سلسلہ تعلیم و تربیت: ادارہ کی تشکیل۔۔۔ اہمیت و ضرورت

صاحبزادہ مسکین فیض الرحمان درانی

ماخوذاز افادات شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

معزّز قارئین کرام! حسب وعدہ جدید منتظمیت (modern management) سے متعلق شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے وقیع خطابات، ارشادات اور ملفوضات سے ماخوذ سلسلہِ مضامین میں سے پہلا موضوع’’ادارے کی تشکیل اور انسانی معاشرے میں اس کی اہمیت اور ضرورت‘‘ پیش خدمت ہے۔ شیخ الاسلام کے دروس و خطابات کے مستقل سامعین اور متعلّمین آپ کے منفرد اسلوبِ کلام اور اندازِ بیان سے بخوبی واقف ہیں کہ آپ جب بھی کسی موضوع پر کلام فرماتے ہیں تو آپ کا انداز خطیبانہ(oration) سے زیادہ مدرسّانہ اور مُعلِّمانہ(professorial) ہوتا ہے،خطاب کے رنگ پر درس کا انداز اکثر غالب نظر آتا ہے۔ آپ اپنے متعلمین اور سامعین کو کوئی ایک نکتہ سمجھانے کے لیے اشارات، شروحات اور تمثیلات کا ایک ایسا حسین گلدستہ سجا لیتے ہیں کہ چاہے اُن کا علمی اور ذہنی معیار کسی سطح کا بھی ہو، دقیق سے دقیق نکات بھی ان کی سمجھ میں آجاتے ہیں۔ میں نے کئی مقتدر علمائے کرام اور نامور خطبائِ جُمعَات کو یہ کہتے سنا ہے کہ شیخ الاسلام کے ایک درس کی سماعت سے وہ کم از کم دس جُمعَاتِ مبارکہ کے لیے اپنا تقریری مواد بخوبی حاصل کر لیتے ہیں۔

علم الکلام میں شیخ الاسلام کا اسلوب اور اندازِ بیان یکسر منفرد ہے۔ قدیم اور جدید علوم و فنون پر آپ کی دسترس انتہائی قوی ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں آپ کا اندازِ بیان ایسا ممیّز اور ممتاز ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ بادی النظر میں آپ کے درس یا خطاب کا ایک معیّن موضوع ہوتا ہے۔ لیکن اُس کی توضیح و تشریح میں آپ قران و حدیث، آثارِ صحابہ رضی اللہ عنھم اور ائمہ مقتدمین کے اتنے متنّوع اقوال و واقعات بیان فرماتے ہیں کہ نہ صرف موضوع کا سمجھنا آسان ہوتا ہے بلکہ وہ گلہائے رنگا رنگ کا ایک ایسا گلدستہ بن جاتا ہے کہ جس سے ہر قسم کے پھولوں کی دلآویز خوشبوئیں ایسی بکھرتی ہیں کہ جو مختلف طبائع اور اذہان و قلوب کو لازوال سرور اور طمانیت سے لبریز کر دیتی ہیں۔

مسکین ناچیز نے شیخ الاسلام کے ہزاروں دروس و خطابات کے گلدستہ سے زیر نظر سلسلہِ مضامین کے مختلف موضوعات کے لیے مختلف مقامات سے گل چینی کی کوشش کی ہے۔ شیخ الاسلام نے موقع محل کے مطابق مختلف مجالس علمی، ویمن لیگ،یوتھ لیگ اور مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے پارلیمان اور خاص کر مجالسِ شوریٰ میں جو دُروس اور تربیتی لیکچر عطا فرمائے ہیں ان میں سے مختلف موضوعات کے حوالے سے چیدہ چیدہ اقتباسات کو مرتب کر کے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کی جارہی ہے۔ میں بارِ دگر اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ شیخ الاسلام کے علم و فن کے بحرِ بیکراں میں سے بساط بھر اپنے موضوعات کے لیے کچھ مخصوص موتیوں کی تلاش اور ان کو ترتیب دینا مجھ جیسے کم علم اور کم آگاہ شخص کے لیے اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔ لیکن نگاہِ شیخ کی

تاثیر نے اسے از خود ایک متعلّم کے لیے آسان کر دیا۔

یابم اُو را یا نہ یابم جستجوی میکنم
حاصل آید یا نہ آید آرزوی میکنم

’’ مقصود ملے یا نہ ملے میں جستجو ضرور کرتا ہوں، مقصد حاصل ہو یا نہ ہو اس کے پانے کی آرزو ضرور کرتا ہوں۔‘‘

اللہ تبارک وتعالیٰ سے التجا ہے کہ وُہ اس حقیر کوشش کو قبول و منظور فرمائے اور اس کو قوم و ملت کے لیے خیر اور اصلاح کا سبب بنا دے۔ آیئے! شیخ الاسلام کے افکار پر مشتمل اس سلسلہ مضامین کا آغاز کرتے ہیں:

 جماعت اور اداروں کی ضرورت اور اہمیت

دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے کوئی بھی شخص اکیلا وُہ سب کام کرنے کی قدرت نہیں رکھتا کہ جو اُس کی سب ضرورتوں کو پورا کر سکے۔ لہذا ہر انسان کو دوسرے انسانوں، اللہ تعالیٰ کی دیگر مخلوقات اور اشیاء کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص یا متعدد اشخاص کے ساتھ مل کر کسی خاص غرض و غایت اور مقصد(objective, purpose) کے حصول کے لیے کام کرتا ہے تو اِن متعدد اشخاص کے آپس میں مِل کر اکٹھا کام کرنے کو عرفِ عام میں جماعت، انجمن، پارٹی یا گروپ کہتے ہیں۔

ہر ایسی جماعت(Group) کے لیے آسانی اور سہولت سے اپنا مقصد اور نصب العین حاصل کرنے کے لیے ایک پر سکون ماحول(conducive environment) کی ضرورت ہوتی ہے۔جس کا برقرار اور قائم رکھنا جماعت کے ہر شخص کے لیے لازم ہوتا ہے۔ اس گروہ،جماعت،انجمن یا پارٹی کے افراد جس جگہ،مقام اور ماحول میں مِل کر باہمی تعاون سے کام کرتے ہیں۔ اس کو’’ادارہ (organization) کہتے ہیں۔

ادارہ کے لغوی معنی،تعریف اور تشریح

ادارہ کا لغوی معنی ذمہ داری (obligation, trust, charge, responsibility, duty)ہے جب کسی شخص کو کسی کام کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے تو عربی میں کہتے ہیں ’’ ادرتُ فلا ناً علی الامر‘‘ (میں نے فلاں پر کام کو لازم کر دیا ) اور اگر کسی شخص کو ذمہ داری سے فارغ کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں۔ ’’ادر تہُ عن الامر‘‘ ( میں نے فلاں سے کام چھوڑنے کا کہہ دیا ہے۔)اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب کوئی فرد یا افراد یا لوگوں کی کثیر تعدادمل کر کسی جماعت یا ادارہ میں کام کرتی ہے توان پر وہاں کسی خاص مقصد کے لیے کیے جانے والے کام یا متعدد کام کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک اقرار نامہ یا عہد نامہ (Contract, agreement) کے ذریعے تفویض کردہ امور کا تعین کیا جاتا ہے جن کی پابندی بہر صورت لازم قرار دی جاتی ہے۔

  • انگریزی لغت کے مطابق لفظ ادارہ (institute) کے لُغوی معنی بطور فعل(verb) ایک نظام کے قیام، شروعات، تشکیل، ایجاد اور اس کے ذریعے کسی مطلوبہ مقصد کے حصول اور اُس کے لیے کام کرنا ہوتا ہے۔
  • جدید سوشیالوجی کے ماہرین کے مطابق ادارہ معاشرے کے افراد کے درمیان باہمی ربط و تربیط (interaction) کے وقت انسانی افعال اور اعمال کو باضابطہ مرتب(regulate) کرتا ہے۔

ادارتی نظام میں ذمہ داری(obligation and reponsiblility) کے علاوہ دوسری خاص بات ’’اختیار‘‘(authority) کی ہوتی ہے جس کے ذریعے معاشرہ کے افراد کے ان روّیوں (behaviours) کومنضبط کیا جاتا ہے کہ جس کے ذریعے مطلوبہ مشترکہ مقاصد کا حصول ممکن ہوتا ہے۔

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ایک جماعت کے قیام اور اس کی ذمہ داریوں کی طرف یوں متوجہ فرمایا:

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَاُولٰئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.

’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں‘‘۔

(آل عمران: 104)

اس آیہ کریمہ کا مرکزی نکتہ لفظ’’جماعت‘‘ اور اس خاص جماعت کے وُہ کام ہیں جس کو سر انجام دینے کے لیے اس جماعت کی تشکیل کا حکم دیا گیا ہے اور جس کی تعمیل ہر مسلمان پر واجب ہے۔قرآن مجید کے دیگر متعدد مقامات پر بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوںکی اس خاص جماعت، گروہ، پارٹی اور اس کی ذمہ داریوں کا ذکر بہت صراحت سے فرمایا ہے:

  1. سورہ الانبیاء کی ایک سو پانچویں آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’اور ہم زبور میں پند و نصیحت کے بعد یہ بات لکھ چکے ہیں کہ ہمارے نیک بندے زمین کی سلطنت کے وارث ہوں گے‘‘۔
  2. سورہ نور کی پچانویں آیہ کریمہ میں ارشاد رب جلیل ہے۔’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔ ان سے اللہ سبحانہ‘ وتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ(ایک نہ ایک دن) ان کو ملک کی خلافت(یعنی حکومت) ضرور عنایت کرے گا۔ جیسے ان لوگوں کو عنایت کی تھی جو ان سے پہلے ہو گزرے ہیں‘‘۔
  3. سورہ المجادلہ کی اکیسویں آیہ کریمہ میں ارشاد ربّانی ہے’’ اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے(یعنی طے کر دیا ہے) کہ بے شک (ہمیشہ) میں اور میرے رسول علیہم السلام ہی(باطل کے مقابلے میں) غالب اور فتح یاب ہوں گے‘‘۔
  4. اسی سورہ المجادلہ کی بائیسویں آیہ کریمہ میں ’’حزب اللہ‘‘ یعنی اپنی پارٹی کے لوگوں کے بارے میں اپنے محبوب پاکA اور گروہ انبیاء و صالحین کو خوشخبری عطا فرمائی گئی۔

منہاج القرآن کے قیام کا مقصد

ادارہ/ جماعت کی اسی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر ہم سب نے مل کر’’ادارہ منہاج القران انٹرنیشنل‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ اس ادارہ کے قیام کا مقصد احیائے اسلام،غلبہ دین حق کی بحالی اور امتِ مسلمہ کے احیاء و اتحاد اور دنیا کے سامنے دین اسلام کی وہ حقیقی تصویر پیش کرنی ہے جس میں فرقہ پرستی، جبرواستبداد،ظلم و ستم اور دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور جس کی حقیقی معاشرت کی بنیاد حُسنِ خُلْق، احترام آدمیت اور تکریم انسانیت پر قائم ہے۔یہ ہماری مشترکہ غرض و غایت اور مقصد ہے جو کہ ہم قران و سنت نبوی کی منہج(methodololgy) کے مطابق جدوجُہد کر کے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

بحمد اللہ تعالیٰ جب سے ہم سب نے مل کر ادارہ کی بنیاد ڈالی اورایک منظّم اور باوقار انداز سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا اور نبی مکرمA کی خوشنودی کے حصول کی خاطر؛ دعوت و تبلیغ دین، اصلاح احوال امت، تجدید و احیائے دین، غلبہ و نفاذِ اسلام کے نصب العین اور مشن کی تعمیل اور تکمیل کی جدو جہد کا آغاز کیا ہے، اللہ سبحان و تعالیٰ کی مدد و نصرت سے اس میں مسلسل کامیابی ہو رہی ہے۔ ہر ذیلی، بالائی اور مرکزی سطح کی تنظیمات کی کارکردگی، رفقاء و کارکنان کی لگن، انتھک محنت اور جُہد مسلسل میری نظر میں ہیں اور یہ کاوشیں اپنی مثال آپ ہیں۔

دنیا بھر کی تمام براعظموں، ممالک، شہروں اور تحصیلوں تک کی تنظیمات میں بہت جذبہ اور جوش ایمانی کے ساتھ کام ہو رہا ہے۔ بوڑھے ، جوان ،مرد، خواتین، طلبہ و طالبات سب مل کر اشاعت اسلام اور دین مبین کے فروغ کے لیے ہم آواز، ہمقدم اورہم آہنگ ہو کر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ ان میں جوش و جذبہ ہے، قوت ایمانی اور لگن ہے۔ ان کارکنان کا تعلق دینی اور دنیاوی علوم و فنون کے مختلف شعبہ جات سے ہے۔ یہ تمام احباب اکلِ حلال کمانے کے علاوہ رضاکارانہ طور پر اپنے علاقوں اور مرکزپر ادارہ منہاج القران کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔

بحمد اللہ تعالیٰ جہاں، جس جگہ اور جس مقام پر بھی یہ افراد کام کر رہے ہیں، منہاج القران کے بنیادی اصولوں،تعلیمات اور احکام شرعی کے مطابق پوری ایمانداری، دیانت اور محنت سے اپنے فرائض کو انجام دے رہے ہیں۔ یہی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا حکم، ہمارا مذہبی فریضہ اور ذمہ داری ہے۔یہی دنیا میں رہنے کے لیے اسلامی طرز زندگی ہے۔ یہی مقصدِ تخلیق آدم ہے۔ یہ امر میرے لیے ادارہ و تحریک کے قائد،معلّم اور مربی ہونے کے ناطے اطمینان قلبی کا باعث ہے۔ یہی ہمارے مشن کا تقاضہ ہے کہ ہم جس کسی ملک کے کسی بھی ادارہ سے منسلک ہیںوہاں اپنی ذمہ داریوں کو امانت سمجھ کر بطریق احسن پور ا کرتے ہیں، مفوّضہ فرائض کی تکمیل کرتے ہیں اور اپنے اختیارات سے تجاوزنہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ یہی حکم ہے کہ مسلمان کو پوری دیانتداری سے اپنے معاشرتی فرائض اور ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے۔

مجلسِ شوریٰ کے احباب متوجہ ہوں!

منہاج القرآن انٹرنیشنل کے اعلیٰ مشاورتی فورم مجلس شوریٰ کے قائدین (جن کو تحریک کی تمام ذیلی و اعلیٰ انتظامی سطحوں کی تنظیمات یعنی یونین کونسل سے لے کر تحصیلی، ضلعی، ڈویژنل، صوبائی اور مرکزی سطح کے کارکنان اور عہدیداروں نے شوریٰ کے اراکین کی حیثیت سے منتخب کیا ہے۔) کو جو ذمہ داری تفویض کی گئی ہے یہ ایک بہت بڑی قومی امانت ہے اور وہ ا س کے امانتدار ہیں۔ یہ انتخاب ایک بہت بڑا اعزاز ہے جو تنظیمات کے اراکین اور رفقاء کے اعتماد(trust) کی صورت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا ہے۔ ادارہ کے رفقاء اور وابستگان کسی بے ہنگم ہجوم، بے سمت گروہ یا گم کردہ راہ پارٹی اور جماعت سے وابستہ افراد نہیں ہیں۔ بحمد اللہ تعالیٰ، یہ ایک ایسے منظّم ادارہ(well- organized institute) اور جماعت کے ذمہ دار اراکین ہیں کہ جس کو اللہ جل مجدہ‘ نے قران حکیم میں ’’حزب اللہ‘‘ یعنی ’’اللہ کی پارٹی‘‘یا اپنی جماعت قرار دیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے محبوب پاک نبی آخرالزمانAکی جماعت کے افراد،دنیا کی ان جماعتوں اور پارٹیوں کے افرادجیسے قطعاً نہیں ہوسکتے جو اللہ تعالیٰ کے صریح احکامات سے روگردانی اور انحراف کرتے ہوئے بدی اور برائی کے ان اعمال میں مصروف ہیں اور جنہیں قران حکیم میں حزب الشیطٰن یا شیطان کی پارٹی کے نام سے پکارا گیا ہے۔

بنیادی امور کی تفہیم کی ضرورت

’’حزب اللہ‘‘ (اللہ کی جماعت) ہونے کی بناء پر اگر ہم اس قدر منفرد و ممتاز ہیں تو ہمیں ادارہ، اس کی تشکیل اور ذمہ داریوں کے حوالے سے درج ذیل امور کو سمجھنا از حد ضروری ہے۔:

  1. قرآن حکیم اور احادیث شریف میں اسلامی ادارہ میں کام کرنے والوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟
  2. اسلامی ادارہ کے قوانین،قواعد و ضوابط کے مصادر و منابع، اہم عناصر اور اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟
  3. اسلامی ادارے کے فکری امتیازات و خصوصیات اور اہداف و مقاصد کیا ہیں؟
  4. اسلامی ادارے کے قائدین، ناظمین اور رفقاء کے لازمی صفات اور سلبی مواصفات(negative traits)کیا ہیں؟ کہ جن سے قائدین و کارکنان کا احتراز لازم ہے؟
  5. اسلامی ادارے پر جب آزمائشوں، مصائب اور مشکلات کا دورآتا ہے تو قائدین اور کارکنان کو قران وسنت کی روشنی میںکس طرح کا روّیہ اختیار کرنا چاہیے اور کس سے رجوع کرنا چاہیے؟
  6. ایک اسلامی ادارہ کے قائدین اور کارکنان کا عوام الناس کے ساتھ کیسا روّیہ لازم ہوتا ہے؟
  7. ادارے کی منتظمیت(management) کے اہم وظائف اور عملیات(functions) کیا ہیں؟
  8. قائدین اور کارکنان کی عملی تربیت کیسے کی جاتی ہے اوربہتر تربیت اورموثّر ابلاغ کاری کی ادارے کی نشوونما اور ارتقاء میں کیا کردار ہوتا ہے؟
  9. اسلامی اداروں میں باہمی مشاورت کیسے کی جاتی ہیں اورمجالس شوریٰ کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے؟
  10. قیادت کو صحیح مشورہ دینے کی کیا اہمیت ہوتی ہے، مشورہ دینے کے اہل افراد کون ہوتے ہیں اور کن صفات کے حامل ہوتے ہیں۔ نیز اہل مشیروں کی عزت و توقیر کیسے کی جاتی ہے؟
  11. ادارہ کے کارکنان اور عوام الناس کے ساتھ ترغیباتی عمل، دعوتی روّیہ اور خوشگوار باہمی تعلقات کیسے ہونے چاہئیں؟
  12. مختلف شعبہ جات، فورمز اور تنظیمات کے درمیان باہمی ربط اور تعلقات کی کیا اہمیت و ضرورت ہے؟
  13. کارکنان میں سے بہترین افراد کے انتخاب اور تقرری کی کیا اہمیت ہے؟
  14. ادارہ اور اس کے اثاثہ جات کی حفاظت کے لیے موثر منصوبہ بندی اور اثاثہ جات کی حفاظت کے لیے تصور امانت، دیانت اور عدالت کی ضرورت اور اہمیت کیا ہے؟
  15. مرکزی شعبہ جات، فورمز اور ہر زیریں سطح کی تنظیمات کی نگرانی کے لیے مسلسل دورہ جات اور معائنے کی ضرورت، انضباط و انقیاد، اور راہ نمائی کی ضرورت۔
  16. ادارہ میں نظامِ نظارت،احتساب، مکافات اور تعزیرات کے قیام کی اہمیت اور ضرورت ۔

گزشتہ تین دہائیوں سے ان موضوعات پر میں معزز اراکین شوریٰ کی مختلف مجالس اور محافل میںجب بھی موقع ملا، ہم کلام رہا ہوں۔ میں نے تقریباً اپنی ہر مجلس میں اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست کی تشکیل کے ضمن میں اسلامی ادارہ اور اس کے حقیقی نظام کے قیام کی اہمیت اور ضرورت پر گفتگو کی ہے۔ان سب موضوعات پرمیری کتب کے علاوہ آڈیو ویڈیو کیسٹس اور سی ڈیز میں میرے سینکڑوں خطابات موجود ہیں۔ مجھے امید ہے کہ باشعور اراکین شوریٰ اور دیگر ذمہ داران ان کتب، کیسیٹس اور سی ڈیز کو بار بار پڑھتے اور سنتے بھی ہیں اورمیرے خطابات کے ضروری نکات کے نوٹس بھی لیتے ہیں۔ ادارہ منہاج القران کے تمام قائدین ، ناظمین اور کارکنان کے لیے ان سے استفادہ ضروری ہے۔ ان میں سے چند اہم نکات کی اہمیت کے پیش نظر انہیں ایک مرتبہ پھر بیان کیا جارہا ہے۔

اداروں کے قیام کے مقاصد میں فرق

مختلف ادارے اپنے کام اور مقصد کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ کسی کا کام اور مقصد کاروباری کارپوریشن چلانا ہوتا ہے اور ان کا مقصد نفع کمانے کے لیے کام کرنا ہوتا ہے۔ بعض غیر منفعتی بنیاد پرفلاحی اور رفاہی کام کرتے ہیں۔ بعض حکومتی ادارے ریاستی نظم و نسق قائم کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ الغرض موجودہ دور میں معاشرے کے مختلف سطحوں پر قائم ادارے مختلف کام کرتے ہیں۔ جیسا کہ بحمد اللہ تعالی ہمارا ادارہ منہاج القران انقلابی سطح پر ایک نیک، صالح اور انصاف پسند اسلامی معاشرے کی تشکیل کی جدو جہد میں مصروف عمل ہے۔ ہمارانصب العین اور مقصد ہمارے دستور میں بنیادی اصولوں کے مطابق پوری وضاحت سے درج ہے۔ یہ فقط رضائے الٰہی اور نبی مکرمA کی خوشنودی کے حصول کے لیے قائم ایک فلاحی اور رفاہی ادارہ ہے جس کا ایک اہم فریضہ ریاستی اداروں کو قران و سنت کی روشنی میں اسلامی طرز حکمرانی کے آداب و فرائض سے آگاہی فراہم کرنا بھی شامل ہے۔

ہمارے ادارے اوردیگر دنیاوی اداروں کے بنیادی اصولوں اور محکمانہ حقوق و فرائض میں بنیادی فرق یہ ہے کہ دوسرے اداروں میں کام کرنے والے اپنے ادارے کے مالک کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں اور اس کے مفادات کی تکمیل کے بارے میں سوچتے ہیں۔ دنیاوی ادارے نفع کمانے کے لیے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کے پیش نظر خوف خدا، تقویٰ، پرہیز گاری، امانت ، دیانت اور عدالت کا کوئی واضح تصور نہیں ہوتا جبکہ ہمارے ادارہ کی بنیاد خوف خدا، تقویٰ اور ہر کام کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے ’’جوابدہی کے تصور‘‘ پر قائم ہے۔

حکومتی اور نیم حکومتی اداروں میں نوآبادیاتی حکومت کے وقت سے رائج غیر اسلامی افسر شاہی نظام (beurocratic system) میں حاکمانہ رعب داب قائم کرنے،حکومت کے احکامات کی بہر صورت تکمیل اور جابرانہ طرز عمل کی وجہ سے امانت اور دیانت کے بجائے زیادہ تر ذاتی تحکم، استبداد اور مفادات پیش نظر رکھے جاتے ہیں۔ حکام بالا کو خوش کرنے کے لیے ان کی مرضی کے مطابق اللہ تعالیٰ کی جزا اور سزا سے بے خوف ہو کر اکثر کام بے انصافی سے کئے جاتے ہیں۔ معصوم عوام کا مال حکام بالا کے سامنے لقمہ حرام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ان ریاستی اداروں میںامانت،دیانت اور عدالت کا تصوّر مفقود ہوتا ہے لہذا وہاں اللہ تعالیٰ کے احکامات سے انحراف معمول بن جاتا ہے۔

وطن عزیز اسلامی ادارتی نظام سے محروم کیوں؟

وطن عزیز پاکستان کو قائم ہوئے انہتر برس ہو چلے ہیں۔ میں نے پاکستان بنتے نہیں دیکھا لیکن اپنے والد گرامی فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ، دیگر بزرگوں اور اساتذہ کی زبانی تحریک پاکستان کے لیے مسلمانوں کی جِدو جُہد کی لازوال داستانیں اور مسلمانانِ برصغیر کی عظیم مالی اور جانی قربانیوں کی وُہ ایمان افروز داستانیں سنی ہیں کہ جو آج بھی ہمارے قلوب کے لیے تقویت ایمانی کا سبب ہیں۔ اُن کی ان لازوال جسمانی و مالی قربانیوں کا مقصد یہ تھا کہ اپنے دینی نظریہ کی آبیاری کر کے ایک ایسا وطن آباد کریں کہ جہاں دین اسلام کے اصولوں کے مطابق امانت، اہلیت،دیانت اورعدالت کی بنیاد پر ایسی حکومت قائم کر سکیں۔ جہاں اسلامی ادارتی نظام کے تحت ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے کہ جس کی بنیاد احترامِ آدمیت، تکریمِ انسانیت اور ایسی انسانی مساوات پر قائم ہو۔ جہاں محدود گروہی، لسانی، طبقاتی اور جغرافیائی عصبتیں مفقود اور معدوم ہوں۔

لیکن شومئے قسمت کہ بانیان پاکستان کے بعد وطن عزیز کا عنانِ اقتدار بجائے نیک صالح حریت پسند صاحبِ ایمان، مسلمان اہل فکر و دانش کے بجائے تحریک پاکستان کے ان بھگوڑے جاگیرداروں، نوابوں، وڈیروں اور چوہدریوں کے ہاتھ آیا کہ جو انقلاب کے ایام میں ایسے کونے کھدروں میں رو پوش ہو گئے تھے کہ جیسے وہ برصغیر پاک و ہند کے باسی ہی نہ ہوں۔ اقتدار پر مسلط یہ گروہ اور افراد غیر ملکی نو آبادیاتی حکمرانوں کے وہ سابقہ ایجنٹ تھے کہ جن کو تحریک کے ایام میں اسلام پسند قوم پرستوں کے خلاف جاسوسی کرنے اور انقلابیوں کی طاقت کو کچلنے میں مدد دینے پر انعام کے طور پر بڑی بڑی جاگیروں، انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا تھا، ان میں کوئی نواب بن گیا تھا کوئی رائے بہادر اور کوئی ارباب۔

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد کچھ عرصہ یہ ملّت فروش تو اس خوف مارے خاموش رہے کہ ان کے ساتھ ملک و ملت کے خلاف غداری کی پاداش میں خدا جانے کون سا سلوک روا رکھا جائے گا۔ لیکن بعد ازاں فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام اور جمہوریت کو برائے نام اختیار کرنے کی بناء پر تحریک پاکستان کے یہ بھگوڑے اور ملت فروش عناصر اپنی دولت،ثروت، طاقت، دھونس، دھمکی اور اپنی جاگیروں، محکوم مزارعوں، دہقانوں، کاشتکاروں اور ملازمین کے ووٹوں کے بل بوتے پر قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے اراکین منتخب ہوتے چلے گئے اور اپنے طبقہ کے سیاسی گٹھ جوڑ کی بنا پر وزارتوں اور اہم حکومتی مناصب پر قابض ہوگئے اور آج تک قابض چلے آرہے ہیں۔

ان انہتر برسوں میں ؛ ہماری اسلامی ریاست اور پاکستان کے عوام کے ساتھ ان نا اہل، خائن،بد دیانت اور بے انصاف حکمرانوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ ریاست اور عوام الناس کی تباہ حالی اور بربادی کی داستان اہل وطن کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہے۔ آج پورے روئے زمین پر وطن عزیز پاکستان کا نام دہشت گردی، وحشت و بربریت، قتل و غارتگری اور بد امنی کے حوالے سے لیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک اپنے شہریوں کو پاکستان کا سفر نہ کرنے یا اس میں احتیاط کے احکام جاری کئے ہُوئے ہیں۔ غیر ملکی افراد پاکستان میں سفر کرنے سے گریزاں ہیں۔ وطن عزیز کی رعایا کی عزت و ناموس،چادر اور چار دیواری کی کوئی توقیر ہے اور نہ حکومت کی جانب سے شہریوں کی جان و مال کا کوئی تحفظ۔ پاکستان کے حکمرانوں اور اعلیٰ حکام و عمال کے سوا،ملک عزیز میں کسی شھری کی جان و مال محفوظ نہیں ہے۔ حکمران اور ان کے اہل و عیال کی حفاظت کے لیے ہروقت ہزاروں کی تعداد میں فوجی، نیم فوجی دستے اور پولیس کے اہلکار موجود ہوتے ہیں لیکن رعایا،اہل وطن اور علم و فن کی دنیا کے نامور علماء و مشائخ کی زندگی کی حفاظت کا کوئی سامان ہے اور نہ کوئی ضمانت۔ یہ ہماری اس نظریاتی ریاست کی حالت ہے کہ جس کے حکمران کسی نہ کسی طور منتخب ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر اس کے سامنے ملک و ملت اور رعایا کی جان و مال کی حفاظت کا عہد کرتے ہیں۔ لیکن ان کی عملی زندگی کی تصویر اللہ کے ساتھ کیے گئے عہد اور اقرار کے سراسر منافی ہوتی ہے۔

مشہور چینی کہاوت ہے کہ مچھلی کے جسم میں خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کا سر خراب ہو جاتا ہے۔بد قسمتی سے پاکستان کے حکمران جو قومی جسد میں سر کی مانند ہیں، گل سڑ کر خراب ہو چکے ہیں۔ ان کا ذہن، دماغ، عقل، فکر اور شعور خستہ و خراب ہوچکا ہے۔ لہذا ان کی وجہ سے عوام الناس میں بھی فکر و نظر کی ایسی خرابی دَر آئی ہے کہ وہ قومی احساس زیاں سے محروم ہو گئے ہیں اور ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھانے سے قاصر ہیں۔ وطن عزیز کی بد نصیبی کہ حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے چند گنے چنے ساتھیوں کی رحلت کے بعدقوم کو آج تک کوئی اہل، دیانتدار،باصلاحیت،اہل فکر و نظر قیادت نہیں مل سکی۔ جو اہل اور صاحب نظر افراد ہیں ان کوموجودہ کرپٹ نظام انتخاب اور فرسودہ سیاسی نظام آگے آنے کا موقع نہیں دے رہا ہے۔

پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے۔ اس کے عوام طبعاً اور فطری طور پر اسلامی الذہن ہیں۔ اس کے بچے بچے کے ذہن میں دین سے محبت کا جذبہ ہے گو کہ ان کی تعلیم و تربیت کی بنیاد قران و سنت کے احکامات کے مطابق نہیں ہو رہی اور عوام الناس کی اکثریت ’’معیاری دین‘‘ کے تقاضوں سے بے خبر ہے لیکن یہ جب بھی اپنے نااہل حکمرانوں کے دین مخالف کرتوت دیکھتی ہے تو ان پر نفرین ضرورکرتی ہے۔ اسلامی احکام السلطانیہ کے مطابق قوم کا بد ترین حاکم وہ ہوتا ہے کہ عوام جس سے نفرت کرے اور برا بھلا کہے۔ ہمارے ہاں آج پاکستان کا ہر شہری حکمرانوں کی نا اہلی، خیانت، بد دیانتی، بے انصافی، لوٹ کھسوٹ اور عیاشیوں پر نفرین کہہ رہا ہے۔ حکمرانوں کی نا اہلی کا سب سے بڑا ثبوت قومی ریاستی اداروں کی تباہ حالی ہے۔ حکومت کا ہر ادارہ ما سوائے پاک فوج اور نیو کلیائی پاور کے اداروں کے تباہی کا شکار ہے۔ یہ سب اس عہد سے روگردانی کا نتیجہ ہے جو مسندِ اقتدار پر براجمان ہوتے وقت نا اہل حکمران اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ کرتے ہیں۔