غربت و افلاس کا خاتمہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

حافظ محمد سعداللہ

اس وقت ساری دنیا کو بالعموم اور وطن عزیز کو بالخصوص درپیش سنگین اور تشویشناک مسائل میں سے ایک اہم اور فوری غورو فکر اور موثر حل کا متقاضی مسئلہ غربت و افلاس ہے جس نے لوگوں کو خودکشیوں پر مجبور کررکھا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا اس بات پر پختہ ایمان ہے کہ دنیا کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کے بارے میں رسول رحمت و رافت سیدنا و مولانا محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے لئے کوئی نمونہ، رہنمائی اور اصولی ہدایات نہ چھوڑی ہوں۔بقول حالی

سکھائے معیشت کے آداب ان کو
پڑھائے تمدن کے باب سب ان کو

کسی معاشرہ کے ترقی یافتہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ وہ معاشرہ صنعتی ترقی، معاشی انصاف، معاشرتی اقدار، انسانی حقوق کے معیار، روزگار کے مواقع اور دیگر بنیادی سہولیات کے لحاظ سے کس مقام پر کھڑا ہے۔ اب یہ کوئی انکشاف نہیں بلکہ معلوم حقیقت اور معروف مشاہدہ ہے کہ پاکستان کا ہر شعبہ خواہ وہ صنعت ہو یا زراعت اس وقت عالم نزع میں ہے۔ معاشی انصاف کی حالت یہ ہے کہ نصف سے زائد آبادی غربت کی انتہائی حد سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔۔۔ معاشرتی اقدار سخت بحران کی زد میں ہیں۔۔۔ انسانی حقوق کا معیار بہت پست ہے۔۔۔ روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔۔۔ رہ گئیں دیگر بنیادی سہولیات پانی، روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج تو نصف سے زائد آبادی ان سے محروم دکھائی دیتی ہے۔

غربت و افلاس کے اس پریشان کن مسئلہ کا حل حضور رحمۃ للعالمین انیس الغریبین محب الفقراء والمساکین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سیرت طیبہ اور اسوہ حسنہ کی صورت میں ہمیں عطا فرمایا ہے۔ آیئے اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔

غربت و افلاس کا سبب

خالق کائنات نے انسان کو پیدا کرکے اور اس کی فطرت میں کھانے پینے کے تقاضے رکھ کر اسے یوں ہی اس کے اپنے حال پر نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس نے محض لطف و کرم سے اس کے رزق کا بھی ذمہ لیا ہے۔ پھر اس رزق کی فراہمی کے لئے اس نے کمال حکمت اور عجیب و غریب انداز میں زمین میں ایسی صلاحیت، برکت، وسائل اور خزانے رکھ دیئے ہیںکہ قیامت تک بھی ختم نہیں ہوں گے۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس رزاق مطلق نے تو سارا نظام کائنات ہی انسان کی اس خدمت پر مامور فرما رکھا ہے۔ البتہ ان لاتعداد وسائل معاش یا وسائل رزق کی منصفانہ تقسیم کا کام خود حضرت انسان کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

تاریخ انسانی کے کسی بھی دور میں یا اس وقت روئے زمین پر اگر کوئی آدمی رزق اور بنیادی ضروریات سے محروم ہے تو اس کا مطلب ہے وافر مقدار میں خداداد وسائل معیشت رزق کی تقسیم کے نظام میں انصاف نہیں ہورہا۔ عام غربت افلاس کے بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں مگر ان میں سب سے بڑا سبب وسائل دولت اور اسباب معیشت کے تقسیم کنندگان وہ ظالم، لٹیرے، قارون صفت، حریص اور غاصب ہیں جو محروم المعیشت اور کمزور لوگوں کا حق مارے بیٹھے ہیں۔ یہی حرص و لالچ، ناانصافی اور استحصال معیشت کے میدان میں ’’ام الخبائث‘‘ یا ’’ام الامراض‘‘ ہے جو بیشمار خرابیوں کی بنیاد اور جڑ ہے۔ آج سے کوئی چودہ سو سال قبل درس گاہ نبوی اور صحبت نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلیم و فیض یافتہ حیدر کرار حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اہل ثروت پر ان کے مالوں میں اپنے معاشرے کے فقراء و مساکین کی معاشی حاجات کو بدرجہ کفایت پورا کرنا فرض قرار دیا ہے۔ چنانچہ یہ فقیر لوگ اگر بھوکے ننگے یا معاشی تنگی میںمبتلا ہوتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل ثروت نے ان کے حق یا ان کے حصے کے وسائل رزق کو روک لیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ یہ امر لازم ٹھہرا رکھا ہے کہ بروز قیامت وہ ان اہل ثروت کا محاسبہ فرمائے گا اور فقراء کی اس حق تلفی پر انہیں عذاب دے گا‘‘۔

(ابن حزم، المحلی، جلد3، ص455)

کوئی بڑے سے بڑا ماہر اقتصادیات یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ آج زمین پر جتنی پیداوار ہے اس سے زیادہ آبادی ہے کیونکہ اللہ کریم نے جس انسان کو پیدا کیا ہے اس کے رزق کا بھی وافر مقدار میں سامان کیا ہے۔ مگر آج انسان کی خواہشات اور ہوس اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ چاہے ایک سیر بھی نہ کھاسکے مگر اپنے پاس ایک من دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ آنکھوں کی ہوس کبھی پوری نہیں ہوسکتی۔ اس ہوس کو حدیث نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق قبر کی مٹی ہی پورا کرے گی۔

مشہور مصری ادیب مصطفی لطفی منفلوطی نے اپنا ایک عجیب اور سبق آموز واقعہ لکھا ہے کہ

’’میں اپنے ایک مالدار دوست کو ملنے گیا تو وہ اپنے قیمتی پلنگ پر پڑا پیٹ کے شدید درد میں مبتلا کروٹیں لے رہا تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ آج لذیذ کھانا پکا ہوا تھا ضرورت سے زیادہ کھالیا اس لئے شدید درد شکم میں مبتلا ہوں۔ میں فوراً ڈاکٹر کے پاس گیا اور دوائی لایا جس سے اسے آرام آگیا۔ واپسی پر میں ایک غریب دوست کے گھر گیا تو وہ بھی پیٹ درد میں مبتلا تھا۔ وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ کئی دن سے بھوکا ہوں اور یہی بھوک پیٹ درد کی وجہ ہے۔ میں فوراً تندور سے روٹی لایا جسے کھاکر وہ ٹھیک ہوگیا۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کاش میرے مالدار دوست نے اپنی ضرورت سے زیادہ کھانا میرے غریب دوست کو دیا ہوتا تو دونوں کے درد شکم کا علاج ہوجاتا‘‘۔

وہ مزید لکھتے ہیں:

’’آسمان بارش برسانے میں بخل نہیں کرتا، نہ زمین غلہ اگانے میں بخل کرتی ہے البتہ طاقتور لوگ کمزوروں کے پاس یہ چیزیں دیکھ کر جل جاتے ہیں۔ وہ ان چیزوں کے غریبوں تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں جس کے نتیجے میں محتاج اور پریشان حالی کا شکوہ کرنے والوں کا ایک طبقہ وجود میں آجاتا ہے۔ دراصل غریب کا حق دبانے والے یہ سرمایہ دار ہیں نہ کہ زمین و آسمان‘‘۔

معاشی استحکام بذریعہ پیروی تعلیمات مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

انسانی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ انسانی معاشرے میں معاشی و معاشرتی عدل و انصاف اور استحکام رب کریم کے پسندیدہ یا مقرر کردہ دین (نظام زندگی) کے کلی اور ہمہ جہتی نفاذ کے لئے بغیر ممکن نہیں ہے جسے اس نے اپنے برگزیدہ اور منتخب نفوس قدسیہ انبیاء علیہم السلام کے ذریعے انسانیت کی دنیوی و اخروی فلاح کے لئے عنایت فرمایا اور جس کی تکمیل اس نے اپنے آخری پیغمبر رحمت دو عالم حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے فرمادی۔

ہمارا اس بات پر پختہ ایمان اور یقین ہے کہ انسان جب تک رحمۃ للعالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آستانہ پر نہیں جھکے گا دنیا میں طرح طرح کے مصائب و آلام اور مسائل کا شکار رہے گا۔ وہ زندگی میں امن و سکون، معاشی خوشحالی و معاشرتی عدل و انصاف کبھی نہیں پاسکے گا۔ دنیا اس سراج منیر سے جب تک روشنی حاصل نہیں کرے گی مختلف قسم کی تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتی رہے گی اور جب تک تعلیمات و ہدایت نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل پیرا نہیں ہوگی، ہمہ جہتی فوزوفلاح کی مبارک منزل سے دور رہے گی۔

دنیا میں ظلم و ناانصافی، بھوک، افلاس اور تنگدستی، خودساختہ استحصالی اور غیر منصفانہ قانون، غیر فطری حد تک معاشی و معاشرتی تفاوت و عدم توازن جیسی بنیادی اور ننگ انسانیت خرابیوں کو ختم کرنے اور دنیوی و اخروی سعادتوں کے حصول کے لئے سیرت طیبہ، اسوہ حسنہ اور تعلیمات و ہدایات نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی ضروری ہے۔

آیئے! اس سراج منیر کی ضیا پاشیوں میں ساری دنیا خصوصاً پاکستان کو درپیش غربت و افلاس کے گھمبیر مسئلے کا حل تلاش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلے میں تعلیمات و ہدایات محمدیہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کسی ایک پر بھی خلوص نیت سے عمل کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ مسئلہ حل نہ ہو۔

محنت و روزگار کا فروغ

ہمیں یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ دولت پیدا کرنے کا ایک اہم اولین بنیادی اور کلیدی ذریعہ یا عامل انسان کی ذاتی محنت بھی ہے جس کے بغیر بہت سے خام حالت میں خزائن الہٰی قابل منفعت نہیں بن سکتے۔ ہمارے معاشرے میں غربت و افلاس، تنگ حالی اور آمدنی و پیداوار میں کمی کا ایک سبب اس ذریعہ دولت (محنت) سے جی چرانا ہے۔ یہ محنت سے جی چرانا کچھ تو ذاتی سستی، کاہلی اور لاپرواہی کے باعث ہوتا ہے مگر زیادہ تر اس کا باعث ذریعہ معاش کے طور پر کوئی پیشہ اختیار کرنے اور ہاتھ سے کام کرنے کو حقیر و معیوب سمجھنا ہے اور یہ سوچ شاید ہندو آنہ تہذیب و معاشرت کے ساتھ زیادہ دیر قرب کی وجہ سے پیدا ہوئی جبکہ یہ دونوں باتیں عقلاً و نقلاً انسان کے لئے نقصان دہ ہیں۔ مقام غور ہے کہ اگر خالق کائنات نے انسان کے ساتھ ایک چھوٹا پیٹ لگایا ہے تو اس نے اس پیٹ کو بھرنے کے لئے دو ہاتھ، دو پاؤں، جسمانی قوت، سوجھ بوجھ اور دوسری مخلوق کے برعکس اسے عقلی و دماغی صلاحیتیں بھی عطا فرمائی ہیں جنہیں کام میں لاکر زمین میں پھیلے ہوئے بے شمار رزق الہٰی کو بآسانی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ غالباً اسی لئے ارشاد ہوا:

هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِهَا وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِهِط وَاِلَيْهِ النُّشُوْرُ.

’’وُہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو نرم و مسخر کر دیا، سو تم اس کے راستوں میں چلو پھرو، اور اُس کے (دیے ہوئے) رِزق میں سے کھاؤ، اور اُسی کی طرف (مرنے کے بعد) اُٹھ کر جانا ہے‘‘۔

(الملک:15)

محنت کے حوالے سے جب ہم سیرت نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ محنت و مزدوری کو جو عزت جو حوصلہ افزائی اور قابل رشک حد تک جو مرتبہ و مقام آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بخشا اس کا وجود روئے زمین پر نہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل تھا نہ آج کی متمدن و مہذب اور بزعم خویش حقوق انسانی کی علمبردار دنیا میں پایا جاتا ہے۔ محنت و مزدوری اور ہاتھ سے کماکر کھانے کو آپ کس قدر ومنزلت سے دیکھتے تھے اور اس کی دنیوی و اخروی برکات و درجات کیا ہیں اس کے لئے اکثر کتب حدیث میں موجود باب ’’طلب کسب الحلال‘‘ کا مطالعہ کافی ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچپن میں مکہ مکرمہ کے مقام جیاد پر خود بکریاں چراکر چرواہوں کو عزت بخشی اور بعد میں نہ صرف اس کا فخریہ اظہار فرمایا بلکہ ذہنی اصلاح کے لئے امت کو یہ بھی بتایا کہ بکریاں چرانا کوئی معیوب اور حقیر پیشہ نہیں بلکہ یہ وہ معزز پیشہ ہے جسے ہر نبی محتشم نے اختیار فرمایا۔ ہاتھ سے کماکر کھانے کی ترغیب دیتے ہوئے نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’ہاتھ سے کماکر کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہوسکتا اور (یہی وجہ ہے کہ) اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام (بادشاہ ہونے کے باوجود) ہاتھ سے کماکر کھاتے تھے‘‘۔

(صحيح بخاری، کتاب الزکوٰة، 2: 536، رقم: 1205)

ایک موقعہ پر ارشاد فرمایا:

’’تم میں سے کسی ایک کا اپنی پیٹھ پر لکڑیوں کا گٹھا اٹھانا یعنی لکڑیاں بیچ کر کمانا اس بات سے کہیں بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرے پھر اسے کوئی دے یا نہ دے‘‘۔

(ايضاً، 2: 721، رقم: 1042)

محنت کی نقد دنیوی برکات تو ہیں ہی جس سے کسی کو انکار نہیں، نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو اس کا بہت سا اخروی ثواب بھی بتایا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں متعدد ایسے ائمہ، فقہاء کرام، مفسرین اور محدثین کے نام ملتے ہیں جو اپنے اپنے آباؤ اجداد کی بنسبت اپنے معمولی پیشوں کے حوالے سے زیادہ معروف ہیں۔ مثلاً امام غزالی، امام جصاص، امام بزاز، امام قدوری وغیرہ۔ اس سے بڑھ کر محنت مزدوری کی حوصلہ و عزت افزائی کیا ہوسکتی ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مزدور صحابی کے ہاتھوں کو اپنے لب ہائے مبارک سے بوسہ دیا اور فرمایا:

’’یہ وہ ہتھیلیاں ہیں جنہیں اللہ محبوب رکھتا ہے‘‘۔

(طبرانی المعجم الاوسط، 8: 380، رقم:8934)

ایک روایت میں ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’یہ وہ ہاتھ ہے جسے آگ نہیں چھوئے گی‘‘۔

(ابن اثير، اسدالغابه، 2: 420)

پاک نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب نے ہمیں یہ ترغیب بھی دی ہے کہ اگر کسی جگہ محنت کے باوجود روزگارکے حصول کے مناسب اور معقول مواقع نہ ہوں تو اللہ کی وسیع زمین میں کسی دوسری جگہ ہجرت کرجاؤ اللہ کریم تمہیں وہاں خوشحالی اور وسعت عطا فرمائیں گے۔ ارشاد فرمایا:

وَمَنْ يُّهَاجِرْ فِیْ سَبِيْلِ اﷲِ يَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا کَثِيْرًا وَّسَعَةًط

’’اور جو کوئی اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑ کرنکلے وہ زمین میں (ہجرت کے لیے) بہت سی جگہیں اور (معاش کے لیے) کشائش پائے گا‘‘۔

(النساء: 100)

سیرت طیبہ سے ہر مومن کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ قوت بازو اور اپنی خداداد جسمانی و دماغی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر زمین پر پھیلے ہوئے رزق الہٰی میں سے اپنی پسند کے مطابق شرعاً جائز ذرائع سے اپنی اور اپنے بال بچوں کی معاش کا اہتمام کرے۔ اس سلسلے میں اس راہ میں پیش آنے والی ہر رکاوٹ کو نہ صرف دور کیا جائے بلکہ اسلامی ریاست اس کے لئے روزگار کے مواقع مہیا کرے۔ جیسا کہ خود نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بے روزگار نوجوان صحابی کی وقتی طور پر مدد کرنے کی بجائے اس کا کمبل اور پیالہ بولی میں دو درہم کا فروخت کیا۔ ایک درہم سے اس کے اہل خانہ کے لئے کھانے پینے کا سامان اور دوسرے سے کلہاڑی خرید کر اور خود دست نبوت سے اس میں دستہ لگاکر اسے لکڑیاں کاٹنے اور بازار بیچنے کے کاروبار پر لگایا۔

(مشکوٰة، باب من لاتحل له المسئله، ص163)

ایثار و انفاق کی تلقین

کسی بھی انسانی معاشرے میں لوگوں کے درمیان معاشی تفاوت کا پایا جانا یعنی بعض کا صاحبِ ثروت و دولت اور امیرو غنی ہونا بعض کا ضرورت مند اور غریب و مفلس ہونا ایک فطری امر ہے اور اس میں بفحوائے قرآن مجید کئی تکوینی مصلحتیں پوشیدہ ہیں مگر ہم خالق کائنات کے تکوینی نظام کے بجائے اس کے آخری رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ تشریعی نظام کے مکلف ہیں۔ چنانچہ شریعت محمدیہ درجاتِ معیشت میں سوشلزم کی طرح غیر فطری مساوات کی تو قائل نہیں البتہ اس نے ’’حق معیشت‘‘ میں بغیر کسی تفریق کے جملہ انسانوں کو برابر قرار دیا ہے۔ اس کے لئے اس نے بالعموم خوشدلانہ، رضاکارانہ اور برادرانہ مواسات یعنی باہمی ہمدردی و غمخواری کی تعلیمات سے کام لیا ہے۔ اس لئے غربت و افلاس کا مسئلہ زیادہ تر تو شریعت محمدیہ کی انہی بے نظیر و بے مثال اور مؤثر تعلیمات سے حل ہوجاتا ہے باقی کسر قانون کی مدد سے نکال لی جاتی ہے۔

سیرت نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس کی سب سے بڑی مثال سرکار دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ معاہدہ مواخاۃ ہے جو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین مکہ اور انصار مدینہ کے درمیان قائم فرمایا تھا۔ جس کی مدد سے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین کی رہائش خوراک اور کاروبار کا مسئلہ فوری طور پر اتنی آسانی سے حل فرمایا کہ دنیا آج تک انگشت بدنداں ہے۔ اسلام اپنی اخلاقی تعلیمات کے ذریعے امارت و غربت کے طبقاتی احساس کو مٹاکر اخوت و بھائی چارے، ہمدردی و غمخواری کا ماحول پیدا کرتا ہے۔

یہ بات عدل و انصاف اور اسلام کے مزاج کے خلاف ہے کہ کچھ لوگ تو ضروری خوردو نوش، لباس، تعلیم، علاج معالجہ کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہوں اور ساتھ ہی ایک طبقہ عیش و عشرت فضول خرچیوں اور اپنے اللوں تللوں سے ان غربت کے مارے لوگوں کے زخموں پر مزید نمک چھڑکے۔ ایک اسلامی معاشرے میں اس امر کی قطعاً گنجائش نہیں۔

اس لئے قرآن مجید میں مکی دور کے اندر ہی غرباء و مساکین اور محروم المعیشت لوگوں کی معاشی حالت کو بہتر بنانے اور انہیں معاشی فکر سے مطمئن کرنے کے لئے احکامات اور ہدایات اترنا شروع ہوگئیں۔ قانون نافذ کرنے سے قبل ترغیبی اور تشویقی انداز میں صاحب حیثیت حضرات کو دلنشین انداز میں ایثار و انفاق کی تلقین کی گئی۔ انہیں ذہنی و قلبی طور پر غرباء کی رضا کارانہ مالی امداد و تعاون پر ابھارا گیا۔ کیونکہ جب تک کسی معاشرے میں ذہنی و قلبی تبدیلی نہیں آجاتی اس وقت تک اس میں کوئی تبدیلی رونما اور انقلاب بپا کرنا آسان نہیں ہوتا۔

دلوں کی تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ دل و دماغ پراس ذمہ داری کا احساس چھایا ہوا ہو جو رب العالمین کا نائب اور سارے جہانوں کے پالنے والے کا خلیفۃ اللہ فی الارض ہونے کی حیثیت سے ہم پر لازم ہے۔ پروردگار عالم کا خلیفہ اور اشرف المخلوقات ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارا یہ احساس ذمہ داری ایسا بیدار ہو کہ حدیث نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق ہم ہر غریب و مفلس کی غربت و افلاس کی ٹیس اور چبھن اس طرح محسوس کریں جس طرح ایک عضو بدن میں تکلیف سے سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔ جب ہم کسی غریب و مفلس کو دیکھیں تو ہمارا خواب و خور حرام ہوجائے۔

قبیلہ مضر کے کچھ لوگ جب ننگے پاؤں ننگے جسم اور پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس نبی رحمت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی یہ خستہ حالی دیکھ کر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور متغیر ہوگیا اور حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس وقت تک چین نہ آیا اور اس وقت تک آپ کے چہرہ انور پر بشاشت کے آثار نمودار نہ ہوئے جب تک کہ ان کی اس تنگ حالی کا ضروری سامان نہیں ہوگیا۔

(مسلم شرهف، کتاب الزکوٰة باب الحث علی صدقة، 1: 327)

جب کچھ لوگ محتاج اور ضرورت مند ہوں تو اس وقت اپنی ضرورت سے زائد مال دے دینے کی نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف ترغیب ہی نہیں دی بلکہ حکم فرمایا ہے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ ایک جگہ ایک آدمی اپنی سواری پر سوار آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور (سوال بھری نگاہوں سے) دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی اس احتیاجی کو دیکھا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے فرمایا: جس آدمی کے پاس فاضل سواری ہو وہ سواری اس آدمی کو لوٹادے جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس فاضل زاد راہ ہے وہ اس بھائی کو دے دے جس کے پاس زاد راہ نہیں۔ راوی کہتا ہے کہ آپ نے مختلف قسم کے اموال کا ذکر اسی طرح کیا یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا ہم میں سے کسی کو بھی اپنے فاضل مال میں کوئی حق نہیں‘‘۔

(صحيح مسلم، کتاب اللقطه، 3: 1354، رقم: 1728)

یہی حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حسین تعلیمات تھیں جن کی وجہ سے ایک طرف امراء و اغنیاء کے دل میں غریب کی محبت، احساس ہمدردی، خیر خواہی، غمگساری، ایثار و قربانی اور اخوت کے جذبات پیدا ہوئے۔

يُوْثِرُوْنَ ذَالحَاجَهِ وَيَحْفَظُوْنَ الْغَرِيْبَ.

’’وہ صحابہ حاجت مند کو اپنے اوپر ترجیح دیتے اور غریب (کے حقوق) کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔

(شمائل ترمذی، باب ماجاء فی تواضع رسول الله)

دوسری طرف غریبوں کے دلوں میں اپنے امیر بھائیوں کے لئے نفرت و عداوت کی جگہ محبت، عزت و تکریم اور مرتبہ شناسی کے لطیف جذبات پیدا ہوئے اور یوں ایسا ماحول پیدا ہوا کہ امراء و غرباء کے درمیان نفرت کی ساری دیواریں گرگئیں۔۔۔ امارت و غربت کے سارے فاصلے مٹ گئے۔۔۔ معاشی و معاشرتی تفاوت ختم ہوگیا۔۔۔ امیر و غریب کی بنیاد پر طبقاتی تفریق و تقسیم نسیا منسیا ہوگئی۔۔۔ دنیا کے خود ساختہ درجات اور مراتب کا خاتمہ ہوگیا۔۔۔ چھوٹے و بڑے، امیر و غریب، قریشی و غیر قریشی، عربی و عجمی، حبشی و رومی، گورے و کالے اور آقا و غلام کے امتیازات ختم ہوگئے۔۔۔ اور سب بھائی بھائی ، ایک دوسرے کے ہمدرد، خیر خواہ، بہی خواہ، اور جاں نثار بن گئے۔۔۔ امراء اور غرباء میں تعاون و تکافل اور بھائی چارے کی ایسی پرسکون، پرلطف اور محبت بھری فضا پیدا ہوگئی کہ چشم فلک نے اس کا نظارہ نہ اس سے پہلے کیا تھا اور نہ آج تک کرسکی ہے۔

تعیشات کے بجائے سادگی کا فروغ

کسی ملک میں غربت و افلاس کا ایک بڑا سبب وہاں کے امراء بالخصوص اہل حکومت و اقتدار کا تعیشات، اللوں تللوں شاہ خرچیوں اور رنگ رلیوں میں پڑ جانا ہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے کوئی آدمی حتی کہ سربراہ مملکت بھی عام لوگوں کے مقابلے میں بودوباش، کھانے پینے اور دوسرے انسانی حقوق میں کوئی امتیاز نہیں رکھتا ہے۔ VIP اور غیر VIP کی تقسیم غیر اسلامی ہے۔ نبی رحمت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کون دنیا میں VIP ہوسکتا ہے اس کے باوجود اس شاہ دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دولت کدہ میں دو دو مہینے آگ نہیں جلتی تھی۔ آپ کے لئے کبھی کپڑوں کا کوئی جوڑا تہہ کرکے نہیں رکھا گیا۔ دس لاکھ مربع میل رقبہ کے حکمران کی رہائش جس ’’ایوان صدر‘‘ یا ’’وزیراعظم ہاؤس‘‘ میں تھی اس کا طول و عرض آج بھی ’’گنبد خضریٰ‘‘ سے معلوم کیا جاسکتا ہے اور اس قدسی صفات سیدالعرب والعجم کی رہائش گاہ کے ’’سامان زیست‘‘ اور ’’کل دنیا‘‘ کی تفصیل اور چشم دید گواہی آج بھی پڑھی جاسکتی ہے۔

ازواج مطہرات میں سے ہر ایک زوجہ محترمہ یا خاتون اول کا حجرہ کس قسم کے سنگ مرمر، ساگوان کی لکڑی اور ’’امپورٹڈ‘‘ سامان سے بنایا گیا تھا۔ اس کی تفصیل آج بھی معلوم کی جاسکتی ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اياک والتنعم فان عباد الله ليس بالمتنعمين.

’’عیش کوشی سے بچو کیونکہ اللہ کے بندے عیش کوشی نہیں کرتے‘‘۔

(مشکوٰة، باب فضل الفقراء، ص449)

عام افلاس کے زمانے میں ایک صحابی کے مکان پر بالا خانہ کو پسند نہ فرمایا۔

(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، 2: 1711)

پیاری لخت جگر سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہ کے گھر میں دروازہ پر پردہ دیکھا تو گھر میں داخل ہونا پسند نہ فرمایا۔

(سنن ابی داؤد، کتاب اللباس، 2: 572)

وطن عزیز میں عام غربت کا ایک بڑا باعث حکمرانوں، عوامی نمائندوں اور دولت مند لوگوں کی عیش کوشی اور تعیش پسند بھی ہے۔ اسلام عیش کوشی اور تعیش پسندی کی بجائے تمام معاملات زندگی میں سادگی کو پسند کرتا ہے۔ جبکہ تعیش پسندی اور عیش کوشی میں بے شمار معاشی و اخلاقی نقصانات کے باعث اس کو سخت ناپسند قرار دیا گیا ہے۔

وطن عزیز میں ہر سال حکومتی بجٹ کا ایک کثیر حصہ حکمرانوں، وزراء اور مشیران کی فوج ظفر موج، ممبران پارلیمنٹ اور افسران بالا کے تعیشات اور غیر ضروری اخراجات کی نذر ہوجاتا ہے۔ جس کے لئے بجٹ خسارہ کو پورا کرنے کے لئے ہر سال قرضہ اٹھانا پڑتا ہے۔ قوم کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے نام نہاد حکمرانوں اور ان کے مشیروں وزیروں کے ماہانہ اخراجات کروڑوں روپے بنتے ہیں۔ عوامی نمائندوں کے لئے ہر سال بجٹ میں جو مسرفانہ مراعات رکھی جاتی ہیں اس سے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ کسی غریب ملک کے نمائندے ہیں۔ ایوان صدر اور وزیراعظم سیکرٹریٹ کی صرف دیکھ بھال مہمانوں کی تواضع اور دیگر ضروریات کی فراہمی کے لئے کروڑوں روپے رکھے جاتے ہیں جبکہ ملک کی اکثریت کے پاس سرچھپانے کے لئے جھونپڑی بھی نہیں۔ دوسرے سرکاری دفاتر میں بھی ہر سال کروڑوں روپیہ صرف ان کی تزئین و آرائش پر خرچ ہوجاتا ہے۔ صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی مرحوم کے بقول:

’’ہمارے حکمرانوں کا طرز معاشرت یہ پتہ دیتا ہے کہ یہ لوگ ایک ایسے ملک کے حکمران ہیں جس کے دریاؤں میں گدلا پانی نہیں شیریں اور شفاف دودھ بہتا ہے۔۔۔ جس کے درختوں پر پتے نہیں روپے اگتے ہیں۔۔۔ جس کے موسم برسات میں سونے اور چاندی کی بارش ہوتی ہے۔۔۔ اور جس میں آنے والے سیلاب دنیا جہان کی نعمتیں سمیٹ کر یہاں بکھیر دیتے ہیں۔۔۔ اسسٹنٹ کمشنر ہو یا ڈپٹی کمشنر، وزیراعلیٰ ہو یا وزیراعظم سب کا انداز معاشرت ملک کے افلاس اور عوام کی غربت کی ہلکی سی چغلی بھی نہیں کھاتا۔ اے سی کو دیکھ کر قطعاً اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی دور افتادہ تحصیل کا حاکم ہے۔ ڈی سی سے مل کر بالکل احساس نہیں ہوتا کہ وہ کسی مسائل زدہ ڈویژن کا انچارج ہے۔ وزیراعلیٰ کی شان و شوکت سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کسی غریب صوبے کا مقتدر ہے اور نہ وزیراعظم کے قرینہ زیست سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی مقروض ملک کا چیف ایگزیکٹو ہے۔ یہ ایک مسلسل طرز عمل ہے جو برسوں سے ہمارے حکمران اختیار کئے ہوئے ہیں‘‘۔

اس غریب اور مقروض ملک کی ہر حکومت سادگی کے دعوؤں اور اعلان کے باوجود بالائی سرکاری سطح پر نہ صرف نہایت بے دردی سے اخراجات کرتی ہے بلکہ لوٹ مار اور کرپشن کا بھی ایک سیلاب مسلسل بہتا رہتا ہے جس کا اندازہ حالیہ دنوں میں نیب کی کارروائیوں کے بعد صرف چند افراد کی ’’کارکردگی‘‘ کے طور پر سامنے آیا ہے۔

درد کے قصے نہ پوچھ، ہیں یہ طولانی بہت
جملے جملے سے امڈ آئے گی حیرانی بہت

اور

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

عوامی سطح پر سرمایہ دار، وڈیرے اور جاگیردار اپنی اندھی دولت کے بل بوتے پر کیا گل چھرے اڑاتے ہیں اور کسی طرح غریب لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ

پنجاب کے 0.5 فیصد ملک، ٹوانے، لغاری، مخدوم اور کھوسے صوبے کی 20 فیصد زمینوں پر قابض ہیں۔۔۔ سندھ کے ایک فیصد جام، جتوئی، سید اور پیر وہاں کے 30 فیصد رقبے پر۔۔۔ KPK کے 0.1 فیصد باچے، خٹک، آفریدی، نواب، الائی اور میر 12.5 فیصد رقبے پر حکمرانی کرتے ہیں۔۔۔ بلوچستان کے100 فیصد جاگیردار، مری، جمالی، مینگل وہاں کی ایک ایک انچ زمین پر قابض ہیں۔۔۔ مسکین پاکستان کے 93 فیصد چھوٹے کسان صرف 37 فیصد زمین کے مالک ہیں۔۔۔ پنجاب کے 80 فیصد کسانوں کے پاس پنجاب کی کل نہری اور بارانی زمین کا صرف 7 فیصد ہے۔۔۔ سندھ کے ہاریوں اور چھوٹے کسانوں کے پاس سندھ کی کل زمین کا 12 فیصد۔۔۔ KPK کے 72 فیصد کسانوں کے پاس وہاں کا 8.2 فیصد رقبہ۔۔۔ اور بلوچستان کے 80 فیصد کسانوں اور مزدوروں کے پاس اپنی ملکیت کے لئے قبر کے برابر زمین بھی نہیں ہے۔۔۔ الغرض پاکستانی معاشرے کا ہر ظلم، زیادتی، کرپشن اور لوٹ کے نشانات اسی پانچ فیصد طبقہ کے گھروں ، ڈیروں اور حویلیوں کی طرف جاتے ہیں۔ں۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سرکاری اور عوامی سطح پر مال کے ضیاع اور اسراف و تبذیر کرنے والوں پر پابندی عائد کی جائے اور حکام بالا سے لے کر نیچے تک دفاتر میں سرکاری تقریبات، خوردو نوش، رہن سہن اور غیر پیداواری اخراجات میں بعض دوسرے ممالک کی طرح سادگی، کفایت شعاری اور خودانحصاری کو فروغ دیا جائے۔ تزئینات یا تکلفات و فضولیات کا شوق قرضے لے کر پورا کرنے کے بجائے معاشی خوشحالی کے حصول تک صرف ضروریات پر اکتفا کیا جائے۔

معاشی و اقتصادی ترقی کا حصول

معاشی ترقی اور خودانحصاری ہی وہ چیزہے جس کے باعث معاشی میدان میں ترقی یافتہ دیگر اقوام کو کسی ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی ہونے کا موقع نہیں مل سکتا۔ پاکستان میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی کھلم کھلا مداخلت اور معاشی پالیسیوں میں دخل اندازی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس کی واحد وجہ ہماری احتیاجی ہے۔

دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامان موت
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم

کسی ملک کی فوجی طاقت اور دفاعی قوت کی بنیاد اور اس کے سیاسی استحکام کی لازمی شرط معاشی تعمیر ہے۔ لہذا معاشی و اقتصادی ترقی غربت کے خاتمہ اور خود کفالت کے لئے ضروری ہے۔ حد درجہ معاشی تفاوت اور غربت کو ختم کرنے اور ضرورت مندوں کی کم از کم بنیادی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لئے ہمیں اسلامی تعلیمات اور سیرت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رہنمائی لینا ہوگی وگرنہ

ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں