دہشت گردی کے عوامل کا تدارک اور تعلیماتِ صوفیاء

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے زیر اہتمام عالمی صوفی کانفرنس سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا خصوصی خطاب (حصہ اول)

مرتب: محمد یوسف منہاجین

معاون:محمد خلیق عامر

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عالمی صوفی کانفرنس سے خطاب کے آغاز میں صدر آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ محترم المقام سید محمد اشرف صاحب سمنانی کچھوچھوی، جملہ اکابر اَرکان، کارکنان و وابستگان و محبانِ آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ، جمیع مشائخ عظام، حضرات سجادگان، نمائندگان صوفیاء کرام، وارثانِ اَہلِ خانقاہ، اَہلِ علم و فکر، علماء و زُعماء، نوجوانانِ ملت اور سرزمین ہند سے آئے ہوئے لاکھوں خواتین و حضرات کو دعائیہ کلمات سے نوازنے کے بعد آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ اور ورلڈ صوفی فورم کے جملہ نمائندگان، معاونین اور منتظمین کو عظیم الشان عالمی صوفی کانفرنس کے انعقاد اور شاندار اِہتمام پر صمیم قلب سے مبارک باد دی۔ بعد ازاں آپ نے دہشت گردی و انتہاء پسندی کے اسباب، اس ناسور کے خاتمہ اور صوفیاء کی تعلیمات کے حوالے سے علمی و فکری خطاب ارشاد فرمایا۔ یہ خطاب اپنی اہمیت و افادیت کے پیش نظر نذرِ قارئین ہے:

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

يٰـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّةً.

’’اے ایمان والو! تم سارے کے سارے ظاہر و باطن میں امن اور سلامتی کی زندگی میں داخل ہو جاؤ۔‘‘

(البقرة، 2: 208)

سر زمین ہند پر گنگا جمنی تہذیب کے نام سے پر امن بقاے باہمی peaceful coexistence کی ایک پوری تاریخ ہے۔ اس تاریخ کے بانی وہ صوفیاء اور اولیاء ہیں جو سرزمین ہند پر باہر سے تشریف لائے یا جنہوں نے سرزمین ہند پر جنم لیا۔ ان اولیاء و صوفیاء نے پہلے زمانوں میں مذاہب کے درمیان جاری جنگوں کا خاتمہ کر کے اس دھرتی کے بسنے والوں کو باہمی محبت، برداشت، رواداری اور بقائے باہمی کا درس دیا اور ایک ایسی تہذیب تشکیل دی جس تہذیب میں تمام مذاہب کے پیروکار اَمن اور شانتی سے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے لگے۔

جملہ اولیاء و صوفیاء کرام خواہ حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ تھے، یا حضرت خواجہ غریب نواز سیدنا معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔ حضرت خواجہ قطب الدین بخیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ تھے یا حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ تھے یا حضرت غوث بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔ نصیر الدین محمود چراغ رحمۃ اللہ علیہ تھے یا سید محمد گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔ شیخ نظام الدین شیرازی رحمۃ اللہ علیہ تھے یا شرف الدین احمد منیری رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔ سید برہان الدین قطب عالم بخاری رحمۃ اللہ علیہ تھے یا حضرت میر سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔ حضرت شیخ ابوالفتح جان پوری رحمۃ اللہ علیہ تھے یا شیخ عبداللہ شتاری رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔ حضرت جلال الدین مانک پوری رحمۃ اللہ علیہ تھے یا حضرت شہاب الدین دولت آبادی رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔ حضرت خواجہ حسین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ تھا یا مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔ حضرت باقی باللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تھے یا حضرت سید بدیع الدین قطب المدار رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔ حضرت غوث سید احمد الرفاعی رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء اور آپ کے وارثان تھے یا غوث ابو مدین المغربی رحمۃ اللہ علیہ کے وارثان۔۔۔ ابو الحسن شاذلی رحمۃ اللہ علیہ کے وارثان تھے یا سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے وارثان۔۔۔ الغرض سب صوفیاء اور اولیاء نے اپنی تعلیمات، اَعمالِ صالحہ اور اَخلاقِ حسنہ کے ذریعے ایسی محبت پھیلائی جس نے امن، شانتی اور بھائی چارے کو جنم دیا۔

یہ سرزمین دنیا کی واحد سرزمین ہے جس میں اس قدر مذاہب کے ماننے والے رہ رہے ہیں کہ روئے زمین پر اتنا کثیر المذاہب خطہ کسی اور جگہ دکھائی نہیں دیتا۔ کثیر المذہب، کثیر الثقافت، کثیر اللسان، کثیر التہذیب، کثیر الطبقات اور کثیر الجہات ہو کر بھی ان ساری کثرتوں کا وحدت کی شکل میں قائم رہنا صوفیاء کے قدموں کا فیض تھا۔ علماء و مشائخ بورڈ کے حضرات مبارکباد کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے پھر سے اِس بھولے ہوئے پیغام کو زندہ کرنے، تازہ کرنے، یاد دلانے اور پھیلانے کے لیے عزمِ مصمم کیا اور اس جد و جہد کا آغاز آج کی کانفرنس سے کیا۔ میں ہر مرحلے پر آپ کی کامیابی و کامرانی کی دعا کرتا ہوں۔

دہشت گردی کے عوامل و اسباب

دہشت گردی و انتہاء پسندی ہر آئے روز کیوں اپنے پنجے دراز کئے جارہی ہے۔۔۔؟ وہ کون سے عوامل اور اسباب ہیں جو اس ناسور کی پرورش کررہے ہیں۔۔۔؟ ان سوالات کا جواب معلوم کئے بغیر ہم اس عفریت سے کماحقہ نبرد آزما نہیں ہوسکتے۔ لہذا آیئے سب سے پہلے ہم دہشت گردی کے عوامل کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں:

نظریاتی عوامل

دہشت گردی کے فروغ کا ایک اہم عامل نظریاتی عامل ہے۔ بعض مسلم ممالک پچھلے 60 سالوں سے اسلام کے نام پر مذہبی تنگ نظری کو فروغ دے رہے ہیں، فرقہ واریت کی اشاعت کر رہے ہیں اور انتہاء پسندی پر اربوں، کھربوں ڈالر خرچ کیا جا رہا ہے۔ یاد رکھیں کہ دہشت گردی، تنگ نظری سے جنم لیتی ہے اور تنگ نظری ہی انتہاء پسندی پیدا کرتی ہے۔ انتہا پسندی کی آسان شناخت یہ ہے کہ یہ تکفیری نظریے و روّیے کو جنم دیتی ہے۔ تاریخ اسلام میں درج ذیل دو روّیے ہمیشہ رہے ہیں:

  1. صوفیاء کا روّیہ: اس رویہ کے حاملین کا طرز ہمیشہ سے لوگوں کو اسلام میں داخل کرنا رہا ہے اور ہے۔
  2. انتہا پسندوں کا روّیہ: اس رویہ کے حاملین کا رویہ ہمیشہ سے مسلمانوں کو اسلام سے خارج کرنا رہا ہے اور ہے۔

صوفیاء لوگوں کو اسلام میں داخل کرتے رہے، جبکہ انتہاء پسند ہمیشہ اسلام سے خارج کرتے رہے۔ یہ تکفیری روّیے ہی انتہا پسندی کو جنم دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ تکفیری رویے آج کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ یہ گذشتہ تیرہ سو سال سے ہیں۔ اعتدال کا رویہ بھی پندرہ سو سال سے ہے جو رسول اللہ a نے عطا کیا۔ ماضی بعید میں اعتدال، وسعت، برداشت اور علم و تحقیق کا روّیہ بھی تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ تکفیری، تفسیقی اور تضلیلی روّیہ بھی تھا۔

میرے سامنے چودہ صدیوں پر مشتمل علم کی تاریخ ہے، اس بنیاد پر میں یہ بات پوری ذمہ داری سے کہنا چاہتا ہوں کہ چودہ سو سال میں مجھے ایک صوفی بھی ایسا نظر نہیں آیا جس نے کسی مسلمان کی تکفیر کی ہو۔۔۔ کسی صوفی نے کبھی کسی کو واجب القتل نہیں گردانا۔۔۔ کسی کو خارج از اسلام نہیں کیا۔۔۔ اور کسی مسلمان کو مرتد نہیں کہا۔ لوگوں پر تکفیریت، واجب القتل ہونے، خارج از اسلام ہونے اور مرتد ہونے کے فتوے لگتے رہے مگر یہ فتوے صوفیاء کے خلاف مولوی حضرات لگاتے رہے۔ ایسا ملّا ہر دور میں رہا ہے اور ایسے انتہا پسند مذہبی لوگ بھی ہر دور میں تھے۔

تکفیری روّیوں کا شکار ہمارے اسلاف

اسی تکفیری روّیے نے ہمارے اکابر اسلاف کو بھی معاف نہ کیا بلکہ کبار ائمہ اور علم و فکر کی منابع ان تنگ نظر و انتہاء پسند عناصر کے فتوئوں کی زد میں رہے:

  • اسی تکفیری روّیے نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کو جیل تک پہنچایا یہاں تک کہ آپ کی وفات بھی جیل میں ہوئی اور جنازہ بھی وہاں سے اٹھا۔
  • اسی تکفیری رویے کے نتیجے میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو 25 برس تک گھر میں بند کر دیا گیا اور وہ مسجد نبوی میں باجماعت نماز اور جمعہ پڑھنے کے لیے بھی 25 برس تک گھر سے نہ نکل سکے۔ آج دنیا امام مالک کو علم کا امام مانتی ہے اور ان کی تقلید کرتی ہے مگر اس زمانہ میں تکفیریوں اور انتہا پسندوں نے ان سے بھی بدسلوکی کی اور ظلم و ستم ڈھائے۔
  • اسی تکفیری اور انتہاپسندی کے روّیے نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف عراق اور مصر میں مہمات چلائیں۔
  • اسی تکفیری روّیے نے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو کوڑے لگوائے اور ان کو جیل میں ڈالا گیا۔
  • حضرت ابویزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کو اُس وقت کے مفتیوں نے کافر ہونے کا فتویٰ لگا کر بسطام سے نکال دیا۔ اس زمانہ کے فتوے اتنے شدید ہوتے تھے کہ آپ نے سات مرتبہ بسطام میں پلٹ کر آنے کی کوشش کی مگر ہر مرتبہ نکال دیا گیا اور بسطام نہ آنے دیا گیا۔ آج اُن فتویٰ لگانے والوں کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں مگر صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی لوگ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کو جانتے اور ان کے مزار پُرانوار کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔
  • حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کو زندیق کہہ کر زنجیریں پہنائیں اور قیدی بنا کر مصر سے بغداد لایا گیا۔
  • حضرت سہل بن عبد اﷲ تستری رحمۃ اللہ علیہ (جن کے حوالے سے کتابیں بھری پڑی ہیں) پر کفر کے فتوے لگاکر تستر سے نکال کر بصرہ لایا گیا اور وہ وفات تک وہیں بند رہے۔
  • امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ پر بھی کفر کے فتوے لگے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان کی کتاب ’اِحیاء العلوم‘ کو جلا دینے کا حکم دیا گیا اور شہر کے چوراہوں میں رکھ کر ’اِحیاء العلوم‘ کو جلا دیا گیا۔ احیاء العلوم کا علمی و فکری مقام یہ ہے کہ آج کوئی عالم اور صوفی اس کے بغیر علم کا سفر طے نہیں کر سکتا۔
  • حضرت شیخ ابو الحسن الشاذلی  رحمۃ اللہ علیہپر کفر کے فتوے لگے اور ان کو اپنی سرزمین سے نکال دیا گیا۔ مصر پہنچے تو وہاں پتھر برسائے گئے، پلٹ کر اپنے وطن آئے تو اِدھر پتھر برسائے گئے۔ الغرض سمندر میں ہی ان کی زندگی بیت گئی۔ وہاں اُن پر ’’حزب البحر‘‘ اتری اور آج اولیاء اسی حزب البحر کا وظیفہ پڑھتے ہیں۔
  • حضرت یوسف بن حسین رازی رحمۃ اللہ علیہ پر کفر کے فتوے لگے، انہیں مارتے مارتے بغداد پہنچایا گیا اور وہیں ان کی شہادت ہوئی۔
  • حضرت شیخ احمد الرفاعی رحمۃ اللہ علیہ پر زندیق ہونے اور کفر کا فتویٰ لگا۔ اسی طرح حضرت سمنون محب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت ابوسعید الخراز رحمۃ اللہ علیہ، حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شیخ ابو بکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت غوث ابو مدین المغربی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت تاج الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ پر بھی کفر کے فتوے لگے اور انتہاء پسندوں نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے۔

حتی کہ کسی صوفی پر یہودی ہونے کا الزام لگتا، کسی کو نصرانی کہا جاتا اور کسی کو مجوسی کہا جاتا۔

آج ان اولیاء و صوفیاء کے ناموں اور تعلیمات سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ علم کا سفر ان ناموں کے بغیر طے نہیں ہوتا۔۔۔ سلوک و معرفت کا تذکرہ ان ناموں کے بغیر نہیں ہوتا۔۔۔ اَہلِ سنت کا کوئی تصور ان ناموں کے بغیر ذہنوں میں نہیں ابھرتا۔۔۔ اَہلِ حق کا کوئی تشخص ان تذکروں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔۔۔ اس سب کے باوجود اور ان علمی و فکری اور روحانی خدمات کے باوجود تنگ نظری پر مبنی ایک خاص سوچ اور انتہا پسندی کے روّیے نے ان کے ساتھ ناقابل بیان سلوک کیا۔ الغرض اس حوالے سے صوفیاء و اولیاء کی ایک تاریخ بھری پڑی ہے۔

وہ اولیاء اور صوفیاء جن کی خانقاہوں سے انسانیت نے فیض لیا۔۔۔ جنہوں نے لوگوں کے سینوں میں سنت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغ روشن کیے۔۔۔ لوگوں کو بدعتوں اور فسق و فجور کی ظلمتوں سے نکالا۔۔۔ انسانیت کو آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا نور عطا کیا۔۔۔ آج بھی اُن کے دروازوں پر جا کر لوگ فیض کی خیرات مانگتے ہیں مگر انتہا پسند تکفیری روّیے کے حاملین ان میں سے کسی کو بھی اپنے زمانے میں معاف نہیں کرتے رہے۔

دہشت گردی و انتہاء پسندی کے فروغ کا نظریاتی عامل یہ تکفیری روّیہ ہے۔ اس تکفیری روّیے کے باعث عدم برداشت اور انتہاپسندی پیدا ہوتی ہے۔ یہ رویے ہمیں مل جل کر بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ایک دوسرے کی بات سننے، سنانے اور سمجھنے، سمجھانے نہیں دیتے بلکہ صرف فتویٰ بازی کرتے ہیں۔ اس آگ کو بجھانے کا عمل صرف صوفیاء کرام نے کیا تھا اور آج بھی اگر صوفیاء کی تعلیم کو زندہ کریں گے تب ہی ہر مقام پر تکفیریت اور انتہاپسندی کا خاتمہ ہوگا۔ اس لئے کہ یہ رویے انتہاء پسندی کی نظریاتی بنیادیں ہیں اور اسی سے دہشت گردی جنم لیتی ہے۔

سیاسی، معاشی اور معاشرتی عوامل

دہشت گردی کے پیچھے نظریاتی کے ساتھ ساتھ سیاسی، سماجی اور معاشی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ علاقوں کی غربت، انتہاپسندی، دہشت گردی، قتل و غارت گری اور ڈاکہ زنی جیسے جرائم دہشت گردی کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے میں انڈیا اور پاکستان دونوں حکومتوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے بجٹ آپس کی عداوتوں پر خرچ کرنے کے بجائے غربت کے خاتمے پر خرچ کریں۔ تقسیم ہند کو ستر برس ہو گئے، دو ملک وجود میں آگئے، دونوں ملک اب ایک حقیقت ہیں، نہ انڈیا نے ختم ہونا ہے اور نہ کبھی پاکستان نے ختم ہونا ہے۔ان دونوں نے آپس میں چار جنگیں بھی لڑ کر دیکھ لیں مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کیا انڈیا اور پاکستان دونوں حکومتوں نے ہمیشہ کے لیے فیصلہ کر لیا ہے کہ ایک دوسرے کے دشمن رہیں گے؟ اس میں دونوں ملکوں کی نسلوں کا کیا قصور ہے جو دشمنی کی بھینٹ چڑھتی جارہی ہیں۔ خدا کے لیے دشمنی ختم کرو اور بجٹ دشمنی پر لگانے کے بجائے اس خطے کی غربت کے خاتمے اور اَمن کے فروغ پر خرچ کرو۔

انڈیا کو سمجھ لینا چاہیے کہ اُس کا دشمن پاکستان نہیں ہے اور پاکستان کو سمجھ لینا چاہیے کہ اُس کا دشمن انڈیا نہیں ہے۔ دونوں خطوں کے عوام ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ یہ دونوں ملک ایک دوسرے کے دشمن نہیں بلکہ دونوں کا دشمن ایک ہے اور وہ دشمن آتنک واد (دہشت گردی) اور آتنک وادی (دہشت گرد) ہے۔ ان کا دشمن انتہا پسندی ہے۔ لہذا ان دونوں ملکوں کو اپنا بجٹ مل کر دہشت گردی اور دہشت گرد کے خاتمے کے لیے خرچ کرنا ہوگا۔

دہشت گردی اور دہشت گرد کے طاقت ور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جن گھروں کے چولہے میں آگ نہیں جلتی، وہ غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو دہشت گردوں کے ہاتھ فروخت کررہے ہیں۔ لہذا غربت کی آگ بجھائیں گے تو خطے میں امن آجائے گا۔ اپنے وسائل معاشی ترقی (economic growth)، غربت کے خاتمہ (alleviation of poverty) امن کے فروغ ( promotion of peace) آپس کے بھائی چارے، برداشت اور محبت کے رویہ کے فروغ پر خرچ کرنا ہوں گے۔ اپنے لوگوں کے روزگار، نوکریوں (jobs)، تعلیم ( education) اور صحت (health) کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔ سارا بجٹ اگر غریب انسانیت پر خرچ ہوگا تو امن خودبخود آئے گا اور دہشت گردی کو کسی بھی طرف سے کوئی بھی مدد و تعاون نہیں مل سکے گا۔

عالمی نااِنصافیاں۔ ایک اہم عامل

دہشت گردی کے فروغ میں نظریاتی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی عوامل کے ساتھ ساتھ عالمی ناانصافیوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ موجودہ دہشت گردی کے اسباب پر اگر غورکریں تو پچھلی دو صدیوں سے عالمی سیاسی مقاصد کے لیے انتہاء پسندی کی فکر کو سیاسی طور پر مدد فراہم کی گئی۔ ان عناصر کو politically support کیا گیا۔ یہ سلسلہ بیسویں صدی عیسوی (پچھلی صدی) کے اوائل تک بھرپور طریقے سے جاری رہا۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں (World War) ہوئیں مگر اب تک عالمی پالیسی کا رخ اُسی سمت ہے۔

لہذا دہشت گردی و انتہاء پسندی کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے کہ عالمی سطح کی ناانصافیاں بھی ختم ہوں اور عالمی سطح پر عدل و انصاف کا نظام قائم ہو۔ ناانصافی ہر علاقے اور خطے میں جوانوں کو دہشت گردی کی طرف دھکیلتی ہے۔ بعض ممالک کے اندر موجود علاقائی کشیدگیاں بھی دہشت گردی کو فروغ دینے کا باعث بنتی ہیں، جیسے ہمارے اس خطے میں کشیدگیاں اور بلواسطہ یا بلا واسطہ سیاسی دشمنیاں ہیں۔ بعض اوقات ملک ایک دوسرے کے خلاف pressure tactics استعمال کرتے ہیں، مخالف فریق کو دبائو میں رکھنے، اسے مرعوب کرنے اور اپنی طاقت کے اظہار کے لئے دہشت گردوں کو وجود میں لایا جاتا ہے۔ بعد ازاں ان دہشت گردوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کے بعد پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ لوگ پھر نئے نام سے تنظیم قائم کرکے منظر عام پر آجاتے ہیں۔ اس طرح تنظیمیں بننے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ پہلے القاعدہ بنی اور اب ISIS (داعش) بنی۔ کچھ عرصہ بعد ISIS بھی نہیں رہے گی، پھر کوئی اور نام منظر عام پر آجائے گا۔ فتنہ و شر کا یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک انسانی معاشروں میں عدم اعتماد، بدامنی، نفرتیں، عداوتیں اور دشمنیاں برقرار رہیں گی۔ دہشت گردی سے پوری انسانیت برباد ہو رہی ہے۔ لہذا نفرتوں اور عداوتوں کی آگ کو بجھانا ہوگا۔ امن و محبت کو عالمی منشور بنانا ہوگا، اسی سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوگا۔

دہشت گردی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟

دہشت گردی کے ان مذکورہ عوامل کو جاننے کے بعد اب آیئے دہشت گردی کے سد باب اور اس کے خاتمہ کے حل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ اس ناسور کا معاشرہ سے کس طرح قلع قمع کیا جائے؟

یہ امر ذہن نشین رہے کہ تصوف اور صوفیاء کی تعلیمات سے دہشت گردی کا صرف نظریاتی پہلو ختم ہوگا۔ دنیا کی طاقتوں نے بہت سے نظریات، isms کو مدد فراہم کر کے دیکھ لیا مگر دہشت گردی کے خلاف وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ لہذا اب صوفیاء کی تعلیمات کو support کیا جائے گا اور انہیں مضبوط (strengthen) کیا جائے گا۔ مگر یہ صوفی ازم بھی اس وقت تک کام نہیں آئے گا جب تک سیاسی، سماجی، علاقائی اور عالمی عوامل برقرار رہیں گے۔ لہذا ہمیں تمام پہلوؤں پر مخلصانہ اور دیانت دارانہ طریقے سے کام کرنا ہوگا۔

نصابات میں تبدیلی

دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے خاتمہ کے لئے ایک انتہائی اہم اقدام نصابات میں بنیادی تبدیلی بھی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہمیں نصابات کی اصلاح کی جانب متوجہ ہونا ہوگا۔ انڈیا، پاکستان اور دنیا کے تمام ممالک کے اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز، مدارس اور دینی درس گاہوں میں درج ذیل موضوعات کو curriculum (نصاب)کا حصہ ہونا چاہیے۔

  1. انسانیت (humanism)
  2. روحانیت (spiritualism)
  3. اخلاقیات (moralism)
  4. اعتدال (moderation)
  5. برداشت (tolerance)
  6. امن (Peace)
  7. پرامن بقائے باہمی(peaceful coexistence)
  8. مکالمہ (dialogue)
  9. کثرتیت (pluralism)
  10. پیوستگی (integration)
  11. محبت (love)
  12. عدم تشدد ( non-violence)
  13. انتہاء پسندی و دہشت گردی کا خاتمہ (terrorism counter & extremism)

افسوس کہ آج کے دن تک یہ اور اس جیسے دیگر اخلاقی و اصلاحی موضوعات پر توجہ ہی نہیں دی گئی۔ میں نے

انہی موضوعات پر مشتمل ہر طبقہ زندگی کے لئے اردو، عربی اور انگلش میں 5 ٹیکسٹ بکس سمیت 25 کتابوں کا ایک امن نصاب مرتب کیا ہے۔ ان کتابوں میں سے کچھ یہ ہیں:

  1. Fatwa on Terrorism and Suicide Bombings
  2. Islam on Mercy and Compassion
  3. Muhammad a: The Merciful
  4. Relations of Muslims and non- Muslims
  5. Islam on Serving Humanity
  6. Islam on Love & non-Violence
  7. The Supreme Jihad
  8. Peace, Integration and Human Rights

اس بات کو ذکر کرنے کا مقصود صرف تحدیثِ نعمت کے لئے ہے کہ میں بطور مصنف ان کتابوں کی کمائی نہیں کھاتا۔ میں نے اپنے اوپر اپنے خطابات اور اپنی کتابوں کا ایک پیسہ لینا بھی حرام کر رکھا ہے۔ میں صرف اُمتِ محمدی اور انسانیت کی خدمت کے لیے لکھتا ہوں۔ یہ عالمی صوفی کانفرنس ہے یا کہیں بھی دنیا میں سفر کرتا ہوں، کہیں سے پیسہ نہیں لیتا۔ میرا مطمع نظر صرف اور صرف آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خوشی و خدمت ہے۔ میں اس زمین کو اَمن و آشتی اور محبت و شفقت سے معمور دیکھنا چاہتا ہوں۔ علمی و فکری خدمات کی صورت میں ہمارا جو فرض تھا وہ ہم نے پورا کر دیا۔ اب حکومتوں اور اداروں کا کام ہے کہ وہ اس پر مزید کام کریں۔ مذکورہ موضوعات پر مشتمل نصاب پڑھانے اور ان اقدار کی تعلیم دینے کے لئے بالعموم تمام ممالک اور بالخصوص اکابر اولیاء و صوفیاء کے مزارات پر Institutes اور یونیورسٹیز بنائیں۔ جہاں ان موضوعات کی باقاعدہ تعلیم دی جائے اور قلیل اور طویل مدتی کورسز (short & long term courses) مکمل ہونے پر باقاعدہ diplomas، degrees اور certificates جاری کئے جائیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو آگہی دی جائے تاکہ ان کو پـتہ تو چلے کہ جو کچھ داعش (ISIS) کر رہی ہے وہ جہاد نہیں ہے بلکہ فساد ہے۔ لوگوں کو پتہ تو چلے کہ شہادت کیا ہے اور جہاد کیا ہے۔۔۔؟ اللہ کا دین کیا ہے، رسول پاک a کے احکام کیا ہیں۔۔۔؟

تمام مذاہب خواہ ہندو مذہب ہے یا بدھ مت و مسیحیت ہر ایک کی تعلیمات امن، محبت، آشتی، شانتی اور انسانیت کے احترام پر مبنی ہیں، لہذا تمام مذاہب اپنے اپنے اداروں میں ان مذکورہ موضوعات کی تعلیمات کو عام کریں۔ یہ تمام انسانیت کی مشترکہ اقدار (Common values) ہیں، جن کو مزید فروغ دینے کے نتیجے میں لامحالہ امن کی فتح ہوگی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا۔

تصوف اور تعلیماتِ صوفیاء

دہشت گردی و انتہاء پسندی کے اسباب، عالمی و علاقائی سیاسی طاقتوں کے اثرات، معاشی اضطراب اور دہشت گردی کے حل کے لئے نصاب کی تشکیل کا جائزہ لینے کے بعد اب آیئے ہم تصوف اور صوفیاء کی تعلیمات کی جانب متوجہ ہوتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح کی تعلیم دی جو آج کے حالات میں دہشت گردی و انتہاء پسندی کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لئے ہماری ممدو معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

’’تصوف‘‘ اور ’’صوفی‘‘ کے مادہ ہائے اشتقاق

لفظِ تصوف کے عام طور پر تین/ چار مادہ ہائے اشتقاق ہی معروف ہیں تاہم صوفیاء اور اولیاء نے لفظِ ’’تصوف‘‘ کے سات مادہ ہائے اشتقاق بیان کیے ہیں کہ تصوف اور صوفی کا لفظ کہاں سے نکلا ہے؟

  1. لفظ تصوف: صُوْفْ (اُون) سے ہے۔
  2. لفظ تصوف صُوْفَۃ (اونی قالین یا جائے نماز) سے ہے۔

اونی قالین/جائے نماز نرم ہوتی ہے اور پاؤں کے نیچے بچھی ہوتی ہے۔ اس مادہ اشتقاق کی رو سے صوفی کا معنی یہ ہے کہ صوفی نرم دل ہوتے ہیں اور خدا کے حضور متواضع ہو کر اتنے بچھ جاتے ہیں کہ کسی کا برا نہیں مناتے اور جھگڑا نہیں کرتے۔

  1. لفظ صوفی الصِّفَۃ سے ہے یعنی اَخلاق/محامد۔

وہ شخص جس کے بے شمار اخلاق ہوں اور سرتاپا اچھی صفات کے ساتھ معمور ہو۔ ان صفات کی وجہ سے اُس کو صوفی کہتے ہیں۔

  1. لفظ صوفی صَفَا سے ہے۔

یعنی جس کا دل کدورتوں، رنجشوں، غلاظتوں، حسد، حِرص اور لالچ سے پاک ہو جائے۔ ایسے شخص کو صَفَا کے باعث صوفی کہتے ہیں۔

  1. لفظ صوفی صُفَّۃ سے ہے۔

اصحاب صفہ، آقا e کے درویش صحابہ تھے۔ پس جو اُن کے طرز کی زندگی بسر کرے وہ صوفی کہلاتے ہیں۔

  1. لفظ صوفی الصَّفْ سے ہے جس کا معنی قطار ہے۔

یعنی وہ لوگ جن کے دل اللہ کے سامنے پہلی قطار میں ہوں اور وہ ہر وقت خدا کے حضور رہیں۔ سوتے و جاگتے اُن کے دل کبھی خدا کی حاضری سے غافل نہ ہوں۔ انہیں اس صفِ اَوّل کے باعث صوفی کہتے ہیں۔

  1. لفظ صوفی صَافٌ سے ہے، جمع صَوَافِی ہے۔

یعنی جن کے دل اللہ کی محبت کے لیے چن لیے جائیں، جو اللہ کے لئے خالص ہو جائیں اور اللہ کے غیر کو اپنے دل میں جگہ نہ دیں، اُس کو صوفی کہتے ہیں۔

(قواعد التصوف، ابن زروق: 24)

معنوی تشبہ اور صفاتی تتبع

اہل علم کے لیے یہ بات توجہ طلب ہے کہ صوفی اور تصوف کو سمجھنے کا ایک طریقہ لغوی اشتقاق اور لفظی استحقاق ہے۔ مگر سمجھنے کا اس سے زیادہ بہتر طریقہ معنوی تشبہ اور صفاتی تتبع کا بھی ہے۔ اس طریقہ کی رو سے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَصحابِ صفہ، سلف صالحین اور انبیاء کی صفات کی طرح کی صفات و اخلاق کو اپنانے اور اُس میں تتبع و پیروی کرنے والوں کے لئے صوفی اور تصوف کے الفاظ وجود میں آئے۔

صوفی کو یہ نام اس وجہ سے دیا گیا کہ شروع میں انہوں نے اون (صُوف) کا لباس پہنا۔ صُوف کا لباس کھردرا ہوتا تھا اور یہ تواضع اور انکساری کا لباس تھا۔

  • صوفیاء نے یہ لباس اس لئے پہنا کہ یہ انبیاء کا لباس تھا۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

لقد مر بالصخرة من الروحاء سبعون نبيا منهم موسیٰ نبی الله حفاة عليهم العباء يومون البيت الله العتيق.

میں نے 70 انبیاء کو کعبۃ اللہ کے طواف کے لیے آتا دیکھا اور وہ سارے صوف کا لباس پہنے ہوئے تھے۔

(مسلم ابی يعلیٰ، 13: 201، الرقم:7231)

  • حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: میں نے غزوہ بدر کے موقع پر صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ سفید اُون کا لباس پہنے ہوئے تھے۔

(مصنف ابن ابی شيبة، 7: 354، الرقم: 36658)

  • حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

کان احب الثياب الی النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلمان يلبسها الحبرة.

سب سے زیادہ آقا e نے صُوف کے لباس کو پسند فرمایا۔

(صحيح بخاری، کتاب اللباس، الرقم: 5813)

  • حضرت ابی بردہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

اخرجت الينا عائشة کساءً وازارًا غليظا، فقالت قبض روح النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم فی هذين (الکساء يعنی رداء من صوف)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا صُوف کا لباس لے کر آئیں اور فرمایا: یہ وہ لباس ہے جس میں تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی تھی۔

(صحيح بخاری، کتاب اللباس، الرقم: 5818)

  • صحیح بخاری میں حدیث عکاشہ ہے کہ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

70 ہزار افراد ایسے ہوں گے جو بغیر حساب و کتاب کے بخش دیے جائیں گے۔ حضرت عکاشہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے لیے دعا کر دیں اور اذن دے دیں کہ میں اُن 70 ہزار میں شامل ہو جاؤں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ اسے انہی میں سے کردے۔ جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمنے یہ فرمایا تو اُس وقت انہوں (حضرت عکاشہ) نے اُون کا لباس پہن رکھا تھا۔

(صحيح بخاری کتاب اللباس، الرقم: 5811)

  • اَصحابِ صفہ آقا علیہ السلام کے صوفی صحابہ تھے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ آقا علیہ السلام نے اُن کا مجاہدہ، ریاضت، فکراور صوفیانہ پن دیکھ کر فرمایا:

أبشروا يا أصحاب الصفة، من بقي من أمتی علی النعت الذی أنتم عليه راضيا بما هو فيه، فإنه من رفقائی يوم القيامة.

’’اصحاب صفہ میں جس حال میں تمہیں دیکھ رہا ہوں قیامت تک میری امت کے جو لوگ تمہارے اس حال پر رہیں گے جیسا تمہارا حال ہے (کہ تم اونی لباس پہنتے ہو، بھوک پیاس جھیلتے ہو، راتوں کو جاگتے ہو، فقیری کی زندگی بسر کرتے ہو) اور اس حال پر راضی رہیں گے تو قیامت کے دن وہ میرے دائیں بائیں ہوں گے اور سب جنت میں جائیں گے۔‘‘

(هندی، کنزالعمال، 6: 200، رقم: 16577)

  • حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

کان علی موسی يوم کلمه ربه کساء صوف وجبة صوف وکمة صوف وسراويل صوف.

سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے جب کوہ طور پر اللہ سے کلام کیا تو آپ صوفی لباس میں ملبوس تھے۔ آپ کا جبہ، ٹوپی اور دستار بھی صوف کی تھی۔

(جامع ترمذی باب ماجاء فی لبس صوف، 1734)

  • کان عيسیٰ علية السلام يلبس الصوف.

حضرت عیسیٰ علیہ السلام صوف کا لباس پہنا کرتے تھے۔

(مصف ابن ابی شيبة، 7: 244، الرقم: 35710)

صحاح ستہ کے اندر ائمہ کرام نے باقاعدہ صوف کے لباس کے عنوان سے ابواب قائم کئے:

  • صحیح بخاری: باب لبس جبة الصوف ’’صوف کا لباس پہننے کا باب۔
  • سنن ابی داؤد: باب فی لبس الصوف ’’صوفی لباس پہننے کا باب‘‘
  • جامع ترمذی: باب ما جاء فی لبس الصوف
  • ابن ماجه: باب لبس الصوف

الغرض حدیث کی کل کتابیں اس پر شاہد ہیں کہ انبیاء، صحابہ اور اس سے پہلے فقراء کا سب سے زیادہ مرغوب و محبوب لباس صوف کا لباس تھا۔ اس لباس سے محبت اور زہد و تقویٰ و عجز و انکساری کی وجہ سے صوفیاء بھی یہ لباس پہننے لگے۔ چنانچہ لباس صوف کے باعث ان کا نام صوفی ہوا۔ گویا صوفی کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جو کھردرا لباس پہنے، تواضع اختیار کرے اور انبیاء، مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل صفہ کے مشرب و طریق پر ظاہر و باطن میں چلے، اُس کو صوفی کہتے ہیں۔

(جاری ہے)