غلام مرتضیٰ علوی

اللہ رب العزت نے اس کائنات کی تخلیق و ارتقاء کے ساتھ ہی مخلوقات میں سے سب سے افضل مخلوق انسان کے لیے رشد و ہدایت کا سامان کیا۔ انسان کی تخلیق مقام احسن تقویم پر ہوئی لیکن حضرت انسان نے اپنی بداعمالیوں کے باعث اسفل السافلین کو اپنا مستقر بنایا۔ اسی لیے انسانیت کی رہنمائی و ہدایت کے لئے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین کو مبعوث کیا گیا۔ خاتم المرسلین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد سلسلہ نبوت و رسالت منقطع کر دیا گیا جبکہ ہدایت و راہنمائی کے لیے اولیاء و صلحاء کاملین و مجددین کی آمد کا سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔

انہی ہستیوں میں سے ایک ہستی کا نام حضرت سیدنا خضر علیہ السلام ہے۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نبی ہیں کہ ولی ہیں لیکن اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جس شخصیت کی ملاقات کا ذکر تفصیل کے ساتھ آیا ہے وہ حضرت خضر علیہ السلام ہی ہیں۔

حضرت خضر علیہ السلام کا اصل نام ’’ بلیابن ملکان‘‘، کنیت ’’ابو العباس‘‘ اور مشہور لقب ’’خِضَرْ‘‘ یا ’’خَضِرْ‘‘ ہے۔

آپ کو خضر کہنے کی وجوہات یہ ہیں کہ

جہاں آپ کا قدم لگتا ہے وہاں سر سبز گھاس اگ جاتی ہے۔ آپ کا وجود زندگی کی علامت ہے۔ جن ہواؤں اور فضاؤں میں آپ سانس لیتے ہیں یا جس سمندر کے کنارے آپ کا مسکن ہے ان ہواؤں، فضاؤں اور پانی میں یہ خاصیت پیدا ہو جاتی ہے کہ اگرکوئی مردہ شے وہاں آجائے تو اسے زندگی نصیب ہو جاتی ہے۔ اسی مناسبت سے آپ کا اسم گرامی ’’خضر‘‘ ہے۔

اوصافِ خضر، قرآن کی روشنی میں

قرآن مجید میں حضرت خضر علیہ السلام کا تذکرہ سورہ کہف میں تفصیلاً ملتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنے علم کی فوقیت کا تذکرہ فرمایا تو اللہ رب العزت نے فرمایا (فَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْم) ہر صاحب علم کے اوپر بھی کوئی صاحب علم ہوتا ہے تو پھر بحکم خداوندی حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے سے زیادہ صاحب علم ہستی کی تلاش میں نکلے۔ بیان کردہ نشانیاں اور علامات ظاہر ہونے کے بعد جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کو پالیا تو اس موقع پر قرآن مجید حضرت خضر علیہ السلام کا تعارف کچھ یوں بیان فرمایا:

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَيْنٰـهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰـهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًاo

’’تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر علیہ السلام) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا‘‘۔

(الکهف، 18: 65)

اللہ رب العزت نے اس آیت میں حضرت خضر علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں اپنا عبد خاص قرار دیا اور ان کے دو اوصاف کا ذکر بڑی وضاحت کے ساتھ فرمایا:

  1. رحمت
  2. علم

قرآن مجید میں حضرت خضر علیہ السلام کو براہ راست علم وحی عطا ہونے کا ذکر نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے محدثین ومفسرین اور صوفیاء علم لدنی کے عطا ہونے کی وجہ سے ان کی ولایت کے قائل ہیں۔ آیئے! حضرت خضر علیہ السلام میں موجود اِن اوصاف کے عملی مظاہر کا مطالعہ کرتے ہیں:

صفتِ رحمت

رحمت کے لفظی معنی ’’رقت‘‘ کے ہیں یعنی کسی کو تکلیف اور مصیبت میں دیکھ کر دل میں نرمی کا پیدا ہونا اور اس کی مدد کرنا۔ حضرت خضر علیہ السلام کو رحمت کا حصہ وافر عطا ہوا، اسی بنا پر آپ مخلوق خدا کی مدد کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے اکٹھے سفر کرنے کے دوران (سورہ الکہف: 71 تا 77) جو تین واقعات پیش آئے، اُن تینوں واقعات کی بنیاد بھی سراسر رحمت ہے۔

حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی کے پشتہ کو توڑ کر اس کشتی کو عیب دار بنایا اور اس طرح اسے غاصب حکمران سے بچا لیا۔ یہ عمل بھی اس غریب کشتی والے کے لئے رحمت ثابت ہوا۔

ایک معصوم بچے کو قتل کرکے بچے کے والدین کے ایمان کو بچانے میں ان کی مدد کی کہ اگر یہ بچہ زندہ رہتا تو اپنے والدین کے ایمان کو کفر میں بدل دیتا۔

اسی طرح علاقہ کے لوگوں کے عمل سے بے نیاز ہوکر ایک گرتی ہوئی دیوار کو بغیر مزدوری کے تعمیر کیا جس سے یتیم بچوں کے مال کی حفاظت ممکن ہوئی۔ آپ کا یہ عمل بھی ان یتیم بچوں کے لئے رحمت ہی کا ایک اظہار تھا۔

ان تینوں واقعات میں حضرت خضر علیہ السلام نے دنیوی مفاد اور غرض وغایت سے لا تعلق ہو کر صرف رحمت خداوندی کے عطا ہونے کی بدولت مخلوقِ خدا کی مدد ونصرت فرمائی اور اُن کے لئے رحمت ثابت ہوئے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ حضرت خضر علیہ السلام کے اوصاف میں رحمت کا عنصر نمایاں طور پر کار فرما ہے جس کی وجہ سے آپ مخلوق خدا کی مدد کرتے رہتے ہیں۔

صفتِ علم

حضرت خضر علیہ السلام کی جس دوسری صفت کا ذکر قرآن میں ہے وہ ’’علمِ لدنی‘‘ ہے کہ اللہ رب العزت نے آپ علیہ السلام کو علم لدنی یعنی علم خاص عطا فرمایا تھا جس بناء پر آپ لوگوں کے احوال اور اشیاء کی ماہیت و خاصیت اور باطنی امور پر بھی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ سفر کا آغاز کیا تو عجیب واقعات دیکھ کر بار بار معترض ہو ئے اور ان کا اس طرح بار بار معترض ہونا ہی وجہ افتراق بن گیا۔

حضرت خضر علیہ السلام جانتے تھے کہ کشتی چلانے والا لڑکا نیک صفت ہے، اس میں بزرگ اور نیک لوگوں کی خدمت و ادب کی صفت ہے لیکن کشتی اچھی ہونے کی وجہ سے غاصب حکمران اس پر قابض ہو جائے گا۔ دوسرے واقعہ میں آپ نے عطا شدہ علم لدنی کی بناء پر جان لیا کہ یہ لڑکا جوان ہو کر اپنے والدین کے ایمان کے لیے نقصان کا باعث بنے گا، اس کے والدین اس بات کو نہیں جانتے لہٰذا آپ نے اپنے علم کی بناء پر والدین کی مدد و نصرت کی اور ان کے لیے اچھے بدل کی دعاکی۔ اسی طرح تیسرے واقعہ میں آپ کی نگاہ علم ولایت نے جان لیا کہ اگرچہ یہ بچے ماں باپ کے سر پر نہ ہونے کی وجہ سے خدمت گزار نہیں ہیں لیکن ان کے والدین نیک اور صالح تھے، ان کے والدین کی نیکی اور صالحیت کی بنا پر ان بچوں کی مدد کی۔

مندرجہ بالا سطور میں خضر بنی اسرائیل کی یہ شان سامنے آئی کہ وہ لوگوں کے لیے فیض رسا، مدد گار اور راہنما ہیں۔

تلاشِ خضر کا حکم

یہاں پر یہ امر قابل غور ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو براہ راست حضرت خضر علیہ السلام کا ٹھکانہ یا مستقر نہیں بتایا گیا بلکہ کچھ نشانیاں بتائی گئیں کہ جس جگہ دو سمندر ملتے ہوں اور مردہ مچھلی زندہ ہوجائے تووہی خضر علیہ السلام کا مسکن ہوگا۔ علامات ونشانیاں بتانے کی منشاء ایزدی یہ تھی کہ خضر کو تلاش کیاجائے تاکہ تا قیام قیامت یہ اصول وضع کر دیا جائے کہ اولیاء اللہ کی تلاش کی جاتی ہے، اہل اللہ خود نہیں ملتے بلکہ انہیں ڈھونڈا جاتا ہے۔ اسی لیے اکابر اولیاء وصلحاء ہمیشہ تلاشِ خضر میں سر گرداں رہے تاکہ فیضِ خضری میسر آسکے۔

نشانیاں بیان کرنے کا دوسرا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ خضر وہ ہو گا جس میں میری عطا کردہ صفات رحمت و علم بدرجہ اتم موجود ہوں گی۔

حضرت خضر علیہ السلام کی شخصیت علم اور رحمت کی بنا پر ایک مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔ اولیاء حضرت خضر علیہ السلام کی تلاش، ان سے ملاقات اور ان سے کسب فیض کے منتظر رہتے ہیں۔ اس تلاش و ملاقات میں اکثر اولیاء کامیاب و کامران بھی ٹھہرے۔ بعض صوفیاء نے یہ دعوی کیا ہے کہ انہوں نے حضرت خضر علیہ السلام سے خرقہ طریقت پایا ہے۔ جبکہ کئی اولیاء کوآپ نے اوراد وظائف عطا کیے۔ اسی طرح چند ایک اولیاء نے جنگلوں اور بیابانوں میں ملاقات کرکے آپ سے کسب فیض کیا۔

  • شیخ محی الدین ابن عربی نے حضرت خضر علیہ السلام سے خرقہ ولایت حاصل کیا (الفتوحات المکیہ)
  • حکیم ترمذی فرماتے ہیں کہ تین سال تک حضرت خضر علیہ السلام ان کی تعلیم وتربیت ان کے گھر میں فرماتے رہے۔ (تذکرۃ الاولیاء 77: 2)
  • اسی طرح صوفیاء میں بلند مقام رکھنے والے حضرت خواجہ بختیار کاکی بھی حضرت خضر علیہ السلام سے فیوض وبرکات سمیٹتے رہے۔ (سیفۃ الاولیاء: 94)

صوفیاء کے بقول حضرت خضر علیہ السلام لوگوں کی تعلیم وتربیت کے لئے مقرر ہیں۔ خصوصاً علماء وصلحاء کی علمی وروحانی ترقی کے لیے مدد فرماتے ہیں۔ مزید یہ کہ مالی مشکلات کا شکار عام غریب لوگوں کی مالی اعانت بھی فرماتے رہتے ہیں۔

حضرت خضر علیہ السلام اور حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا باہمی تعلق

حضور غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی امت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اولیاء وصلحاء کے سرخیل ہیں۔ آپ کی بھی حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور آپ نے بھی ان سے کسبِ فیض کیا۔ حضرت سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ

’’عراق میں دخول کے ابتدائی زمانے میں حضرت خضر علیہ السلام نے میرے ساتھ مرافقت اختیار کی اور شرط یہ رکھی کہ میں ان کی کسی امر میں مخالفت نہیں کروں گا۔ پھر مجھے انہوں نے فرمایا کہ اس جگہ پر بیٹھ جا۔ میں تین سال تک وہاں بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ حضرت خضر علیہ السلام ہر سال میرے پاس تشریف لاتے اور فرماتے کہ اپنی جگہ پر بیٹھے رہنا‘‘۔

پس اس استقامت اور حکم کی بجا آوری کی وجہ سے فیض خضری کاملاً حضور غوث الاعظم میں منتقل ہوا۔ جس طرح حضرت موسی علیہ السلام سے آپ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ آپ کو صبر کرنا ہوگا اور میری مخالفت نہیں کرنی، بعینہ امت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اولیاء کے سالارِ اعظم کو فیض تام دینے کے لیے شرط لگائی اور پھر کامل فیض عطا کر دیا۔

خضرِ امتِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعلان

اللہ رب العزت نے آقا علیہ السلام کو نہ صرف پوری کائنات کا سردار بنایا بلکہ تمام انبیاء کرام اور رسل عظام کو منصب نبوت ورسالت بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مہر تصدیق لگنے کے بعد عطا ہوا۔ بعینہ حضر ت شیخ عبدالقادر جیلانی کو تمام اولیاء وصلحاء کاملین کا سردار بنایا اور آپ کی مہر ولایت کے بعد ہی ولایت کا منصب اولیاء وصالحین کو عطا ہوتا ہے۔ جس طرح تمام انبیاء علیھم السلام کے جملہ اوصاف وکمالات حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ میں جمع فرما دیے اسی طرح تمام اولیاء وصالحین وکاملین کے جملہ اوصاف وکمالات اور فیض خضری حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی میں جمع فرما دیا۔ اسی لیے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ

قَدَمِیْ هٰذِهِ عَلٰی رَقَبَةِ کُلّ وَلِّی اللّٰه.

’’میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے‘‘۔

کثیر تعداد میں اولیاء وصالحین امت کی روایات موجود ہیں کہ دنیا بھر کے اولیاء و صالحین نے حضور غوث الاعظم کا یہ کلام سنا اور عملاً اپنی گردنیں جھکاکر آپ کی غلامی کو قبول کیا۔ آقاعلیہ السلام اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی حضور غوث الاعظم کو فیض کامل عطا فرمایا اور اپنا لعاب دہن عطا کرکے جملہ علوم ومعارف عطا کر دیئے۔

حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور حضرت خضر علیہ السلام کی طرف سے فیض کامل جب حضور غوث الاعظم کی ذات مقدسہ میں مجتمع ہوگیا تو نتیجتاً آپ نے اس کا اعلان بھی فرمایا۔ حضرت مجدد الف ثانی بیان فرماتے ہیں:

ایک دن حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی منبر پر تشریف فرما ہو کر خطاب فرما رہے تھے کہ وہاں سے حضرت خضر علیہ السلام کا گزر ہوا تو حضرت غوث پاک نے فرمایا:

يا خضر بنی اسرائيل اسمع کلام خضر امت محمد

’’اے حضر بنی اسرائیل امت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خضر کا کلام سنتے جاؤ۔

المنتخبات من المکتوبات (مکتوب 56)

چونکہ اب فیض کامل ہو چکا تھا لہٰذا روایات میں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام آپ کی مجالس علمی میں شریک ہوتے۔ اس طرح ولایت خضر کا کامل فیض جس میں بنیادی عناصر رحمت وعلم تھے، بحر بیکراں بن کر تقسیم ہونے لگا اور چہار دانگ عالم میں پھیل گیا۔ لوگ دور دراز سے بڑی تعداد میں گھوڑوں، خچروں، گدھوں اور اونٹوں پر سوار ہو کر آتے اور تقریباً 70 ہزار سے ایک لاکھ کا اجتماع ہوتا۔ 400 علماء آپ کی مجلس میں قلم دوات لے کر حاضر ہوتے اور آپ کے ملفوظات کو احاطہ تحریر میں لائے۔ (بہجۃ الاسرار)

اسی طرح آپ کی مجلس میں دنیا بھر سے اولیاء کرام جسمانی حیات اور ارواح کے ساتھ اور جن وملائک بھی تشریف فرما ہوتے۔ بعض اوقات آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام اور انبیاء علیہم السلام کی ارواح بھی تربیت وتائید کے لیے جلوہ فرما ہوئیں۔ حضرت خضر علیہ السلام نہ صرف خود شریک ہوتے بلکہ مشائخ زمانہ میں سے جس سے بھی ملاقات فرماتے۔ اسے حضرت غوث پاک کی مجلس میں شریک ہونے کی تاکید فرماتے۔ (اخبار الاخیار، سیفۃ الاولیاء)

آپ کی مجالس میں کرامات کا ظہور ہوتا، رحمت الہٰیہ کی برسات آپ کی مجلس پر ہمہ وقت جاری و ساری رہتی۔ آپ اپنی مجالس میں روحانی تصرف فرماتے۔ نہ کسی کو تھوک آتا، نہ کوئی کھانستا، نہ کوئی ایک دوسرے سے محو گفتگو ہوتا، نہ کوئی مجلس میں کھڑا ہونے کی جرات کرتا۔ محدث ابن جوزی جیسے محدثین پر رقت طاری ہوجاتی اور آپ کی مجالس سے بیک وقت کئی کئی جنازے اٹھتے۔

حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کے فیض ولایت سے لوگ توبہ کرکے واپس جاتے اور ہر طرف آپ کے علمی، روحانی تصرفات کا چرچا تھا۔ آپ کو محی الدین کے لقب سے پکارا جانے لگا اور فیوضات محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فیض وبرکات خضر کا مجموعہ اپنے رفعتوں کو چھونے لگا۔

خضر ایک مقام ہے یا شخصیت؟

مندرجہ بالا سطور میں یہ بات واضح ہوگئی کہ حضرت خضر علیہ السلام کا فیض آج بھی فیض غوثیت کی شکل میں تقسیم ہورہا ہے اور قصیدہ غوثیہ اس کی سب سے بڑی شہادت ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خضر ایک مستقل منصب یا عہدہ ہے یا یہ فقط ایک شخصیت تک محدود تھا اور کیا آج اس فیض کی مزید تقسیم بند ہوگئی ہے؟

بعض علمائے تصوف کا یہ خیال ہے کہ خضر ایک شخصیت کا نام نہیں ہے بلکہ رجال الغیب میں ایک منصب کا نام ہے جیسے قطب، غوث یا ابدال کے مناصب ہوتے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ہر زمانے کا ایک خضر ہوتا ہے جو اولیاء کا نقیب ہوتا ہے۔ جب ایک نقیب کا انتقال ہوتا ہے تو دوسرا نقیب اس کی جگہ لیتا ہے، اسے خضر کہتے ہیں۔ (الاصابہ، 294: 2)

اسی طرح بعض کبار صوفیاء کا یہ موقف ہے کہ حضرت خضر بھی رجال الغیب کی طرح نظروں سے اوجھل رہتے ہیں، اس لیے انہیں رئیس الابدال کہا جاتا ہے۔ (احیاء علوم الدین، ص 74)

ان آراء کی روشنی میں معلوم ہوا کہ خضر ایک مقام کا نام ہے۔ خضر ایک کردار کا نام ہے۔ خضر زندگی، ولولہ، علم، محبت و رحمت کا استعارہ ہے۔ خضر تازگی کی علامت ہے۔ خضر تربیت وندرت کی تمثیل ہے۔ خضر انقلاب کی نوید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ’’حیاتِ خضر‘‘، ’’راہِ خضر‘‘ اور ’’عمرِ خضر‘‘ جیسے الفاظ و تشبیہات کا استعمال عام ہے۔

ہر دور میں ایک خضر ہوتا ہے

معلوم ہوا کہ ہر دور میں ایک خضر ہوتا ہے جو اپنے منصب و مقام کے مطابق اس دور کی اصلاح کرتا ہے اور مینارہ نور بن کر تجدید دین کا بیڑہ اٹھاتا ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہاہے تو وقت کے تقاضوں کے مطابق آنے والے خضر کی ذمہ داریوں اور تقاضوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ اﷲَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْاُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُّجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا.

’’اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر صدی کے آخر میں کسی ایسے شخص (یا اشخاص) کو پیدا فرمائے گا جو اس (امت) کے لئے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔ ‘‘

(ابوداؤد فی السنن، کتاب: الملاحم، باب: مايذکر فی قرآن المائة، 4/ 109، الرقم: 4291)

اصلاح کا فریضہ سرانجام دینے والا مجدد اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے باعث مقامِ خضر پر فائز ہوتا ہے۔ اس کا مقصد امت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایسے اقدامات کرنا ہے جس کے نتیجے میں اس دین میں تحریف نہ ہوسکے، زیادہ زمانہ گزرنے سے بوسیدہ نہ ہو اور نہ ہی زمانے کے انقلابات اسے بدل سکیں۔ گویا اللہ تعالی اس کی بقا، حفاظت اور تجدید کا برابر انتظام کرتا رہے گا۔ لہٰذا ہر دور اور ہر قرن میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو زمانہ کی ہواؤں سے دین پر پڑنے والی گرد وغبار کو جھاڑتے رہیں گے۔

آقا علیہ السلام نے فرمایا:

يرث هذا العلم من کل خلف عدوله ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين وتاويل الجاهلين.

’’میرے لائے ہوئے اس علم دین کی امانت کو ہر زمانے کے اچھے اور نیگ لوگ سنبھالیں گے اور اس کی خدمت وحفاظت کا حق ادا کریں گے۔ وہ غلو کرنے والوں کی تحریف اور کھوٹے سکے چلانے والوں کی طمع کاریوں اور جاہلوں کی فاسد تاویلوں سے اس دین کی حفاظت کریں گے‘‘۔

(سنن البيهقی الکبریٰ، 10/ 209، الرقم: 20700)

ہرصدی میں آنے والے ان بندگان خدا کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس امانت کی حفاظت کریں اور اس کو اس کی اصلی شکل میں پیش کرتے رہیں۔ قصیدہ و یاوہ گوئی سے اجتناب کریں گے اور اس دین کی حقیقت تحریفوں، تاویلوں کے پردے میں کبھی اس طرح گم نہ ہونے دیں گے جس طرح پہلے نبیوں کے ذریعے آئی ہوئی تعلیمات دنیا سے گم ہو گئیں۔

  • ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ مجدد کی یہ صفت ہو گی کہ

’’وہ سنت کو بدعت سے نمایاں کرے گا اور علم کو بکثرت شائع کرے گا اور اہل علم کی عزت کرائے گا اور بدعت کا زور توڑدے گا۔ ‘‘

(مرقاة شرح مشکوٰة)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی اشعۃ اللمعات (ج: 1، ص: 182) میں اس حدیث کی شرح میں بیان کرتے ہیں کہ

’’وہ تجدید ونصرت دین اورترویج وتقویت سنت اور قلع قمع بدعت اور اس کی تصنیف ونشر علوم اور اعلائے کلمۃ الاسلام کے ساتھ اپنے اہل زمانہ میں ممتاز ہو گا‘‘۔

مندرجہ بالا سطور کی روشنی میں یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ مجدد دین ہی ہدایت وراہنمائی کے باعث خضر کا اصلی وحقیقی استعارہ ہے۔ علم، معرفت، عمل، جدوجہد، رحمت، مدد ونصرت دین، تصنیف وتالیف، احیاء سنت، محبت وعشق، سلوک وتصوف، فصاحت وبلاغت، گفتگو وخطابت یہ اور اس قبیل کے جملہ اوصاف جب ایک جگہ پر مجتمع ہو جائیں تو ایسی شخصیت ’’خضر‘‘ کے عظیم منصب پر ہی فائز ہوتی ہے۔

تلاشِ خضر کیوں؟

معزز قارئین! مرور زمانہ کے ساتھ تقاضا ہائے زمانہ بھی بدلتے جا رہے ہیں۔ وقت بدلتی کروٹوں کے ساتھ دلوں کی تختی پر کچھ نیاثبت کرنا چاہتا ہے۔ اسلام دین انسانیت ہونے کے ساتھ ساتھ کردار خضر کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ اسلام اور بانی اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات و کردار کے ماتھے کا جھومر، علم ورحمت ہے۔ دین اسلام تا قیام قیامت انسانیت کو در پیش آنے والے جملہ تقاضوں کے جوابات اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ اکیسویں صدی انقلابات کی صدی ہے اور انسان ترقی کی اوج ثریا پر جلوہ افروز ہے۔ سائنس وٹیکنالوجی نے انسان کو علم، عمل اور ترقی کے اعلی ترین مقام پر فائز کر دیا ہے۔ اہل مغرب ترقی کے اس نشے میں دھت ہو کر اہل ہوس بن چکے ہیں، جبکہ پوری دنیا کو علم ونور کا سبق پڑھانے والے غفلت کی نیند سو رہے ہیں اور اس بحث میں مبتلا ہیں کہ فلان زبان سیکھنی چاہیے کہ نہیں۔۔۔ ؟ فلاں علم سیکھنے سے بدعت کے مرتکب تو نہیں ہوجائیں گے۔۔۔ ؟ کونسا لباس اسلام کے مطابق ہے۔۔۔ ؟ صفیں درست ہوں یا نہ ہوں شلوار ٹخنوں سے بلند ہونی چاہئے۔۔۔ مدارس میں ابھی تک کنویں کے مسائل کی تدریس وتعلیم ہو رہی ہے جبکہ دوسری طرف جن سے مقابلہ کا دعویٰ ہے وہ علم و سائنس پر اسلامی ممالک کے مجموعی بجٹ سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔

لہٰذا ضروری تھا کہ اس صدی میں بھی کوئی خضر ہو، کوئی ابن مریم ہو جو امت کی حقیقی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے ہوئے اسے کمال عطا کرے۔ بقول شاعر

ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے درد کی دوا کرے کوئی

یہ قانونِ قدرت وفطرت ہے کہ اندھیروں کے بعد اجالا، رات کے بعد دن، حبس وگرمی کے بعد موسلادھار بارش ہوا کرتی ہے اور جب ہدایت و راہنمائی نایاب ہو جائے تو تلاشِ خضر کی جاتی ہے۔

21 ویں صدی میں اوصافِ خضر کی حامل شخصیت

پس آج مقام خضر پر فائز وہی شخص ہوگا جس کو بارگاہ الہٰی سے آقا علیہ السلام کے توسل اور فیوض و برکات کے طفیل اور اولیائے کاملین کی توجہات کی بدولت علم و رحمت جیسے اوصافِ خضری سے نوازا جائے گا۔

اگر ہم 20 ویں صدی کے اختتام کے حالات کا جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ عالم اسلام آج سے 30 سال قبل علم و رحمت جیسے عناصر خضری سے محروم ہوتا جارہا تھا۔ بحیثیت مجموعی انتشار، تنگ نظری، انتہاء پسندی، نفرت، اختلاف و نزاع ہمارے ہاں عام تھا۔ آج پورا عالم اسلام اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ دہشت گردی، فتنہ خوارج اور قتل عام عالم اسلام کا مقدر بن چکا ہے۔ اسلام کو سلامتی، رحمت و امن کی بجائے دہشت گردی، فتنہ پروری اور قتل عام کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی تھی کہ کوئی ایسی شخصیت ہو جو اسلام کے چہرے پر پڑی تنگ نظری، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی گرد کو جھاڑ دے اور اسلام کا روشن، امن اور سلامتی والے چہرہ سے دنیا کو متعارف کروائے۔

ان حالات میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حضورسیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی کی بارگاہ سے فیوضات لے کر، قدوۃ الاولیاء پیر سیدنا طاہر علاؤالدین کے دست اقدس کو بوسہ دے کر دور حاضر میں کردار و اوصافِ خضری کا حامل بن کر دہشت گردی کے اندھیروں میں امن کا چراغ جلایا۔ آپ کی فروغ امن کے لئے خدمات کے نتیجے میں اسلام کے دامن پر لگا داغ صاف ہوا۔ مسلمانوں کو دنیا بھر میں عزت و وقار میسر آیا۔

دہشت گردی اور تنگ نظری کے ماحول میں شیخ الاسلام کی خدمات کا احاطہ چند صفحات پر ناممکن ہے اس کے لئے کئی جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب درکار ہے تاہم اس موقع پر شیخ الاسلام کی فروغ امن و رحمت کے سلسلہ میں خدمات کے عنوانات پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے:

  1. دعوت و تبلیغ اور تصنیف و تالیف میں تکفیری رویے سے اجتناب
  2. تنگ نظری اور انتہا پسندی کے خاتمے کی جدوجہد
  3. بین المذاہب و بین المسالک امن اور رواداری کے فروغ کے لئے اقدامات
  4. بلا تفریق مسلک ہر ایک کو خوش آمدید
  5. اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کو خوارج قرار دے کر بے نقاب کرنا
  6. دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دے کر پوری دنیا کے مسلمانوں کی فکری رہنمائی کرنا
  7. ہر طبقہ فکر کے لئے فروغ امن نصاب کی تشکیل
  8. ضربِ عضب کے نتائج سے کماحقہ استفادہ کے لئے ضربِ امن و علم کا آغاز
  9. پرامن مذہبی سیاسی و انقلابی جدوجہد کے 35 سال
  10. گستاخی رسالت پر عالمی رہنماؤں اور اداروں کو خطوط لکھ کر نفرت کم کرنا
  11. دنیا بھر میں فروغ امن کے لئے سینکڑوں کانفرنسز اور سیمینار میں شرکت
  12. دہشت گردوں کے معاونین کو بے نقاب کرنا
  13. ملک کی سیاسی قیادت اور افواج پاکستان کی دہشت گردی کے خاتمے میں رہنمائی

امن و رحمت کے کردار کی ایک عظیم مثال

مذکورہ بالا جملہ خدمات فروغ امن میں ایک تاریخ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 23 دسمبر 2012ء کا عوامی اجتماع ہو یا جنوری 2013ء میں کیا گیا عوامی مارچ۔۔۔ اگست 2014ء میں انقلاب مارچ یا 70دن کا عظیم دھرنا۔۔۔ ہر کاوش امن کے کردار کی عمدہ مثال ہے۔ پاکستان میں نظام کی تبدیلی کے لئے اس پرامن جدوجہد میں شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے کارکنان کا امن و رحمت سے بھرپور کردار کھل کر سامنے آیا۔ ذاتی تنقید اور مخالفت کے باوجود شیخ الاسلام اور تحریک کے کارکنوں کے پرامن کردار پر کوئی انگلی نہیں اٹھاسکا۔

17 جون 2014ء کی تاریخ پاکستان کی تاریخ میں المناک المیے سے کم نہیں جب ریاستی اور حکومتی سرپرستی میں پنجاب پولیس نے نہتے لوگوں، خواتین اور بچوں پر گولیاں چلائیں۔ 2 خواتین سمیت 14شہید ہوئے اور 100 سے زائد زخمی ہوئے مگر رد عمل میں یا اپنی حفاظت کی خاطر امن و رحمت کے کردار کے حاملین نے ایک گولی بھی نہ چلائی۔ یہ کردارِ خضری کی ایک بہت بڑی علامت ہے۔ جس طرح حضرت خضر علیہ السلام نے اُن آبادی والوں کے تلخ رویہ اور بدسلوکی کے باوجود اُن کی گرتی ہوئی دیوار کو از سر نو تعمیر کیا تھا۔ اسی طرح شیخ الاسلام نے بھی دشمنوں کے طعنوں و ظلم و ستم سے بے نیاز ہوکر اور ریاستی جبر وبربریت کی وجہ سے قوم کا ساتھ نہ ملنے کے باوجود غریبوں، محتاجوں اور مسکینوں کے حقوق کی بحالی اور عوام پاکستان کو ان کے سیاسی و معاشی حقوق دلوانے کے لئے یہ خضری جدوجہد کل بھی جاری رکھی تھی، آج بھی جاری ہے اور منزل کے حصول تک جاری رہے گی۔

فیض علم غوثیت مآب کا چشمہ

آئینہ رحمت کے معاً بعد وعلمناہ من لدنا علما کا مربوط تعلق اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ کردار خضری کا حامل شخص جہاں اپنے اندر امن و رحمت کا واضح کردار رکھتا ہوگا وہیں علم صحیح (جو کہ علم ظاہرو باطن کا مرکب ہوتا ہے اور انسان کو ہدایت کی طرف گامزن کرتا ہے) کا حامل بھی ہوگا۔ تبھی تو وہ علم صحیح کا حامل انسان دین اسلام کی تجدیدی خدمات سرانجام دے سکتا ہے اور وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے وقت کے تقاضوں کے عین مطابق اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

اگر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات کے اندر صفتِ علم کا جائزہ لیا جائے تو یقینا اسلاف کی وراثت کا وافر حصہ نظر آتا ہے۔ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فروغِ محبت و عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو یا دینی و اعتقادی الجھنوں کا ازالہ، عصر حاضر کے جدید عصری مسائل ہوں یا فلسفہ و منطق کے گورکھ دھندے، مجددانہ شان کے مطابق دعوت و تبلیغ و اشاعت اسلام ہو یا علمی، فکری و نظری اصلاح، اس مادیت زدہ دور زوال میں امت کے احوالِ مادی کو احوالِ روحانی کی روشنی عطاکرنے کے لئے دروسِ تصوف ہوں یا شب زندہ داریاں، اجتماعی روحانی اعتکاف ہو یا امت کے علمی و تعلیمی احوال میں انقلاب، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مقام خضر پر کھڑے ہوکر یہ تمام فیوضات تقسیم کرتے نظر آتے ہیں۔

اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو رواں صدی امت مسلمہ کے علمی و ثقافتی ورثہ کی گراوٹ کی صدی ہے لیکن اس پرآشوب دور میں کہ جب قصہ گوئی، شعر گوئی، برسر منبر مغلظات بیان کرنا شیوہ ہو تو اس دور میں لوگوں کا تعلق قرآن اور علوم قرآن سے جوڑنا، قادیانی و پرویزی فتنوں اور منکرین حدیث کی کارستانیوں کے باوجود امت کو علم الحدیث کا وسیع ذخیرہ مرتب کرکے دینا، تعلیمی و تدریسی اداروں کا جال بچھانا، قانونی علوم پر دسترس رکھتے ہوئے فقہی تشریحات کرنا، دنیا بھر میں تنظیمی نیٹ ورک کا جال بچھانا اور امت کے غریب، مفلوک الحال، پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی جنگ لڑنا، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے تجدیدی کارنامے ہیں اور یقینا یہ فیضان محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فیضان خضری کا مجموعہ ہے کہ جس کی نظیر تاریخ اسلام میں بہت کم ملتی ہے۔

فروغ امن کی طرح فروغ علم کی 35 سالہ جدوجہد کو بیان کرنے کے لئے بھی کئی جلدوں کی ضخیم کتاب درکار ہے۔ ذیل میں ان کے علمی فیضان میں سے چند اہم خدمات کا ذکر کرتے ہیں:

  1. بیسیوں موضوعات پر مشتمل 500 سے زائد کتب کی اشاعت
  2. 6000 سے زائد عنوانات پر ہزاروں خطابات
  3. تصوف کے احیاء پر سینکڑوں موضوعات پر خطابات
  4. علم تصوف، تاریخ تصوف اور تعلیمات تصوف کے موضوع پر 50 سے زائد کتب کی اشاعت
  5. امت مسلمہ کی رہنمائی کے لئے قرآن مجید کا جدید سائنسی، علمی، فکری، اعتقادی اور فقہی شان کا حامل ترجمہ قرآن
  6. 16 سو سالہ اسلامی دور میں علم حدیث کی تدوین کے بعد اشاعت اور تدوین نو میں لازوال المنہاج السوی، معارج السنن اور اربعینات کی شکل
  7. مقدمہ سیرت الرسول اور قرآنی فلسفہ انقلاب جیسے نئے علوم کی تشکیل
  8. گستاخی رسالت، گستاخی صحابہ، گستاخی اہل بیت، فتنہ قادیانیت، فتنہ انکار حدیث، منکرین تصوف اور فتنہ خوارج کے خلاف علمی و فکری لازوال جدوجہد

فروغ امن و علم کی یہ خدمات یقینا دور حاضر میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضور سیدنا غوث الاعظم اور خواجہ خضر علیہ السلام کی فیوضات اور عنایات کا مجموعہ ہے۔ لہذا دور حاضر میں اگر کوئی تلاشِ خضر میں سرگرداں ہے تو اسے چشمہ منہاج القرآن سے شیخ الاسلام کی صورت میں یہ نعمت میسر ہے۔