ اپنے علاقے میں جا کر مؤثر طریقے سے اسلام کی دعوت کا کام سرانجام دے سکوں مگر یہاں صورت ِ حال یہ ہے کہ اگر میں طبعاً اور اپنے ذوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان نعرہ بازیوں میں شامل نہیں ہوتا تو میرے دوست احباب کو میری ایمان اور اسلام سے محبت تک مشکوک نظر آنا شروع ہو جاتی ہے‘‘۔

مذہبی جماعتوں نے شخصیت پرستی کو اس طرح فروغ دیا ہے کہ انہوں نے معاشرے کو متحدہ کرنے کی بجائے مزید ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ فکری و نظریاتی تشخص کے نام پر گزشتہ 67 سالوں میں مختلف طبقات پیدا کر کے ہم اسلام اور پاکستان کی کیا خدمت کر رہے ہیں۔ اس بات کی سمجھ نہیں آتی۔

اقتدار کی ہوس میں ان جماعتوں نے ایک اور قابلِ ذکر کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ انہوں نے فکرپرستی کو نایاب شئے بنا دیا ہے۔ فکر پرستی کی طرف کوئی اس لیے راغب نہیں ہوتا کیونکہ یہ اب آسانی سے دستیاب نہیں۔ ان مذہبی جماعتوں کے بانیوں نے اپنی ساکھ بہتر بنانے کی خاطر فکری دائروں میں اتنی لکیریں کھینچ دی ہیں کہ عام آدمی کے لیے حق پہچاننا مشکل ہو گیا ہے۔ طبیعت فطرتاً آسانی کی طرف لپکتی ہے اور شخصیت پرستی، فکر پرستی کی نسبت بہت آسان کام ہے۔ ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ اسلام شخصیت پرستی سے نہیں بلکہ فکر پرستی سے پھیلا ہے مگر ہمارے معاشرے میں قیادت کا سکہ جمائے رکھنے کے لیے فکرو نظریہ سے محبت ممنوع بلکہ مضر صحت ہے۔

اسلام میں شخصیات سے محبت کا مدار اصل میں وہ فکر، فلسفہ، تعلیم اور تربیت ہی ہے جو یہ شخصیات اپنے پیروکاروں کو نصیحت کرتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلام میں شخصیت پرستی کا مطلب اصل میں اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے محبت ہی کا نام ہے اس لئے کہ جب ان شخصیات سے تعلیماتِ اسلام سن کر ذوق و شوق پیدا ہو تو یہ ذوق و شوق انہی شخصیات ہی کے مرہون منت ہے۔ لہذا ان شخصیات سے محبت کو اس معنی میں شخصیت پرستی نہیں کہا جاسکتا جس معنی میں آج کے دور میں فکر ، وعظ و نصیحت کے بغیر ہی اندھا دھند تقلید کرتے ہوئے بغیر کسی قابلیت و اہلیت کے نام نہاد مذہبی و سیاسی شخصیات سے محبت کے نعرے لگائے اور اُن کی تقلید کی جاتی ہے۔

4۔ القاب پرستی ہے، قابلیت پرستی نہیں

آج جب تک نام کے ساتھ حضرت، علامہ، مفکر اسلام، غزالی دوراں وغیرہ کے عنوانات نہ لکھے ہوئے ہوں تو کوئی غور سے بات سننے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ ہماری مذہبی جماعتوں کے قائدین نے القاب پرستی کو پھیلا کر یہ بات معاشرے کو باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ کسی کی قابلیت کو پرکھنے کا معیار اس کے نام کے ساتھ لگے ہوئے القابات اور سابقے و لاحقے اہمیت رکھتے ہیں۔ اس القاب پرستی نے عام آدمی سے یہ حق چھین لیا ہے کہ وہ بھی اپنے سینے میں چھپی ہوئی محبتِ اسلام کو اپنے سادہ لفظوں میں بیان کر سکے۔ اس لئے کہ اسلام و ایمان کی بات کہنے کا حق ہمارے معاشرے میں صرف انہی لوگوں کو ’’ودیعت‘‘ کردیا گیا ہے اور عوام الناس بھی صرف انہی کی زبان سے سنی ہوئی باتوں کو حرفِ آخر قرار دیتی ہے اگرچہ اُن باتوں کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ’’المنقذ من الضلال‘‘ میں فرماتے ہیں کہ

’’یہ ضعیف العقل لوگوں کی عادت ہے کہ حق کو لوگوں کی نسبت سے پہچانتے ہیں، لوگوں کو حق کی وجہ سے نہیں۔ عقلمند آدمی حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی پیروی کرتا ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حق وراستی آدمیوں سے نہیں پہچانی جاتی۔ تم پہلے حق کو پہچانو! پھر اہل حق کو بھی پہچان لو گے‘‘۔

آج اس کے برعکس طرزِ عمل ہے کہ خیالات کے معیار کو ان کے مفاہیم سے نہیں پرکھا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون کہہ رہا ہے؟ اگر کہنے والا ’’مفکر اسلام‘‘، ’’حضرت‘‘ اور ’’علامہ‘‘ ہے تو واہ واہ کے نعرے بلند ہوتے ہیں اور اگر کہنے والا ایک سادہ دل مسلمان ہے تو تنقید کے سارے تیروں کا رخ اس کی طرف کر دیا جاتا ہے۔ محض اس لیے کہ اس کی پہچان معاشرے میں ایک عام انسان/ مسلمان کے حوالے سے ہے ’’علامہ‘‘ اور ’’حضرت‘‘ کے لقب سے نہیں۔ خواہ اس کی سوچ کا معیار ’’علامہ‘‘ اور ’’حضرت‘‘ کے القابات اختیار کرنے والوں سے بلند ہو۔ اس القاب پرستی نے ہر مسلمان سے تبلیغ اسلام کا حق چھین لیا ہے۔ چونکہ اب ہم نے قابلیت کو القابات کا محتاج کر دیا ہے لہٰذا مسلمانوں کی اکثریت اپنی قابلیت کو اسلام کے فروغ کے لیے استعمال نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے اب ’’علامہ‘‘ اور ’’حضرت‘‘ ہونا ضروری ہے۔ محض ’’مسلمان‘‘ کا عنوان قابل اعتبار نہیں رہا۔

5۔ تقلید پرستی ہے، اجتہاد پرستی نہیں

کیا ماضی کے بزرگوں کے علم و فکر اور عملی تجربات سے فائدہ اٹھانا کوئی بری بات ہے؟ ہرگز نہیں۔ تو پھر تقلید بری کب سے ہو گئی؟ یہ تریاق سے زہر تب بنی جب ہم نے تقلید چھوڑ کر ’’تقلید پرستی‘‘ اپنا لی، جب سے ہم نے یہ سمجھ لیا کہ اب ہمارے مخصوص مسلکی بزرگوں یا ہمارے پیرو مرشد سے زیادہ علم کسی اور کے پاس نہیں آسکتا۔۔۔ ان سے زیادہ عقل منداب قیامت تک کوئی نہیں آئے گا۔۔۔ اللہ کا فضل صرف ’’انہی‘‘ پر ہوا ہے اور اب یہ دروازے دوسروں کے لیے بند ہو چکے ہیں۔۔۔ اب کوئی اس قابل نہیں ہو گا کہ وہ ہمارے بزرگوں کے مقام و مرتبے تک پہنچ سکے۔۔۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ

تقلید تو یہ کہتی ہے کہ موجودہ مسائل کے حل ماضی کے بزرگوں کے علمی و فکری کارناموں اور اجتہادی اصولوں کی روشنی میں دوبارہ قرآن و سنت سے دریافت کیے جائیں جبکہ تقلید پرستی ماضی کو حال اور مستقبل پر زبردستی مسلط کرنے کا نام ہے۔ تقلید پیغام محبت ہے جبکہ تقلید پرستی نفرت و تعصب کی آئینہ دار ہے۔ تقلید ماضی سے اس محبت کا نام ہے جس کی روشنی میں ہم اپنا حال اور مستقبل بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ تقلید پرستی حال اور مستقبل سے مکمل کنارہ کشی کر کے صرف ماضی میں رہنے کو ترجیح دینے کا نام ہے۔ اسی لیے علامہ اقبال نے فرمایا:

نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور

آج تقلید پرستی کے مرض میں ہماری صورت حال اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ ہماری تبلیغ اسلام بھی اپنے مخصوص مسلکی بزرگوں کی مخصوص کتب پر مبنی ہے۔ دوران گفتگو ہم قرآن مجید کے حوالے کم اور اپنے مسلک کے نامی گرامی علماء کے حوالے زیادہ دیتے ہیں۔ اس تقلید پرستی سے سب سے بڑی بیماری یہ پیدا ہوئی کہ آج ہم تبلیغ اسلام کے نام پر اسلام کے بجائے اپنی ’’اسلامی سمجھ‘‘ پھیلا رہے ہیں۔ قرآنی فکر کو عام کرنے کے بجائے مسلکی فکر عام کی جا رہی ہے۔ آج ہم اسلام کے پیغام کو پھیلانے کے بجائے اپنے تنگ نظر اور تعصبات پر مبنی خیالات پھیلا رہے ہیں۔ یہ سب تقلید پرستی کے کمالات ہیں۔ علامہ نے اسی لیے کہا:

یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید
وہاں مرض کا سبب ہے نظامِ جمہوری

نہ مشرق اس سے بری ہے، نہ مغرب اس سے بری
جہاں میں عام ہے قلب و نظر کی رنجوری

اور یہی بات علامہ کے روحانی مرشد جلال الدین رومی اپنی مثنوی کے دفترِ اول میں فرماتے ہیں کہ:

کردہ ای تاویل حرف بکر را
خویش را تاویل کن نے ذکر ر

’’تو نے اچھوتے حرف میں تاویل کی ہے، اپنے آپ کو بدل، قرآن میں تاویل نہ کر‘‘

بر ہوا تاویل قرآں میکنی
پست و کژ شد از تو معنی سنی

’’خواہش کے مطابق تو قرآن کی تاویل کرتا ہے، تیری وجہ سے روشن معنی پست اور کج ہو گئے ہیں‘‘

آج بھی اس معاشرے میں غزالی و رازی اور رومی و عطار پیدا ہو سکتے ہیں بشرطیکہ اگر ہم تقلید پرستی کو چھوڑ کر اجتہاد پرستی اپنا لیں۔ تقلید پرستی تو صرف اندھے عقیدت مند پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس تقلید پرستی میں مسلک پرستی ہے اور مذہب پرستی بھی جبکہ اجتہاد پرستی میں اسلام پرستی ہے اور دین پرستی بھی۔

6۔ نصاب پرستی ہے، قرآن پرستی نہیں

نصاب پرستی بنیادی طور پر اس رویے کا نام ہے جو دلائل میں نہیں بلکہ عمل میں نظر آتا ہے۔ دلائل سے تو نصاب کی علمی افادیت کا دفاع کیا جاتا ہے مگر عملاً اکثریت نصاب پرستی ہی میں مبتلا ہے۔ دینی مدارس کے نصابوں میں یہ چیز ہے کہ یہ اپنے اپنے مسالک کے اکابرین سے طلباء کی شدید جذباتی وابستگی پیدا کرتے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ انہیں آسانی سے مسلکی اختلافات کی بھینٹ چڑھاسکیں۔

ان نصابوں کے مضامین اور متعلقہ کتب بھی بڑی ’’سوچ بچار‘‘ کے بعد منتخب کی جاتی ہیں تاکہ ہمارے مسلک کے پڑھنے والے خدانخواستہ مخالف مسلک کے اکابر کے علمی و فکری کارناموں سے آگاہ نہ ہو جائیں۔ اگر دورانِ کورس مخالف مسلک پر بحث بھی ہوتی ہے تو صرف منفی نکتہ نظر سے۔ ان کو سو فیصد گمراہ ثابت کرنے پر زور لگایا جاتا ہے اس طرح طلبہ کے ذہنی تصورات کی منفی طرز پر تعمیر پر ہوتی ہے۔ انہیں اپنے سوا ہر دوسرا گمراہ اور معاشرے میں پھیلی ہوئی تمام خرابیوں کا ذمہ دار نظر آتا ہے۔ یہی طلبہ آگے چل کر دینی قیادت سنبھالتے ہیں۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ قیادت سنبھالنے کے بعد اب یہ حالات کا رخ کس طرف موڑیں گے؟ علامہ نے یونہی تو نہیں کہا تھا:

صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
مْلاّ کی شریعت میں فقط مستی گفتار

وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار

مستی کردار قرآن پرستی سے پیدا ہوتی ہے نصاب پرستی سے نہیں۔ بدقسمتی سے دینی مدارس میں قرآن فراغت کے قریب پڑھایا جاتا ہے یا پھر دورہ قرآن پر اکتفاء کر لیا جاتا ہے، یہی حال حدیث کے ساتھ کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث کو تمام معلومات کے ماخذ کے طور پر نہیں لیا جاتا بلکہ دورہ جات کی حد تک رکھا جاتا ہے۔

تاریخ انسانی نے ایک وقت وہ دیکھا تھا جب حالت جنگ میں صحابہ کرام قرآنی آیات کی زبانی تلاوت سے ناقابلِ تسخیر قلعے فتح کر لیا کرتے تھے۔ آج مدرسوں سے نصاب پرستی کے اثرات عوام میں بھی پھیل چکے ہیں۔ جن آیات کی صرف زبانی تلاوت سے ناقابل تسخیر قلعے فتح کیے جاتے تھے آج وہ ہماری کاروباری اور گھریلو پریشانیوں کے لیے کافی نہیں سمجھی جاتیں۔ آج ہماری تمام مشکلات کا حل تعویذ دھاگے سمجھے جاتے ہیں۔ گلے میں پہنے ہوئے یہ تعویذ دھاگے اگر قرآنی آیات یا احادیث نبویہ میں مذکور دعائوں پر مشتمل ہوں تو ٹھیک، بصورتِ دیگر ہم قرآن و حدیث کو چھوڑ کر کن گمراہیوں میں مبتلا ہورہے ہیں، اس کا اندازہ معاشرے میں جعلی عاملوں، نام نہاد پیروں اور بابوں کی بہتات سے لگایا جاسکتا ہے۔

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں!

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے، مگر صاحب کتاب نہیں

اس نصاب پرستی نے ماحول اس حد تک خراب کر دیا ہے کہ دورانِ گفتگو جو قرآن، حدیث، سنت میں سے جس کے حوالے زیادہ دے گا، اسی کی بنیاد پر اس کے مسلک اور مکتبہ فکر کا اندازہ لگایا جائے گا۔ غرضیکہ ہر فرقے اور مسلک کے لوگوں نے قرآن و سنت کو تقسیم کر کے اپنے اپنے مطلب کی چیزیں لے کر ان کو اپنی مخصوص پہچان بنا لیا ہے۔ ہر کوئی دوسرے کو گمراہ، مشرک، مردود سمجھتا ہے۔ ہمارے ہاں شیعہ، سنی، وہابی تو ہے مگر افسوس کہ مسلمان کوئی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام الناس کو قرآن با ترجمہ پڑھانے کی تحریک چلائی جائے۔ ہم نے محض تلاوت قرآن سے بہت ثواب کما لیا، اب وقت کا تقاضا ہے کہ قرآن مجید کے بنیادی معنی و مفہوم سے معاشرہ کے ہر فرد کو فیض یاب کیا جائے تاکہ نام نہاد علمائ، پیروں اور فقیروں کی دکانداری ختم کر کے قوم کے ہر فرد کو روزمرہ زندگی گزارنے کے لیے بنیادی خود اعتمادی فراہم کی جا سکے۔