الفقہ: وقتِ سحری اور وقت افطار

مفتی عبدالقیوم خاں ہزاروی

قرآن و حدیث کی روشنی میں سحری ختم ہو نے کے بارے درج ذیل رہنمائی میسر آتی ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی يَتَبَيَنَ لَکُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَی الَّيْلِ.

(البقرة، 2: 187 )

’’اور کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا (رات کے) سیاہ ڈورے سے (الگ ہو کر) نمایاں ہو جائے، پھر روزہ رات (کی آمد) تک پورا کرو‘‘۔

’’حضرت سہل بن سعد رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ جب آیت نازل ہوئی توشروع میں مِنَ الْفَجْرِ کا لفظ نازل نہیں ہوا تھا۔ سو کوئی آدمی جب روزے کا ارادہ کرتا تو اپنے پیر میں سفید اور سیاہ دھاگا باندھ لیتا اور جب تک اُسے یہ دونوں نظر نہ آتے تو کھاتا رہتا۔ چنانچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مِنَ الْفَجْرِ کا لفظ نازل فرمایا تو لوگوں نے جان لیا کہ اس سے مراد رات اور دن ہیں‘‘۔

(بخاری، الصحیح، 2: 677، رقم: 1818)

قاسم بن محمد نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کی ہے کہ

أَنَّ بِلَالًا کَانَ يُوَذِّنُ بِلَيْلٍ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم کُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ فَإِنَّهُ لَا يُؤَذِّنُ حَتَّی يَطْلُعَ الْفَجْرُ قَالَ الْقَاسِمُ وَلَمْ يَکُنْ بَيْنَ أَذَانِهِمَا إِلَّا أَنْ يَرْقَی ذَا وَيَنْزِلَ ذَا.

(مسلم، الصحیح، 2: 768، رقم: 1092)

’’ حضرت بلال رات میں اذان کہا کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کھاؤ اور پیؤ یہاں تک کہ ابن اُم مکتوم اذان کہیں کیونکہ وہ فجر طلوع ہونے پر ہی اذان کہتے ہیں قاسم بن محمد نے فرمایا کہ اِن دونوں کی اذانوں میں اتنا فرق ہی ہوا کرتا تھا کہ یہ چڑھتے اور وہ اُترتے تھے‘‘۔

حضرت انس سے روایت ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:

تَسَحَّرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم ثُمَّ قَامَ إِلَی الصَّلَاةِ قُلْتُ کَمْ کَانَ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالسَّحُورِ قَالَ قَدْرُ خَمْسِينَ أيَةً.

(بخاری، الصحیح، 2: 678، رقم: 1821)

’’ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی اور پھر نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ میں نے کہا کہ اذان اور سحری کے درمیان کتنا وقفہ تھا۔ کہا کہ پچاس آیتیں پڑھنے کے برابر‘‘۔

قیس بن طلق نے اپنے والد ماجد سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا::

کُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا يَهِيدَنَّکُمْ السَّاطِعُ الْمُصْعِدُ فَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی يَعْتَرِضَ لَکُمْ الْأَحْمَرُ.

(أبی داؤد، السنن، 2: 304، رقم: 2348)

’’کھاؤ، پیو اور تم کو ہر گز کھانے پینے سے نہ روکے سیدھی اوپر کو جانے والی (صبح کاذب) اور کھاؤ ، پیو تا وقتیکہ روشنی کی سرخی اُفق پر پھیل جائے‘‘۔

وقت سحریری

سحری کا وقت طلوع فجر پر ختم ہو جاتا ہے اور طلوع فجر سے نماز فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:

وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِط

(هود، 11: 114 )

’’اور آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قا ئم کیجیے‘‘۔

یعنی دن کے شروع اور آخر میں فجر اور مغرب کی نماز کی طرف اشارہ ہے اور رات کے کچھ حصے میں عشاء کی نماز کی طرف اشارہ ہے۔

خصوصی رعایت

قاعدہ قانون کے مطابق سحری کا وقت طلوع فجر سے پہلے پہلے ہی ہے۔لیکن فطری بات ہے انسان کبھی کبھار لیٹ بھی ہو سکتا ہے چونکہ اسلام دین فطرت ہے اس لیے فہم و فراست ، عقل و دانش اور شعور کے شہنشاہ، شارع علیہ السلام نے خصوصی رعایت فرمائی ہے۔

ابوسلمہ نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا سَمِعَ أَحَدُکُمْ النِّدَاءَ وَالْإِنَاءُ عَلَی يَدِهِ فَلَا يَضَعْهُ حَتَّی يَقْضِيَ حَاجَتَهُ مِنْهُ.

(أبی داؤد، السنن، 2: 304، رقم: 2350 )

’’جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اپنی ضرورت پوری کئے بغیر اسے نہ رکھے۔‘‘

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کی شرح کرتے ہوئے ملا علی القاری حنفی رضی اﷲ عنہ لکھتے ہیں:

(وعن أبی هريره قال قال رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم اذا سمع النداء) أی أذان الصبح (أحد کم و الاناء) أی الذی يأکل منه أو يشرب منه (في يده)جمله حالية (فلا يضعه) أی الاناء (حتی يقضی حاجته منه) أی بالاکل و الشرب .

(علی بن سلطان محمد القاری، مرقاة المفاتيح، 4: 421)

’’ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی (رمضان میں) صبح کی اذان سُنے، اس حال میں کہ (سحری) کے کھانے پینے کا برتن اس کے ہاتھ میں ہے، تو کھا پی کر اپنی ضرورت پوری کئے بغیر اسے ہاتھ سے نہ رکھے‘‘۔

لہٰذا اس قدر شدت نہیں ہونی چاہیے جس طرح بعض لوگ کرتے ہیں کہ اذان شروع ہوتے ہی جو لقمہ منہ میں ہو وہ بھی باہر پھنک دیا جائے کیونکہ عام طورپر لوگ وقت ختم ہونے سے پہلے ہی سحری کھا لیتے ہیں مجبوراً ہی کوئی بالکل آخری وقت میں کھا پی رہا ہوتا ہے۔

وقتِ افطار

قرآن پاک میں ہے :

وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی يَتَبَيَنَ لَکُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَی الَّيْل.

(البقرة، 2: 187)

’’اور کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا (رات کے) سیاہ ڈورے سے (الگ ہو کر) نمایاں ہو جائے، پھر روزہ رات (کی آمد) تک پورا کرو‘‘۔

عاصم بن عمر بن خطاب، ان کے والد محترم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ هَا هُنَا وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هَا هُنَا وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ.

’’ جب رات اس طرف سے آ رہی ہو اور دن اس طرف سے جا رہا ہو اور سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار روزہ افطار کرے‘‘۔

( بخاري، الصحیح، 2 : 691 )

حضرت عبد اللہ بن ابو اوفی سے روایت ہے کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب سورج غروب ہو گیا تو آپ نے ایک آدمی سے فرمایا:

يَا فُلَانُ قُمْ فَاجْدَحْ لَنَا فَقَالَ يَا رَسُولَ اﷲِ لَوْ أَمْسَيْتَ قَالَ انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا قَالَ يَا رَسُولَ اﷲِ فَلَوْ أَمْسَيْتَ قَالَ انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا قَالَ إِنَّ عَلَيْکَ نَهَارًا قَالَ انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا فَنَزَلَ فَجَدَحَ لَهُمْ فَشَرِبَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم ثُمَّ قَالَ إِذَا رَأَيْتُمُ اللَّيْلَ قَدْ أَقْبَلَ مِنْ هَا هُنَا فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ.

(بخاری، الصحیح، 2 : 691، رقم 1854)

’’اے فلاں ! اٹھو اور ہمارے لیے ستو گھولو۔ عرض گزار ہوا کہ یا رسول اللہ ! شام ہونے دیجئے۔ فرمایا کہ اترو اور ہمارے لیے ستو بناؤ۔ عرض کی کہ یا رسول اللہ ! شام تو ہو جائے۔ فرمایا کہ اترو اور ہمارے لیے ستو گھولو۔ عرض گزار ہوا کہ ابھی تو دن ہے۔ فرمایا کہ اترو اور ہمارے لیے ستو بناؤ۔ پس وہ اترا اور ان کے لیے ستو بنائے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمائے پھر فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ رات ادھر سے آ رہی ہے تو روزہ دار روزہ افطار کرے‘‘۔

حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ.

(بخاري، الصحيح، 2 : 692، رقم : 1856)

’’ لوگ ہمیشہ خیر وخوبی سے رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے‘‘۔

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا يَزَالُ الدِّينُ ظَاهِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ لِأَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَی يُؤَخِّرُونَ.

’’ دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود ونصاری دیر کیا کرتے ہیں‘‘۔

( أبي داؤد، السنن، 2 : 305)

جیسا کہ پہلے یہ بھی ذکر ہو چکا ہے کہ روزہ افطار کرنے کا وقت غروب آفتاب کے بعد ہے مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا جونہی وقت شروع ہو جائے روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ تاخیر کرنا درست نہیں ہے۔

آئیے اب دیکھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ افطار کس طرح فرماتے تھے۔ حدیث مبارکہ میں ہے :

عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم کَانَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ اللّٰهُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ أَفْطَرْتُ.

’’حضرت معاذ بن زہرہ کو یہ خبر پہنچی کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب افطار فرماتے تو کہتے۔ اے اللہ ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا‘‘۔

طبراني، المعجم الاوسط، 7: 298، رقم: 7549، دار الحرمين القاهرة

حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اِذَا کَانَ أَحَدُکُمْ صَأئِمًا فَلْيُفْطِرْ عَلَی التَّمْرِ فَاِنْ لَمْ تَجِدِ التَّمْرَ فَعَلَی الْمَأءِ فَاِنَّ الْمَأءَ طَهُوْرٌ.

’’جب تم میں سے کوئی روزہ دار ہو تو چاہیے کہ کھجور سے افطار کرے اگر کھجور میسر نہ آئے تو پانی سے کیونکہ پانی پاک کرنے والا ہے۔

(ابی داؤد، السنن، 2 : 305، رقم : 2355)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ

کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يُفْطِرُ عَلَی رُطَبَاتٍ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ رُطَبَاتٌ فَعَلَی تَمَرَاتٍ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھنے سے پہلے تر کھجوروں کیساتھ روزہ افطار فرماتے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو خشک کھجوروں سے۔ یہ بھی نہ ہوتا تو پانی کے چند گھونٹ پی لیا کرتے‘‘۔

( أحمد بن حنبل، المسند،رقم 12698)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غروب آفتاب کے فوراً بعد روزہ افطار فرماتے تھے۔