سانحہ ماڈل ٹاؤن: حکومتی جے آئی ٹی کی رپورٹ کے خلاف ملک گیر احتجاج

رپورٹ: محمد یوسف منہاجین، محمد شعیب بزمی

شہداء کی برسی کے موقع پر پروقار تقریب کا انعقاد

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لئے حکومت کی طرف شہداء کے ورثاء اور زخمیوں کی مشاورت کے بغیر تشکیل دی گئی یکطرفہ JIT کی رپورٹ 21 مئی 2015ء کو منظرِ عام پر آئی۔ یہ JIT چونکہ PAT اور شہداء کے ورثاء کو اعتماد میں لئے بغیر حکومت کے چہیتے افراد پر مشتمل تھی لہذا انصاف کی توقع تو پہلے ہی نہیں تھی۔ لہذا اس JIT کی کوئی بھی قانونی و اخلاقی حیثیت نہ ہونے کے باعث تحریک نے اس کا بائیکاٹ کردیا تھا۔JIT کی مکمل یک طرفہ کارروائی حکومتی رہنمائی و ہدایات کی روشنی میں چلتی رہی۔ رپورٹ میں اس سانحہ کی ذمہ داری وزیراعلیٰ، وزیر قانون اور FIR میں نامزد کسی بھی شخص پر نہ ڈالی گئی اور ان تمام نامزد ملزموں کو کلین چٹ دیتے ہوئے قتل کی ذمہ داری ایک ایس پی سلیمان علی خان پر ڈال دی گئی۔ مزید یہ کہ منہاج القرآن سے بھی پولیس والوں پر فائرنگ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا گیا کہ جو افراد شہید ہوئے ہیں وہ بھی انہوں نے خود ہی شہید کئے۔

سیاسی JiT کی جھوٹی رپورٹ

مرکزی صدر PAT محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے حکومتی جعلی JIT کی اس نام نہاد اور جعلی رپورٹ کو یکسر مسترد اور اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے خدشات سچ ثابت ہوئے کہ موجودہ قاتل حکمرانوں کے ہوتے ہوئے ہمیں انصاف نہیں ملے گا۔ جے آئی ٹی نے مظلوموں کو انصاف دلوانے کی بجائے قاتلوں کو محفوظ راستہ دیا۔ PAT پہلے بھی غیر ملکی سفارتکاروں، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور یورپی یونین سمیت انصاف کے ہر فورم سے رجوع کررہی ہے، اب اس مسئلہ کو مزید اجاگر کرے گی۔ہمارے یہ مطالبات اب بھی قائم ہیں کہ دھرنے میں کیے گئے وعدے کے مطابق غیر جانبدار جے آئی ٹی تشکیل دی جائے جس میں پنجاب پولیس کا کوئی نمائندہ شامل نہ ہو۔ نیز ہمارے ہزاروں کارکنان پر قائم کیے گئے جھوٹے مقدمات کا جائزہ لینے کیلئے انہیں غیر جانبدار جے آئی ٹی کے سامنے رکھا جائے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا جائے۔ جسٹس باقر نجفی جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کیا جائے، جسے حکمران 8 ماہ سے دبا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے منصوبہ ساز میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، ایف آئی آر میں نامزد وفاقی وزراء اور رانا ثناء اللہ ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن سے قبل سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ کی طرف سے دی جانے والی سنگین نتائج کی دھمکیاں ریکارڈ پر ہیں جو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے منظم منصوبہ بندی اور وفاقی حکومت کے سانحہ سے تعلق کو ثابت کرتی ہیں۔ جے آئی ٹی میں ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولا گیا اور حقائق مسخ کیے گئے۔ اس بات کے بھی ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ اس سیاسی جے آئی ٹی نے حکمرانوں کو بچانے کے لئے حکومت کی طرف سے ہی فراہم کردہ سکرپٹ کے مطابق لکھی گئی رپورٹ جمع کروائی۔

تمام ٹی وی چینلز نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی لمحہ بہ لمحہ فوٹیج بنائی، اس کے باوجود جے آئی ٹی میں ہمارے 3 ہزار کارکنوں کی موجودگی اور ہمارے طرف سے فائرنگ کا جھوٹ بھی انتہائی بے شرمی سے بولا گیا۔ تمام ٹی وی چینلز کے پاس فوٹیج موجود ہیں کوئی ایک فوٹیج دکھائی جائے جس میں ہمارے کسی کارکن کے ہاتھ میں اسلحہ ہو یا اس نے فائر کیا ہو؟

رانا ثناء اللہ نے پہلی جے آئی ٹی میں بیان حلفی دیا کہ تجاوزات ہٹانے کیلئے 16 جون 2014ء کو جو میٹنگ ہوئی میں نے خود اس کی صدارت کی۔ موجودہ جے آئی ٹی یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ رانا ثناء اللہ کا اس واقعہ سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا؟ وزیراعلیٰ نے بیان حلفی دیا کہ انہوں نے 17 جون کی صبح 9 بجے ڈاکٹر توقیر کے ذریعے پولیس کو پیچھے ہٹنے کا کہا جبکہ تمام شہادتیں 11:30 بجے کے بعد ہوئیں۔ یہ کیسے کہہ دیا گیا کہ اس واقعے سے وزیراعلیٰ کا تعلق نہیں؟

جے آئی ٹی کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ بتاتی کہ 17 جون کے دن لاہور پولیس کو آخر کون کنٹرول کررہا تھا؟ جے آئی ٹی میں کہا گیا کہ ڈی آئی جی آپریشن رانا عبدالجبار صبح 9 بجے جائے وقوعہ پر گئے، سوچنے والی بات یہ ہے کہ ڈی آئی جی آپریشن کے ہوتے ہوئے ایس پی سلیمان علی نے فائرنگ کا حکم کیسے دیدیا؟ ایس پی سلمان علی وزیراعلیٰ کی حفاظت میں ہے، اب نہ سلمان علی کبھی سامنے آئے گا اور نہ کیس آگے بڑھ سکے گا۔

دھرنے کے دوران آرمی چیف کی ذاتی مداخلت پر ایف آئی آر درج ہوئی اس لیے ہمارا یہ مطالبہ کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس فوجی عدالت میں چلایا جائے کوئی غیر آئینی نہیں ہے۔ اس ملک کی پارلیمنٹ نے دہشتگردی کی عدالتوں پر عدم اعتماد کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے قیام کی ضرورت کو ناگزیر قرار دیا۔ فوج دہشتگردی کے خلاف جنگ کی قیادت کررہی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی دہشتگردی کا بدترین کیس ہے اگر یہ کیس فوجی عدالت میں جائے گا تو اس سے حکومت کو کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے‘‘۔

انصاف کا خون

قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جے آئی ٹی کی اس جعلی رپورٹ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’شہدا کا خون اتنا سستا نہیں کہ قاتلوں کی بنائی جے آئی ٹی اس پر مٹی ڈال سکے۔ حکومتی جے آئی ٹی نے ڈھٹائی سے حقائق مسخ کئے اور انصاف کا جنازہ نکالا۔ مظلوموں کیلئے آواز بلند کرنے پر اینکر پرسنز، سول سوسائٹی، ہم خیال جماعتوں کے سربراہان اور بالخصوص پنجاب اسمبلی کی اپوزیشن کے مشکور ہیں جنہوں نے قتل و غارت گری اور ظالم حکمرانوں کے خلاف اسمبلی اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔ حکومتی جے آئی ٹی نے جس ڈھٹائی کے ساتھ منصوبہ سازوں اور اصل قاتلوں کو کلین چٹ دی وہ شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ ذاتی ملازموں اور تابعدار نوکروں کی جے آئی ٹی نے وہی رپورٹ جاری کی جو انہیں فراہم کی گئی تھی۔

جے آئی ٹی رپورٹ مضحکہ خیز اور انصاف کا خون ہے۔ ہمیں نواز شریف، شہباز شریف، رانا ثناء اللہ، آئی جی اور توقیر شاہ کے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں براہ راست ملوث ہونے کے حوالے سے رتی برابر بھی شک نہیں۔ ہم اس مضحکہ خیز رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں، انصاف لینے سڑکوں پر آ گئے ہیں اور اپنا یہ حق انصاف ملنے تک استعمال کرتے رہیں گے۔

ہم پر حکومت سے ڈیل کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں، ڈیل کرنے یا ایسی پیشکش پر غور کرنے اور ڈیل کے جھوٹے الزام لگانے والے پر اللہ کی لعنت ہو۔ مجھے خریدنا تو دور کی بات، حکمران ہمارے غریب شہید کارکنوں کے لواحقین کو لاکھوں اور کروڑوں کی آفر دینے کے باوجود نہ خرید سکے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن حادثہ نہیں، طویل منصوبہ بندی کا بدترین نتیجہ ہے۔ حکمرانوں نے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے پولیس میں دہشت گرد، انتہا پسند اور اجرتی قاتل بھرتی کررکھے ہیں جو تنخواہ خزانے سے لیتے ہیں اور کام حکمرانوں کا کرتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کو سزا مل جاتی تو ڈسکہ کا واقعہ نہ ہوتا۔

اگر حکمران خود کو بے گناہ سمجھتے ہیں تو وہ شہداء کے لواحقین کی تائید والی غیر جانبدار جے آئی ٹی کی تشکیل سے خوفزدہ کیوں ہیں؟ اگر حکمران فوج کو غیر جانبدار سمجھتے ہیں تومقدمہ فوجی عدالت میں بھجوائیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ ایف آئی آر کے اندراج میں کردار ادا کرنے والے پاک فوج کے سپہ سالار انصاف دلوانے میں بھی کردار ادا کریں‘‘۔

قاتل وزیر قانون کی دوبارہ تقرری

JIT کی اس رپورٹ کے بعد گویا حکمرانوں کو کلین چٹ مل گئی۔ وزیراعلیٰ نے رانا ثناء اللہ کو 29 مئی 2015ء کو دوبارہ وزارت قانون کا قلمدان سونپ دیا۔ سب سے بڑے قاتل کو وزیر قانون بنا کر انسانیت اور قانون کا مذاق اڑایا گیا۔ نام نہاد جمہوری وزیراعلیٰ کی انصاف اور جمہوریت سے وابستگی کے نعروں کی اصلیت قوم کے سامنے آ گئی۔ رپورٹ مکمل ہونے سے پہلے رانا ثناء اللہ کی وزیر قانون کے طور پر دوبارہ تقرری اندھیر نگری، لاقانونیت اور 14 معصوم شہریوں کے خون سے مذاق ہے۔ کیا 14 شہیدوں اور 90 شدید زخمیوں کو انصاف مل گیا جو ایک قاتل کو کابینہ میں شامل کر لیا گیا؟ جے آئی ٹی کے سربراہ نے 42 گواہوں کو 30 مئی 2015ء کے دن 10 بجے گواہی کیلئے طلب کررکھا تھا جبکہ 29 مئی کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ایک قاتل رانا ثناء اللہ نے وزارت کا حلف اٹھا لیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب، رانا ثناء اللہ اور جے آئی ٹی کے سربراہ اس بات کا جواب دیں کہ ابھی جے آئی ٹی کی تحقیقات جاری ہیں تو اس جے آئی ٹی کی رپورٹ کی آڑ لے کر مرکزی قاتل نے وزارت کا حلف کیسے اٹھا لیا۔ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے رانا ثناء اللہ کو دوبارہ وزیر قانون بنائے جانے پر ردعمل دیتے ہوئے فرمایا کہ

’’قتل کی ایف آئی آر کے نامزد ملزم کو کابینہ میں شامل کر کے پنجاب حکومت نے پوری دنیا کو پیغام دیا ہے کہ وہ آئین و قانون کو مانتی ہے اور نہ اس کی کوئی سیاسی و جمہوری اخلاقیات ہے۔ عدالت رانا ثناء اللہ کو کلین چٹ دیتی تو قاتل بے گناہی کے دعویٰ میں حق بجانب ہوتے۔ گریڈ 19 کے ملازم کی سربراہی میں قائم جے آئی ٹی کی غیر تصدیق شدہ رپورٹ درحقیقت ہائیکورٹ کے سینئر جج سید باقر نجفی کی تحقیقات پر عدم اعتماد ہے۔ ہم اچھی شہرت والے پاکستانی افسران پر مشتمل غیر جانبدار جے آئی ٹی کی تشکیل چاہتے ہیں ورنہ یہاں قتل کیس میں سکاٹ لینڈ یارڈ کی طرف سے تحقیقات کئے جانے کی مثال بھی موجود ہے اور تنہا آئی ایس آئی کے افسر کی طرف سے بھی تفتیش کرنے کی مثال موجود ہے اور ان دونوں مثالوں کا تعلق بھی پنجاب سے ہے۔ سکاٹ لینڈ یارڈ نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے واقعہ کی تحقیقات کیں اور سیالکوٹ جیل میں ججز قتل کیس میں آئی ایس آئی کے کرنل نے تفتیش کی۔

رانا ثناء اللہ کی دوبارہ کابینہ میں شمولیت ملکی تاریخ کا سیاہ ترین واقعہ ہے۔ اب پنجاب میں مزید بے گناہوں کا خون بہے گا اور ظلم و بربریت کا بازار گرم ہو گا۔ جس کیس میں شریف برادران ملوث ہوتے ہیں اس میں کوئی سوموٹو ایکشن بھی نہیں ہوتا۔ انسانی حقوق اور وکلاء تنظیمیں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ہونے والی غنڈہ گردی کے خلاف آواز اٹھائیں ورنہ بااثر اور طاقت کے نشے میں بدمست حکمران اپنے مذموم مقاصد کیلئے بے گناہوں کا خون بہاتے رہیں گے‘‘۔

ملک گیر احتجاج اور شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کیلئے تقریبات کا انعقاد

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ظلم کے خلاف، انصاف کے حصول اور جعلی JIT کی جھوٹی رپورٹ کے خلاف پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے پاکستان بھر کے کارکنان نے 40 سے زائد درج ذیل شہروں میں پرامن احتجاج کیا:

  • 23 مئی 2015ء: شیخوپورہ، ننکانہ
  • 24 مئی: لاہور، سیالکوٹ، گجرات، ساہیوال، فیصل آباد
  •  29 مئی: گوجرانوالہ، نارووال
  •  30 مئی: اوکاڑہ، ہارون آباد
  •  31 مئی: ملتان، وہاڑی، جہلم، رحیم یار خان، لیہ
  •  5 جون: حافظ آباد، بھکر، جھنگ، بہاولپور، چشتیاں، خانپور
  •  6 جون: خوشاب، گوجرہ، چنیوٹ
  •  7 جون: اٹک، میانوالی، پاکپتن، سرگودھا، ڈی جی خان
  •  12 جون: مظفر گڑھ، راجن پور، دیپالپور
  •  14 جون: اسلام آباد، ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہری پور، پشاور، ڈی آئی خان، سکھر، حیدر آباد، لاڑکانہ، کراچی، کوئٹہ، سبی، نواب شاہ

ان تمام شہروں میں ہونے والے احتجاجات میں ہزاروں افراد نے خصوصی شرکت کی۔ ان احتجاجات کی قیادت محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، محترم خرم نواز گنڈا پور، محترم شیخ زاہد فیاض، محترم بشارت جسپال، محترم فیاض وڑائچ، محترم بریگیڈیئر (ر) مشتاق احمد، مرکزی صوبائی و ڈویژنل قائدین تحریک، PAT، یوتھ لیگ، MSM، علماء کونسل، ضلعی و تحصیلی اور مقامی و علاقائی تنظیمات کے عہدیداران نے کی۔ جوش و جذبات سے معمور شرکاء احتجاجات نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے خلاف حکومتی ہتھکنڈوں، جعلی JIT اور اس کی جھوٹی رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اپنے شہید بہن بھائیوں سے اظہار یکجہتی کیا اور ظلم کے اس نظام کے خلاف اپنی جدوجہد کو انصاف کے حصول تک جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔

ان تمام پروگرامز کی تفصیلات اور تصاویر www.minhaj.org اور www.pat.com.pk پر ملاحظہ فرمائیں۔

ان احتجاجات کے علاوہ مرکزی سطح پر شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے اور اس سانحہ میں زخمی ہونے والے افراد کی قربانیوں کو سلام پیش کرنے کے لئے بھی درج ذیل پروگرامز منعقد ہوئے۔

یادگارِ شہدائے ماڈل ٹاؤن

17 جون 2014ء (سانحہ ماڈل ٹاؤن) 10 اگست (یوم شہدائ) اور 31,30 اگست 2014ء (انقلاب مارچ اسلام آباد) میں ریاستی دہشت گردی کا شکار ہونے والے معصوم اور نہتے کارکنان تحریک کی قربانیوں اور شہادتوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے مرکزی سیکرٹریٹ پر یادگار شہداء قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مرکزی سیکرٹریٹ میں 5 جون 2015ء کو یادگار شہداء کا سنگ بنیاد رکھنے کی پروقار تقریب منعقد ہوئی جس میں شہداء کے ورثاء اور ان سانحات میں زخمی ہونے والے افراد نے خصوصی شرکت کی۔

قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اہلیہ محترمہ نے شہداء کے خاندان کے افراد اور زخمیوں کے ساتھ مل کر شہدائے ماڈل ٹاؤن و انقلاب مارچ کی یادگار کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے قاتلوں کو کلین چٹ دے کر ہمارے زخم تازہ کر دئیے۔ شہداء کے لواحقین سے وعدہ ہے جب تک سانس باقی ہے انصاف کیلئے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ شہداء کے عظیم اور صبر و ہمت والے لواحقین کی استقامت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ یہ شہیدوں کا خون ہے جو ہرگز رائیگاں نہیں جائے گا۔ نمرود اور فرعون نے بھی اپنا اقتدار بچانے کیلئے قتل عام کروایا تھا مگر وہ احتساب اور انجام سے نہ بچ سکے۔ حکمرانوں کے خزانوں میں اتنا پیسہ نہیں کہ وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے باہمت اور پرعزم کارکنوں کو خرید سکیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پوری دنیا کیلئے ایک درد ناک اور المناک واقعہ ہے۔ حکمرانوں نے بے گناہوں کا خون بہا کر اپنے چہروں پر جو سیاہی ملی اس کے داغ قیامت تک نہیں دھلیں گے۔

تقریب سے امیر تحریک صاحبزادہ فیض الرحمن درانی، مرکزی صدر ڈاکٹر رحیق عباسی، بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خاں، ویمن لیگ کی صدر فرح ناز، جواد حامد، راجہ زاہد، حافظ غلام فرید و دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔

  • 10 جون 2015ء کو مرکزی منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیر اہتمام لبرٹی چوک لاہور میں خواتین اور بچوں کی واک ہوئی اور شہداء کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں۔ اس تقریب میں دیگر تنظیمات، سول سوسائٹی اور عامۃ الناس میں سے کثیر تعداد میں خواتین نے شرکت کی۔
  • خونِ شہداء سے وفا کا عزم لئے یوتھ لیگ اور مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے زیر اہتمام پنجاب اسمبلی کے سامنے چیئرنگ کراس پر 15 جون تا 17 جون تک 3 روزہ احتجاجی کیمپ لگایا گیا۔ اس کیمپ میں ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت نے اظہار یکجہتی کے طور پر خصوصی شرکت کی اور حکومت کے اس دہشت گردانہ اقدام کی پرزور مذمت کرتے ہوئے ہر صورت انصاف کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔
  • شہداء کی عظمت کو سلام پیش کرنے اور ہر سطح پر حکومت کے اس ناروا سلوک کو اجاگر کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے آفس میں بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کی یادداشت پیش کی گئی۔ علاوہ ازیں تمام سفارت خانوں اور یورپی یونین کو بھی اس ضمن میں خطوط ارسال کئے گئے جس میں اس سانحہ کا عالمی سطح پر نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔

شہداء کی برسی کے موقع پر مرکزی تقریب

16 جون 2015ء کو مرکزی سیکرٹریٹ کے سامنے منہاج القرآن گراؤنڈ میں پاکستان عوامی تحریک کے زیر اہتمام شہداء ماڈل ٹاؤن (17 جون)، شہداء 10 اگست (یوم شہداء) اور شہداء انقلاب مارچ اسلام آباد (30 ،31 اگست) کی قربانیوں کو خراج عقیدت اور زخمیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے پروقار تعزیتی ریفرنس منعقد ہوا۔ جس میں لاہور ڈویژن سے ہزاروں کارکنان نے شرکت کی جبکہ منہاج TV کے ذریعے پوری دنیا میں موجود کارکنان و تنظیمات اس تعزیتی ریفرنس میں شریک تھے۔ اس تقریب میں لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بھی خصوصی طور پر شریک تھے۔ محترم قاری اللہ بخش نقشبندی نے تلاوت کلام مجید اور محترم افضل نوشاہی نے نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس تقریب کا آغاز کیا۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض محترم رفیق نجم، محترم اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ، محترمہ راضیہ نوید اور محترمہ عائشہ شبیر نے سرانجام دیئے۔

مہمانانِ گرامی قدر

محترم شیخ زاہد فیاض نے جملہ شہداء کے ورثائ، لواحقین اور فیملیز کو بطور مہمان خصوصی پنڈال میں خوش آمدید کہا اور شرکاء تقریب نے کھڑے ہوکر ان کا والہانہ استقبال کیا۔ بعد ازاں شہداء کے ان ورثاء کو مرکزی سٹیج ہی کی طرح کے الگ خوبصورت و باوقار سٹیج کی زینت بنایا گیا۔

مرکزی سٹیج پر محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، محترم شاہ محمود قریشی (PTI)، محترم راجہ ناصر عباس (مجلس وحدت المسلمین)، محترم امین شہیدی (MWM)، محترم میاں منظور احمد وٹو (PPP)، محترم لیاقت بلوچ (جماعت اسلامی)، محترم شیخ رشید احمد (عوامی مسلم لیگ)، محترم چوہدری محمد سرور (سابق گورنر پنجاب)، علامہ معصوم حسین (JUP) اور مختلف سیاسی و سماجی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قائدین و جملہ طبقہ ہائے زندگی کی نمایاں و سرکردہ شخصیات موجود تھیں۔

قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی دختر محترمہ قرۃ العین فاطمہ، مسز حسین محی الدین محترمہ فضہ حسین قادری اور قائد انقلاب کی دو ہمشیرہ محترمہ نصرت جبین قادری اور محترمہ مسرت جبین قادری بھی اپنی فیملیز کے ہمراہ شہداء کے ورثاء اور لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ہر قدم پر ان کے ساتھ ہونے کا عہد لے کر شہداء کی فیملیز کے ہمراہ تشریف فرما تھیں۔

تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے جملہ مرکزی، صوبائی اور ڈویژنل قائدین بھی مرکزی امیر تحریک محترم صاحبزادہ فیض الرحمن درانی، مرکزی صدر PAT محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی اور ناظم اعلیٰ تنظیمات محترم شیخ زاہد فیاض کے ہمراہ سٹیج کی زینت تھے۔

استقبالیہ کلمات

محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے کلمات استقبالیہ پیش کرتے ہوئے جملہ مہمانان گرامی اور ورثاء شہداء کو مرکزی تقریب میں خوش آمدید کہا۔ انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 17 جون 2014ء کو اس جگہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی بدترین ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ ہوا جس میں 14 لوگوں کو شہید اور 100 لوگوں کو زخمی کیا گیا۔ اس دن سے آج تک ہمارے کارکنوں کے ساتھ ریاستی دہشت گردی کا یہ مظاہرہ جاری ہے۔ آج تمام جماعتوں کا اس جگہ اکٹھے ہونا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اب ہم کسی صورت ریاستی دہشتگردی کو برداشت نہیں کریں گے اور اس کے خاتمہ کے لئے ہم سب ایک ہیں۔ ہم آج یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ شہداء کے خون کو معاف کیا اور نہ کریں گے۔ شہداء کے خون نے پاکستان کی تاریخ کا رخ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہی قربانیوں سے مصطفوی، عوامی جمہوری انقلاب کا سویرا طلوع ہوگا۔ اس موقع پر ہم شہداء کے ورثاء کو بھی سلام محبت پیش کرتے ہیں کہ جنہیں حکمرانوں نے ڈرانے، دھمکانے اور خریدنے کی کوشش کی مگر وہ نہ جھکے، نہ بکے اور نہ ڈرے۔جملہ شرکاء اور مہمانان گرامی نے کھڑے ہوکر ورثاء و لواحقین شہداء کی ہمت، استقامت اور صبر کو خراج تحسین پیش کیا۔

خطابات ورثاءِ شہداء

اس پروقار تقریب میں ورثاء و لواحقین شہداء میں سے بعض نے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔

  • محترمہ تنزیلہ امجد شہیدہ کی بیٹی محترمہ بسمہ امجد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 17 جون کو مرکز اور قائد انقلاب کے گھر پر حکومتی دہشتگردوں نے حملہ کیا۔ وہ دہشتگرد زبان سے گالیاں، بندوق سے گولیاں برساکر انسانیت کا خون بہارہے تھے۔ یہ وہ رات تھی جب میری ماما اور پھوپھو کو مجھ سے چھین لیا گیا اور آج تک انصاف کا سویرا طلوع نہیں ہوا۔ میری ماما اور پھوپھو کے قاتلو سن لو! تمہاری غلط فہمی ہے کہ تم ڈاکٹر طاہرالقادری کے کارکنوں کو خوف زدہ کردو گے یا خریدلو گے۔ آج تمہارے سامنے ایک اور تنزیلہ موجود ہے۔ ہم چھوٹے صحیح مگر مظلوموں کی خاطر ہمارا خون کا آخری قطرہ بھی حاضر ہے۔ ہماری رگوں میں شہداء کا خون ہے۔ میری ماما اور پھوپھو نے مظلوموں کی خاطر جان دے کر امن کا دیا جلایا، جس سے مزید دیے جلیں گے۔ تمہاری JIT نے تمہیں بری کردیا مگر اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، تم اس سے بچ نہیں سکتے، یہی خون تمہیں تختہ دار پر لٹکائے گا۔ آج میں اپنی ماما اور پھوپھو سے عہد کرتی ہوں کہ ظلم کے خلاف جدوجہد جاری رکھوں گی۔ اپنی ماما اور پھوپھو کے بعد اب کسی اور کی ماما کو ان ظالموں کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔ میر اانصاف کے علمبرداروں سے سوال ہے کہ کیا سپریم کورٹ کی دیواریں شہداء کے خون سے زیادہ مقدس ہیں کہ اب تک منصفوں کی طرف سے کوئی سوموٹو ایکشن نہیں لیا گیا۔ منصفِ اعلیٰ! میرے بہن بھائی انصاف کی تلاش میں ہیں۔
  • محترم غلام رسول شہید کے بیٹے محترم اشفاق رسول نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 17 جون کو 14لوگوں کو شہید اور سینکڑوں کو زخمی کیا گیا۔ ہم اس ریاستی دہشتگردی اور گلوبٹوں کے ذریعے بدمعاشی کو مسترد کرتے ہیں۔ JiT کو معاشرے کے لوگوں نے جوتے کی نوک پر رکھا۔ پٹیالہ ہاؤس میں جو سکرپٹ تیار کیا گیا قوم نے اس کو ان کے ہی منہ پر دے مارا۔ ہمیں انصاف چاہئے جس میں ظالموں کو تختہ دار پر لٹکایا جائے۔ہم شہیدوں کا خون ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ ’’دیت نہیں صرف قصاص‘‘
  • محترم عاصم حسین شہید کے بھائی محترم محمد اویس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ17 جون 2014ء کو قتل و غارت اور ریاستی دہشت جبرو بربریت کے پہاڑ توڑ دیئے گئے۔ انصاف کا ڈھنڈورا پیٹنے والو میرے بھائی کا انصاف کیوں نہ دے سکے۔ وہ وقت آئے گا جب ظالم اپنے انجام کو پہنچے گا۔ کب تک اپنے اقتدار کی اوٹ میں چھپتے پھروگے۔ ہم نہ بکنے والے ہیں اور نہ جھکنے والے ہیں۔ ملک کی خاطر، اپنی بہنوں کی عزت و حرمت اور غریبوں کے حقوق کے لئے خون کا آخری قطرہ پیش کردیں گے۔ کیا مظلوموں کو گولیاں مارنا اور انصاف نہ دینا جمہوریت ہے۔ اس ملک میں جمہوریت اور انصاف نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ جو کہتے ہیں پیسے لے لو اور خون بیچ دو، وہ سن لیں! ہم طاہرالقادری کے کارکن ہیں تم ہمیں نہیں خرید سکے، طاہرالقادری کو کیا خریدو گے۔ لوگو! شعور کی آنکھ کھولو آج ہمارے لوگوں پر ظلم و ستم ہورہا ہے تو کل آپ کی باری بھی ہوسکتی ہے۔
  • محترم رضوان خان شہید کے والد محترم محمد خاں نے کہا کہ ہم یہاں انصاف کی تلاش کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں۔ حکومت اپنے کارندوں کے ذریعے چھپ کر اور کبھی سامنے آکر دھمکیاں دیتی ہے۔ ہم پر دیت لینے پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ ہم قاتل اعلیٰ کو بتادینا چاہتے ہیں کہ ابھی میرے دو اور جوان بیٹے بھی ہیں میں ان دو بیٹوں کو بھی انصاف کے حصول کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہوں۔ تم نے مجھے 30لاکھ کی آفر دی، میں تمہیں 60 لاکھ کی آفر دیتا ہوں، اپنا بیٹا میرے حوالے کرو تاکہ میں بھی اسے گولیاں مارسکوں۔ قرآن کا اصول ہے خون کا بدلہ خون ہے۔ ہمیں خون کا بدلہ خون چاہئے۔ تم خود کو آج نہیں تو کل قانون کے حوالے کرو گے۔ تم انصاف نہیں دے سکتے کیونکہ تمہارا مشن لاقانونیت ہے جبکہ ہمارا مشن امن، سلامتی، محبت اور جمہوریت ہے۔
  • اس موقع پر محترم محمد افضل نوشاہی نے شہداء کے خراج عقیدت پر مبنی محترم سید الطاف حسین گیلانی کے تحریر کردہ درج ذیل تحریکی ترانہ کو پیش کرکے سماں باندھ دیا۔

 میرے شہیدو نکھر گئے ہو۔۔ برنگ خوشبو بکھر گئے ہو
ہمارے اشکوں سے غسل کرکے۔۔ نہ جانے تم کس نگر گئے ہو

لہو سے روشن چراغ کرکے۔۔ سفر یہ آسان کرگئے ہو
بجھاسکے گا نہ یہ زمانہ۔۔چراغ روشن جو کرگئے ہو

خطابات مہمانانِ گرامی

اس تقریب میں موجود مہمانان گرامی نے اپنے اپنے انداز میں شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔

  • محترم شاہ محمود قریشی (سینئر وائس چیئرمین PTI) نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں تمام شہداء کو جرآت اور جوانمردی سے حکومت کی درندگی کا سامنا کرنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ جو صبر آزما سال آپ نے گزارا، اس پر آفرین ہے۔ آپ کی جرآت اور صبر کو سلام پیش کرتا ہوں اور آپ سے اظہار یکجہتی کرتا ہوں۔ ایک سال پہلے ماڈل ٹاؤن کے اس علاقے میں جو خون کی ہولی کھیلی گئی وہ قوم کے سامنے ہے۔ پاکستان عوامی تحریک نے ایک سال مختلف انداز میں مختلف ذرائع سے، تحریر اور تقریر کے ذریعے، آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرکے اور مختلف فورمز پر اس سانحہ کے خلاف آواز بلند کی مگر آج تک انصاف نہ ملا۔ آج قوم پہچان چکی ہے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون؟ میں آج مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے آیا ہوں۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو دبادیا گیا اور جھوٹی JiT سے اپنے آپ کو خود ہی بے گناہ قرار دلوا دیا گیا۔ جن کو آپ اس واقعہ کا ذمہ دار سمجھتے ہیں ان کو حکومت پنجاب باوقار سمجھتی ہے، جو آپ کے شہداء کے قاتل ٹھہرے وہ آج قانون کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ایسی حکومت سے انصاف کی توقع نہیں۔ اگر اس سانحہ کا نوٹس لیا ہوتا تو میں اعتماد سے کہتا ہوں کہ فیصل آباد، ڈسکہ، اسلام آباد اور راولپنڈی میں پولیس گردی کے واقعات نہ ہوتے۔ لوگ پولیس کو محافظ سمجھتے ہیں، کیا محافظوں کا یہی رویہ ہوتا ہے؟ کیا اس کو جمہوریت کہتے ہیں؟ ہمیں مظلوم طبقے کو جگانا ہوگا، انہیں سر اٹھاکر جینے کا سبق دینا ہوگا، انہیں اپنے حقوق سے آگاہ کرنا ہوگا اور ان ظالموں سے بچانا ہوگا۔ اس جدوجہد میں ہم کل بھی اکٹھے تھے اور آج بھی اکٹھے ہیں۔ ہم شہداء کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔
  • محترم شیخ رشید احمد (سربراہ عوامی مسلم لیگ) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج شہداء کے لواحقین کو سلام پیش کرتا ہوں۔ 17 جون کو نہتے بے بس لوگ سینے پر گولیاں کھاتے رہے مگر حکومتی ظلم کے آگے سر نہیں جھکایا۔ آپ نے حکومت سے معاوضہ بھی نہیں لیا اور ان کے پیسوں پر لعنت بھیجی ہے۔ آپ نے قربانیوں کی لازوال داستان رقم کی ہے، آپ کو انصاف ضرور ملے گا۔ ان شہداء کی اگلی برسی سے قبل ان شاء اللہ انصاف مل جائے گا اور قاتل اپنے انجام کو پہنچیں گے۔
  • محترم راجہ ناصر عباس سربراہ مجلس وحدت المسلمین نے کہا کہ ان شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے ظلم کے نظام کے خاتمے اور ظلم کی سیاہ رات کے خاتمہ کے لئے اپنا خون پیش کیا۔ سینوں پر گولیاں مارکر ظالموں نے مظلوموں کو خاموش کرنے کی کوشش کی۔ ظالم ہر رنگ کو مٹاسکتے ہیں مگر شہید کے سرخ لہو کو کوئی نہیں مٹا سکتا۔ بعثت انبیاء کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کی زمین پر عدل حاکم ہو۔ انبیاء کرام نے ظلم کے خاتمے کے لئے عدل کا جھنڈا لہرایا۔ اس زمین کے وارث مظلوم ہیں۔ ظالم حکمران مظلوموں کو قوم، صوبہ، مسلک اور مذہب کے نام پر تقسیم کرکے ان پر مسلط ہیں، ایسی صورت حال میں تمام مظلوموں کو اکٹھے ہونا ہوگا۔ حضرت علیؓ نے وقتِ شہادت اپنے بیٹوں سے فرمایا تھا کہ ’’ظالموں کے دشمن بن کر رہنا اور مظلوموں کے معاون بن کر زندگی گزارنا‘‘۔ یہ تحریک مظلوموں کے حقوق کی جنگ ہے، دنیا کا کوئی فرعون اس کو نہیں روک سکتا۔ یہ ظالم حکمران ظلم و ستم سے ملک کے اقتدار پر قابض رہنا چاہتے ہیں۔ کیا یزید نے کربلا والوں پر ظلم و ستم سے اپنے اقتدار کو بچالیا تھا؟ حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اس قتل و غارت سے مظلوموں کو کمزور کردیا ہے تو وہ خواب غفلت میں ہیں۔ شہداء کا خون اپنا رستہ خود بناتا ہے، وہ ظالموں کے ایوان تک جاپہنچے گا۔ ہم نے ثابت قدم رہنا ہے، اکٹھا رہنا ہے اور اللہ کے توکل اور صبر و حوصلہ سے ہر مشکل کا سامنا کرنا ہے۔ ہم نے مظلوموں کا ساتھ دینے کا عہد کیا ہے، ہم نہ ڈریں گے اور نہ جھکیں گے۔ ہم ان کے ماننے والے ہیں جو کم تھے مگر یزید کے سامنے نہیں جھکے۔ ہم ان کے راستے پر ہیں جو سرجھکانا نہیں بلکہ سرکٹانا جانتے ہیں۔
  • اس موقع پر شاعر انقلاب انوارالمصطفی ہمدمی نے شہداء کی قربانیوں کو منظوم خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ

گریبان چاک ہونا ہے تمہارا ظالموں اک دن
یہ اکھڑا سانس پھر تم کو لہو پینے نہیں دے گا

وہ 17 جون کا قصہ وہ بہتے خون کا قصہ
ہمیں مرنے نہیں دے گا تمہیں جینے نہ دے گا

عزم و وفا کی راہ کے اجالو! تمہیں سلام!
کہتی ہے میری نگاہ شہیدو! تمہیں سلام!

  • محترم میاں منظور احمد وٹو (صدر PPP پنجاب) نے کہا کہ ہم شہداء کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے یہاں حاضر ہوئے ہیں۔ شروع دن سے ہم آپ کے ساتھ شریکِ غم رہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر آپ کو انصاف نہیں ملا، یہ ظلم ہے۔ انصاف کے حصول تک ہم آپ کے ساتھ رہیں گے اور آواز بلند کرتے رہیں گے۔ حکمرانوں نے خود جوڈیشل کمیشن بنایا اور اس کی رپورٹ کو آج تک چھپاکر بیٹھے ہیں جبکہ ایک جعلی JiT بناکر پوری دنیا کے آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ جج صاحبان جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے لئے سوموٹو کیوں نہیں لے رہے۔ وہ سوموٹو کے ذریعے کمیشن کی رپورٹ عام کرائیں اور شہداء کو انصاف دلائیں۔ حکمران یہ کہتے ہیں کہ پولیس نے یہ سب اپنے طور پر کیا، میں اڑھائی سال پنجاب کا وزیراعلیٰ رہا اور میرے پاس صرف 18 ممبران تھے، پھر بھی پولیس والے اس طرح گولی نہیں چلاسکتے تھے۔ آج وزیراعلیٰ کے پاس دو تہائی اکثریت ہے، اس کے حکم کے بغیر یہ سانحہ ہوہی نہیں سکتا۔ وہ کس طرح کہتے ہیں وہ بے قصور ہیں۔ جس معاشرے میں انصاف نہیں ملتا، وہ معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں۔ ظلم زیادہ دیر نہیں چلتا، بالآخر مٹ جاتا ہے۔ شہداء کے لواحقین خراج تحسین کے لائق ہیں کہ انہوں نے اپنے پیاروں کے خون کا سودا نہیں کیا اور اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ آپ کو انصاف مل کر رہے گا، دنیا کی کوئی طاقت آپ کو انصاف سے دور نہیں کرسکتی ۔
  • سابق گورنر پنجاب محترم چوہدری محمد سرور نے کہا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اسلام، انسانیت اور یورپ میں نوجوان نسل کو اسلام سکھانے کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ میں نے پوری دنیا میں اس جماعت کو دیکھا ہے، یہ پرامن جماعت ہے، تشدد والی نہیں۔ اگر کوئی ان پر یہ الزام لگاتا ہے تو میں نے جو کچھ 30 سال یورپ میں ان کے حوالے سے دیکھا، اس کی روشنی میں اس الزام کو یکسر رد کرتا ہوں۔ آج سے ایک سال پہلے یہاں ظلم و بربریت کی وہ داستان لکھی گئی جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ہم شہداء کو انصاف ملنے تک ان کے ساتھ ہیں۔ ہم میں سے کسی کے عزیز کے ساتھ ظلم ہو اور پھر انصاف بھی نہ ملے تو ہم پر کیا بیتے گی۔ نہ جانے شہداء کے ورثا کس کرب میں ہیں کہ ان کو ابھی تک انصاف نہیں ملا۔ میں PTI کے پلیٹ فارم سے وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک سانحہ ماڈل ٹاؤن پر انصاف نہیں ملے گا، ہم PAT کے ساتھ ہیں۔ ہمارے حکمران پولیس کے ذریعے اپنے اقتدار کو طول دیتے ہیں، ان کے ذریعے جس پر چاہیں ظلم کرتے ہیں، ان کو سزا ضرور ملے گی۔ ہمیں مل کر ظلم کے نظام کو بدلنا ہوگا اور متحد ہوکر اس ظالمانہ نظام کی زنجیروں کو توڑنا ہے۔
  • محترم صاحبزادہ حامد رضا (سربراہ سنی اتحاد کونسل) نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں قاتل کو سزا نہیں ملتی بلکہ جس نے قتل و غارت گری کی، اس کو اتنی ہی بلندی ملی۔ آرمی عدالتیں بنائی گئی ہیں، ان عدالتوں میں سب سے بڑا ٹرائل شہباز شریف کا ہونا چاہئے جو سب سے بڑا ٹارگٹ کلر ہے۔ قتل عام کروانے کے باوجود بغیر کسی فیصلہ کے رانا ثناء اللہ کو دوبارہ وزارت مل گئی۔ عدلیہ سے گزارش ہے کہ اس قتل عام پر آپ کب تک خاموش رہیں گے۔ افسوس! پاکستان میں انصاف ملتا نہیں بلکہ بِکتا ہے۔ شہداء کے ورثاء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو صبرو استقامت سے ظلم کے خلاف آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ پاکستان کو حقیقی آزادی دلوانے کے لئے قربانیاں دینے والوں کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ ہم پہلے بھی آپ کے ساتھ تھے اور آئندہ بھی آپ کے ساتھ ہیں۔
  • اس پروقار تقریب کے آخر میں محترم عامر فرید کوریجہ نے شہداء کو خراجِ عقیدت، ورثاء کو خراج تحسین اور مہمانان گرامی و شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو خطاب کی دعوت دی۔۔

خطاب قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

 قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن (17جون)، یوم شہداء (10 اگست) اور انقلاب مارچ اسلام آباد (30، 31اگست) کے شہداء کی قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ اس ملک کو بہتر بنانے کے لئے نکلے اور اپنے خون سے نئی تاریخ رقم کی۔ تمام لواحقین کو یقین دلاتا ہوں کہ شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ یہ عام خون نہیں ہے بلکہ شہادت کا خون ہے جو منزل مقصود تک پہنچ کر رہتا ہے۔ 17 جون 2014ء کو شہیدوں کے قاتلوں اور ان کے معاونین کو بتادینا چاہتا ہوں کہ آپ میں اور ہم میں فرق ہے۔ آپ ان لوگوں کے پیروکار ہیں جنہوں نے شہدائے کربلا کے جسموں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور ہم ان کے پیروکار ہیں جن کے سر کٹ کر خنجر پر بھی تلاوت کرتے رہے۔ ہمیں اپنی منزل پر یقین اور اپنے کام پر فخر ہے۔ شکست اُسے ہوا ہوتی ہے جسے کامیابی کا یقین نہ ہو۔ جس کا یقین متزلزل ہو وہ تخت کے لئے سودا کرتے ہیں اور جن کا دین، غیرت، حمیت، یقین اور کردار نہیں بکتا ان کے جسم کے ٹکڑے بھی ہوجائیں تو پھر بھی وہ فتح یاب ہوتے ہیں۔ ان حکمرانوں نے ظلم کی اندھیری رات میں پاکستان کو دھکیل رکھا ہے۔ یاد رکھو! کوئی رات ایسی نہیں آتی جس کو صبح نہ آئی ہو۔ ہماری جدوجہد سے صبح ضرور طلوع ہوگی۔ ہم فجر کے اجالے کے دوست ہیں اور حکمران اندھیرے کے دوست ہیں۔ ہم انصاف کے لئے ظلم کے خلاف آخری دم تک لڑیں گے۔ ہم ظلم کے سامنے نہ جھکے، نہ جھکیں گے اور نہ جھک سکتے ہیں۔

شہیدوں کے خاندان کو ایک سال گزرنے کے باوجود خریدا نہیں جاسکا۔ حکمران پیسوں اور فرعونیت سے شہیدوں کے خون کا ایک قطرہ تک نہیں خرید سکے۔ حکمرانوں کو اپنی فرعونیت پر ناز ہے جبکہ ہمیں اپنی فقیری اور کردار پر ناز ہے۔ میری جماعت کے لوگ کوئی کروڑ پتی نہ تھے۔ تم ان کو خریدنے کے لئے گئے، جن کے پاس وسائل نہ تھے پھر بھی کسی کو نہ خرید سکے، اس لئے کہ ان کے پاس ایمان و کردار کی دولت ہے۔ حکمران یہ تاثر دیتے ہو کہ ہم نے ڈیلنگ کی ہے۔ سن لو! ہم اس طرح کی کسی بھی قسم کی ڈیلنگ پر لعنت بھیجتے ہیں۔ ہمارے کارکنوں کے پاس ایمان، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق، صحابہ و اہل بیت کے کردار کی پیروی کی دولت، اخلاص، جرات، شجاعت اور درد دل کی دولت ہے، یہ تمہارے جیسے کروڑوں سے بھی زیادہ غنی ہیں۔

ححکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ یہاں قتل و غارت کرنے نہیں بلکہ بیئررز ہٹانے آئی تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں کوئی بتادے کہ کیا کہیں کبھی بھی بیئررز ہٹانے کے لئے 18 تھانوں کی پولیس گئی ہے؟ یہ بیئررز خود ماڈل ٹاؤن پولیس نے 4 سال پہلے لگوائے۔ سوال یہ ہے کہ حفاظت کے لئے لگائے گئے یہ بیئرر پولیس کس کے حکم پر ہٹانے آئی تھی؟ سانحہ ماڈل ٹاؤن کسی بیئرز کو ہٹانے کے موقع پر حادثاتی طور پر نہیں ہوا بلکہ یہ ایک منظم منصوبہ تھا۔ مظلوموں کی آواز دبانے کی سازش تھی، جس میں پر وہ ناکام ہوگئے۔ نہ وہ آواز دبی اور نہ وہ تحریک ختم ہوئی۔

سوال کیا جاتا ہے کہ JiT میں PAT کے لوگ شامل کیوں نہیں ہوتے؟ کیا کبھی دنیا میں قاتل کی بنائی گئی JIT میں مقتول شامل ہوتے ہیں۔ یہ قاتلوں کی بنائی گئی JiT ہے۔ ہم نواز شریف اور شہباز شریف کو قاتل سمجھتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان کے دور حکومت میں انصاف نہیں ملے گا مگر ایک وقت آئے گا جب انصاف ملے گا اور یہ پھانسی کے تختہ پر چڑھیں گے۔ یہ لوگ خود ڈیلنگ کی پیداوار ہیں۔ 1999ء میں ڈیل کے نتیجے میں ہی 10 سال کے لئے ملک سے باہر گئے تھے، اس لئے ہم پر اس طرح کے الزام لگاتے رہتے ہیں۔ ہمارے ساتھ JiT بنانے کے لئے ان کا معاہدہ ہوا تھا کہ JiT کا سربراہ پنجاب کو چھوڑ کر کسی اور صوبہ کا ہوگا۔پنجاب پولیس ہمارے کارکنوں کی قاتل ہے میڈیا نے جس کی درندگی 14 گھنٹے تک پوری دنیا میں دکھائی، لہذا ہم قاتل پولیس کی سربراہی میں بنائی گئی JiT کو کس طرح مان لیں۔ سوال یہ ہے کہ پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں سے JiT کیوں نہیں بناتے؟ انہیں کس چیز کا خوف ہے؟ ہم انصاف کے حصول کے لئے جنگ جاری رکھیں گے، انصاف ان شاء اللہ اپنے وقت پر ملے گا۔ ہم حوصلہ ہارنے کو کفر سمجھتے ہیں۔

  • میرا سوال ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاون سے ایک دن پہلے پنجاب کے IG کو کیوں تبدیل کیا گیا؟

میرا سوال ہے کہ جوڈیشل کمیشن ہم نے نہیں بنایا تھا پھر شہباز شریف اس کی رپورٹ کو شائع کیوں نہیں کرتے؟ اس رپورٹ نے ان پر ذمہ داری ڈال دی لیکن یہ ابھی تک اپنے عہدے پر بیٹھے ہیں۔ اگر ان کا ضمیر ملامت کرتا تو یہ عہدے سے استعفیٰ دے دیتے۔ انہوں نے تو اپنے وکیل کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کو چیلنج کروا رکھا ہے تاکہ اس کی تشکیل اور فیصلہ کو ہی غیر قانونی قرار دلوادیں۔ اگر نواز شریف اور شہباز شریف بے گناہ ہیں تو اس رپورٹ کو شائع کرنے میں ان کو کیا ڈر ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہائی کورٹ کے جج کی رپورٹ کو شائع نہیں کرتے اور اس سے نچلے درجے کے اپنے ملازموں کی بنائی ہوئی رپورٹ کو مان رہے ہیں۔

  • میرا سوال ہے کہ 16/ 17جون کو پولیس کس کے کنٹرول میں تھی؟ شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی ہیں اور وزیر داخلہ بھی ہیں۔ اگر اس سانحہ کی ذمہ داری ان کی JiT کے مطابق پولیس ہے تو پولیس کے ہیڈ تو بطور وزیر داخلہ بھی شہباز شریف ہی ہیں۔ پولیس براہ راست ان کے کنٹرول میں ہے لہذا اس واقعہ کی ذمہ داری بھی ان پر ہی عائد ہوتی ہے۔
  • میرا سوال ہے کہ اگر پنجاب حکومت بے گناہ ہے تو غیر جانبدار JiT کیوں نہیں بناتے؟ ان کو معلوم ہے کہ اگر غیر جانبدار JiT بنی تو قتل کا کھرا ان کے گھر تک جائے گا۔ ان کو انصاف کے لئے نہیں بلکہ انصاف کے قتل کے لئے کمیشن چاہئے۔ دنیا کے کسی حصے میں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ قاتل انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہوں۔ لہذا قاتلوں کی بنائی ہوئی JiT میں ہم کیسے شامل ہوسکتے ہیں۔ یہ JITمظلوموں کو انصاف دینے کے لئے نہیں بلکہ قاتلوں کو تحفظ دینے کے لئے ہے۔
  • میرا سوال ہے کہ DiG آپریشن رانا عبدالجبار کے خلاف کیا کاروائی ہوئی؟اگر پولیس افسران اس سانحہ میں ملوث ہیں تو ان کو سزا کیوں نہیں دی گئی؟ وہ تو اب بھی نوکری پر بحال ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا، قاتل نظر نہیں آیا۔۔۔ کراچی میں ہلاکتیں ہوتی ہیں وہاں قاتل کا پتہ نہیں چلتا۔۔۔ جبکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا واقعہ تو جداگانہ ہے۔ میڈیا 14 گھنٹے پولیس کو گولیاں چلاتے ہوئے دکھارہا ہے، ان کے چہرے سب کے سامنے ہیں۔ قاتل سامنے ہیں صرف منصوبہ ساز چھپے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو سامنے آگئے ان میں سے کتنے جیلوں میں ہیں؟ غیرت اور حیا نام کی کوئی شے ان حکمرانوں کے اندر نہیں ہے۔ ان حکمرانوں کے ساتھ بے ضمیر ہوجانے والے اور قتل کرنے والوں کا بھی یہی انجام ہوگا۔ جہاں یہ حکمران جائیں گے وہ بھی وہیں جائیں گے۔

یہ کہتے ہیں JiT کا سربراہ کوئٹہ سے لیا ہوا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عبدالرزاق چیمہ بلوچستان کے ہے ہی نہیں بلکہ وہ تو پنجاب سے ہیں۔ وہاں Depotation پر گئے ہیں۔ ساری زندگی انہوں نے پنجاب میں نوکری کی۔ وہ ہمیشہ پنجاب کے افسر رہے، ان کو پینشن بھی پنجاب سے ملنی ہے تو وہ کوئٹہ سے کیسے ہوگئے؟ یہ حکمران لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں کہ JiT کے سربراہ کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔

  • میرا سوال ہے کہ اگر آپ کا اس سانحہ سے کوئی تعلق نہیں تو پھر ایک بیریئر کے لئے اتنے لوگوں کو کیوں شہید کیا اور خود اگست میں پورے پنجاب کو کنٹینر لگواکر بند کیوں کروادیا۔

میرا سوال ہے کہ ماڈل ٹاؤن آپریشن کے فیصلہ کی میٹنگ میں توقیر شاہ کیوں شریک تھے حالانکہ وہ تو کسی محکمہ کے نمائندہ نہیں بلکہ وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری ہیں جو وزیراعلیٰ کی ہدایات پر ہی شریک ہوتے اور ان کو ہر رپورٹ دیتے ہیں۔ اس میٹنگ میں توقیر شاہ کی موجودگی کے باوجود وزیراعلیٰ بے خبر کیسے ہوسکتے ہیں! مزید یہ کہ اس میٹنگ میں وفاقی حکومت کے افسران کیوں شریک ہوئے؟ جو کہ نواز شریف کے زیرنگرانی ہیں اور ان کو رپورٹ دینے کے پابند ہیں، ان کی موجودگی میں نواز شریف اس واقعہ سے کس طرح بے خبر ہوسکتے ہیں۔۔۔!

  • میرا سوال یہ ہے کہ اگر آپ قاتل نہیں تو پھر قاتل کون ہے؟ کوئی تو قاتل ہے اگر پولیس کے افسران قاتل ہیں تو پھر بھی قاتل آپ ہی ہیں کیونکہ وہ آپ کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے۔۔
  • میرا سوال ہے کہ رانا ثناء اللہ کو وزیر قانون اور توقیر شاہ کو سوئٹرز لینڈ میں سفیر کیوں بنایا گیا؟ اس لئے کہ شہباز شریف کو خطرہ ہے کہ کہیں وہ وعدہ معاف گواہ نہ بن جائیں کیونکہ وہ ان کے تمام کرتوتوں کو جانتے ہیں۔ ہمارے کارکنوں کے قاتل شہباز شریف اور نواز شریف ہیں۔ سن لو! عمر بھر تم نے حکمران نہیں رہنا۔

تم سے پہلے بھی اک شخص یہاں تخت نشین تھا اس کو بھی اپنے خدا ہونے پر اتنا ہی یقین تھا

اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ہم واقعہ کربلا کے شہداء کی فتح کا یقین رکھنے والے ہیں۔ آپ کو دولت اور اقتدار پر یقین ہے ہمیں رب العزت کی قدرت پر یقین ہے۔

پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کا ولولہ زندہ ہے اور انصاف کے حصول تک ہم پرامن احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ یاد رکھ لیں کہ جو باطل کے ساتھ کسی بھی سطح پر سمجھوتہ نہیں کرتے وہ کبھی شکست نہیں کھاسکتے۔ ہم حق کے لئے زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔ ظالمو! تمہاری ظلم کی رات کا خاتمہ ہونے والا ہے اور ہماری صبح کا آغاز ہونے والا ہے‘‘۔

محترم قارئین! پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان آج تک قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ 1200 سے زائد کارکنوں پر قائم 42 مقدمات کی شفاف تحقیقات ابھی تک ممکن نہیں ہوسکیں۔ PAT کی طرف سے ان کیلئے غیر جانبدار جے آئی ٹی تشکیل دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ ہمارے بے گناہ کارکنوں کو آج بھی پولیس کی معیت میں درج کئے گئے جھوٹے مقدمات کے تحت ہراساں کیا جارہا ہے۔ یہ تمام مقدمات 23 جون 2014ء سے لے کر ستمبر 2014ء کے درمیان راولپنڈی، گھکھڑ، کامونکی، گوجرہ، بھکر، سرگودھا، واہ بھچراں میانوالی، خوشاب، اوکاڑہ، دیپالپور، چنیوٹ، خانیوال، بہاولپور، شور کوٹ، بھیرہ انٹرچینج کے مختلف تھانوں میں درج کئے گئے۔ 90 فیصد سے زائد مقدمات میں پولیس نے گھروں میں سوئے ہوئے کارکنوں پر ریڈ کر کے انہیں گرفتار کیا، سامان لوٹا، خواتین سے بدتمیزی کی اور الٹا ان ہی کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرلئے گئے۔ پرامن کارکنوں کو راستوں میں گرفتار کر کے مقدمات درج کئے گئے۔ پنجاب حکومت نے پنجاب پولیس کے ذریعے انتقامی رویے کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ تاہم ان تمام مظالم کے باوجود تحریک اپنے موقف پر استقامت کے ساتھ آج بھی قائم ہے اور کارکنان تحریک قائد انقلاب کے سنگ اس جدوجہد کو ان شاء اللہ کامیابی سے ہمکنار کریں گے۔ زززز

انقلاب مارچ کے زخمی سیف اللہ چٹھہ (رہنما PATگوجرانوالہ)کا انتقال

گذشتہ ماہ 23 مئی 2015ء کو پاکستان عوامی تحریک گوجرانوالہ کے رہنما اور انقلاب مارچ کے زخمی سیف اللہ چٹھہ انتقال فرماگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ سیف اللہ چٹھہ کو گوجرانوالہ پولیس نے 8 اگست کے دن یوم شہداء کی تقریب میں شرکت کیلئے لاہور آتے ہوئے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے وہ عرصہ دراز سے زیر علاج تھے۔ وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔ صدر PAT محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے ان کی نماز جنازہ میں خصوصی شرکت کی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیف اللہ چٹھہ ایک محب وطن، جمہوریت پسند اور ظلم کے نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والا ایک جرات مند رہنما تھے۔ کارکنوں کے جسموں پر آنے والے زخم ہماری روحوں پر لگے ہیں، جنہیں کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ شہداء اور زخمیوں سے یہ وعدہ ہے کہ ایک ایک ظلم کا حساب لیں گے۔ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور جملہ مرکزی قائدین نے سیف اللہ چٹھہ کے انتقال پر گہرے افسوس کا اظہار کیا۔