فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کے اسلامی نصاب کی اسلام آباد میں تقریب رونمائی

رپورٹ: محمد شعیب بزمی

معاشرے سے انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ اور معاشرہ کو امن و سلامتی، تحمل و برداشت، رواداری اور ہم آہنگی کا گہوارہ بنانے کی غرض سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اسلامی نصاب برائے فروغ امن و انسداد دہشت گردی مرتب کیا ہے۔ عالمی سطح پر اس نصاب کی تقریب رونمائی 23 جون 2015ء کو لندن میں ہوئی جہاں یورپ بھر میں شیخ الاسلام کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے اسے وقت کی ضرورت قرار دیا گیا۔ گذشتہ ماہ اس امن نصاب کی تقریب رونمائی پاکستان میں میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں 29 جولائی 2015ء کو منعقد ہوئی۔ جس میں ماہرین تعلیم، سیاست دان، سول سوسائٹی کے ممبران، کالجوں، یونیورسٹی کے نمائندگان، انٹرفیتھ ریلیشنز کے راہنماؤں اور جملہ طبقات زندگی کے نمایاں افراد نے شرکت کی۔

اس پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید اور نعت رسول مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوا۔ محترم خرم نواز گنڈا پور نے نقابت کے فرائض سرانجام دیئے اور استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے امن نصاب کی اہمیت اور غرض و غایت پر روشنی ڈالی۔ استقبالیہ کلمات کے بعد شرکاء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دہشت گردی کے خلاف اور فروغ امن کے لئے دنیا بھر میں منعقدہ مختلف پروگرامز کے Clips پر مشتمل ڈاکومنٹری دکھائی گئی جسے جملہ شرکاء نے بے حد سراہتے ہوئے عالمی سطح پر اسلام کی حقیقی تعلیمات اور امن کے فروغ کے لئے شیخ الاسلام کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

بعد ازاں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کے خلاف امن نصاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’آج نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے لئے بہت بڑا چیلنج دہشت گردی ہے۔ افسوس دہشت گردی کو آج اسلام اور جہاد سے جوڑا جارہا ہے۔ فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کے اسلامی نصاب کو پیش کرنے کا مقصد مسلم و غیر مسلم ہر فرد کو اسلام کی اصل تعلیمات سے روشناس کروانا ہے۔ دہشت گردی کے فروغ کے متعدد اسباب ہیں۔ سیاسی، معاشی، معاشرتی، نظریاتی، ان تمام اسباب کا قلع قمع کرنے سے ہی دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے۔ پاکستان بناتے وقت لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں۔ ایک اچھا معاشرہ بنانے کے لئے، معاشی طور پر خود کو بہتر کرنے کے لئے، معاشرے میں پیار و محبت اور امن و آشتی کے حصول کے لئے انہوں نے اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑا مگر ان لوگوں کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔ سیاسی طور پر حکومتیں عوام کو عدل و انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوئیں۔ لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا۔ یہاں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں، ہر طرف بدامنی ہے جس کی وجہ سے ملک کے حصول کا مقصد بے معنی ہوگیا ہے۔

آج ہم دہشت گردوں کے قلع قمع کی بات تو کرتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کو دہشت گرد بنایا کیسے گیا؟ دہشت گردی تن آور درخت کی شکل کیسے اختیار کرگئی؟ اس موضوع کو Discuss ہی نہیں کیا جاتا حالانکہ اصل ذمہ دار وہ ہیں جو بیج بوکر درخت تیار کرتے ہیں، ان کے خاتمے کے لئے بھی جنگ کرنی ہوگی۔ یہ جنگ بھی پاک فوج لڑے گی، اس لئے کہ اس ملک کی نام نہاد قیادت کو صرف اور صرف اپنے سیاسی مفادات عزیز ہیں اور وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے دہشت گردی کے بیج بونے والوں کے خلاف کبھی ایکشن لے ہی نہیں سکتے۔ یاد رہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ذریعے ہم کسی اور کی نہیں بلکہ اپنی بقاء کی جنگ لڑر رہے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف اور فروغ امن کے حوالے سے تعلیمی ادارں اور مدرسوں کا کردار بھی سوالیہ نشان ہے۔ میں ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ ہمارے تعلیمی اداروں کے نصاب میں شروع سے لے کر آخر تک امن کے موضوع پر پڑھایا ہی نہیں جاتا اور نہ دہشت گردی کے خلاف پڑھایا جاتا ہے۔ اس نصاب کو ترتیب دینے کی ایک بڑی وجہ یہی تھی کہ تعلیمی اداروں کے نصاب میں انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

ہمیں اپنے نصاب میں معاشرتی و سماجی انصاف کو بھی بطور مضمون پڑھانا ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں ناانصافی کی ایک المناک مثال 17 جون 2014ء کو ماڈل ٹاؤن کا واقعہ ہے جس میں بے گناہوں کا خون ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے ہوا مگر ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک انصاف نہیں دیا گیا۔ اس سانحہ پر جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو آج تک منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ اگر کوئی رپورٹ حکومت کے حق میں ہو تو اس کو فوری شائع کردیا جاتا ہے۔ حکمران ہی دہشت گرد ہوجائیں تو اس ملک میں مظلوم انصاف کی توقع کس سے کریں۔ ہمیں معاشرے میں انصاف کے فروغ کے لئے بھی کوشش کرنی ہوگی اور عدل و انصاف کی تعلیمات کو بطور مضمون نصاب میں شامل کرنا ہوگا۔

یہاں 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا مگر افسوس اس کو ابھی تک اسمبلی سے منظور کرواکر قانونی حیثیت نہیں دی گئی۔ ان 20 نکات میں سے اسمبلی میں صرف فوجی عدالتوں کو منظور کیا گیا۔ بقیہ 19 نکات پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ غیر ملکی فنڈنگ ابھی تک ہورہی ہے اور تمام کالعدم تنظیمات ابھی تک قائم ہیں۔ہمیں دہشت گردوں کے وسائل کو روکنا ہوگا اور غیر ملکی فنڈنگ کا سدباب کرنا ہوگا۔ دہشت گرد گروپوں نے طاقت کے حصول اور مالی مفادات کی خاطر اسلام کو بدنام کیا، دہشت گردوں کوقتل و غارت گری اور فساد برپا کرنے کیلئے اربوں روپے کے فنڈز دئیے جاتے ہیں جو بد قسمتی سے ابھی تک جاری ہیں۔ شریعت اور جمہوریت کے نام پر بیرون ملک سے ہونے والی فنڈنگ پاکستان کو تباہ کر رہی ہے، غیر ملکی فنڈز لینے والوں کو پھانسیاں دی جانی چاہئیں۔ دہشت گردی کی جنگ اور قومی ایکشن پلان کے حوالے حکومتی غیر سنجیدگی افسوس ناک ہے، حکومت اپنے رویے سے ظاہر کر رہی ہے کہ جیسے یہ جنگ صرف فوج کی ہے۔ فوجی آپریشن دہشت گردی کے خاتمے کا محض ایک پہلو ہے جب تک سیاسی، سماجی اور معاشی سطح پر انصاف نہیں ہو گا، یہ جنگ جیتی نہیں جا سکتی۔

حکمرانوں کی طرف سے محض بیانات دیئے جارہے ہیں۔ عملدرآمد کسی ایک بھی نقطہ پر نہیں ہوا۔ قوم کے ساتھ گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ انہیں نکات میں سے ایک یہ تھا کہ تمام مدارس رجسٹرڈ ہوں گے، کیا اس نکتہ پر عملدرآمد ہوا؟ نہیں، اس لئے کہ ان کے ساتھ مک مکا ہوگیا ہے۔ یہاں تو اسمبلی کے چار ووٹوں کی خاطر ملک گروی رکھ دیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف افواج پاکستان لڑ رہے ہیں اور کوئی بھی اس جنگ کو نہیں لڑرہا۔ اس ملک میں ایک ضرب عضب اور بھی چاہئے جو معاشی و سیاسی انصاف دے سکے۔ جب تک سکولوں، کالجوں، مدرسوں کا ماحول امن دوست نہیں ہو گا، معاشی، سیاسی سماجی نا انصافی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ تعلیم، صحت، روزگار کی بنیادی سہولتیں نہیں ملیں گی، سوشل اور لیگل جسٹس نہیں ملے گا تو ردعمل میں انتہا پسندی اور دہشت گردی فروغ پائے گی۔

میں نے 2010ء میں دہشت گردی کے خلاف فتویٰ لکھا تو اس وقت سوچا کہ UN اور مسلم ممالک کی یونیورسٹیز اور تھنک ٹینک اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس پر نصاب بنائیں گے لیکن اس پر کام نہیں کیا گیا۔ میں چاہتا تھا کہ Counter Terrorism ایک نصاب کی صورت میں پیش ہو مگر افسوس عالمی سطح پر اس پر کام نہ ہوا۔ پھر میں نے خود اس کام کو جاری رکھا۔ اس کے لئے مجھے 5 سال لگ گئے۔ دھرنے کے دوران بھی اس پر کام کرتا رہا تاکہ انتہا پسندی کے باطل نظریات کا خاتمہ کیا جائے۔

دہشت گردی کے خلاف اور فروغ امن کا یہ نصاب 25 کتب پر مبنی ہے۔ یہ کتب انگریزی، اردو اور عربی میں ہیں۔ جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

درج ذیل نصابات Text Books / آؤٹ لائن ہیں:

  1. فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کا اِسلامی نصاب: ریاستی سکیورٹی اِداروں کے افسروں اور جوانوں کے لیے
  2. فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کا اِسلامی نصاب: اَئمہ، خطباء اور علماء کرام کے لیے
  3. فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کا اِسلامی نصاب: اَساتذہ، وکلاء اور دیگر دانشور طبقات کے لیے
  4. فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کا اِسلامی نصاب: طلبہ و طالبات کے لیے
  5. فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کا اِسلامی نصاب: سول سوسائٹی کے جملہ طبقات کے لیے
  6. فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کا اِسلامی نصاب: اہم کتب برائے مطالعہ

(آخری کتاب ابھی تیاری کے مراحل میں ہے جبکہ بقیہ پانچ کتب شائع ہوچکی ہیں۔ یہی کتب انگریزی و عربی زبان میں بھی ہیں جن میں کچھ شائع ہوچکی ہیں اورکچھ تیاری کے مراحل میں ہیں)

درج بالا نصاب جن کتب سے پڑھایا جائے گا، ان کی تفصیل کچھ یوں ہے:

  1. دہشت گردی اور فتنہ خوارج (مبسوط تاریخی فتویٰ)
  2. الجہاد الاکبر
  3. اِسلام میں محبت اور عدمِ تشدّد
  4. اسلام اور اہل کتاب (تعلیمات قرآن و سنت اور تصریحات ائمہ دین) .11کتاب الجہاد
  5. اَلاَحْکَامُ الشَّرْعِيَّة فِي کَوْنِ الْإِسْلَامِ دِيْنًا لِخِدْمَةِ الْإِنْسَانِيَّة (اِسلام اور خدمتِ اِنسانيت)

  6. البیان فی رحمۃ المنان (رحمت الہٰی پر ایمان افروز احادیث مبارکہ کا مجموعہ)
  7. الوفا فی رحمۃ النبی المصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم(جمیع خلق پر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت و شفقت)
  8. العطاء العمیم فی رحمۃ النبی العظیم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم (رحمت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)
  9. Fatwa on Terrorism and Suicide Bombings
  10. Relations of Muslims and non-Muslims
  11. Islam on Serving Humanity
  12. Islam on Love & non-Violence
  13. The Supreme Jihad
  14. Islamic Spirituality & Modern Science (The Scientific Bases of Sufism)
  15. Peace, Integration and Human Rights
  16. Islam on Mercy and Compassion
  17. Muhammad: The Merciful
  18. Muhammad: The Peacemaker

یہ کتب امن عالم کے لئے قرآن و حدیث سے مزین کی گئی ہیں۔ ان میں اسلام میں انسانیت کے تصور کو بیان کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں اداروں میں ان Subjects پر نہیں پڑھایا جاتا۔ انسانیت بطور مضمون نہیں پڑھائی جاتی۔ غیر مسلموں کے حقوق، جہاد کا حقیقی تصور بطور Subject نصاب میں شامل نہیں ہے۔

پاکستان میں قتل و غارت کرنے والے خوارج ہیں۔ یہ اپنی نظریات و عقائد سے اختلاف کرنے والے کو کافر کہتے ہیں اور ان کو قتل کرنا واجب قرار دیتے ہیں۔ پرامن لوگوں کا خون بہانا خوارج کے لئے حلال ہے۔ یہ اب سے نہیں بلکہ شروع اسلام سے ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے سے لے کر یہ مختلف صورتوں میں دجال کی آمد تک آتے رہیں گے۔ کسی جماعت اور لیڈر کو حق نہیں کہ وہ از خود تلوار اٹھا کر لوگوں کی جانیں لیں اور کہیں کہ ہم لوگوں کو ظلم سے بچارہے ہیں۔ یہ تشدد ہے، جو کچھ یہ کرتے ہیں ظلم ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو Clearity ہونی چاہئے ورنہ وہ ان کی داڑھی اور تسبیح دیکھ کر پھسل جائیں گے اور ان کے عمل کو دیکھ کر دھوکہ کھاجائیں گے۔

خارجی وہ طبقہ ہے جو فرنٹ پر لڑتا ہے جبکہ ان کے پیچھے ایک اور طبقہ ہے جو خود تو نہیں لڑتے بلکہ پیچھے بیٹھ کر لڑنے والوں کے ممدو معاون ہیں۔ وہ اسمبلیوں میں اور TV پر بیٹھ کر ان خوارج کے نظریات کو تقویت دیتے ہیں۔ وہ پاک فوج کو شہید نہیں کہتے بلکہ ان خوارج کو شہید کہتے ہیں۔ وہ ان خوارج کو نظریاتی تقویت دیتے ہیں۔ خوارج اور دہشت گردوں کے ان معاونین سے بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا۔ پوری قوم کو سمجھنا ہوگا ان دہشت گردوں کے پیچھے اسلام ہے اور نہ کوئی اور مذہب ہے۔ یہ خوارج ہیں ان کو آقا علیہ السلام نے ختم کرنے کا حکم دیا۔ آپریشن ضرب عضب میں شامل افواج پاکستان کے افسران اور جوان مبارکباد کے مستحق ہیں جو پیغمبر اسلام  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق فتنہ خوارج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ان خوارج سے لڑتے ہوئے پاک فوج کے افسران جو قربانیاں پیش کررہے ہیں، وہ شہادت ہے۔

اس موقع پر شیخ الاسلام نے اس اسلامی نصاب کی جزئیات تک کا تفصیلی تعارف کرواتے ہوئے فرمایا کہ میری تمام مقتدر اداروں سے گزارش ہے کہ اس اسلامی نصاب کو کالجز اور یونیورسٹیز میں پڑھایا جائے۔ اس کے لئے کورسز بنائے جائیں یہاں تک کہ اگر اس نصاب کو پڑھانے کے لئے ان کتب سے میرا نام بھی مٹانا چاہیں تو مٹادیں، اس پر اپنا نام لکھ دیں، اپنے مدرسے کا نام لکھ دیں مگر وقت کی ضرورت کے پیش نظر اسے نصاب کا حصہ بہر طور بنائیں۔ یہ 25کتب ہیں ان میں سے جو مرضی لے لیں مگر خدارا بالعموم مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں کے نظریات و عقائد میں سے انتہا پسندی کو نکالا جائے۔ ہم اپنے من گھڑت مذہب سے تائب ہوں اور اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو اپنائیں۔ خد اکے لئے علماء کرام اسلام اور ملک کی بہتری کے لئے یہ آواز بلند کریں اور اس نصاب کو پڑھائیں۔ ان شاء اللہ علم اور حق کی فتح ہوگی، ظلم اور جبر کی شکست ہوگی‘‘۔

شیخ الاسلام کے اس خصوصی خطاب کے بعد مہمان گرامی میں سے چند احباب نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا:

  • محترم ایئر مارشل (ر) شاہد لطیف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے اس نصاب کو فروغ امن کی ترویج کے لئے تیار کیا۔ یہ کام جو حکومت پاکستان کو کرنا چاہئے تھا وہ ڈاکٹر صاحب نے کردیا۔ حکومت یہ کام صرف باتوں کی حد تک کرتی ہے جبکہ ڈاکٹر صاحب نے پریکٹیکل طور پر کرکے دکھادیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اسلام کی اصل تعلیمات سے ہمیں روشناس کرایا اور عملاً اسلام کا پرچار اس نصاب کے ذریعے کیا۔ قرآن و حدیث سے مزین ان کتب کو نصاب میں شامل کرنا چاہئے۔ یہ کسی ایک شخص، معاشرے یا ملک کا نہیں بلکہ دنیا کا مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس کے حل کے لئے نکلے ہیں، یہ بڑا جہاد ہے۔ اس نصاب کے ذریعے ہمارا دنیا میں نام بلند ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آگے بڑھنے کے لئے اس نصاب سے عملی رہنمائی لیں۔ فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کے لئے عملی طور پر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب جو خدمات دے رہے ہیں حکومت کو چاہئے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے۔
  • محترم رحمن ملک (سینیٹر پاکستان پیپلز پارٹی) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت کے دشمن ہیں۔ میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کو انسداد دہشت گردی کے نصاب کو پیش کرنے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ واحد پاکستانی ہیں جنہوں نے ملک کو اس حوالے سے Educate کیا۔ آپ واحد لیڈر ہیں جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف نصاب دیا۔ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے درجات کی بلندی کے لئے دعا گو ہوں اور بطور سینیٹر حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اگر اپنے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ شائع ہوسکتی ہے تو ماڈل ٹاؤن کے شہداء کی رپورٹ کو بھی شائع کریں۔ میں سینٹ میں اس رپورٹ کو شائع کروانے کے لئے اور اس امن نصاب کو سرکاری سطح پر نافذ کرنے کے حوالے سے بھی سینٹ میں آواز اٹھاؤں گا۔
  • محترم جہانگیر اشرف قاضی نے کہا کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کی کتب پر بحث و مباحثہ کا آغاز ہونا چاہئے۔ یہ ایک عظیم اقدام ہے۔ آپ نے اس سے ملک کی خدمت کی ہے۔ آج آپ کی باتوں سے ہمیں بہت سبق ملا۔ ہم نے دہشت گردوں کا خاتمہ کرنا ہے تو پہلے دہشت گردوں کو جاننا ہوگا کہ وہ کون ہیں اور ان کی معاونت کرنے والے کون ہیں؟ آپ ایک صاحب علم شخصیت ہیں۔ امن نصاب ان کی بہت بڑی اسلامی و قومی خدمت ہے۔ میں ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب سے کہوں گا کہ وہ دہشت گردی کی ایسی تعریف کا ڈرافٹ تیار کریں جو اقوام متحدہ کیلئے بھی قابل قبول اور قابل عمل ہو، پوری دنیا دہشت گردی کے مسئلے سے دوچار ہے مگر اس کی کوئی ایک متفقہ تعریف نہیں ہے۔ ہم ڈاکٹر صاحب کو یہ عظیم کام کرنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
  • محترم مفتی عبدالقوی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شیخ الاسلام کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کے لئے نصاب پیش کیا۔ انہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اس فریضے کو سرانجام دیا ہے جس کی ذمہ داری علماء کرام پر دینی، علمی اور قرآن و سنت کے حوالے سے فرض تھی۔ میرے زیر اختیار 500 مدارس ہیں۔ ان مدارس میں اس نصاب کو پڑھایا جائے گا۔ شیخ الاسلام آپ اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں، ہمارے ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہیں۔ آج میں پیغام دینا چاہتا ہوں کہ خوارج کے خلاف جنگ میں آپ ہمارے مولا ہیں۔
  • محترم صاحبزادہ قمر سلطان احمد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس کاوش پر شیخ الاسلام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ صرف پاکستان نہیں پوری امت کا فریضہ تھا جو انہوں نے سرانجام دیا۔ آئمہ اور واعظوں کے لئے جس طرح حضرت شاہ ولی اللہ اور حضرت مجدد الف ثانی نے خدمات پیش کیں اس طرح ڈاکٹر صاحب نے نصاب کے ذریعے خدمات پیش کیں۔
  • کرسچن سٹڈی سینٹر کی راہنما مسز جینفر نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے جو نصاب پیش کیا اس میں امن اور انسانیت کے لئے درس دیا گیا ہے۔ نصاب کے ذریعے لوگوں کے نظریات کو بدلا اور اس سے سوسائٹی کے اندر تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔ غیر مسلموں کے بارے میں اسلام کے صحیح نظریات کو پیش کرنے پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اس سے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔
  • محترم علامہ راجہ ناصر عباس (سربراہ مجلس وحدت المسلمین) نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب آئینی اور شرعی ہے۔ امن کے دشمنوں اور ناانصافی کے خلاف جہاد ضروری ہے۔ ان کا مقابلہ نہ صرف جنگ کرکے بلکہ نظریاتی طور پر بھی کرنا ہوگا۔ ان کی فکری بنیادوں کو ختم کرنا ہوگا۔ اس کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اسلامی نصاب کی صورت میں عظیم کام کیا۔ یہ نصاب فتح الباب ہے، یہ آواز الحق ہے۔ اسے سننا بھی چاہئے اور عمل بھی کرنا چاہئے۔ ہمارا تعلیمی نصاب ایسا ہو جو محبت اور امن لے کر آئے۔ شیخ الاسلام کو اس نصاب کو پیش کرنے پر بہت بہت مبارک ہو۔ آئیڈیالوجی کے محاذ پر امن نصاب دے کر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جہاد کیا ہے۔
  • معروف تجزیہ نگار محترم فواد چوہدری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کو دو فتنوں سے خطرہ ہے ایک خطرہ اسلام کے اندر ہے اور ایک خطرہ اسلام کو باہر سے ہے۔ شیخ الاسلام کا یہ نصاب اسلام کے اندر فتنے کرنے والوں کے خاتمے کی بات کرتا ہے۔ ہمارے فوجی نوجوان شہید ہوتے ہیں، ادھر سے اللہ اکبر اور ادھر سے بھی وہی نعرہ لگ رہا ہے۔ حقیقت میں شہید کون ہے؟ اس کی نشاندہی میں یہ نصاب بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اقبال نے فرمایا تھا:

اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ

ناحق کیلئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ

ان اشعار میں جو فلسفہ اقبال نے پیش کیا ڈاکٹر صاحب نے وہی فلسفہ اس اسلامی نصاب کے ذریعے بیان کیا ہے۔ یہ نصاب بنیادی طور پر ان اشعار کو آگے بڑھاتا ہے۔ اس کی بہت ضرورت تھی۔30 لاکھ بچے یہاں مدرسوں میں پڑھ رہے ہیں جب تک ان بچوں کو صحیح اسلام نہیں سکھایا جاتا اس وقت تک دہشتگردی کے عناصر پیدا ہوتے رہیں گے، اس کے لئے دہشت گردوں اور انتہاء پسندوں کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔ اگر عالم اسلام میں کسی نے اس بنیادی بات کی طرف متوجہ کیا ہے تو وہ ڈاکٹر صاحب ہی کی شخصیت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح حق، علم اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی ہوگی۔

مہمانان گرامی کے اظہار خیال کے بعد شیخ الاسلام نے جملہ مقررین اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور ان کے نیک جذبات کو سراہتے ہوئے دعاؤں سے نوازا۔