الفقہ: آپ کے فقہی مسائل

مفتی عبدالقیوم خاں ہزاروی

سوال :آج کل موبائل فون میں قرآن مجید عام ہے اسے بے وضو چھونے اور پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ جبکہ عوام الناس اسے بے وضو چھوتے اور پڑھتے ہیں؟

جواب: موبائل یا کمپیوٹر سکرین پر نظر آنے والی قرآنی آیات کو بلا وضو یا حالتِ جنابت میں چھونا جائز ہے۔ موبائل یا کمپیوٹر کی سکرین جو آیات نظر آتی ہیں، وہ ’’سافٹ وئیر‘‘ ہیں۔ یعنی وہ ایسے نقوش ہیں جنہیں چھوا نہیں جاسکتا۔ یہ نقوش بھی کمپیوٹر یا موبائل کے شیشے پر نہیں بنتے بلکہ ’’ریم‘‘ پر بنتے ہیں اور شیشے سے نظر آتے ہیں، لہٰذا اسے مصحفِ قرآنی کے ’’غلافِ منفصل‘‘ پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ غلافِ منفصل سے مراد ایسا غلاف ہے جو قرآنِ کریم کے ساتھ لگا ہوا نہ ہو بلکہ اس سے جدا ہو۔ ایسے غلاف میں موجود قرآنِ کریم کو بلا وضو چھونے کی فقہائے کرام نے اجازت دی ہے۔

مس المصحف لا يجوز لهما وللجنب والمحدث مس المصحف الا بغلاف متجاف عنه کالخريطة والجلد الغير المشرز لابما هو متصل به.

حیض ونفاس والی عورت، جنبی اور بے وضو کے لئے مصحف کو ایسے غلاف کے ساتھ چھونا جائز ہے جو اس سے الگ ہو، جیسے جزدان اور وہ جلد جو مصحف کے ساتھ لگی ہوئی نہ ہو۔ جو غلاف مصحف سے جڑا ہوا ہو،اس کے ساتھ چھونا جائز نہیں۔

(هندية 1: 39)

سکرین پر نظر آنے والی آیات کی مثال ایسی ہی ہے کہ گویا قرآنی آیات کسی کاغذ پر لکھی ہوئی ہوں اور وہ کاغذ کسی شیشے کے بکس میں پیک ہو، پھر باہر سے اس شیشے کو چھوا جائے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ غلافِ منفصل کی طرح یہ شیشہ اس جگہ سے جدا ہے جہاں آیات کے نقوش بن رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح اگر صندوق کے اندر مصحف موجود ہو تو اس صندوق کوجنبی (جس پر غسل فرض ہو) شخص کے لیے اٹھانا اور چھونا جائز ہے۔ جیساکہ امام شامی نے فرمایا ہے:

لَوکَانَ الْمُصْحَفْ فِیْ صُنْدُوْقٍ فَلَا بَاسَ لِلْجُنُبِ اَنْ يَحْمِلَهُ.

’’اگر قرآنِ کریم کسی بکس کے اندر ہو تو جنبی کے لیے اس بکس کو چھونے پر کوئی گناہ نہیں ہے‘‘۔

(ابن عابدين، رد المحتار علی الدر المختار، 1: 293)

لہٰذا موبائل یا کمپیوٹر سکرین پر نظر آنے والی قرآنی آیات کو حالتِ جنابت میں یا بلا وضو چھونا اور پکڑنا جائز ہے۔ بے وضو شخص کے لیے اس سے تلاوت کرنا بھی جائز ہے، تاہم جنبی کے لیے قرآنِ کریم کی تلاوت ناجائز ہے، اس سے احتراز لازم ہے۔

سوال :کیا شریعت نے منافع کی کوئی حد مقرر کی ہے؟

جواب:اسلام کا نظریہ معیشت فطرت سے ہم آہنگ اور تمام معاشی مشکلات کا حل ہے، اس لئے کہ یہ نظام نہ تجربات کا مرہون منت ہے اور نہ اقتصادی ماہرین کی ذہنی کاوش کا نتیجہ بلکہ یہ معاشی نظام پروردگار نے تجویز کیا اور پیغمبر اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیش کیا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

وَابْتَغِ فِيْمَآ اٰتٰـکَ اﷲُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيْبَکَ مِنَ الدُّنْيَا وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اﷲ ُ اِلَيْکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ ط اِنَّ اﷲَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ.

’’اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول اور تو (لوگوں سے ویسا ہی) احسان کر جیسا احسان اللہ نے تجھ سے فرمایا ہے اور ملک میں (ظلم، ارتکاز اور استحصال کی صورت میں) فساد انگیزی (کی راہیں) تلاش نہ کر، بیشک اللہ فساد بپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔

(القصص، 28: 77)

اسلام کے معاشی نظام کی یہ خاصیت ہے کہ وہ طبیعتوں میں بلندی، ذہنوں میں وسعت، اور دلوں میں خلق خدا سے محبت پیدا کرتا ہے، وہ دولت جمع کرنے، یا تعیّش کی زندگی اختیار کرنے کے بجائے ایثار وقربانی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حاضر بارگاہ ہوکر عرض گزار ہوا:

يَارَسْولَ اللّٰهِ سَعِّرْ فَقَالَ بَلْ اَدْعُو ثُمَّ جَائَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ سَعِّرْ فَقَالَ بَلْ اللّٰهُ يَخْفِضُ وَيَرْفَعُ وَاِنِّی لَاََرْجُو اَنْ اَلْقَی اللّٰهَ وَلَيْسَ لِاَحَدٍ عِنْدِی مَظْلَمَةٌ.

’’یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم (اشیاء) نرخ مقرر فرما دیجیے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بلکہ دعا کروں گا۔ پھر ایک شخص نے آکر عرض کی: یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! بھاؤ مقرر فرما دیجیے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی بھاؤ گھٹاتا اور بڑھاتا ہے اور میں یہ آرزو رکھتا ہوں کہ اس حال میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروں کہ میں نے کسی پر بھی زیادتی نہ کی ہو۔‘‘

  1. احمد بن حنبل، المسند، 2:337، رقم: 8429
  2. ابی داؤد، السنن، 3:272، رقم: 3451

اسلام کا اقتصادی و معاشی نظام ایک مکمل نظامِ معیشت ہے جس میں دنیاوی منافع کو قرآنِ مجید نے ’فضل‘ اور ’خیر‘ کہا ہے اور رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلال طریقے سے رز ق کے حصول کو اہم فریضہ قرار دیا ہے۔ شریعت اسلامیہ میں اشیاء کو ذخیرہ کر کے مصنوعی قلت پیدا کرنے، اشیاء کے عیوب چھپا کر بیچنے، ملاوٹ کرنے، قسم کھا کر اشیاء فروخت کرنے، ناپ تول میں کمی کرنے اور ایسی ہی دیگر برائیوں سے باز رہنے کے نہ صرف احکام صادر فرمائے ہیں بلکہ ان پر سخت وعید بھی سنائی ہے۔

شرعِ متین میں متعارف کروائے گئے خرید وفرخت کے نظام میں منافع کی کوئی حد متعین نہیں کی کہ اتنا جائز ہے اور اس سے زائد ناجائز، تاہم شرع نے ناجائز اور ظالمانہ منافع خوری پر پابندی عائد کی ہے۔ اسلام نے حکومتِ وقت کو اختیار دیا ہے کہ منصفانہ منافع کا معیار مقرّر کر کے زائد منافع خوری کا خاتمہ کرے۔

لہٰذا ایک مسلمان کے لیے مارکیٹ کی عام اور متعارف قیمت سے زیادہ وصول کرنا اور لوگوں کی مجبوری و لاعلمی سے فائدہ اْٹھانا جائز نہیں۔ ایسی ناجائز منافع خوری سے احتراز لازم ہے جس میں بازار کی عام اورمتعارف قیمت سے زیادہ قیمت وصول کی جائے۔

سوال: اگر ایک بیوہ کام کرنے والی خاتون ہے اور اس کا کمانے والا کوئی نہیں ہے، تو اس کی عدت کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ عدت کے دوران کام پر جاسکتی ہے؟

جواب: دورانِ عدت بیوہ اور مطلقہ کے لیے نکاح اور زیب و زینت کی ممانعت ہے، جبکہ شرعی پردے کے اہتمام کے ساتھ بوقتِ ضرورت وہ گھر سے باہر جاسکتی ہے۔ بوقتِ ضرورت گھر سے باہر نکلنے کی شرط صرف عدت والی خواتین کے لیے نہیں ہے، بلکہ بغیر ضرورت اور پردہ کے خواتین کا گھر سے نکلنا اسلام کی نگاہ میں ممنوع ہے چاہے وہ کنواری ہوں یا شادی شدہ، بیوہ ہوں یا مطلقہ۔ بامرِ مجبوری عدت والی خواتین ڈیوٹی پر جاسکتی ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

طْلِّقَتْ خَالَتِی فَاَرَادَتْ اَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا فَزَجَرَهَا رَجُلٌ اَنْ تَخْرُجَ فَاَتَتِ النَّبِيَ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: بَلیٰ، فَجُدِّی نَخْلَکِ فَاِنَّکِ عَسَی اَنْ تَصَدَّقِی اَوْ تَفْعَلِی مَعْرُوفًا.

’’میری خالہ کو طلاق دے دی گئی تھی، انہوں نے اپنے باغ کی کھجوروں کو توڑنے کا ارادہ کیا، انہیں گھر سے باہر نکلنے پر ایک شخص نے ڈانٹا، وہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئیں، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں! تم اپنے باغ کی کھجوریں توڑ لاؤ، ہوسکتا ہے کہ تم اس میں سے صدقہ دو یا کوئی اور نیکی کرو۔‘‘

(مسلم، الصحيح، 2: 1121، رقم: 1483)

سوال:قرآن و سنت کی روشنی سے سورج گرہن اور چاند گرہن کی کیا حقیقت ہے؟

جواب: قرآن کریم میں ارشاد ہے:

اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَان.

’’سورج اور چاند (اسی کے) مقررّہ حساب سے چل رہے ہیں‘‘۔

(الرحمن، 55: 5)

یعنی ان کی منزلیں رب تعالیٰ نے قائم فرما دیں وہ اپنے بروج یعنی محور میں گردش ہیں جس کے نتیجے میں رات، دن، مہینے اور سال بنتے ہیں۔رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں سورج گرہن ہوا۔ آپ نے نماز کسوف پڑھائی، گرہن ختم ہوا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إن الشمس والقمر آيتان ايات اﷲ لا ينخسفان لموت احد ولا لحياته فاذا رأيتم ذلک فادعوا اﷲ وکبروا وصلوا وتصدقوا ثم قال يا امة محمد واﷲ ما من احد اغير من اﷲ ان يزني عبده او تزني امته يا امة محمد و اﷲ لو تعلمون ما اعلم لضحکتم قليلاً ولبکيتم کثيرا.

’’بے شک سورج، چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ نہ کسی کے مرنے سے یہ بے نور ہوتے ہیں اور نہ کسی کے زندہ ہونے سے۔ جب بھی یہ (گرہن) دیکھو تو اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو اور اسکی بڑائی بیان کرو، نماز پڑھا کرو اور صدقہ دو۔ پھر فرمایا! اے امت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ کی قسم اللہ سے بڑا غیرت مند کوئی نہیں کہ اس کا غلام یا باندی زنا کرے، اے امت محمد! جو میں جانتا ہوں اگر تم جان لو، تھوڑا ہنسو اور زیادہ روؤ‘‘۔

(بخاري ، الصحيح، 1:354 ، الرقم: 997)

گرہن کے دوران حاملہ عورت یا غیر حاملہ، کسی کو کچھ نہیں ہوتا، نہ بچے کو کچھ ہوتا ہے۔ یہ سب وہم ہے، وہم سے بچیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم گرہن کے وقت مسجد میں تشریف لے جاتے، نماز ادا فرماتے، گڑ گڑا کر دعا فرماتے۔ امت کے لئے بھی یہی ہدایت ہے کہ لوگ مسجد میں جائیں، بہتر ہے کہ با جماعت نماز کسوف ادا کریں، نہیں تو اکیلے ادا کریں، توبہ استغفار کریں۔ صدقہ و خیرات کریں، اللہ اکبر کی تکرار کریں، درود سلام پڑھیں، ذکر کریں، نوافل ادا کریں۔

فقہائے کرام فرماتے ہیں: وإذا انکسفت الشمس صلی الا مام بالناس رکعتين کهياة النافلة ’’جب سورج گرہن ہو تو امام لوگوں کو دو رکعت نفل پڑھائے‘‘ ويطول القراة فيهما ويخفی ان میں قرات لمبی اور آہستہ کرے ويدعو بعدهاحتی تنجلی الشمس نماز کے بعد دعا کرے یہاں تک کہ سورج نظر آنے لگے... ويصلی بهم الا مام الذی يصلی بهم الجمعة و ان لم يحضر صلی الناس فُرادیٰ لوگوں کو جمعہ پڑھانے والا امام نماز کسوف پڑھائے، اگر موجود نہ ہو تو لوگ الگ الگ نماز پڑھیں۔ وليس فی خسوف القمر جماعة وليس فی الکسوف خطبة لانه لم ينقل چاند گرہن میں جماعت منقول نہیں اور سورج گرہن میں خطبہ منقول نہیں۔