ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب۔۔۔ ہنوز نامِ تو گفتن کمالِ بے ادبی است

ڈاکٹر علی اکبر الازہری

حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب و احترام نہ صرف کمال ایمان ہے بلکہ اصل ایمان ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی سیرتِ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ہر ایک ادا اور عمل ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رچا بسا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی افضلیت کے حوالے سے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ نَظَرَ فِيْ قُلُوْبِ الْعِبَادِ فَلَمْ يَجِدْ قَلبًا اَتْقٰی مِنْ قُلُوْبِ اَصْحَابِيْ وَلِذَالِکَ اختَارَهُمْ فَجَعَلَهُمْ اَصْحَابًا فَمَا اسْتَحْسَنُوْا فَهُوَ عِنْدَاللّٰهِ حَسَنٌ وَّمَا اسْتَقْبَحُوْا فَهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ قَبِيْحٌ.

’’اللہ تعالیٰ نے کوئی قلب میرے صحابہ کے قلوب سے زیادہ پاکیزہ نہیں دیکھا۔ اس لئے ان کو میری صحابیت کے لئے پسند فرمایا۔ جو کچھ وہ اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھا ہے اور جو برا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک برا ہے‘‘۔

صحابہ کرام کے دلوں میں موجود اسی پاکیزگی و تقویٰ ہی کا اثر تھا کہ وہ آپ کے آداب کو ہر جگہ اور ہر وقت بجالاتے۔ اگر کسی بشری تقاضے یا سادگی سے کوئی ایسی حرکت ہوجاتی جس میں ہلکا سا بے ادبی کا شائبہ بھی ہوتا تو فوراً کلام الہٰی کے ذریعے تنبیہ اور زجرو توبیخ نازل ہوتی جس سے سب خبردار اور ہوشیار ہوجاتے۔ صحابہ کرام کے قلوب میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم اس قدر راسخ تھی کہ وہ آق صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روبرو بات نہ کرسکتے تھے اور اگر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ دریافت کرنا مقصود ہوتا تو کئی دنوں تک خاموش رہتے اور موقع کے منتظر رہتے۔ یا کسی بدو/اعرابی/ دیہاتی کے آنے کا انتظار کرتے کہ وہ آکر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ پوچھے اور ہم اس سے استفادہ کریں کیونکہ وہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و اکرام کے باعث خود دریافت نہ کرسکتے تھے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں آکر بیٹھتے تو بالکل بے حس و حرکت سرنیچے کیے بیٹھے رہتے۔ نگاہ اٹھا کر بھی حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھنا بے ادبی خیال کرتے تھے۔

ادب ایک کیفیت قلبی کا نام ہے جس کے زیرِ اثر انسان سے مختلف افعال ظہور میں آتے ہیں۔ صحابہ کرام، حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب کس طرح بجا لاتے، اس کو کماحقہ احاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے۔ تاہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ادب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مبنی چند اعمال و افعال کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے قلب و روح کے لئے روشنی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں:

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

ایک دفعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ابوقحافہ نے کفر کی حالت میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں کوئی ناشائستہ کلمہ منہ سے نکالا۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فوراً ان کے منہ پر طمانچہ کھینچ مارا۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت کیا تو عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت میرے پاس تلوار نہ تھی ورنہ ایسی گستاخی پر ان کی گردن اڑادیتا۔ اسی وقت آپ کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی:

لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّوْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ وَلَوْکَانُوْا اٰبَآئَهُمْ اَوْ اَبْنآئَهُمْ اَوْاِخْوانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ ط اُولٰئِکَ کَتَبَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْيْمَانَ وَيَدَ هُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ.

’’آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے‘‘۔

(المجادلة: 22)

  • حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں فنا تھے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے محبت اور اس کا ادب ان کے ایمان کا حصہ تھا۔ آغاز خلافت میں منبر پر بیٹھ کر خطبہ دینے لگے تو منبر کے جس درجے پر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ادباً اس سے نچلے درجہ پر بیٹھے۔ بعد ازاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایام خلافت میں اسی منبر پر بیٹھ کر خطبہ دینا چاہا تو وہ اس درجہ سے بھی نیچے کے درجے پر بیٹھے جہاں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے کیونکہ ان کے نزدیک مقام رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کے ساتھ خلیفہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کا ادب بھی واجب تھا۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے مکان کی چھت پر ایک پرنالہ تھا۔ ایک روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نئے کپڑے پہنے ہوئے مسجد جارہے تھے۔ جب اس پرنالے کے قریب پہنچے تو اتفاق سے اس دن حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے گھر دو مرغ ذبح کئے جارہے تھے، ان کا خون نالے سے نیچے بہہ رہا تھا، اس خون کے چند قطرے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کپڑوں پر پڑگئے۔ آپ نے فوراً اس نالے کے اکھاڑ ڈالنے کا حکم صادر فرمایا تاکہ یہاں سے گزرنے والوں کے کپڑے اس سے خراب نہ ہوں۔ لوگوں نے فوراً اس پرنالے کو اکھاڑ دیا اور آپ گھر واپس آکر دوسرے کپڑے پہن کر مسجد میں تشریف لائے۔ نمازکے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آکر کہنے لگے یاامیرالمومنین! خدا کی قسم اس پرنالے کو جسے آپ نے اکھاڑ ڈالا ہے، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس جگہ لگایا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر نہایت مضطرب اور پریشان ہوئے۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے عباس رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ اے عباس! میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ آپ اپنے پاؤں میرے کندھے پر رکھ کر اس پرنالے کو جیسا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لگایا تھا اسی جگہ پر لگادو۔ چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی درخواست پر اس کو پہلی جگہ پر لگادیا۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دل میں موجود محبت اور عظمت و ادب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عالم تھا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں سے لگے ہوئے پرنالے کو بھی اس کی جگہ سے ہٹانا بے ادبی سمجھتے تھے۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا دل محبت و ادب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس حد تک معمور تھا کہ جب آپ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر سفیر بناکر مکہ بھیجا تو آپ رضی اللہ عنہ نے کفار مکہ کی اجازت کے باوجود آق صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر طواف کعبہ کرنے سے انکار کردیا۔ گویا آپ نے بیت اللہ شریف کے طواف کرنے کے مقابلے میں (جو عبادت میں داخل ہے) حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کو افضل جانا۔

  • حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اسلام میں چوتھا شخص ہوں اور میرے نکاح میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے دی ہیں اور میں نے جب سے اپنا داہنا ہاتھ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک سے ملایا ہے اس دن سے میں نے اس ہاتھ سے اپنی شرمگاہ کو کبھی نہیں چھوا۔

ادب کا یہ وہ مرتبہ عظمیٰ ہے جس کا حق ہر شخص ادا نہیں کرسکتا بلکہ یہ صرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہی حصہ تھا۔ معلوم ہوا کہ ادب ایک ایسا خاصہ ہے کہ جو کسی حکم یا مثال کا محتاج نہیں بلکہ اہل ایمان کے دلوں کی خاص کیفیت کا نام ہے جس کو وہ ایمان سے متعلق کرتے ہیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وہ صلح نامہ لکھا جو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کفار کے درمیان حدیبیہ کے دن ہوا تھا۔ اس عہد نامہ کی عبارت میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاط لکھوانے پر مشرکوں نے کہا کہ لفظ ’’رسول اللہ‘‘ نہ لکھو۔ کیونکہ اگر ہم آپ کی رسالت کو تسلیم کرتے تو پھر لڑائی کیا تھی۔ اس پر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا کہ اس لفظ کو کاٹ دو۔ ادب اور تعظیم کو ترجیح دیتے ہوئے انہوں نے عرض کیا کہ میں وہ شخص نہیں ہوں جو اس لفظ کو کاٹے۔ لہذا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اس کو اپنے ہاتھ سے کاٹ دیا۔

غور کرنے کا مقام ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو لفظ ’’رسول اللہ‘‘ مٹانے کا حکم دیا مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے معذرت کا اظہار کردیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ

وَمَآ اٰتٰـکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا.

’’اور جو کچھ رسول( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو‘‘۔

 (الحشر: 7)

سورۃ احزاب میں ارشاد فرمایا:

وَمَا کَانَ لِمُوْمِنٍ وَّلَامُوْمِنَةٍ اِذَا قَضَی اﷲُ وَرَسُوْلُهُ اَمْرًا اَنْ يَکُوْنَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ط وَمَنْ يَعْصِ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰـلًا مُّبِيْنًا.

’’اور نہ کسی مومن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کسی کام کا فیصلہ (یا حکم) فرمادیں تو ان کے لیے اپنے (اس) کام میں (کرنے یا نہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ یقینا کھلی گمراہی میں بھٹک گیا‘‘۔

(الاحزاب: 36)

یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے حکم عدولی کا تصور تک بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اصحاب تو وہ تھے جو ایک اشارہ پر جان تک قربان کردیتے تھے۔ پھر کیا وجہ تھی حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بنفس نفیس خود حکم فرمانے کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حکم کو نہیں مان رہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حکم عدولی نہیں، اس لئے کہ اگر یہ بات ہوتی تو خود حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی زجرو توبیخ فرمادیتے یا کوئی آیت نازل ہوجاتی مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ اس لئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سچے دل سے ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بجا لاتے تھے۔ اس ادب کے مقابلے میں اس طرح کی حکم عدولی جس کا مطمع نظر ادب و تعظیم مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہو، کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اس لئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں وقعت و عظمت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کامل طور پر موجود تھی۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں پر ادب کا اس قدر تسلط تھا کہ محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر کسی ایسے کام کا حکم دیں جس کاکرنا اُن کی اپنی نظر میں انہیں محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بے ادب بنادے تو وہ ادب کو ترجیح دیتے ہوئے ایسے حکم کی اطاعت پر معذرت کا اظہار کردیتے ہیں۔ گویا نص قطعی کے مقابلہ میں بھی ادب ہی کو ترجیح ہے۔ اس تمام واقعہ سے اس امر کی صراحتاً وضاحت ہوگئی کہ دین سارا ادب ہی کا نام ہے۔

  • حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا عمداً نماز عصر کو ترک کردینا، محض اس خیال سے کہ اگر میں نے اپنا زانو ہلایا تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جو میری گود میں سر رکھے آرام فرمارہے ہیں بیدار ہوجائیں گے اور آپ کے آرام میں خلل آجائے گا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دل و دماغ میں موجود ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ لہذا آپ رضی اللہ عنہ نے محض حضور  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کی وجہ سے زانو کونہ ہلایا۔ حتی کہ آفتاب غروب ہوگیا اور نماز عصر کا وقت جاتا رہا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی نماز کے فوت ہوجانے کا حال عرض کیا گیا تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی کہ یا اللہ! علی تیری اور میری اطاعت میں تھا، پس آفتاب کو طلوع کردے۔ پس اسی وقت ڈوبا ہوا آفتاب پلٹ آیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہایت تسکین کے ساتھ نماز عصر ادا کی پھر آفتاب حسب معمول غروب ہوگیا۔

نماز کا وقت پر پڑھنا اطاعت الہٰی میں شمار ہوتا ہے مگر یہاں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کمال ادب کو دیکھتے ہوئے ان کے اس عمل کو نہ صرف اپنی اطاعت بلکہ اطاعت الہٰی میں شمار فرمایا اور پھر اس ادب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اجر بھی انہیں سورج واپس پلٹاتے ہوئے عصر کی نماز قضا کے بجائے وقت پر پڑھوا کر عطا کردیا۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ اور ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

عبد بن فیروز رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے میں نے پوچھا کہ کن جانوروں کی قربانی درست نہیں؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم لوگوں میں کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ چار قسم کے جانور ہیں جن کی قربانی درست نہیں۔ ایک وہ جس کی آنکھ پھوٹی ہو۔ دوسرا وہ جو سخت بیمار ہو۔ تیسرا وہ جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔ چوتھا وہ جو نہایت دبلا ہو۔ اس کی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی انگلیوں کے اشارے سے تشریح فرمائی لیکن میری انگلیاں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگلیوں سے چھوٹی ہیں۔

مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ میں دست مبارک کے اشارہ سے تعیین کرتے ہوئے فرمایا کہ چار جانور ہیں جن کی قربانی درست نہیں پھر ان کی تفصیل بیان فرمائی۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے جب اس واقعہ کو بیان کیا تو ادب نے اجازت نہ دی کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک کی ہلکی سی بھی مشابہت اپنے ہاتھ سے دی جائے۔ لہذا عذر ظاہر کیا کہ میری انگلیاں چھوٹی ہیں جن کو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگلیوں کے ساتھ کچھ نسبت نہیں ہے۔

ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ چار کا اشارہ ہاتھ سے کرنے میں مقصود صرف تعیین عدد ہے۔ ظاہراً نہ اس میں کوئی مساوات کا شائبہ ہے نہ سوئِ ادب کا۔ اس کے باوجود ادب نے گوارا نہ کیا کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک کی طرح اپنی انگلیاں اٹھا کر گنتی کی جائے کہ کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں۔

آق صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے آداب کو اسی پر قیاس کرلینا چاہئے۔ افسوس ان لوگوں کے حال پر جو ایک طرف اپنے علم کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری طرف رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بے ادبی کے کلمات کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں فہم سلیم عطا فرمائے تاکہ وہ عذاب اخروی سے بچ جائیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ منورہ کے کسی راستہ میں دیکھا چونکہ میں جنبی تھا، اس لئے چھپ گیا۔ پھر غسل کرکے حاضر خدمت اقدس ہوگیا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابوہریرہ! تم کہاں تھے؟ عرض کیا کہ مجھے نہانے کی ضرورت تھی اس لئے میں نے آپ کے ساتھ بغیر طہارت کے بیٹھنے کو مکروہ سمجھا۔ فرمایا:

سُبْحَانَ اللّٰهِ اَنَّ الْمُوْمِنَ لَيَنْجَسْ.

’’پاک ہے اللہ تعالیٰ، مومن نجس نہیں ہوتا‘‘۔

(صحيح بخاری، باب الجنب يخرج ويمشی، 1: 109)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اس حالت میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے نہ آنا ظاہر کرتا ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمال درجہ کی عظمت ان کے دل میں موجود تھی۔ جس نے ان کی عقل کو مقہور کرکے ان کے دل کو اس ادب پر مجبور کردیا تھا ورنہ وہ جانتے تھے کہ جنابت کا جسم میں سرایت کرنا ایک امر حکمی ہے حسی نہیں، جس سے دوسرے کو کراہت ہو اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کا اثر دوسرے تک متعدی نہیں ہوسکتا۔

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسئلہ شرعیہ بیان فرمادیا کہ مسلمان نجس نہیں ہوتا۔ مگر اصل بات یہی ہے کہ اس حالت میں حاضر ہونے میں صرف ادب مانع تھا۔ اگر نعوذ باللہ طبیعت میں بے باکی ہوتی تو خیال کرلیتے کہ اس حالت میں آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہونے میں کوئی ممانعت نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی خیال آسکتا تھا کہ چل کر تو دیکھئے کہ حضور منع فرمائیں گے تو ایک مسئلہ معلوم ہوجائے گا، خصوصاً اس زمانہ میں کہ ہر روز نئے نئے مسائل معلوم ہونے کی ضرورت سمجھی جاتی تھی۔ لیکن ایسا نہ کیا اس لئے کہ ادب نے ان کو ایسا کرنے کی اجازت و جرات نہ دی۔

حضرت اسلع بن شریک رضی اللہ عنہ اور ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

زرقانی نے شرح مواہب اللدنیہ میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ اسلع بن شریک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی پر کجاوہ باندھا کرتا تھا۔ ایک رات مجھے نہانے کی حاجت ہوئی اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوچ کا ارادہ فرمایا۔ اس وقت مجھے نہایت تردد ہوا کہ اگر ٹھنڈے پانی سے نہاؤں تو سردی سے مرجانے یا بیمار ہوجانے کا خوف ہے اور یہ بھی گوارا نہیں کہ ایسی حالت میں خاص سواری مبارک کا کجاوہ اونٹنی پر باندھوں۔ مجبوراً کسی انصاری شخص سے کہہ دیا کہ کجاوہ باندھے۔ پھر میں نے چند پتھر رکھ کے پانی گرم کیا اور نہاکر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جاملا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اسلع! کیا وجہ ہے کہ تمہارا باندھا ہوا کجاوہ آج ہل رہا ہے؟ عرض کیا یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں نے نہیں باندھا تھا۔ فرمایا: کیوں؟ عرض کیا: اس وقت مجھے نہانے کی حاجت تھی اور ٹھنڈے پانی سے نہانے میں جان کا خوف تھا۔ اس لئے کسی اور کو باندھنے کے لئے کہہ دیا تھا۔ اسلع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سفر میں تیمم کرنے کی اجازت کا حکم نازل ہوا۔

سبحان اللہ! کیا ادب تھا کہ جس کجاوہ میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف رکھتے تھے اس کی لکڑیوں کو حالت جنابت میں ہاتھ لگانا بھی گوارا نہ تھا۔ اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو اس کا منشا محض ایمان دکھلائی دے گا۔ جس نے ایسے پاکیزہ خیالات ان حضرات کے دلوں میں پیدا کردیئے تھے ورنہ ظاہر ہے کہ نہ عموماً اس قسم کے امور کی تعلیم تھی نہ صراحتاً ترغیب و تحریص۔ الحاصل جب ان لکڑیوں کا اس قدر ادب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ انبیاء و اولیاء کا جس قدر بھی ادب کیا جائے تو محمود ہے۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

ایک جنگ میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی گر پڑی، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے حصول کے واسطے سخت جنگ کی۔ بعد میں آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ ایک ٹوپی کے خاطر آپ رضی اللہ عنہ نے کیوں اتنی تگ و دو کی؟ فرمایا: میں نے یہ فعل ٹوپی کے واسطے نہیں کیا بلکہ اس لئے کہ اس ٹوپی میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند موئے مبارک تھے، لہذا میں نے ان موئے مبارک کے واسطے اتنی لڑائی کی تاکہ وہ ضائع نہ ہوں اور میں ان کی برکت سے محروم نہ ہوجاؤں۔

  • حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو بارہا مرتبہ دیکھا گیا کہ انہوں نے اپنے ہاتھ کو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹھنے کی جگہ پر رکھا اور پھر اس کو اپنے منہ پر ملا۔

افسوس! آج لوگوں کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اہل بیت اطہار اور ائمہ اسلاف کے مسلک سے کس قدر دور کردیا گیا ہے۔ اس زمانہ میں حالانکہ ان امور کی تعلیم عموماً نہ تھی مگر دل ہی کچھ ایسے مہذب اور مؤدب تھے کہ قسم قسم کے آداب اور طرح طرح کے حسن عقیدت پر دلالت کرنے والے افعال خود بخود ان سے ظہور پاتے تھے اور وہ ان کو اصول شرعیہ پر منطبق کردیتے تھے۔ ان حضرات کے دل وہ تھے جن کو تمام بندوں کے دلوں پر فضیلت ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے صحابیت کے واسطے منتخب فرمایا تھا۔

خیرالقرون کا یہ حال تھا کہ ہر قسم کے آداب کی بنیاد رکھی جاتی تھی اور اس آخری زمانہ کا حال یہ ہے کہ اگر کسی سے اس قسم کے افعال صادر ہوجائیں تو ہر طرف سے اعتراضات کی بوچھاڑ ہونے لگتی ہے اور صرف اعتراض ہی نہیں بلکہ شرک کے الزام تک نوبت پہنچادی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عطا فرمائے۔

تعظیمِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجوب، حیات و بعدِ وصال

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم جیسی آپ کی زندگی میں کرنا واجب و لازم ہے ویسے ہی آپ کے وصال کے بعد بھی واجب و لازم ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

لاينبغی رفع الصوت علی رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم حيا ولا ميتا.

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آواز کو بلند نہیں کرنا چاہئے، نہ زندگی میں اور نہ ہی وصال کے بعد۔

  • حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ

انها کانت تسمع صوت وتد يوتد والمسار يضرب فی بعض الدور المتصلة بمسجد النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم فترسل اليهم لا توذو رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم.

’جب انہوں نے مسجد نبوی کے اردگرد گھروں میں گاڑھی جانے والی کھونٹی اور میخ ٹھونکنے کی آواز سنی تو انہوں نے ان گھر والوں کے پاس کہلا بھیجا کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت نہ دو‘‘۔

  • حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ

لما عمل مصراعی دارہ ما عملها الا بالمناصع توقيا لذلک وتادبا معه.

’’آپ نے اپنے دروازے کے کواڑ اس وعید سے بچنے کے لئے اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ادب کی خاطر کپڑے کے بنائے ہوئے تھے‘‘۔

مسجد نبوی کی تعظیم نہ کرنے پر تعزیری حکم

مسجد نبوی میں ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بناء پر اونچا بولنا ممنوع ہے۔ اسی لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں آواز بلند کرنے والوں کو تنبیہ کی اور ڈانٹا۔ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں ایک بار مسجد نبوی میں کھڑا تھا کہ کسی نے مجھے کنکری ماری۔ دیکھا تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔ کہا جاؤ اور ان دو افراد کو لے آؤ۔ جب ان دونوں کو میں ان کے پاس لے گیا تو پوچھا تم کون ہو؟ کہاں سے ہو؟ انہوں نے کہا ہم طائف کے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:

لوکنتما من اهل البلد لاوجعتکما ترفعان اصواتکما فی مسجد رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم.

’’اگر تم اس شہر سے ہوتے تو میں تم کو ضرور اذیت پہنچاتا اور مارتا، اس واسطے کہ تم مسجد نبوی میں آواز بلند کرتے ہو‘‘۔

(صحيح بخاری، باب رفع الصوت فی المساجد، 1: 179)

اس حدیث سے ظاہر ہے کہ مسجد نبوی میں کوئی شخص آواز بلند نہیں کرسکتا تھا اور اگر کوئی کرتا بھی تو مستحق تعزیر سمجھا جاتا تھا۔ اسی ادب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سائب بن یزید رحمۃ اللہ علیہ کو پکارا نہیں بلکہ کنکری پھینک کر اپنی طرف متوجہ کیا۔ یہ تمام ادب اس وجہ سے تھے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں بحیاتِ ابدی تشریف رکھتے ہیں کیونکہ اگر لحاظ صرف مسجد ہونے کا ہوتا تو ’’فی مسجد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کہنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔

دوسرا قرینہ یہ ہے کہ اس تعزیر کو اہل شہر کے لئے خاص فرمایا جن کو مسجد شریف کے آداب خوب معلوم تھے۔ اگر صرف مسجد ہی کا لحاظ ہوتا تو اہل طائف بھی معذور نہ رکھے جاتے کیونکہ آخر وہاں بھی مسجدیں تھیں۔

  • امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے خلیفہ وقت ابوجعفر کو مسجد نبوی میں اونچی آواز میں بولنے پر ڈانٹا۔ الشفاء شریف میں قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے بسند متصل روایت کی ہے کہ

امیرالمومنین ابوجعفر منصور (خلفائے عباسیہ سے دوسرے خلیفہ) نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مسجد نبوی میں کسی مسئلہ میں مباحثہ کیا جس میں ان کی آواز کچھ بلند ہوگئی۔ اس پر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے کہا اے امیرالمومنین! اس مسجد میں آواز بلند نہ کیجئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورہ حجرات میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آواز پست رکھنے کا حکم دیتے ہوئے ایسے لوگوں کی مدح کی ہے جو رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ادب و نیاز کے باعث اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں۔ انہی لوگوں کو متقی کہا گیا اور بخشش و اجر عظیم کی خوشخبری دی گئی۔ دوسری طرف ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب کو ملحوظ نہیں رکھتے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اونچی آواز میں بولتے ہیں۔ قرآن مجید کی سورہ حجرات کا حوالہ دے کر امام مالک نے فرمایا:

وان حرمته ميتا کحرمته حيا فاستکان لها ابوجعفر وقال يا ابا عبدالله استقبل القبلة وادعو ام استقبل رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم ؟ فقال لم تصرف وجهک عنه وهو وسيلتک و وسيلة ابيک ادم عليه السلام الی الله يوم القيمة بل استقبله واستشفع به فيشفعک الله وقال الله تعالی ولو انهم اذ ظلموآ انفسهم جاوک فاستغفروا الله واستغفرلهم الرسول لوجد واالله توابا رحيما.

’’اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت وصال کے بعد بھی وہی ہے جو قبل وصال کے تھی۔ امیرالمومنین یہ سنتے ہی متادب اور متذلل ہوگئے پھر پوچھا اے عبداللہ! قبلہ کی طرف متوجہ ہوکر دعا کروں یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہوں؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کیوں منہ پھیرتے ہو وہ تو آپ کے وسیلہ ہیں اور آپ کے باپ آدم علیہ السلام کے قیامت کے روز وسیلہ ہیں۔ پس حضور کی طرف متوجہ ہوکر شفاعت اور سفارش طلب کیجئے کہ اللہ تعالیٰ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول کرے گا۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَآؤُکَ فَاسْتَغْفَرُوا اﷲَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا.

’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے‘‘۔

(النساء: 64)

یہاں سے صاف ظاہر ہے کہ جو لوگ مراتب تعظیم اور آداب رسالت کا لحاظ رکھیں گے وہی اس وعدے میں داخل ہیں، برخلاف ان کے جو بے ادبی سے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور میں بولتے ہیں کہ ان کے نیک عمل بھی ضائع ہوجاتے ہیں۔

امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ کا ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

مصعب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے یا ان کے پاس حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا اور نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کے باعث جھک جاتے یہاں تک کہ ان کے ہم نشینوں پر گراں گزرتا۔ آپ رضی اللہ عنہ سے ایک دن اس کی وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا:

لورايتم مارايت لما انکرتم علی ماترون.

یعنی حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفعت شان اور عظمت مکان جو میں جانتا ہوں اگر تم اسے جانتے تو ہرگز تم اپنے دیکھے ہوئے پر انکار نہ کرتے۔

  • امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کرتے تو پہلے وضو کرتے پھر نئے کپڑے پہن کر آراستہ ہوتے پھر حدیث شریف بیان کرتے اور جب کوئی شخص دروازے پر آتا تو لونڈی بھیج کر دریافت فرماتے کہ تم کیوں آئے؟ کوئی حدیث پوچھنے آئے ہو یا مسائل فقہ۔ اگر وہ کہتا مسائل فقہ پوچھنے آیا ہوں تو آپ اسی حالت میں باہر آکر اسے مسئلہ بتلادیتے۔ اگر وہ کہتا حدیث پوچھنے آیا ہوں تو آپ غسل فرماتے اور نئے کپڑے پہنتے، خوشبو لگاتے، عمامہ باندھتے، سبز چادر اوڑھتے اور ان کے واسطے خاص اس وقت کے لئے ایک کرسی بچھائی جاتی۔ پس آپ آکر اس پر بیٹھتے اور نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ حدیث بیان فرماتے اور جب تک حدیث بیان کرتے رہتے، خوشبو سلگتی رہتی۔
  • عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضر تھا اور آپ حدیث شریف بیان فرمارہے تھے کہ آپ کے چہرہ کا رنگ زرد ہوگیا مگر آپ نے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کا بیان کرنا نہ چھوڑا۔ جب آپ حدیث بیان کرنا ختم کرچکے اور لوگ چلے گئے تو میں نے ماجرا دریافت کیا۔ فرمایا کہ آج حدیث بیان کرنے کے دوران بچھو نے سولہ بار کاٹا اور میں نے حدیث کی عظمت و جلال کے باعث صبر کیا۔

سبحان اللہ! ان حضرات کے دلوں میں نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیسا احترام جاگزیں تھا کہ سولہ بار بچھو کاٹے اور اف نہ کریں۔ جان جائے مگر نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توقیر میں خلل نہ آئے بخلاف آج کل کے بعض مدعیان علم کے کہ وہ عمداً رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تنقیص شان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت بخشے۔

  • شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ جذب القلوب میں فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مدینہ طیبہ میں اپنے گھوڑے پر سوار نہ ہوتے تھے کیونکہ وہ فرماتے تھے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس زمین کو گھوڑے کے سُم سے روندوں جس پر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک لگے ہوئے ہیں۔ فی الحقیقت وہ زمین پاک نہایت واجب التعظیم ہے۔ بقول حافظ رحمۃ اللہ علیہ

بمقامیکہ نشانِ کفِ پائے توبود
سالہا سجدہ گہ صاحبِ نظراں خواہد بود

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا ادب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے حال میں مرقوم ہے کہ آپ صحیح بخاری کے جمع کرنے کے وقت ہر حدیث لکھنے کے واسطے تازہ غسل کیا کرتے اور دو رکعت نفل نماز پڑھتے تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ آب زمزم سے غسل کرتے اور مقام ابراہیم پر دو رکعت نفل پڑھتے تھے۔ حدیث نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس تعظیم اور توقیر کے سبب اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا فضل عظیم دیا ہے کہ تمام مسلمان ان کو اپنا امام جانتے ہوئے ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ ان کی کتاب کی وہ قدر ہوئی کہ دنیا میں سوائے قرآن مجید کے کسی اور کتاب کی ایسی قدرو منزلت نہیں ہوئی۔ یہ مقبولیت محض ادب حدیث کا سبب تھا ورنہ احادیث صحیحہ کی اور بھی بے شمار کتابیں تھیں۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ادب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے تنزیہہ الانبیاء عن تشبیہ الاغبیاء میں امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب سے نقل کیا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ایک معروف واقعہ کو اپنی بعض تصانیف میں جس طرح نقل کرتے ہیں، وہ بھی سراسر ادبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اظہار ہے۔ امام شافعی واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ

’’کسی عورت نے کچھ مال چرایا تھا اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا۔ کسی نے سفارش کی تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت فرمایا کہ اگر فلاں عورت بھی (جو ایک شریفہ تھیں) چراتیں تو ان کا ہاتھ بھی قطع کیا جاتا‘‘۔

امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ادب دیکھو کہ حدیث شریف میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا نام ادباً نہیں لکھا۔ اگر بعینہ حدیث نقل کردیتے تو کوئی بے جا اور بے موقع بات نہ تھی لیکن آپ نے از راہ کمال ادب صراحتاً نام مبارک کو ذکر نہ کیا۔

سبحان اللہ! کیا ادب تھا حالانکہ الفاظ حدیث کو بعینہ نقل کرنا ضروری ہے اور وہ نام مبارک حدیث شریف میں لفظ ’’لَوْ‘‘ کے تحت وارد ہے، جو بالفرض کے معنی میں آتا ہے کہ اگر ایسا ہوتا۔ مگر باایں ہمہ چونکہ حدیث شریف میں یہ نام مبارک مقام توہین میں وارد تھا، اس لئے ادب نے اجازت نہ دی کہ اس نام مبارک کو صراحتاً ذکر کریں۔ سچ ہے جو مقربین بارگاہ ہوتے ہیں انہی کو ادب نصیب ہوتا ہے ہرکس و ناکس میں وہ صلاحیت کہاں۔

سلطان محمود غزنوی کا ادب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے غلام ایاز کا ایک بیٹا تھا جو سلطان کا ملازم تھا اور اس کا نام محمد تھا۔ ایک دن سلطان محمود غزنوی نے ایاز کی موجودگی میں اس سے یوں خطاب کیا کہ اے ایاز کے بیٹے! وضو کا پانی لاؤ۔ ایاز نے ان الفاظ کو سن کر دل ہی دل میں خیال کیا کہ نہ جانے میرے بیٹے نے کیا خطا کی جس کے باعث بادشاہ سلامت نے اس کو نام سے نہیں بلایا۔ پس جب سلطان وضو سے فارغ ہوئے تو ایاز کی طرف دیکھا کہ وہ مغموم و ملول ہے۔ اس سے غم و رنج کا سبب پوچھا تو اس نے دست بستہ کھڑے ہوکر عرض کی کہ عالیجاہ! میرے مغموم ہونے کا باعث یہ ہے چونکہ حضور نے میرے لخت جگر کو نام لے کر نہیں بلایا۔ اس لئے معاً میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید اس سے کوئی بے ادبی اور گستاخی سرزد ہوئی ہے کہ جس کے باعث آپ اس سے خفا اور ناراض ہیں۔

بادشاہ سلامت نے مسکرا کر کہا: اے ایاز! خاطر جمع رکھ، تمہارے صاحبزادے سے کوئی بات میری طبع کے خلاف سرزد نہیں ہوئی اور نہ ہی میں اس سے کسی طرح ناراض یا خفا ہوں۔ اس وقت نام نہ لینے میں یہ حکمت تھی کہ میں اس وقت بے وضو تھا چونکہ یہ آقائے نامدار سرور کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہمنام تھا اس لئے مجھے شرم آئی کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام مبارک ایسی حالت میں میری زبان سے گزرے جبکہ میں بے وضو یا بے طہارت ہوں۔

ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب
ہنوز نام تو گفتن کمالِ بے ادبی است

پس ہم پر بھی لازم ہے ہم بھی اسی طرح رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر کریں جس طرح بزرگان دین کیا کرتے تھے اور ہر بات میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب ملحوظ رکھیں۔ جس وقت آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہو یا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام مبارک لیا جائے یا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام پڑھا جائے یا آپ کے فضائل و محامد بیان کئے جائیں تو نہایت متوجہ ہوکر حضور قلب کے ساتھ سنا کریں اور جب تک ایسے مقام میں رہیں درود شریف کی کثرت کیا کریں کہ اس میں اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اور خوشنودی کے ساتھ ساتھ ہماری نجات کا سامان موجود ہے۔