پاکستان اور حقیقی جمہوریت

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا خصوصی علمی و فکری خطاب

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

معاون: محمد شعیب بزمی/محمد خلیق عامر

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ اﷲَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ.

’’بے شک اﷲ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں‘‘

(الرعد، 13: 11)

حالات کو بدلنے، اپنی محرومیوں کو خوشحالی میں ڈھالنے، معاشرے میں حقیقی تبدیلی لانے اور اپنے حقوق کے حصول کے لئے اس فرمان خداوندی کی روشنی میں انسان کو خود جرات و بہادری کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ کوئی دوسری مخلوق آکر ہمیںمحرومیوں سے نجات دلائے، ہمیں ہمارے حقوق دلوائے اور ہمارے معاشرے کو جنت نظیر بنائے۔ اگر انسان اپنے اردگرد کے حالات و واقعات سے مایوس ہوکر بیٹھ جائے اور خاموشی سے ظلم سہتا اور ظلم ہوتا دیکھتا رہے تو یہ عمل اسلامی تعلیمات کے یکسر منافی اور عذاب الہٰی کے نزول کا باعث ہے۔

حضرت ھُشَیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

مَا مِنْ قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِي ثُمَّ يَقْدِرُوْنَ عَلَی أَنْ يُغَيِّرُوْا ثُمَّ لاَ يُغَيِّرُوا إِلاَّ يُوْشِکُ أَنْ يَعُمَّهُمُ اﷲُ مِنْهُ بِعِقَابٍ.

’’جو بھی قوم ایسی ہو کہ اس میں برے کاموں کا اِرتکاب کیا جائے پھر وہ اِن برے کاموں کو روکنے پر قدرت رکھنے کے باوجود بھی نہ روکیں تو قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان سب کو اپنے عذاب میں مبتلا کر دے۔‘‘

(أبو داود في السنن، کتاب: الملاحم، باب: الأمر والنهي، 4/ 122، الرقم: 4338)

آقا علیہ السلام نے اس حدیث میں تبدیلی اور انقلاب کی بات کی ہے کہ حالات اتنے خراب ہو جائیں کہ جب لوگوں میں گناہ، نافرمانی، کرپشن، دھاندلی اور وہ تمام امور جنہیں اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع کیا، لوگوں کے سامنے سب ہونے لگیں اور لوگ اس کو بدلنے کے لیے نہ اٹھیں، انقلاب کے لیے نہ اٹھیں تو اللہ رب العزت عنقریب اس پوری قوم کو اپنے عمومی عذاب کی لپیٹ میں لے لے گا اور کوئی بھی نہیں بچے گا۔

  • اسی حدیث مبارکہ کو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں روایت کیا ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

اِنَّ النَّاسَ اِذَا رَاَوُا الظَّالِمِ فَلَمْ يَاْخُذُوْا عَلٰی يَدَيْهِ، اَوْشَکَ اَنْ يَعُمَّهُمُ اللّٰهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ.

’’جب لوگ ظالم کو (ظلم کرتا) دیکھیں اور اسے (ظلم سے) نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن سب کو عذاب میں مبتلا کردے‘‘۔

(الترمذی فی السنن، کتاب الفتن، باب ماجاء فی نزول العذاب اذا لم يغير المنکر، 4/ 467، الرقم: 2168)

یعنی اگر لوگ اس کرپشن کے خلاف، حق تلفی اور بددیانتی کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے، انقلاب کے لیے اور کرپٹ طاقتوں کا راستہ روکنے کے لیے نہیں اٹھیں گے، اس نظام کو مسترد نہیں کریں گے اور صرف خاموشی سے دیکھتے رہیں گے کہ بددیانت لوگ قوم کا خزانہ لوٹ رہے ہیں اور پورا نظام معاصی کو فروغ دے رہا ہے تو اللہ تعالیٰ ساری قوم کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے گا۔

  • ایک اور مقام پر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کو پورا کرنے کی پاداش میں دعائوں کے رد ہوجانے کا ذکر کیا۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمسے روایت کرتے ہیں کہ آپ  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ أَوْ لَيُوْشِکَنَّ اﷲُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْکُمْ عِقَابًا مِنْهُ. ثُمَّ تَدْعُوْنَهُ فَلاَ يُسْتَجَابُ لَکُمْ.

’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! تم ضرور بالضرور نیکی کاحکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے ورنہ اﷲ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیجے گا۔ پھر تم اسے (مدد کے لیے) پکارو گے تو تمہاری پکار کو رد کر دیا جائے گا۔‘‘

(الترمذي في السنن، کتاب: الفتن، باب: ما جاء في الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 4/ 468، الرقم: 2169)

ان احادیث مبارکہ سے واضح ہورہا ہے کہ دو صورتیں ہوں گی:

  1. لوگوں کو نیکی، اچھائی کی طرف بلاتے رہو گے، آواز حق اٹھاتے رہو گے اور بدی اور برائی کے خلاف سینہ سپر ہو کر کھڑے رہو گے، مذمت کروگے تو عذاب الہٰی سے محفوظ رہو گے۔
  2. دوسری صورت یہ ہوگی کہ اگر تم نے یہ کام روک دیا اور گھر بیٹھ گئے اور یہ سوچ لیا کہ ہماری کوشش سے کیا ہو گا؟ تمہاری اس خاموشی کے نتیجے میں نیکی دبتی رہے گی اور بدی طاقتور ہوتی رہے گی۔ اگر تم یہ فریضہ ادا کرنا چھوڑ دو گے تو اللہ رب العزت اپنی بارگاہ سے عذاب اتارے گا اور ساری سوسائٹی کو اس عذاب کی لپیٹ میں لے لے گا۔ جب قوم عذاب کی لپیٹ میں آ جائے گی تو اس وقت اگر صالحین بھی دعا کریں گے کہ اے باری تعالیٰ ہماری قوم پر رحم فرما، عذاب اٹھا لے، تو ان کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔

دعائیں اس وجہ سے قبول نہیں ہوں گی، کہ تم خاموش رہے بلکہ اس وجہ سے قبول نہ ہوں گی کہ تم نے اپنی خاموشی کی وجہ سے ظالموں، جابروں کو اقتدار تک پہنچنے کی دعوت دی۔ تم نے خاموشی اور بے حسی کی وجہ سے پورے معاشرے میں ظلم کے طاقتور ہو جانے میں مدد کی۔

موجودہ حالات کی منظر کشی

احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرنے سے یوں لگتا ہے کہ آقا علیہ السلام آج سے چودہ صدیاں پہلے ہمارے دور کا مشاہدہ فرما رہے ہیں اور پہلے سے ہی ہمیں ان فتن بارے آگاہ فرما رہے ہیں۔

  • حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم ایک مرتبہ حضور علیہ السلام کے گرد حلقہ کی صورت میں بیٹھے تھے، اس مجلس میں دور فتن کا ذکر ہوا۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے پوچھا: یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! وہ فتنوں کا دور کیا ہو گا؟ اس پر آقا علیہ السلام نے جواب دیا:

إِذَا رَاَيْتُمُ النَّاسَ قَدْ مَرِجَتْ عُهُوْدُهُمْ وَخَفَّتْ اَمَانَاتُهُمْ وَکَانُوْا هٰکَذَا- وَشَبَّکَ بَيْنَ اَصَابِعِهُ- قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ: کَيْفَ اَفْعَلُ عِنْدَ ذٰلِکَ جَعَلَنِي اﷲُ فِدَاکَ؟ قَالَ: اِلْزَمْ بَيْتَکَ وَامْلِکْ عَلَيْکَ لِسَانَکَ، وَخُذْ بِمَا تَعْرِفُ وَدَعْ مَا تُنْکِرُ، وَعَلَيْکَ بِاَمْرِ خَاصَّةِ نَفْسِکَ، وَدَعْ عَنْکَ اَمْرَ الْعَامَّةِ.

’’جب تم لوگوں کو دیکھو کہ انہوں نے وعدوں کا پاس کرنا چھوڑ دیا ہے اور امانتوں کی پروا نہیں رہی اور آپ  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کی انگشت ہائے مبارک کو آپس میں پیوست کرکے فرمایا کہ (امانتوں کو لوٹنے والے گروہ) یوں گتھم گتھا ہو جائیں گے - میں آپ  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کھڑا ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔ اُس وقت میں کیا کروں؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُس وقت اپنے گھر میں ہی رہنا، اپنی زبان کو قابو میں رکھنا، اچھی چیز کو اختیار کرنا اور بری بات کو چھوڑ دینا۔ اور تم پر لازم ہے کہ (اپنے دینی و مذہبی اور معاشرتی و اَخلاقی فرائض کی کامل ادائیگی کے ذریعے) اپنی جان (کو نارِ جہنم سے بچانے) کی خصوصی فکر کرنا اور رائے عامہ کی پیروی کو چھوڑ دینا (بلکہ اﷲ اور اس کے رسول  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی پیروی کرنا)‘‘۔

(أبو داود في السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب الأمر والنهي، 4/ 109، الرقم/ 4343)

نی فتنوں کا دور وہ ہو گا، جب تمہارے اندر وعدوں کا توڑنا عام رواج پا جائے گا، قوم کی امانتوں میں کرپشن ہو گی۔ اس کرپشن کو بڑا ہلکا و معمولی سا کام سمجھا جائے گا، سیاسی و معاشرتی کلچر سمجھا جائیگا، لوگ اس پر دھیان بھی نہیں دیں گے۔ کرپشن اور لوٹ مار کرنے والے ہوں گے تو الگ الگ، کسی کا تعلق کس جماعت سے، کسی کا کسی سے، مگر وہ کرپشن کرنے میں باہم ملے ہوئے ہوں گے۔ آقا علیہ السلام نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں ڈال کر ان کے کرپشن و ظلم پر یکجان ہونے کو بیان فرمایا کہ یہ ساری جماعتیں اور لیڈر آپس میں اس طرح اکٹھے ہو جائیں گے، ان کا مک مکا ہو جائے گا، اس طرح باہم جڑ جائیں گے جیسے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں جڑ گئی ہیں۔ یعنی یہ جدا نہیں ہوں گے، دیکھنے میں جدا ہوں گے مگر کرپشن پر ایک ہو جائیں گے۔

آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس زمانے کی نشاندہی فرمائی وہ زمانہ آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ جو لوگ اول دن سے شریعت کے نام پر سیاست کررہے ہیں، جو جماعتیں اور ’’مذہبی‘‘ شخصیات کتاب وسنت کے نام پر رزق اکٹھا کرتی ہیں وہ بھی کرپشن اور کرپٹ عناصر کے ساتھ مل گئی ہیں۔ گویا یہ وعدہ خلافی اور کرپشن کے ایجنڈے پر ایک ہوچکے ہیں۔

موجودہ حالات سے نجات کا راستہ

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے پوچھا یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ایسا وقت آ جائے تو کیا کریں؟

آقا علیہ السلام نے ان حالات سے نکلنے کے لئے اس حدیث مبارکہ میں درج ذیل نکات پر مشتمل ایک پورا نسخہ عطا فرمایا:

  1. خُذْ بِمَا تَعْرِفُ وَدَعْ مَا تُنْکِرُ:

ان حالات سے نکلنے اور ان بددیانت/ کرپٹ عناصر کا مقابلہ کرنے کے لئے پہلا قدم یہ ہے کہ جب ایسے حالات ہو جائیں تو کسی کی مت سنو۔ اللہ و رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس شے کو سچ کہا ہے اس کے ساتھ جڑ جاؤ اور جس شے کو باطل و جھوٹ کہا ہے اس کو رد کر دو۔

  1. عَلَيْکَ بِاَمْرِ خَاصَّةِ نَفْسِکَ:

ان فتن کی سرکوبی اور ان عناصر کے سدِّ باب کے لئے دوسرا قدم یہ ہے کہ اپنی ذات کی ذمہ داری نبھانے پر ڈٹ جانا۔اپنے دینی، مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی فرائض کی کماحقہ ادائیگی بجا لانا تاکہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا تمہیں نارِ جہنم سے بچاسکے۔ لہذا اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف خصوصی متوجہ رہنا اور ان کو سرانجام دینے کے لئے فکر کرنا۔

  1. دَعْ عَنْکَ اَمْرَ الْعَامَّةِ:

تیسرا قدم یہ ہے کہ یہ مت دیکھو کہ عوام الناس کدھر جا رہے ہیں۔ عوام الناس اپنے ذاتی مفادات کو دیکھتے ہوئے خواہ کسی پارٹی کے پیچھے جا رہے ہیں یا اپنی برادریوں کی پیروی کررہے ہیں، یہ ان کے دھندے ہیں۔ تم عامۃ الناس کی پیروی نہ کرو بلکہ خدا اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی پیروی کرو۔ عوام کا رجحان کیا ہے؟ اسے رد کر دو اور خدا و رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو اپنا لو۔

تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک الحمدللہ اسی حدیثِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے اپنے فرائض بلاخوف و خطر سرانجام دے رہی ہے کہ ہم نے نہیں دیکھا کہ عوام کیا چاہتے ہیں بلکہ ہم نے عوام کے رجحان کو رد کیا ہے اور خدا و مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو اپنایا ہے۔ کوئی بھلے تنقید کرے، طعن کرے، تشنیع کرے اس کی پرواہ نہیں کی اور جو حق اور سچ بات ہے، اُسے علی الاعلان بیان بھی کررہے ہیں اور باطل و استحصالی قوتوں کے خلاف عملی جدوجہد بھی کررہے ہیں۔

قائد کی پہچان

حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مقام پر عوام کا نام لے کر فرمایا کہ اگر مذکورہ حالات درپیش ہوں تو

وَإِيَاکَ وَعَوَامَّهُمْ.

’’(اس وقت) عامۃ الناس کی رائے کی پیروی سے بچنا‘‘

(المقرئ في السنن الواردة في الفتن، 2/ 363، الرقم: 117)

اس فرمان سے قائد و رہنما کی علامت و نشانی بھی واضح ہوتی ہے کہ لیڈر وہ ہوتا ہے جو لوگوں کے پیچھے نہ جائے۔ قائد کا کام یہ نہیں کہ وہ عوام کے رجحان کو دیکھ کر وہی آواز بلند کرے جو عوام چاہتی ہے تا کہ لوگ مجھے اچھا کہیں۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ قائد وہ ہے جو عوام کے پیچھے نہ چلے بلکہ عوام کو صحیح راستہ دکھائے۔ لیڈر عوام کی راہ متعین کرنے والا ہوتا ہے۔ جس سوسائٹی میں عوام الناس رجحان متعین کرنے لگ جائیں اور لیڈر ان کی خوشی کی خاطر ان کے پیچھے چلیں، اس سوسائٹی پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ لیڈر کے پیش نظر ہمیشہ اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان اور اسلام کے اصول ہونے چاہئیں اور وہ اس کی روشنی میں رجحان متعین کریں۔ وہ اس ضمن میں لوگوں کے دھارے کی پرواہ نہ کریں۔

قائد و رہنما نے ان حالات میں کہاں تک ذمہ داری ادا کرنا ہے؟ اس کی وضاحت بھی فرمان مصطفی میں موجود ہے۔ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لن تذالوا بخير ما لم تعرفوا ماکنتم تنکرون.

’’جب تک تم بدی کو نیکی نہیں سمجھو گے خیر پر رہو گے‘‘

افسوس! ہم نے نیکی اور بدی میں اختلاط کر دیا۔مزید فرمایا:

وما دام العالم يتکلم فيکم بعلمه فلا يخاف احدا.

’’ اگر بہت سے لوگ حق کی آواز بلند کرنے والے نہ بھی رہیں اور صرف ایک عالم بھی رہ جائے تو وہ لوگوں سے نہ ڈرے‘‘

(السنن الواردة فی الفتن، عمروالمقری، 3: 744)

یعنی قرآن و سنت کا جو علم اللہ نے اسے خیرات کیا ہے اس کی روشنی میں لوگوں کو حق بتاتا رہے اور لوگوں کے ظلم اور طعنوں سے نہ ڈرے۔

اس وقت ہمارا فریضہ یہ ہے کہ ہم بھیڑ چال نہ چلیں۔ حق کو خدا اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان سے اخذ کریں۔ عوام کا رجحان اس کی روشنی میں متعین کریں اور بلا خوف و خطر حق کے لیے جدوجہد کریں تا کہ اللہ رب العزت کے عذاب سے قوم بھی بچے اور ہم بھی بچیں۔ آج ہمارے معاشرے کی عکاسی کچھ یوں ہے کہ

میرے گھر کو آگ لگی تھی، کچھ لوگ بجھانے آئے تھے
جو مال بچا تھا جلنے سے، سو وہ بھی اُن کے ہاتھ لگا

سیاسی ’’قائدین‘‘ سے ایک سوال!

میں ان سیاسی لیڈرز سے سوال کرتا ہوں جو طویل عرصہ سے چہرے بدل بدل کر اس قوم پر مسلط ہیں کہ وہ 65 برس سے غریب کی غربت اور ان کی جان و مال اور عزت سے کھیلتے رہے، اس ملک کی دھرتی پر خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی، کرپشن کا بازار گرم رہا، ادارے برباد ہوئے، جمہوریت کی مٹی پلید ہوئی، امانت نام کی کوئی شے نہیں بچی، معاشی ترقی کا خاتمہ ہو گیا، سارے ادارے برباد ہو گئے، غریب کے پاس کھانے کا کچھ نہیں۔ غریب اپنی عزت یا خون بیچ کر کھا رہا ہے۔ تو کیا:

لہو کو بیچ کر روٹی خرید لایا ہوں
امیرِ شہر بتا یہ حلال ہے یا نہیں؟

اے امیرِ شہر! جہاں لوگ لہو بیچ کر روٹی کے لقمے کو ترس رہے ہیں، جہاں عزتیں بیچ کر جینا مانگ رہے ہیں، جہاں کسی کی جان، مال اور عزت کی حفاظت نہیں۔ عدل و انصاف عدالتوں میں نہیں ملتا، کرسیوں پر بیٹھنے والے عدل کو بیچنے والے ہیں، ہر طرف ضمیر فروشی ہے۔ جب حالات یہ ہیں تو امیرِ شہر بتا جس ’’جمہوریت‘‘ کے تم راگ الاپ رہے ہو کیا ان حالات میں یہ فرسودہ نظام قابل عمل ہے؟ کیا اس فرسودہ نظام کو اس قوم و ملک پر مسلط کرنا حلال کے درجہ میں آئے گا یا حرام کے درجے میں ٹھہرے گا؟ کیا یہ جمہوریت،آئین اور قانون ہے؟ افسوس! یہاں آئین، قانون اور جمہوریت ماتم کناں ہیں کہ کوئی حق، کوئی ضابطہ، کوئی اصول یہاں کارفرما نہیں۔ یہاں نہ آئین بچا، نہ قانون بچا اور نہ جمہوریت بچی۔

اگر ملک و قوم پر یہی فرسودہ نظام اور نام نہاد ’’جمہوریت‘‘ مسلط رہی تو یہ نظام انہی لٹیروں کو پلٹ پلٹ کر اقتدار پر لاتا رہے گا۔ انتخابات میں کرپٹ الیکشن کمیشن آئین کی تضحیک کر کے سب ڈاکوؤوں، چوروں، لٹیروں، غاصبوں، حرام خوروں، قرض خوروں اور ٹیکس چوروں کو آرٹیکل 62,63 کی گنگا میںغسل دے کر پاک صاف ہونے کا سرٹیفکیٹ پکڑا کے بھیجتے رہیں گے۔ جس طرح کہ گذشتہ تمام انتخابات میں ہوتا ہوا آرہا ہے۔

وہی چور جن کے ذمے اربوں روپے کے قرضے ہیں، وہی ڈاکو جو قوم کا خزانہ لوٹ کے کھا گئے، وہی دہشتگرد اور خائن و بددیانت جو پوری قوم کی دولت سے ہمیشہ کھیلتے رہے، اس سے پہلے بھی اور آج بھی اسمبلیوں میں براجمان ہیں۔

قوم کی دولت کو لوٹنے والے 62، 63 کا سرٹیفکیٹ دکھا کر اپنی پارسائی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن حکمرانوں کی آشیر باد اور ذاتی و مالی مفادات کے لئے 62، 63 کا نام لے کر تماشا رچاتا ہے۔ کرپٹ، خائن اور ملکی دولت کو بے دردی سے لوٹنے والے بھی پاک صاف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم 62,63 کی چھلنی سے نکل کر آئے ہیں۔ اس ملک میں اس قوم کے ساتھ ہمیشہ سے یہی دھوکہ ہوتا ہوا آیا ہے۔ اس جرم میں وہ بھی شریک ہیں جنہوں نے اس فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کو جعلی جمہوریت کے نام پر تحفظ دے رکھا ہے۔ ایسے مجرموں کو قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔

تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا

بڑی بڑی غرور کی گردنیں ٹوٹ گئیں، تمہاری کرسیاں بھی کھینچی جائیں گی، تمہاری گردنیں بھی مروڑی جائیں گی اور وقت آئے گا کہ ہر مجرم سے قوم حساب لے گی۔

افسوس! جن لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے تھا وہ اقتدار کی مسندوں پر بیٹھے ہیں۔ ہم نے اس ظالمانہ سیاسی وانتخابی نظام کے خلاف کلمہ حق بلند کرکے خسارے کا سودا نہیں کیا بلکہ نفع کا سودا کیا ہے، اس لئے کہ ہم نے بدی اور گناہ کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا، اپنا نظریہ نہیں بیچا بلکہ حق پر استقامت کے ساتھ قائم رہے اور قائم ہیں۔ اس نظام کو اس کے جملہ نقصانات اور قباحتوں کے ساتھ قبول کرنے والے درحقیقت کرپشن، ظلم اور دھاندلی کے گلاس میں گدلا پانی پی کر اپنی پیاس بجھارہے ہیں، ہمیں پیاسا رہنا قبول ہے مگر گندا پانی پی کر پیاس نہیں بجھائیں گے۔

قوم کو یہ امر ملحوظ رکھنا ہوگا کہ انتہاء پسندی اور دہشتگردی کے دسترخوان پر حرام کھا کر اپنی بھوک نہ مٹائیں۔ ہمیں بھوکا رہنا گوارا ہے مگر دہشتگردی کے دسترخوان پر حرام نہیں کھائیں گے۔ قوم سیاسی لیڈروں، ان کے غلط وعدوں اور دھوکوں کی چمک خرید کر اندھیروں میں نہ بھٹکے۔ ’’ریاست دشمن سیاست‘‘ اور ’’غریب دشمن نظام‘‘ کا حصہ بن کر جرم اور گناہ میں شریک نہ ہوں۔ اس بڑے مقصد کو حاصل کرنے میں کچھ وقت لگے گا، بڑے مقاصد کے لیے وقت لگتے ہیں مگر یاد رکھنا کبھی، گدھ بن کر مردار نہ کھانا، ہمیشہ شاہین بن کر رہنا اور اپنی پرواز بلند رکھنا۔ ہزاروں گدھ لاشیں کھا رہے ہوں گے مگر بالآخر فتح اس شاہین کی ہے جو اپنی پرواز کو نیچے نہیں آنے دیتا۔ ہم اپنی پرواز کو نیچے نہیں آنے دیں گے، مردار نہیں کھائیں گے۔ ہم تاجدارِکائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ہیں، ہمارے اوپر کسی کے پیسے کا احسان نہیں ہے۔

غیرملکی فنڈنگ کی روم تھام

میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ اگر ریاستی ادارے ملک کو دہشتگردی اور انتہاء پسندی سے پاک کرنا چاہتے ہیں تو انہیں غیر ملکی فنڈنگ کو روکنا ہوگا۔ کیا ہمارے مقتدر ریاستی ادارے، حکومت، وزارت داخلہ اور ایجنسیاں گونگی و اندھی ہیں؟ میں ان تمام سے پوچھتا ہوں کہ کیوں تمہارے لبوں پر مہر ہے؟ تمہیں نظر نہیں آتا کہ کون کون سا ملا، کون کون سی پارٹی، کون کون سا مدرسہ، کون کون سی جماعت اور کون کون سا ادارہ اِدھر اُدھر سے مال لے رہا ہے؟ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ کس کس کو کہاں کہاں سے فنڈنگ ہوتی ہے؟ اگر دہشتگردی و انتہاء پسندی اور فرقہ واریت کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ان سارے نام نہاد ’’قائدین‘‘ کو جیل بھیج دیں جو باہر کے کسی ملک سے فنڈنگ لیتے رہے ہیں۔ اُن سارے اداروں پر پابندی لگادیں جو باہر کے فنڈز پہ چلتے ہیں۔

میں اپنی ذات کو اور تحریک منہاج القرآن و پاکستان عوامی تحریک کو سب سے پہلے نمونے کے لیے پیش کرتا ہوں۔ 36 سال کی میری جدوجہد میں میرے نام، تحریک منہاج القرآن کے نام، پاکستان عوامی تحریک کے نام، یا میرے مشن کے کسی بھی ادارے اور کسی بھی شعبے کے نام شرق سے غرب تک دنیا کی کسی حکومت سے، کسی ایجنسی سے، کسی اسٹیبلشمنٹ سے، کسی این جی او سے، کسی ادارے سے، ملک کے اندر یا ملک سے باہر کہیں سے بھی 36 سالوں میں کسی نام پر، کسی مد میں، کسی حوالے سے ڈائریکٹ یا اِن ڈائرکٹ ایک روپیہ، یا ایک ڈالر یا ایک پاؤنڈ بھی لینا ثابت ہو جائے تو میں اپنی گردن کٹوانے کو تیار ہوں۔

ہم پر دنیا کی کسی طاقت کا احسان نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارا سر کسی کے سامنے نہیں جھکتا۔ میں حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا مرید ہوں، یہ ساری دنیا کی سلطنتیں اپنی دولت جمع کر لیں تو غوث پاک کے ادنیٰ مرید کا جوتا نہیں خرید سکتے۔ میرے کارکنان آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی اور قربانیاں دینے والے ہیں۔ ہم پر صاحبِ گنبدِخضریٰ کے سواء کسی کا احسان نہیں۔ خدا کی قسم! تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ٹکڑوں پر پلا ہوں، پلتا ہوں، مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در کا سگ ہوں اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ٹکڑے کے سوا کسی کے ٹکڑے کو ایک نگاہ اٹھا کر بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔ سوائے خدا اور مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی کا ہم پر کوئی احسان نہیں ہے۔

اسی وجہ سے ہم نہ کسی لالچ میں دبتے ہیں اور نہ کسی کے خوف سے ڈرتے ہیں۔ لہذا تمام کارکنان اسی طرح آگے بڑھتے چلیں، ان شاء اللہ منزل ایک دن ضرور ملے گی اور یہ پورا نظام بدلے گا۔ یہ جدوجہد اللہ کی مدد اور آقا علیہ السلام کے نعلین پاک کے تصدق سے اُس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک غریبوں کے چہروں پر خوشی لوٹ نہیں آتی۔۔۔ جب تک کسان زمین کا خود مالک نہیں بن جاتا۔۔۔ جب تک مزدور اپنی صنعت کی تخلیق کا پھل خود نہیں کھاتا۔۔۔ جب تک عدل و انصاف کا پانی سوسائٹی کو سیراب نہیں کر دیتا۔۔۔ اُس وقت تک جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک محبت کے ذریعے اس ملک سے نفرت ختم نہیں کر دیتے۔۔۔ جب تک اعتدال پسندی کے ذریعے انتہاء پسندی کا خاتمہ نہیں ہوجاتا۔۔۔ جب تک امن و آشتی اس ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ نہیں کر دیتی۔۔۔ جب تک علم و شعور یہاں سے جہالت کا خاتمہ نہیں کرتا۔۔۔ جب تک معاشی خوشحالی اس ملک سے غربت و محرومی کا خاتمہ نہیں کرتی۔ اس یقین کے ساتھ مشن پر استقامت سے قائم رہیں کہ اللہ رب العزت مخلص لوگوں اور غریبوں کی جدوجہد کو کبھی بھی ضائع نہیں کرتا بلکہ اپنی مدد سے منزل ضرور عطا کرتا ہے۔

جمہوریت کیا ہے؟

ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کائنات میں جمہوریت کے بانی آقائے دو جہاں صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ سب سے پہلا تحریری دستور میثاقِ مدینہ کی صورت میں آقا علیہ السلام نے دیا اور اس کی اساس جمہوریت کے اصولوں پر تھی۔ لہذا ہم جمہوریت کے قائل ہیں، انتخابات کے قائل ہیں، مگر یہ جو کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے، یہ اصل و حقیقی جمہوریت نہیں ہے۔ اس لئے کہ جمہوریت صرف الیکشن کا نام نہیں۔بلکہ یہ الیکشن سے بڑھ کر شے ہے۔

جمہوریت انسانی بنیادی حقوق کی بحالی، اچھے طرز حکمرانی، ہر شعبہ میں شفافیت اور احتساب کا نام ہے۔ یہ تمام عناصر مل کرجمہوریت کے ماحول کو قائم کرتے ہیں۔ یہ جمہوریت کے لازمی اجزاء ہیں۔ جمہوریت قانون کی حکمرانی کی مضبوطی، ہر ایک کے لئے یکساں قانون، ہر ایک کو قانون کے تحت حفاظت کی یقین دھانی کا تقاضا کرتی ہے۔ جمہوریت ایسے نظام انتخابات کا تقاضا کرتی ہے جو شفافیت، احتساب، برابری، انصاف، دیانت اور حقیقی آزادی پر قائم ہو۔ جہاں ہر عام آدمی بغیر کسی قسم کے جبرو اکراہ کے آزادی اور دیانت کے ساتھ اپنا حق رائے دہی استعمال کرسکے۔

لہذا ہم ایسی قانون سازی چاہتے ہیں، ایسے ادارے چاہتے ہیں، ایسا طریق کار چاہتے ہیں جس کے تحت مکمل طور پر شفافیت کی یقین دہانی حاصل ہو۔ اس نظام کا یہاں مکمل فقدان ہے لہذا ہم کرپشن کو جمہوریت کا نام نہیں دے سکتے۔ اس وقت پاکستان کا مکمل نظام کرپشن پر قائم ہے۔ ہمارے اس سیاسی و انتخابی نظام میں شفافیت و احتساب ناپید ہے۔ یہاں کے انتخابات تین Ms پر مبنی ہیں:

  1. Money (دھن/ روپیہ)

  2. Might (دھونس/ طاقت)

  3. Maneuvering (دھاندلی)

یہاں اہلیت و صلاحیت کا کوئی معیار نہیں ہے۔ ہم سیاسی نظام میں شفافیت کا مطالبہ کرتے ہیں۔۔۔ ہمارا مطالبہ معاشی نظام سے کرپشن کا خاتمہ ہے۔۔۔ ہمارا مطالبہ پاکستان سے دہشت گردی و انتہاء پسندی کا خاتمہ ہے۔۔۔ ہم معاشرتی، معاشی ، سیاسی سطح پر اس ملک میں حقیقی جمہوریت کا مطالبہ کرتے ہیں۔۔۔ اس لئے کہ یہ ہماری بنیادی ضرورت ہے۔

جمہوریت کا مطلب جاننا ہو تو برطانیہ کو دیکھیں جہاں وزراء اور اراکین اسمبلی معمولی جھوٹ اور معمولی کرپشن پر بھی نہ صرف عہدہ سے فارغ کردیئے جاتے ہیں بلکہ اپنے اختیارات کا معمولی سا غلط استعمال کرنے کی باقاعدہ سزا بھی بھگتتے ہیں۔ جہاں سٹیشنری کی مد میں معمولی سی کرپشن پر MP عہدے سے فارغ ہوجاتا ہے۔ جمہوری معاشرے نہایت مضبوط ہوتے ہیں جہاں عوام کا غم و غصہ ہی کرپٹ وزراء یا عوام کے امیدوں پر پورا نہ اترنے والے حکمرانوں کے عہدوں پر بحال نہ رہنے کا سبب قرار پاتا ہے۔

لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں کروڑوں، اربوں روپے، سیاسی لیڈروں، وزیراعظم، وزراء اعلیٰ، ممبران اسمبلی کے ذریعے کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں مگر یہاں کوئی ان کو ان کے عہدوں سے برطرف کرنے کے اختیار نہیں رکھتا۔ عوام یہاں بے بس ہیں۔ لاکھوں کے حساب سے جعلی ووٹ رجسٹرد ہیں۔ انتخابی مہم میں پیسہ اور دھاندلی اپنا کام دکھاتے ہیں۔ بلیک میلنگ، ٹارگٹ کلنگ، جرائم، ہراساں کرنا، اغواء برائے تاوان، غربت، دہشت گردی اور معاشرتی عدم تحفظ کا رواج ہے۔ ان تمام عناصر کی موجودگی میں ایک غریب آدمی دیانت و امانت اور آزادی کے ساتھ اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یہاں پر حقیقی تبدیلی اور انقلاب کی بات کرتے ہیں۔

ہم حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں جس کا وعدہ ہمارے آئین میں بھی ہے اور قائد اعظم نے بھی دیا تھا۔ ہم جمہوریت سے کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اہل لوگوں کو اوپر لانا چاہتے ہیں۔ اس جمہوریت میں کرپشن کی انتہا یہ ہے کہ گورنمنٹ آف پاکستان کے سرکاری ادارے نیب نے یہ اعلان کیا تھا کہ پانچ ہزار ارب روپے سالانہ پاکستان میں کرپشن ہے۔ یہ میرا بیان نہیں بلکہ نیب کے چیئرمین کا آفیشلی اناؤنس ہے کہ دس سے بارہ ارب روپے یومیہ کرپشن ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پانچ ہزار ارب روپے سالانہ کرپشن والے یہ لوگ کون ہیں؟ کیا یہ کرپشن غریب طبقہ کررہا ہے یا بیرون ملک روزگار کمانے والے پاکستانی کررہے ہیں؟ یا یہ کرپشن عام پاکستانی کررہا ہے؟

دراصل یہ کرپشن کرنے والے نام نہاد لیڈرز ہیں جو عرصہ دراز سے مسند اقتدار پر مسلط ہیں۔ میں مقتدر اداروں اور اس فرسودہ انتخابی و سیاسی نظام کے ٹھیکیداروں سے پوچھتا ہوں کہ وہ سالانہ پانچ ہزار ارب روپے کی کرپشن کرنے والے کرپٹ کہاں گئے؟ ان تمام نے اہل ہو کر الیکشن لڑا اور اب وہی کرپٹ لوگ اس قوم کے پھر لیڈر ہیں۔ اگر اسی طرح رہا تو یہ ملک مزید تباہ ہو گا۔ یہاں جمہوری قدریں کیا فروغ پائیں گی، یہاں تو خاندان اور نسلیں پل رہی ہیں، خاندان حکومت کررہے ہیں، اگرچہ اس خاندان کے کسی فرد کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہ بھی ہو تب بھی وہ وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور وزیر خارجہ تک کے اختیارات استعمال کرتے ہیں۔

کوئی ایک پارٹی بھی ایسی نہیں جس کے اندر جمہوریت ہو۔ محلات میں رہنے والے اس ملک کے اٹھارہ کروڑ غریبوں کی کیا بات کریں گے؟ اس موقع پر اپنا ذکر کرنا اچھا نہیں لگتا مگر بعض اوقات آقا علیہ السلام کی سنت کے تحت کوئی بات بتانا بھی پڑتی ہے۔ ہم نے بھی زندگی گزاری ہے، ہمارے پاس آج سے تیس سال پہلے ایک کنال کا گھر تھا، آج بھی وہی گھر ہے۔ اس کے علاوہ ایک انچ زمین کا مالک میں نہیں ہوں۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ تبدیلی لانے کے لیے اپنی ذات میں اور اپنے کردار میں تبدیلی لانا پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جتنی بھی لیڈرشپ رہی انہوں نے پاکستان کو الیکٹرورل ڈکٹیٹرشپ کا حامل ملک بنا دیا۔

جمہوریت کے عالمی انڈیکس میں پاکستان کا مقام

دنیا میں جن ملکوں میں جمہوریت ہے، ان کی ’’جمہوریت‘‘ کے کامل و ناقص ہونے کے اعتبار سے تین قسمیں ہیں:

  1. 25 ملک ایسے ہیں جنہیں Full Democratic (مکمل جمہوری) کہتے ہیں۔
  2. 53 ملک ایسے ہیں جنہیں Fault Democratic کہتے ہیں یعنی یہ ممالک ناقص (Defective) جمہوریت کے حامل ہیں۔
  3. 37 ملک ایسے ہیں جنہیں Hybrid Regimes کہتے ہیں۔ یہ سیاسی آمریت کے حامل ممالک ہیں۔ وہاں انتخابات ہوتے ہیں، انتخابات کے نام پہ جمہوریت کا ٹائیٹل بھی سجتا ہے مگر اندر سیاسی آمریت ہوتی ہے۔

پاکستان نہ مکمل جمہوری ملک ہے اور نہ ناقص جمہوریت کا حامل ہے بلکہ پاکستان کا شمار سیاسی آمریتوں میں شمار 37 ملکوں میں آخری نمبروں پر ہے۔ پاکستان کو اس حال میں ان نام نہاد سیاستدانوں اور حکمرانوں نے پہنچایا ہے۔ قوم یہ جان کر حیران ہوگی کہ ’’اکانومسٹ یونٹ‘‘ کی تحقیق کے مطابق جمہوریت کے انڈیکس میں ’’یوگنڈا‘‘ ہم سے بہتر ہے۔ اور اس کا درجہ 96 ہے۔۔۔ فلسطین جو ابھی ملک بھی نہیں بنا، اس کا درجہ 99 ہے اور وہ بھی ہم سے بہتر ہے۔۔۔ کینیا کا درجہ 103 ہے اور وہ بھی ہم سے بہتر ہے۔۔۔ بھوٹان کا درجہ 104 اور وہ بھی ہم سے بہتر ہے۔۔۔ پاکستان کا درجہ جمہوریت کے انڈیکس میں 105 ہے۔

ان نام نہاد حکمرانوں اور لیڈروں کو شرم آنی چاہئے کہ انہوں نے 65 سال میں اس ملک کو کیا دیا ہے؟ انہوں نے یہاں اتنی تباہی دی کہ جمہوریت کے انڈیکس میں اس ملک کا شمار نچلے ترین درجے میں کروایا۔ یہ اس ’’جمہوریت‘‘ کے مطابق ترقی کا ایک رخ ہے۔

ریاستی صلاحیت و استعداد

دنیا میں ریاستوں کی بقاء کے حوالے سے مختلف امور میں باہمی موازنہ کیا جاتا ہے کہ کس ملک کی ریاستی صلاحیت و استعداد کیا ہے؟ یعنی اس ریاست کے برقرار رہنے، باقی رہنے کی صلاحیت کیا ہے؟ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو 2007-08ء میں پاکستان کا درجہ 92 تھا۔ 2008-09ء میں مزید نیچے گرے اور پاکستان کا ریاستی صلاحیت میں درجہ 101 ہوگیا۔ اب ہم مزید 22 درجے تنزلی میں جانے کے بعد 123 نمبر پر آ چکے ہیں۔ یہ عالمی سطح پر ہماری بطور ریاست صلاحیت کی جائزہ رپورٹ ہے۔ اگر ہمارے ہاں حقیقی جمہوریت ہوتی تو معاشی و معاشرتی ترقی ہوتی۔ اگر جمہوریت ہوتی تو قانون کی حکمرانی ہوتی۔ اگر جمہوریت ہوتی تو پھر یہاں سرمایہ کاری آتی۔ اگر جمہوریت ہوتی تو یہاں ہر لحاظ سے ترقی کے مواقع ہوتے اور ریاستی صلاحیت بلند ہوتی۔ افسوس ہم ہر لمحہ نیچے ہی گرتے چلے جارہے ہیں۔

ہر ملک کی صلاحیت میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے اور اس کی صلاحیت و استعداد میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ اونچ نیچ انڈیا میں بھی آئے مگر انڈیا ان سالوں میں صرف 2 درجے نیچے گیا اور پھر اوپر چلا گیا۔۔۔ برازیل بھی 2 درجے نیچے گیا مگر پھر اوپر کی طرف بلند ہوگیا۔۔۔ 2008ء سے 2012ء بنگلہ دیش صرف ایک درجہ ریاستی صلاحیت میں نیچے گیا۔۔۔ انڈونیشیا 10 درجے اوپر گیا۔۔۔ سری لنکا 17 درجے اونچا گیا۔۔۔ دوسری طرف پاکستان کا حال انہی سالوں میں دیکھئے کہ پاکستان 22 درجے نیچے گیا۔

قوم سے جھوٹ بولنے والے یہ حکمران قومی مجرم ہیں۔ ان کے گلے میں طوق ہونا چاہئے، انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے۔ یہ لیڈری کے قابل نہیں ہیں بلکہ یہ گیدڑ ہیں، قوم کو برباد کرنے والے اور پاکستان کی صلاحیت ختم کرنے والے ہیں۔ پاکستانی قوم کی اپنی صلاحیت دنیا کی بہترین اقوام کے برابر ہے، قوم کی صلاحیت اونچی ہے مگر بطورِ ریاست پاکستان کو ان لوگوں نے برباد کر دیا۔

یہ لوگ ہر بار وعدے کرتے ہیں کہ آپ ہمیں ووٹ دیں، ہم اقتدار میں آئے تو ہم پاکستان کو چند سالوں میں آسمان تک پہنچا دیں گے۔ ظالمو! تم ہی تو اقتدار پر رہے ہو۔ تمہارے سواء رہا کون ہے اقتدار پر۔ 90 کی دہائی میں یہ دونوں پارٹیاں پورے دس سال باری باری اقتدار پر رہیں۔۔۔ پھرپچھلے پورے پانچ سال ایک پارٹی مرکز/ وفاق اور سندھ میں اقتدار میں رہی، دوسری پارٹی ملک کے ساٹھ فیصد حصے یعنی سب سے بڑے صوبے پنجاب پر اقتدار میں رہی۔۔۔ اور اب یہ وفاق اور پنجاب میں برسر اقتدار ہیں اور دوسری پارٹی سندھ میں ہے۔۔۔ نصف سے زیادہ حصہ ملک کا ان کے اقتدار میں رہا، ان دونوں نے مل کر پاکستان کو برباد کر دیا۔ اب ان کے پاس نیا ایجنڈا ہے ہی کیا جو یہ ملک کو دیں گے؟ درحقیقت ان کے پاس صلاحیت ہی نہیں ہے۔

ان لوگوں کے دورِ اقتدار میں اس ملک کے ساتھ کیا کیا ہوتا رہا ہے؟ یہ المناک داستان ہے۔ یہ بات صرف ایک دورِ حکومت کی نہیں بلکہ پچھلے 25 سال کا حال بیان کر رہا ہوں، اس صورت حال کے سیاسی لیڈر، سیاسی جماعتیں اور فوجی لیڈر الغرض تمام ذمہ دار ہیں۔

تعلیم و صحت سے حکمرانوں کا سلوک

پاکستان میں تعلیم اور صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بجٹ میں ان دونوں شعبوں کے لئے GDP کا صرف 2 سے 3 فیصد خرچ کیا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس اگر دیگر ممالک کے ساتھ اس کا موازنہ کیا جائے تو نیپال میں GDP کا 4.6 فیصد تعلیم اور ہیلتھ پر 5.8 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔۔۔ بھوٹان میں تعلیم پرGDP کا 4.8 فیصد اور ہیلتھ پر GDP کا5.5 فیصد ۔۔۔ مالدیپ میں GDP کا 11.2 فیصد تعلیم پر اور 5.6 فیصد صحت پر خرچ کیا جاتا ہے۔۔۔ منگولیا جیسے ملکوں کا عالم یہ ہے، وہ ہم سے بہتر۔۔۔ کاغستان ہم سے بہتر۔۔۔ حتیٰ کہ کینیا، تعلیم پر جی ڈی پی کا 7 فیصد اور 12 فیصد ہیلتھ پر خرچ کرتا ہے۔۔۔ گھانا (افریقہ) میںGDPکا 5.4 فیصد تعلیم پر اور 10.6 فیصد صحت پر خرچ کیا جاتا ہے۔

ہمارے ان لیڈروں کو شرم آنی چاہیے کہ 3rd world countries ہم سے چار چار گنا زیادہ تعلیم و صحت پر خرچ کر رہے ہیں۔ یہ حکمران پاکستان میں کس جمہوریت کی بات کرتے ہیں؟ جمہوریت تعلیم کا نام ہے۔۔۔ جمہوریت، صحت کا نام ہے۔۔۔ جمہوریت شفافیت کا نام ہے۔۔۔ جمہوریت قانون کی حکمرانی کا نام ہے۔۔۔ جمہوریت سوشل ڈویلپمنٹ کا نام ہے۔۔۔ جمہوریت اکنامک گروتھ کا نام ہے۔۔۔ جمہوریت سوشل اینڈ لیگل جسٹس کا نام ہے۔ جن چیزوں کو جمہوریت کہتے ہیں یہاں ان کا وجود نہیں ہے۔ انہوں نے لوٹ مار اور بدمعاشی کا نام جمہوریت رکھ لیا ہے۔

اکنامک گروتھ، زبوں حالی کا شکار

معاشی ترقی کے بغیر آئندہ آنے والے وقتوں میں ملک زندہ نہیں رہ سکیں گے، بقا ممکن نہیں ہو گی۔ پاکستان کی اکنامک گروتھ کا دیگر ملکوں سے موازنہ کیا جائے تو ان لیڈروں کے سر شرم سے جھک جانے چاہئیں۔ 2010ء تا 2012ء اکنامک گروتھ کے حوالے سے پاکستان کی ایکسپورٹ گروتھ2.9 فیصد اور امپورٹ گروتھ 1.7 فیصد سالانہ ہے۔ یہ ہماری معاشی ترقی کا حال ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش کی ایکسپورٹ گروتھ 4.2 فیصد یعنی ہم سے دو گنا زیادہ اور امپورٹ گروتھ 5.4 فیصد یعنی ہم سے چار گنا زیادہ ہے۔ یہ سن کر اپنے حال پر ہمیں رونا آئے گا کہ افغانستان میں ایکسپورٹ گروتھ6.9 فیصد ہے یعنی ہم سے تین گنا زیادہ اور امپورٹ گروتھ 3.7 فیصد یعنی ہم سے تین گنا گنا زیادہ۔ ان لیڈروں نے پاکستان کو معاشی طور پر اس مقام پر پہنچا دیا ہے۔ کیا اس کو جمہوریت کا نام دے دیا جائے؟

ہم کیسا پاکستان چاہتے ہیں؟

ہم پاکستان کو آزاد، خودمختار ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں وہ پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں جو بڑی سے بڑی طاقت کو NO کہہ سکے اور کہے:

No, this is against my National supriem intrest.

یہ میرے قومی مفاد کے خلاف ہے، یہ کام میں نہیں کر سکتا۔ جو ملک کسی کو ’’نہیں‘‘ کہہ سکتا، وہ ملک زندہ نہیں رہتا۔ اور ’’نہیں‘‘ کہنے کے لیے خودمختار (Sovereignt) پاکستان چاہئے۔ میں پاکستان کی خود مختاری کی حفاظت چاہتا ہوں۔ خودمختار ملک ہونے کے لیے ایسی لیڈرشپ چاہئے کہ جس کی ٹانگیں کانپتی نہ ہوں۔۔۔ ایسی لیڈرشپ چاہیے جس کے بینک اکاؤنٹ بیرون ملکوں میں نہ ہوں۔۔۔ ایسی لیڈر شپ چاہئے جن کے پاس جرات، ویژن، دیانت، حوصلہ اور صلاحیت ہو۔ یہ صلاحیتیں مل کر ملک کو بحرانوں سے نکال سکتی ہیں۔

یہ نظامِ انتخاب اور یہ سیاسی و حکومتی نظام اس ملک کو بچا نہیں سکے گا، اس ملک کو ترقی نہیں دے سکتا۔ میں اس پورے نظام کی تبدیلی چاہتا ہوں۔ میں اس پورے فرسودہ نظام کو اللہ کی مدد کے ساتھ اور اس قوم کی مدد کے ساتھ سمندر میں غرق کرنا چاہتا ہوں۔ میں اس ملک میں حقیقی جمہوریت چاہتا ہوں۔ ہم پرامن، جمہوری اور Progressive تبدیلی چاہتے ہیں۔

موجودہ حکمرانوں کا سارا حرص یہ ہے کہ سارا اقتدار، طاقت اور سرمایہ ان کے ہاتھ میں رہے۔ وہ عوام کو نہ اقتدار منتقل کرنا چاہتے ہیں، نہ طاقت دینا چاہتے ہیں۔ یہ عوام کو نہ سرمایہ دینا چاہتے ہیں اور نہ ترقی دینا چاہتے ہیں۔ یہ ہر شے اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ اس ملک اور عوام کو انہوں نے بٹیر کی طرح ہاتھ کی گرفت میں لے رکھا ہے۔

اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی

ممیرے ویژن میں پاکستان کا موجودہ ڈھانچہ تبدیل کرنا ہے۔ میں پاکستان کو 35 صوبے دینا چاہتا ہوں۔۔۔ ہر ڈویژن کو صوبہ بنانا چاہتا ہوں۔۔۔ جب تک decentrlization نہیں ہو گی، عوامی مسائل حل نہ ہوں گے۔ ارتکاز کو ختم کرنا ہو گا۔ قرآن کے فرمان کَیْ لَا يَکُوْنَ دُوْلَةًم بَيْنَ الْاَغْنِيَآءِ مِنْکُمْ کے ذریعے جیسے اغنیا کے اندر ارتکازِ دولت کو توڑنے کا حکم ہے اسی طرح لیڈروں کے ہاتھ سے ارتکازِ اقتدار کو توڑنا اور نیچے تقسیم کرنا ہی مسائل کا حل ہے۔

ہمارے ملک کے سیاسی لیڈروں نے قوم کو اندھیرے میں رکھا ہوا ہے۔ دیگر ممالک میں اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم کی درجنوں مثالیں مل جاتی ہیں۔

ترکی کی آبادی 7 کروڑ 60 لاکھ ہے اور اس کے81 صوبے ہیں۔ ہماری آبادی 18 کروڑ ہے، یعنی ترکی سے اڑھائی گنا زیادہ لیکن ہمارے چار صوبے ہیں۔ کیوں؟ تا کہ اتنے بڑے صوبے کا سرمایہ اور وسائل ان کی دسترس میں رہیں۔ p> ایران 6 کروڑ 60 لاکھ آبادی اور 30 صوبے۔۔۔ جاپان، تقریباً ساڑھے بارہ کروڑ آبادی اور 47 صوبے۔۔۔ الجیریا ساڑھے تین کروڑ آبادی اور 48 صوبے۔۔۔ کینیا چار کروڑ دس لاکھ آبادی اور 26 صوبے۔۔۔ فرانس ساڑھے چھ کروڑ کے قریب آبادی اور 26 صوبے۔۔۔ اٹلی، پانچ کروڑ اسی لاکھ آبادی اور 20 صوبے۔۔۔ رشیا (Rusia) 14کروڑ آبادی اور 83 صوبے۔۔۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ہم اٹھارہ کروڑ آبادی رکھ کر چار صوبے کیوں لے کر بیٹھے ہیں؟ ہمارے حکمران صوبے اس لیے زیادہ نہیں بنانے دیتے کہ بجٹ تقسیم ہو گا۔ بجٹ جب نچلی سطح پر تقسیم ہوگا تو اس سے کرپٹ لیڈروں کی بڑی بڑی اکڑی ہوئی گردنیں کمزور پڑ جائیں گی۔

حکمرانوں سن لو! غریب کے خون پر پلنے والو میں تمہیں کمزور کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ جن کے چہروں پر غریبوں کا خون چوس چوس کر لالی آئی ہے، میں وہ لالی چھین کر غریبوں کو واپس دینا چاہتا ہوں۔۔۔ جنہوں نے غریبوں کے محلے اجاڑ کر اپنے محلات بنا لیے ہیں، وہ محلات واپس غریبوں کو دینا چاہتا ہوں۔۔۔ ہم غریبوں کو عدل و انصاف دینا چاہتے ہیں۔۔۔ ہم تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نظام اور خلافت راشدہ کے نظام کا وہ عدل قوم/ عوام کو دینا چاہتے ہیں جس میں عام شہری بھی اٹھ کر پوچھ لے کہ اے عمر رضی اللہ عنہ آپ نے یہ جبہ کیسے بنایا۔۔۔؟ ہم غریب کی آواز میں طاقت دینا چاہتے ہیں۔۔۔ یہ سب کچھ ان لیڈروں اور ان جماعتوں سے نہیں ہوگا بلکہ ان کے ذریعے ہوگا جو اپنے لیے کچھ نہ بنائیں، سب کچھ عوام کے لیے بنائیں۔ ۔

  • برطانیہ جیسے ملک میں سیکرٹریز اینڈ سٹیٹ منسٹرز ساری کیبنٹ ملا کر 30 ممبر ہوتے ہیں۔۔۔ ساڑھے 14 کھرب ڈالر کی معیشت کا حامل امریکہ جیسا ملک صرف 15 وزیر ہوتے ہیں جبکہ پاکستان جہاں کھانے کو نہیں ملتا، ملک قرضوں پر چلتا ہے، اس کے 95 وزیر ہیں۔ لعنت ہے ایسے نظام پر۔ کیا ہمارا ملک 15 وزیروں سے نہیں چل سکتا؟ یہ حرام خوری کے دروازے کیوں کھول رکھے ہیں؟

ان حقائق سے پردہ اٹھانے، علی الاعلان حق بات کہنے اور ان حکمرانوں کو چیلنج کرنے کی وجہ سے ہی سیاست کی دنیا ہمارے خلاف ہو گئی کہ انہیں میری بات وارا نہیں کھاتی تھی۔ میرے ایجنڈے سے ان کے وارے نیارے نہیں ہوتے۔ اس لئے یہ سب ہمارے خلاف یک زبان ہیں۔ لیکن کب تک یہ راستہ روکیں گے، ان شاء اللہ وہ وقت آئے گا جب غریب اٹھ کر اپنا حق ان سے چھین لیں گے۔ اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد سے کامیابی و کامرانی ہمارا نصیب ٹھہرے گی۔

پیغام

جدوجہد طویل ہوتی ہے، آقا علیہ السلام نے 13 برس مکہ کی جدودجہد کی اور 400 سے کم لوگوں نے کلمہ پڑھا اور وہ وقت بھی آیا کہ وہاں کے لیڈروں، قریش کے سرداروں، کرپٹ، وڈیرے، جاگیرداروںنے تلواروں سے گھیر لیا۔ ان حالات میں آقا علیہ السلام نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی۔

قرآن کو پڑھ لیجئے کہ جب بھی کسی پیغمبر نے آواز بلند کی تو اس کی آواز پر سب سے پہلے لبیک غریبوں اور مظلوموں نے کہا۔ اس سوسائٹی کے سارے جاگیردار، وڈیرے جنہیں قرآن جابجا قال الملاء الذین کفروا، کہتا ہے سب مخالف ہو گئے۔ وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ غریب کے حقوق ہمارے برابر ہو جائیں۔ ہر پیغمبر کی آوازِ حق کے مقابلے میں وڈیرے اکٹھے ہوئے۔ اب بھی وہی نظام ہے، غریب کے خلاف یہ اکٹھے ہوں گے اور ہیں مگر یہ ہمیشہ نہیںرہ سکتے۔ آقا علیہ السلام کے طفیل اللہ کی مدد و نصرت کے ساتھ منزل ان شاء اللہ ہمیں نصیب ہوگی۔ جدوجہد کو جاری رکھیں۔ جو لوگ اللہ کے بھروسے پر جدوجہد جاری رکھتے ہیں کامیابی انہی کے قدم چومتی ہے۔ اس میں جانی و مالی اور وقت کی قربانی بھی ہے۔ لیکن عزم مصمم رکھنا ہے، ارادہ پختہ رکھنا ہے، استقامت رکھنی ہے، اللہ پر توکل رکھنا ہے۔ نہ ڈرنا ہے اور نہ جھکنا ہے۔ ان شاء اللہ وقت آئے گا کہ منزل خود بڑھ کر ہمارے قدم چومے گی۔