دھاندلیوں اور بےضابطگیوں کا مجموعہ حالیہ بلدیاتی انتخابات

بھی ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ قومی انتخابات کی طرح یہ انتخابات بھی غیر آئینی الیکشن کمیشن کی نااہلی کا بین ثبوت ہے۔ بلدیاتی الیکشن کے تمام مراحل میں لاء اینڈ آرڈر کنٹرول کرنے میں الیکشن کمیشن اور حکومت دونوں ناکام رہے۔ ایک طرف حکومتی امیدواروں کی جیت کیلئے سرکاری وسائل اور مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا جبکہ دوسری طرف پولیس، پٹواری اور غنڈوں کے ذریعے پاکستان عوامی تحریک کے امیدواروں کو نہ صرف ہراساں کیا گیا بلکہ قصور، اوکاڑہ، جھنگ اور دیگر متعدد علاقوں میں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ پولنگ ڈے کے موقع پر لاء اینڈ آرڈر غیر تسلی بخش ہونے کے ساتھ ساتھ دھاندلی اور بے ضابطگی بھی اپنے عروج پر تھی۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اپوزیشن امیدواروں کو غلط فہرستیں دی گئیں، گھوسٹ پولنگ سٹیشن بھی قائم کئے گئے اور آر اوز نے نتائج جاری کرتے وقت رد و بدل بھی کیا۔ پاکستان عوامی تحریک نے الیکشن کمیشن کو انتخابی بے ضابطگیوں سے متعلق خطوط لکھے مگر ان کی طرف سے کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات دھاندلیوں اور بے ضابطگیوں کا مجموعہ اس لئے بھی تھے کہ انتخابات سے پہلے ہی حکومت نے دھاندلی کا آغاز کردیا تھا۔ نواز لیگ نے اپنے اراکین قومی اسمبلی کو بلدیاتی انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران کروڑوں روپے جاری کرکے پری پول دھاندلی کی۔ وزیراعظم کے مختلف علاقوں کیلئے مختلف پیکجز کا اعلان اور خطابات انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی منصوبہ بندی کا حصہ تھے۔ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کی خلافِ آئین منظور ی سے لے کر انتخابی نتائج مرتب ہونے تک ہر مرحلہ پر دھاندلی کی گئی۔ پسندیدہ حلقہ بندیاں، ووٹر لسٹوں میں رد وبدل، منظور نظر انتخابی عملہ کی تقرریوں، قومی خزانے کے بے دریغ سیاسی استعمال اور انتخابی نتائج میں رد و بدل موجودہ جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے۔

ن لیگ کی حالیہ کامیابی کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ عوام انکی کاکردگی سے مطمئن ہیں۔ انتخابات کے نتائج حکمران جماعت کی مقبولیت کا پیمانہ ہرگز نہیں ہیں۔ لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری، مہنگائی، منی بجٹ، بد امنی اور دہشتگردی کے خاتمہ کے ضمن میں حکومت نے بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس پر ہر خاص و عام نالاں ہے۔

  • پاکستان عوامی تحریک نے بلدیاتی انتخابات کے تینوں مراحل میں ہونے والی دھاندلیوں، بے ضابطگیوں پر باقاعدہ جائزہ رپورٹ جاری کی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے من مانیاں کیں اور الیکشن کمیشن نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا۔ خراب لاء اینڈ آرڈر کے باعث اس دوران 29 افراد قتل اور 378 زخمی ہوئے۔ دھاندلی کی بنیاد پر قائم ہونے والے ریموٹ کنٹرول ادارے عوام کی کوئی خدمت نہیں کرسکیں گے۔ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کی نا پسندیدہ قانون سازی سے لیکر حلقہ بندیاں اور انتخابی نتائج مرتب ہونے تک پنجاب حکومت نے قوانین کی دھجیاں اڑائیں، جمہوری اقدار کو پامال اور رائے عامہ کی توہین کی۔ 14 نکات پر مشتمل جائزہ رپورٹ پاکستان عوامی تحریک کے 7 رکنی الیکشن سیل نے جاری کی جس میں خرم نواز گنڈا پو ر، میجر (ر)محمد سعید، بشارت جسپال، بریگیڈیئر (ر) محمد مشتاق، فیاض وڑائچ، نوراللہ صدیقی اور ساجد بھٹی شامل تھے۔اس رپورٹ کے نکات درج ذیل ہیں:
  1. 341 ارب کا کسان پیکیج بد نیتی کی بنا پر جاری کیاگیا، قومی خزانہ سیاسی مفادات کے لیے استعمال ہوا۔
  2. انتخابی مہم کے آغاز پر ہر حکومتی رکن صوبائی اسمبلی کو 2کروڑ روپے صوابدیدی فنڈ دیے گئے۔
  3. پی اینڈ ڈی نے انتخابی مہم کے دوران 5ارب روپے کے ترقیاتی فنڈ کی منظوری دی۔
  4. اپوزیشن امیدواروں سے آخری مرحلہ تک پولنگ سکیمیں خفیہ رکھی گئی، اپوزیشن امیدواروں کو کوئی اور حکومتی امیدواروں کو کوئی او ر ووٹر فہرستیں فراہم کی گئی۔
  5. گھوسٹ پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے۔
  6. آراوز نے نتائج میں ردوبدل کیا۔
  7. ہزاروں کی تعداد میں ووٹ ٹرانسفر ہوئے
  8. پسند اور ناپسند کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی گئیں۔
  9. اپوزیشن امیدواروں کے بیلٹ پیپر ز پر غلط انتخابی نشانات پرنٹ کروائے گئے۔
  10. ریونیو، پولیس اور پی اینڈ ڈی کو بطور خاص دھاندلی کے لیے استعمال کیا گیا۔
  11. چن چن کر کرپٹ اور حاشیہ بردار انتخابی عملہ تعینات کروایا گیا۔
  12. وزیراعظم اور وزیراعلیٰ انتخابی مہم کے دوران قومی پیسے سے الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا پر تشہیری مہم چلاتے رہے۔
  13. انتخابی عمل کی مانیٹرنگ کرنے والے غیر جانبدار غیر سیاسی ادارے فافن کو مانیٹرنگ کے حوالے سے محدود کیا گیا۔
  14. پہلے دومراحل کے اختتام پر دھاندلی کی شکایات لیکر الیکشن کمیشن اورآراوزکے پاس لے کر جانے والوں کی تذلیل کی گئی۔

موجودہ انتخابی نظام اور حکمرانوں کے ہوتے ہوئے شفاف انتخابات نہیں ہو سکتے۔ تینوں مراحل میں حکومت نے بدترین دھاندلی کی۔ اب وقت آگیا ہے کہ دھاندلی کے سوراخ بند کرنے کیلئے قانونی سیاسی و انتظامی سطح پر فول پروف انتظامات بروئے کار لائے جائیں۔ 10 سال کے طویل عرصہ کے تعطل کے بعد پاکستان عوامی تحریک انتخابی عمل کا حصہ بنی۔ ان بلدیاتی انتخابات میں PAT اور PAT کے حمایت یافتہ 20 چیئرمین و وائس چیئرمین جبکہ 400 سے زائد کونسلرز کامیاب ہوئے۔ہم ان نتائج کے باوجود بالکل مایوس نہیں ہیں۔ ہم نظام کی تبدیلی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ہم اس بات پر اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ موجودہ نظام دھاندلیوں اور بدعنوانیوں کو تحفظ دیتا ہے۔ لہذا موجودہ فرسودہ نظامِ انتخابات کے ذریعے ملکِ پاکستان میں کسی بھی طور حقیقی تبدیلی ممکن نہیں۔