حضرت فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ: حیات و سیرت کے چند گوشے

ریاض حسین چودھری

نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی اساسِ دین اور معیارِ ایمان ہے اور پھر ہم غلاموں کے دامن صد چاک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے سوا ہے بھی کیا۔ یہی ہمارا اثاثہ، یہی ہمارا سرمایہ حیات اور یہی ہمارا زادِ سفر ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے والد گرامی حضرت فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادری کی پہچان بھی اسی نسبت مقدسہ سے ابلاغ پاتی ہے اور یہ سعادت کوئی کم سعادت نہیں بلکہ اس سعادت کے حصول کے بعد تو کسی دوسری سعادت کی تمنا ہی نہیں کی جاسکتی، اس کے بعد کوئی آرزو کرے بھی تو کس کی؟ حضرت فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادری کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس قدر والہانہ عشق تھا کہ ہمہ وقت ماہی بے آب کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں روتے رہتے۔ جونہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی لیا جاتا تو ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی، زبان ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکار جلیلہ سے تر رہتی۔ کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھنا آپ کا وظیفہ حیات تھا۔ نعت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس قدر شغف تھا کہ کثرت کے ساتھ تلاوت کلام پاک کے علاوہ روزانہ تہجد کے بعد مدینہ طیبہ کی طرف رخ کرکے قصیدہ بردہ شریف پڑھا کرتے تھے۔

میں جو اک برباد ہوں آباد رکھتا ہے مجھے
دیر تک اسمِ محمد شاد رکھتا ہے مجھے

مقامِ ملتزم پر حضرت فرید ملت کا آنسوؤں، ہچکیوں اور سسکیوں کی زبان میں بارگاہ خداوندی میں دعا کرنا اور پھر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعا کی قبولیت کی بشارت دینا اور ان کا اپنے آقا و مولا سے وعدہ کرنا کہ حضور! طاہر جونہی سن شعور کو پہنچے گا، اسے خدمت اقدس میں پیش کردوں گا اور پھر 63ء میں حضوری کے لمحات، سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرم نوازیاں، ان تمام سے حضرت فرید ملت کے روحانی مرتبے کا پتہ چلتا ہے بلکہ ان کے ایمان کی پختگی کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ نسبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ایمان و ایقان کی دولت سے کس حد تک سرفراز اور سرشار کررکھا تھا۔

نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ قبلہ ابا جی ہر وقت تصورِ محبوبِ کبریا میں مستغرق رہتے۔ وہ عمر بھر قصیدہ بردہ شریف کے عامل رہے، قصیدہ بردہ شریف کے 160 ابیات انہیں حفظ تھے۔ ان کا معمول تھا کہ ہر رات نماز تہجد کے بعد فجر سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر بے مثال کی طرف منہ کرکے بیٹھ جاتے اور قصیدہ بردہ شریف پڑھتے۔ بعد ازاں کھڑے ہوکر دست بستہ قصیدے کے اشعار اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ ناز میں پیش کرتے۔ اس قدر روتے کہ ان کی ہچکی بندھ جاتی۔ وصال تک یہی معمول رہا۔

میں اپنے اشکوں سے روز کرتا ہوں آبیاری زمین دل کی
ریاض کشت مراد میری اسی لئے تو ہری بھری ہے

درود پاک بڑی کثرت سے پڑھتے، ہر وقت باوضو رہتے، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے سنت خداوندی کی تقلید کرتے، صاحب گنبد خضریٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی زبان پر آتا تو آنکھیں چھلک اٹھتیں اور بہر سلامی جھک جاتیں کہ آقا حضور! غلام زادے کا سلام قبول کیجئے۔ وہ اپنے ذاتی استعمال کی چیزیں بھی شہر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر آتے۔ مثلاً برتن، چادریں، کپڑے حتی کہ مسواک تک اور ہر آن اس حوالے سے اپنی نسبت قائم رکھتے۔

حضرت فرید ملت کے ہمعصر اور ان کے دوست محترم ڈاکٹر احسان قریشی صابری نے نسبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق کے حوالے سے بتایا کہ ایک دن میں نے اقبال کی یہ رباعی پڑھی:

توغنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر

گر حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر

’’اے مالک تو غنی ہے اور میں ایک فقیر بے نوا قیامت کے دن میرا عذر سننا اور میری خطاؤں سے درگزر کرنا، اگر میرا حساب لینا ناگزیر ہو تو میرا حساب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہوں سے اوجھل لینا، میں گنہ گار پر تقصیر اور شرمندہ امتی اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہوں کا سامنا نہ کرسکوں گا‘‘۔

قریشی صاحب کہتے ہیں کہ اقبال کی یہ رباعی سن کر حضرت فرید ملت اپنے آنسوؤں پر ضبط نہ کرسکے، ہچکی بندھ گئی اور دیر تک جذب و کیف کے اسی عالم میں رہے۔

ہزار بار بشوئم دہن زمشک و گلاب
ہنوز نامِ تو گفتن کما ل بے ادبی است

شیخ الاسلام مدینہ منورہ میں اپنے والد گرامی کے معمولات کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں ابا جی پر کیف کا ایک عجیب عالم طاری رہتا۔ ادبِ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قدر تھا کہ ہمیشہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں بیٹھتے۔ میں 63ء میں ان کے ساتھ تھا۔ رات ایک یا ڈیڑھ بجے مسجد نبوی کا دروازہ کھلتا، دروازہ کھلتے ہی لوگ نوافل ادا کرنے کے لئے ریاض الجنۃ کی طرف لپکتے لیکن ابا جی مجھے لے کر سیدھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں پہنچ جاتے۔

قدموں کو چھوڑنا مرے بس میں نہیں حضور
قدموں ہی میں ریاض کو مرجانے دیجئے

ریاض الجنۃ میں بھی نوافل ادا کرتے لیکن زیادہ تر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک کی طرف ہی بیٹھتے اور نماز اشراق تک بیٹھے رہتے۔ ایک دن میں نے پوچھا ریاض الجنۃ میں آپ ذرا کم جاتے ہیں۔ فرمایا: بیٹا ہماری جنت یہی ہے۔

مدینہ منورہ میں شارع عینیہ (پرانی سبزی منڈی) کی طرف گنبد خضرا کا ایک خاص نظارہ ہوتا ہے وہاں دیر تک کھڑے رہتے اور سبز گنبد کی رعنائیوں کو دامن دل میں سمیٹتے رہتے۔ شہر دلنواز کی گلیوں میں چلتے پھرتے بھی رقت طاری رہتی، ہچکی بندھ جاتی، لیکن آواز بلند نہ کرتے کہ یہ ادب کے منافی ہے۔ ضبط کرتے کہ یہاں آنسوؤں کا رقصِ بے حجاب بھی سوئے ادب میں شمار ہوتا ہے۔ مسجد نبوی کے باہر محراب کی طرف یا پھر باب جبریل کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک کی سمت میں کھڑکی ہے، اس کے سامنے دست بستہ سلام عرض کرتے۔

شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ قصیدہ بردہ شریف پڑھتے وقت ابا جی اکثر آبدیدہ ہوجایا کرتے تھے۔ ساری ساری رات گریہ و زاری میں گزر جاتی، یہ شعر اکثر پڑھتے۔

یا اکرم الخلق مالی من الوذبہ
سواک عند حلول الحادث العمم

آپ فرماتے ہیں کہ میری عمر چھ سات سال ہوگی، رات آنکھ کھلتی اور ابا جی کو مصلے پر بیٹھے آنسو بہاتے دیکھتا تو والدہ ماجدہ سے پوچھتا کہ ابا جی کیوں رو رہے ہیں تو وہ بتاتیں کہ بیٹا عبادت کررہے ہیں۔

بے وضو عشق کے مذہب میں عبادت ہے حرام
خوب رو لیتا ہوں آقا کی ثنا سے پہلے

اور پھر مجھے 26 رمضان المبارک کی وہ رات بھی یاد ہے ابا جی علیل تھے، عیسیٰ خیل سے تقریباً ڈیڑھ بجے شب گھر پہنچا۔ وہ سردیوں کے دن تھے، ابا جی کمبل اوڑھے ہوئے تھے۔ نقاہت اور کمزوری کے باوجود ابا جی اس وقت بھی مصلے پر بیٹھے یاد محبوب میں آنسو بہا رہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و شمائل اور شانِ اقدس کا ذکر حضوری کی تمام تر کیفیتوں میں ڈوب کر کرتے۔ کیف و سرور میں خود بھی جھومتے اور ان کے سامعین پر بھی بے خودی کی ایک کیفیت طاری ہوجاتی۔ توحید، معرفت اور عشق الہٰی کا ذکر ہوتا تو ان کی آنکھوں میں ایک خاص چمک سی آجاتی۔

شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ یہ 69ء کی بات ہے ابا جی قبلہ کی آرزو تھی کہ میں ایم بی بی ایس کروں لیکن میرا رجحان اس طرف نہیں تھا۔ ایک دن ابا جی نے حکماً فرمایا کہ ایف ایس سی کا امتحان دو، داخلہ ہوگیا تو ٹھیک ورنہ جو اللہ کو منظور۔ ایف ایس سی میں میری فرسٹ ڈویژن تھی۔ نشتر میڈیکل کالج میں مقابلہ بڑا سخت تھا۔ آخری نشست میں ایک دوسرے امیدوار کے ساتھ ٹائی پڑگئی۔ ابا جی قبلہ کا معمول تھا کہ جب کوئی روحانی مسئلہ درپیش ہوتا، مشکل یا پریشانی وارد ہوتی تو قصیدہ بردہ شریف پڑھ کر سیدنا غوث الاعظم کے وسیلہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں اپنی مشکل پیش فرماتے اور رہنمائی کے طلب گار ہوتے۔

مجھے تو یہ سعادت اپنے بچپن ہی سے حاصل ہے
تصور میں در اقدس پہ جاکر چشم تر رکھنا

اباجی کا خیال تھا کہ ایم بی بی ایس کے بعد مدینہ منورہ میں ہی پوسٹنگ کرالیں گے، وہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر اقدس کے باسیوں کی خدمت بھی کریں گے اور ساری عمر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں گزار دیں گے۔ فجر کی اذان ہوچکی تھی، میں مسجد جانے کے لئے سیڑھیوں سے نیچے اترا تو ابا جی سیڑھیوں کے سامنے کھڑے تھے۔ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: مبارک ہو، تمہاری جو خواہش تھی اللہ کو بھی یہی منظور ہے۔ میں نے پوچھا کس نے فرمایا؟ کہنے لگے: رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں مدینہ منورہ میں مستقل قیام کی آرزو کی خواہش کا اظہار کرکے توجہ فرمانے کی درخواست کی تھی۔ رات خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ دیکھتا ہوں کہ دروازے کے سامنے بیٹھا ہوں ایک کار آکر رکی ہے۔ کار میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہیں، دوڑ کر قدم بوسی کرتا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے گاڑی میں بیٹھنے کا حکم دیتے ہیں، گاڑی چل پڑتی ہے۔ ایک صاحب پچھلی نشست پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: اس شخص کو پہچانتے ہو؟ میں نے مڑ کر دیکھا اور کہا: ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تو علامہ اقبال ہیں‘‘۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسکرا کر فرمایا: ہم طاہر کو بھی ایسا ہی بنانا چاہتے ہیں۔ یہ خواب سناکر ابا جی فرمانے لگے: میں تمہیں جسمانی امراض کا معالج بنانے کا سوچ رہا تھا لیکن سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جسمانی مریضوں کی بجائے امت کے روحانی مریضوں کا علاج تمہارے سپرد کرنا چاہتے ہیں۔ اب طاہر بیٹے تمہارے مستقبل کے بارے میں میری منصوبہ بندی ختم، جن کی بارگاہ کے توسل سے تمہیں حاصل کیا تھا، وہ تم سے کیا کام لینا چاہتے ہیں؟ تمہیں کیا ذمہ داری سونپتے ہیں؟ اس کی منصوبہ بندی بھی وہی کریں گے۔

حضرت فرید ملت جس خزینہ معرفت سے اللہ تعالیٰ کے خصوصی لطف و کرم کے ذریعے فیضیاب ہوکر روحانیت کے اعلیٰ مقامات پر فائز ہوچکے تھے، آپ کی دلی خواہش تھی کہ یہ دولت عظمیٰ ان کے فرزند دلبند کو بھی نصیب ہو۔ اس لئے انہوں نے قائد انقلاب کو بچپن ہی سے باقاعدہ اور مسلسل تربیتی مراحل سے اپنی نگرانی میں گزارا۔ اپنی صحبت و تربیت کے زیر اثر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت، دین اسلام کی چاہت و رغبت اور روحانی اعمال و احوال کے ساتھ قلبی لگاؤ یہ تمام چیزیں بچپن ہی سے ان کے اندر راسخ کردی تھیں۔ سن شعور سے قبل ہی آپ کو اپنے ساتھ نماز ادا کرنے کی عادت ڈالی، اوائل عمری ہی میں قرآن مجید کی ناظرہ تعلیم کی تکمیل کا اہتمام کیا اور بعد ازاں اپنی تربیت و صحبت سے رات کو اٹھنے کی عادت بھی قابل رشک طریقے سے پیدا فرمائی۔ انہوں نے اپنی زبان سے اپنے اس فرزند کو رات تہجد کے لئے کبھی نہ فرمایا کہ تہجد کے لئے اٹھو بلکہ معمول یہ تھا کہ جب خود اٹھتے تو سردیوں کی راتوں میں سوہن حلوہ یا بسکٹ یا ایسی ہی کوئی اور چیز تیار کرکے اس کے ساتھ دودھ گرم کرکے ان کے بستر کے قریب لاکر رکھ دیتے اور وضو کے لئے پانی خود اپنے ہاتھ سے گرم کرکے ان کے پاس رکھ دیتے۔ آپ کے قدموں کی آہٹ سے خود بخود محمد طاہر کی آنکھ کھل جاتی تو آپ کمال محبت و شفقت سے فرماتے ’’بیٹے میں نے تمہارے وضو کے لئے پانی گرم کرکے رکھ دیا ہے اور کچھ دودھ اور سوہن حلوہ ہے، وضو کرکے کھالینا‘‘ اس طرح ایک احسن ترغیب سے بالواسطہ ایک مستقل عادت شب بیداری آپ کے اندر پیدا کرنے کا اہتمام فرمادیا۔

شعور مقصدیت ایک عظیم نعمت ہے اور بامقصد زندگی گزارنے والا نہ صرف اپنی زندگی میں ایک تحریک ہوتا ہے بلکہ موت سے ہم آغوش ہوکر بھی لاکھوں زندگیوں کو مقصدیت کی نعمت عطا کرجاتا ہے۔ حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادری کا شمار یقینا انہی ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی کو زندوں کی طرح گزارا اور جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اس امت کو ایک ایسا گوہر نایاب دے گئے، جو ایک جہان کو زندہ کررہا ہے۔ حضرت فرید ملت نے اپنی پوری زندگی کا ماحصل ایک شخصیت کی صورت میں ہمیں دیا اور اس فرزند ارجمند کی تربیت کچھ اس انداز سے فرمائی کہ اب وہ ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جو منتشر ملت کو یکجا کررہی ہے۔۔۔ ایک جذبہ ہے جو ہر دل میں ولولہ پیدا کررہا ہے۔۔۔ ایک نور ہے جو ہر سو اجالا بکھیر رہا ہے۔۔۔ اور ایک انقلاب ہے جس سے باطل اور طاغوتی قوتوں کے ایوان تھر تھرا رہے ہیں۔

فرید ملت حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادری واقعتا ایک یگانہ روزگار شخصیت تھے۔ آپ کی شخصیت ایک ایسا کثیر الجہت نگینہ ہے جس کی ہر ہر جہت اپنی آب و تاب اور چمک دمک کے اعتبار سے جداگانہ شان کی حامل نظر آتی ہے۔ آپ اپنے ہر ہر وصف اور شخصیت کے ہر ہر پہلو کے اعتبار سے نابغہ روزگار تھے۔ آپ جہاں علم و عرفاں کے میدان کے عدیم النظیر شہسوار تھے وہیں بحرِ معرفت کے مشاق شناور بھی تھے۔ جہاں ایک طرف توکل علی اللہ اور فقر و استغناء کی تصویر تھے وہیں زہدو ورع اور تقویٰ و طہارت کے پیکر مجسم بھی۔جہاں ایک طرف ہمہ وقت عشق رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سرشاری و استغراق آپ کا طرہ امتیاز تھا، وہیں نسبت غوثیت مآب رضی اللہ عنہ میں گرفتاری بھی آپ کی پہچان تھی۔ شعرو سخن کی دنیا ہو یا طب و ڈاکٹری کا میدان۔۔۔ نبض شناسی کا فن ہو یا تعلیم و تدریس کا ہنر۔۔۔ ہر ہر میدان میں یدطولیٰ کی حامل اس ہستی کے شخصی اوصاف اور ذاتی محاسن کا احاطہ ہم جیسے کج فہم اور کور ذوق افراد کے بس کی بات ہی نہیں۔

صاحبان عرفان ہر وقت خاموش اور پرسکون لبوں سے فریضہ دائمی میں مستغرق رہتے ہیں۔ واصلان حق ہر وقت بارگاہ محبت میں حاضر اور رب کائنات کے حج میں مصروف و مشغول رہتے ہیں، اس عالم کیف و سرور میں انہیں سوائے اپنے مولا کے کسی کا وہم و خیال تک نہیں رہتا اور ہمہ وقت ان پر عجیب طرح کی معصومیت جلوہ گر رہتی ہے۔ حضرت فرید ملت کی زندگی کے آخری دور میں ان پر یہی کیفیت طاری رہی۔ ان کی زندگی کا یہ دور سراسر روحانی دور تھا، جس میں صوفیانہ ذوق عروج پر تھا۔ اس دور میں آپ پر عشق و مستی، درد و سوز اور گریہ و زاری کی کثرت انتہا تک پہنچ چکی تھی۔

ان کی یہ حالت سراسر عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مکمل محویت کی عکاس تھی۔ اس دور میں مطالعہ کا ذوق جو سالہا سال پر محیط تھا آپ نے سمیٹ کر ایک طرف رکھ دیا۔ قرآن و کتب حدیث کے علاوہ صرف ایک کتاب ان کی رفیق رہ گئی اور وہ تھی ’’مثنوی مولانا روم‘‘، جسے رات گئے تک آپ اپنے ایک مخصوص مترنم انداز میں پڑھتے رہتے اور ساتھ ہی ہچکیاں لے کے روتے جاتے۔ رات کو مقررہ وقت پر مثنوی شریف پڑھتے اوراد وظائف کرنے کے بعد مصلے پر کھڑے ہوجاتے اور مسلسل چھ سات گھنٹے اسی حال میں گزاردیتے۔

آخری ایام میں آپ کا شب بیداری کا معمول بڑھ گیا تھا نوافل کثرت سے پڑھنے لگے۔ گریہ و زاری میں اضافہ ہوگیا۔ کافی کافی دیر تک بارگاہ الہٰیہ میں سجدہ ریز رہتے اور دیدار الہٰی کی طلب کے لئے رقت رہنے لگی۔ رمضان شریف کی ستائیسویں تاریخ تھی۔ تراویح میں قرآن پاک کی تلاوت جاری تھی کہ دل کا دورہ پڑا اس علالت کے نتیجے میں 16 شوال 1395ھ (بمطابق 2 نومبر 1974ء) جان جان آفریں کے سپرد کی۔ آخری لمحات میں سراقدس قائد انقلاب کی گود میں تھا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔