ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

انسان نے اس کائنات میں اپنی زندگی کا آغاز وحدت کے عقیدے کے ساتھ کیا۔ انسان نے اللہ کی توحید کا اعتراف اور اقرار کیا، عبادت میں اللہ کی وحدت کا قائل ہوا اور اسے ہی مستحق عبادت جانا۔ وقت گزرنے کے ساتھ عبادت میں وحدت کا تصور شرک آلود ہوگیا۔ انبیاء علیہم السلام اپنی بعثت کے ذریعے توحید کو شرک کی آلائشوں سے پاک کرتے رہے اور توحید خالص کی دعوت اپنی اپنی قوم کو دیتے رہے۔

خانہ کعبہ کیلئے اول بیت کا اعزاز

عبادت، توحید کے اظہار کا مظہر تھی، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا مرکز زمین پر بیت اللہ کو ٹھہرایا اور اس زمین پر اپنی عبادت کا مرکز اولین ہونے کا شرف بھی اسے عطا کیا۔ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن نے کہا:

اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّةَ مُبٰرَکًا وَّهُدًی لِّلْعٰلَمِيْنَ.

’’بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا وہی ہے جو مکہّ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لیے (مرکزِ) ہدایت ہے‘‘۔

(آل عمران، 3: 96)

اللہ رب العزت کی عبادت کے لئے زمین میں جو پہلی مسجد بنائی گئی اور زمین کے جس مقام کو اللہ نے اپنی عبادت کے لئے سب سے پہلے مختص کیا اسے آج ہم مسجد حرام اور خانہ کعبہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمان ہر نماز میں اپنا رخ اس طرف کرتے ہیں۔ گویا ساری دنیا کے مسلمانوں کا قبلہ ’’بیت اللہ/خانہ کعبہ‘‘ ہے۔

بیت اللہ اور اسکے گردو نواح میں موجود اللہ کی نشانیاں

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فِيْهِ اٰيٰتٌ بَيِّنٰتٌ.

’’اس میں (اللہ کی معرفت کی) کھلی نشانیاں ہیں‘‘۔

(آل عمران، 3: 97)

بیت اللہ اور اس کے گرد و نواح میں متعدد شعائر اللہ موجود ہیں جن میں سے چند کا تذکرہ ذیل میں درج کیا جارہا ہے:

  1. ان ہی کھلی نشانیوں میں ایک سب سے بڑی نشانی خانہ کعبہ اور مسجد حرام ہے۔ مسجد حرام میں آنا بیت اللہ شریف کی زیارت کرنا گویا اللہ کی نشانیوں میں سے ایک عظیم نشانی کو دیکھنا ہے۔ یہ نشانی ایمان کو جلادینے کا باعث اور ایمان میں اضافے، تقویت اور برکت کا سبب ہے۔
  2. ان نشانیوں میں سے ایک حجر اسود ہے۔ جو کالے رنگ کا پتھر ہے۔ یہ پتھر جب جنت سے اتارا گیا تھا تب یہ کالا نہ تھا بلکہ حجر ابیض تھا، بالکل سفید اور چمکدار پتھر تھا۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا مگر بنی آدم کے گناہوں کو چوس چوس کر یہ سیاہ ہوگیا ہے۔ (جامع ترمذی)
  3. اس بیت اللہ شریف میں اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی مقام ملتزم بھی ہے جو حجر اسود اور بیت اللہ کے درمیان والی جگہ کو کہتے ہیں۔

مقام ابراہیم اور آبِ زمزم

  1. ان روشن نشانیوں میں سے ایک نشانی مقام ابراہیم ہے۔ یہ خانہ کعبہ کے سامنے قبہ میں رکھا ہوا ایک پتھر ہے، جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کو تعمیر کیا تھا۔ اور اس پتھر پر آپ علیہ السلام کے قدموں کے نشانات موجود ہیں۔ اس پتھر پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی نسل میں نبی آخرالزماں صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث ہونے کی دعا کی تھی۔ اس مقام ابراہیم کو بھی اللہ رب العزت نے اپنی آیات بینات میں شمار کیا ہے۔
  2. آبِ زم اسی مقام ابراہیم سے جنوب کی طرف وہ آب زمزم کا چشمہ ہے جس سے صدیوں سے مسلمان سیراب ہورہے ہیں۔ لاکھوں حجاج ہر سال خود بھی اس کا پانی پیتے ہیں اور اپنے عزیز و اقارب اور دوست و احباب کے لئے، اپنے اپنے ملکوں میں لے کر بھی جاتے ہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیوں کی رگڑ سے جاری ہونے والا یہ چشمہ اللہ کی نشانی کے طور آج بھی جاری و ساری ہے۔ انسانیت اس پانی سے اللہ کی برکتیں اور رحمتیں پارہی ہے اور اپنے امراض اور بیماریوں سے شفا حاصل کررہی ہے۔

صفا و مروہ

بیت اللہ کے اردگرد اور بھی نظارے ہیں، جن کو حجاج دیکھتے ہیں اور ان کی زیارت سے اپنے ایمان کی تازگی اور حلاوت کا سامان کرتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک صفا اور مروہ بھی ہیں جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے:

اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اﷲِ.

’’بے شک صفا اور مروہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہیں‘‘۔

(البقرة، 2: 158)

اس آیت کریمہ میں باری تعالیٰ نے صفا اور مروہ کو شعائر اللہ کا اعزاز دیا ہے۔ اگر حقیقت امر میں دیکھا جائے تو ان دو پہاڑیوں پر حضرت ہاجرہ علیہا السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شدت پیاس کی بنا پر پانی کی تلاش میں دوڑی تھیں۔ اس آیت کریمہ سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے اللہ کے محبوب اور مقرب بندوں سے منسوب چیزیں بھی آیات الہٰیہ اور شعائر اللہ ٹھہرتیں ہیں۔

ان شعائر اللہ کی تعظیم و تکریم بجا لانے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَمَنْ يُّـعَـظِّـمْ شَعَآئِرَ اﷲِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ.

’’اور جو شخص اﷲ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات، احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اﷲ یا اﷲ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقویٰ میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقویٰ نصیب ہوگیا ہو)‘‘

(الحج، 22: 32)

وہ مقامات مقدسہ جن کی ہم آج حج اور عمرہ کی صورت میں زیارت کرتے ہیں اور ان کو دیکھ کر اپنے ایمان و ایقان کو جلا بخشتے ہیں، ان مقامات کو قرآنی اصطلاح میں شعائر اللہ کہا جارہا ہے اور جو شخص ان شعائر اللہ کی تعظیم و تکریم کو بجالاتا ہے اور ان کی زیارت کے ظاہری اور باطنی آداب ادا کرتا ہے تو اس کا یہ عمل قرآن کی رو سے تقوی قلب کی وجہ سے ہے۔ اللہ نے اس کے دل کو نیکیوں کے لئے چن لیا ہے اور اس کے وجود کو خیرات اور اعمال صالحہ ادا کرنے والا بنادیا ہے۔

عرفات مزدلفہ اور منیٰ

  1. فیہ آیت بینات میں سے میدان عرفات بھی ہے جو منیٰ سے 11 کلومیٹر دور واقع ہے۔ یہ بھی مناسک حج اور مکہ مکرمہ کے مقامات مقدسہ میں سے ایک بڑا مقام ہے۔ یہاں پر حج کا خطبہ دیا جاتا ہے اور حج کا رکن اعظم وقوف عرفات ادا کیا جاتا ہے۔
  2. ان ہی روشن نشانیوں میں سے ایک مزدلفہ بھی ہے جو کہ میدان عرفات سے تین سے چار کلومیٹر دور ایک کشادہ میدان ہے۔ جہاں حجاج عرفات سے واپسی پر رات گزارتے اور اللہ کی بارگاہ میں گریہ و زاری و مناجات کرتے ہیں۔
  3. ان ہی روشن نشانیوں میں سے ایک منیٰ بھی ہے جو کہ پہاڑوں کے درمیان واقع ایک وسیع اور کشادہ میدان ہے۔ حجاج مزدلفہ سے آنے کے بعد یہاں پر رمی جمار کرتے ہیں اور اللہ کی رضا کی خاطر جانوروں کی قربانی دیتے ہیں۔

طوافِ کعبہ اور عبادت کا حکم

بیت اللہ کو اول بیت کے اعزاز کے ساتھ ساتھ یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اسے لوگوں کے لئے ایک مرکز عبادت بنایا گیا۔ قرآن نے اس بیت اللہ کو ایک اور نام بھی دیا ہے اور وہ بیت العتیق ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَلْيَطَّوَّفُوْا بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ.

’’اور (اﷲ کے) قدیم گھر (خانہ کعبہ) کا طوافِ (زیارت) کریں‘‘۔

(الحج، 22: 29)

اس آیہ کریمہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بیت اول اور بیت عتیق کے طواف کرنے کا حکم دے رہا ہے اور اس گھر میں اپنی عبادت بجا لانے کی طرف ہمیں متوجہ کررہا ہے۔ اس بیت العتیق کی تاریخ کے بارے کچھ یوں فرمایا گیا:

’’زمین کو پیدا کرتے وقت باری تعالیٰ نے سب سے پہلے زمین کا جو ٹکڑا پیدا کیا وہ بیت اللہ شریف، خانہ کعبہ کی زمین ہی تھی۔

  1. مصنف عبدالرزاق، 5: 90
  2. اخبار مکه للازرقی، 1: 32

مختلف زمانوں میں اس گھر کی تعمیر ہوتی رہی۔ ذیل میں اس گھر کی تعمیر کی سعادت حاصل کرنے والوں کے نام/ زمانے/ ادوار درج کئے جارہے ہیں:

  1. حضرت آدم علیہ السلام
  2. حضرت شیث علیہ السلام
  3. حضرت ابراہیم علیہ السلام
  4. قبیلہ بنو جرہم
  5. عمالقہ
  6. قصی بن کلاب
  7. قریش
  8. سیدنا حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ
  9. حجاج بن یوسف
  10. سلطان مراد خان (آخری تعمیر، جو اب تک باقی ہے)

التاریخ القویم میں طاہر کُردی لکھتے ہیں:

هی العمارة الاخيره الی يومنا هذا.

’’یہی عمارت سلطان مراد خان کی تعمیر کردہ ہمارے اس زمانے تک چلی آرہی ہے‘‘۔

  1. التاريخ القويم، 3: 203
  2. سيرة الرسول، طاهرالقادری، 2: 62

حج: صدائے ابراہیمی کی پکارِ مسلسل

بیت اللہ کی تعمیر کا فریضہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے ادا کیا گیا تو اس کے سارے احوال کو قرآن نے بیان کیا ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اس خانہ کعبہ کو تعمیر کرچکے تو ان کو ایک حکم ہوا۔ قرآن اُسے یوں بیان کرتا ہے:

وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ يَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ.

’’اور تم لوگوں میں حج کا بلند آواز سے اعلان کرو وہ تمہارے پاس پیدل اور تمام دبلے اونٹوں پر (سوار) حاضر ہو جائیں گے جو دور دراز کے راستوں سے آتے ہیں‘‘۔

(الحج، 22: 27)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس اعلان کی بازگشت عالم ارواح تک سنائی دی۔ جن سعادت مند اور نیک روحوں نے اس آواز پر لبیک اللہم لبیک کی صدائیں بلند کیں، دنیا میں وہی لوگ اس گھر کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔ روحوں کا وہ اقرار دنیا میں سفرِ حج کی صورت میں انسانی جسموں میں ڈھل جاتا ہے اور آج لاکھوں مسلمان اس صدائے ابراہیمی پر لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوتے ہیں۔

بیت اللہ شریف مرکز عبادت ہے

حجاج کرام اور عمرہ زائرین باری تعالیٰ کی بارگاہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کی قبولیت کی وجہ سے حاضر ہوتے ہیں، جس میں وہ اللہ کی بارگاہ عرض گذار ہوئے تھے کہ مولا! تیرے اس گھر کو تیرے حکم پر تعمیر کردیا ہے۔ اب اس گھر کو لوگوں کا مرکز عبادت بنا، مرکز اجتماع بنا۔ ساری دنیا سے اہل ایمان کو یہاں اکٹھے ہونے کی توفیق عطا فرما اور اسے مثابۃ للناس کا اعزاز عطا فرما۔ اس دعا کی قبولیت کے کلمات کو قرآن یوں بیان کرتا ہے:

وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا.

’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا‘‘

(البقرة، 2: 125)

بیت اللہ کو یہ اعزاز باری تعالیٰ نے عطا کیا کہ یہ اہل ایمان کے لئے رجوع اور اجتماع کا مرکز ہے اور جائے امن و امان اور سراسر سلامتی و خیر ہے۔ دنیا بھر سے لوگ یہاں آتے ہیں، اپنے رب کے گھر کی زیارت کرتے ہیں اور یہاں اکٹھے ہوکر اور اس گھر کی طرف رجوع کرکے اپنے ایمان کی تازگی کا سماں کرتے ہیں۔ یہ گھر ساری دنیا سے آنے والوں کو امان اور امن کا پیغام دیتا ہے۔ اس بیت اللہ کا پیغام ساری دنیا کے لئے امن و امان، اجتماعی خیر وفلاح اور ساری دنیا کے لئے سلامتی و خوشحالی ہے۔

بیت اللہ کی زیارت کے مقاصد

بیت اللہ شریف کی زیارت خالی از مقصد نہیں ہے۔ ان مقاصد کو قرآن نے اس آیہ کریمہ کے ذریعے بیان کیا ہے:

اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّةَ مُبٰرَکًا وَّهُدًی لِّلْعٰلَمِيْنَ.

’’بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا وہی ہے جو مکہّ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لیے (مرکزِ) ہدایت ہے‘‘

(آل عمران، 3: 96)

اس آیت کریمہ کے ذریعے بیت اللہ کی زیارت کے دو مقاصد بیان ہوئے ہیں:

  1. پہلا مقصد: عبادت و زیارت
  2. دوسرامقصد: ہدایت و راہنمائی

پہلے مقصد کو مبرکًا کے الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے اور دوسرے مقصد کو وھدیً للعلمین کے ذریعے واضح کیا ہے۔ قرآن نے دونوں مقاصد کی تکمیل کو حج ٹھہرایا ہے۔

ہمارا حج زیادہ تر پہلے مقصد کے گرد گھومتا ہے۔ ہم حج میں عبادات اور زیارات کا بہت اہتمام کرتے ہیں۔ یقینا ہمیں جی بھر کر عبادات اور زیارات کرنی چاہئیں اور یہ عمل صائب بھی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسرے مقصد کو بھی اجتماعی اور انفرادی سطح پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمیں اپنے اس سفر حج کو دوسرے مقصد کے تحت اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لئے ھدی للعلمین کا آئینہ دار بھی بنانا ہے۔

حج ’’ھُدًی للعلمین‘‘ کا ذریعہ

اگر ہم حج کے اس دوسرے مقصد ’’ ھُدًی للعلمین‘‘ کو پانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ہمیں اپنے پیش نظر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبہ حجۃ الوداع کو رکھنا ہوگا۔ میدان عرفات کا خطبہ حج ایسا ہو کہ جس میں خطبہ حجۃ الوداع کی ہر سال روشنی دکھائی دے۔ جس میں عصری تقاضوں کے مطابق اسلام کی تعلیمات کو ساری دنیا میں پہنچایا جائے۔ اس خطبہ کے ذریعے امت مسلمہ کو افکار تازہ دیئے جائیں۔ اس خطبہ کے سبب ایک مسلمان کی وہ پہچان ہو جو قرآن و سنت میں موجود ہے۔ میدان عرفات کا ہر سال کا خطبہ حج کل انسانیت اور بالخصوص امت مسلمہ کے لئے کامل ہدایت اور راہنمائی کا باعث ہو۔

آج کا خطبہ حج خطبہ حجۃ الوداع سے اکتساب فیض کرتے ہوئے عصر حاضر میں عالم انسانیت کو درپیش مسائل کا حل دے۔۔۔ تمام انسانوں میں محبت و مودت کے رویوں کو جنم دے۔۔۔ دنیا بھر سے کمزوروں کے استحصال کے خاتمہ کا پیغام دے۔۔۔ زیردستوں کو عدل و انصاف بلا امتیاز فراہم کرنے کی ضمانت دے۔۔۔ مقہور اور مجبور انسانوں کا سہارا اور کفیل بننے کا جذبہ دے۔۔۔ عالم انسانیت سے استحصال اور ظلم کی ہر صورت کو ختم کرنے کی سوچ دے۔۔۔ انسانی قدروں کو ہر سو فروغ دینے کی فکر دے۔۔۔ انسانوں کی خیر خواہی اور بھلائی کی تڑپ دے۔۔۔ ظالموں کے مقابلے میں مظلوموں کا ساتھ دینے کی ہمت دے۔۔۔ گرے پڑے لوگوں کو زندگی کی ایک نئی رمق دے۔

ہر سال میدان عرفات سے خطبہ حج کا ہر ہر لفظ اور حاجیوں کا ہر ہر عمل خطبہ حجۃ الوداع کی روشنی دے تو تب ہی ہم اپنے اس سفر حج کے ھدی للعلمین کے مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچاسکتے ہیں اور تب ہی ہمارا حج ادائے کامل کا اعزاز پاسکتا ہے۔ اس لئے کہ اسلام میں عبادت کا کوئی بھی عمل بطور رسم نہیں ہے۔ ہر عبادت اپنے اندر ایک جدت، ندرت اور انشاء کا تصور رکھتی ہے۔ عبادت اپنی وضع میں ہیئت مستقلہ رکھتی ہے مگر اپنی ادائیگی میں جدا جدا کیفیات رکھتی ہے۔ یہی عمل عبادت کو ہدایت کا روپ دے دیتا ہے۔

حج اور امت کی اقتصادی طاقت

عبادت اور تجارت دو مختلف چیزیں ہیں مگر اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج جیسی عبادت کی ادائیگی کی وجہ سے تجارت کی کلیتاً ممانعت نہیں کی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ:

کانت عکاظ ومجنة و ذوالمجاز اسواقا فی الجاهلية فتاثموا ان یتجروا فی المواسم فنزلت ’’ليس عليکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم‘‘ فی مواسم الحج.

’’عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز جاہلیت کے زمانے میں تجارتی منڈیاں تھیں۔ جب اسلام آیا تو لوگوں نے ان بازاروں میں موسم حج میں تجارت کرنے کو گناہ سمجھا۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ ’’موسم حج میں اگر تم اپنے رب کا فضل (رزق حلال) تلاش کرو تو اس میں کچھ حرج نہیں ہے‘‘۔

(رواه البخاری)

اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو حج کے موسم میں تجارت اور کاروبار سے بھی منع نہیں فرمایا۔ اگر کسی عبادت میں دنیا داری کا عمل دخل ہوسکتا ہے تو وہ سب سے زیادہ کاروبار تجارت ہے لیکن اسلام میں حج کے دوران بھی کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کی اجازت دے دی۔ اس لئے کہ اسلام نے اپنے ماننے والوںکو زندگی کی حقیقتوں کے قریب کرتے ہوئے ایسی زندگی بسر کرنے کا درس دیا ہے جو دوسروں کے لئے ایک مثال ہو اور عالم انسانیت کے حق میں خیرخواہی اور سلامتی دین سے عبارت ہو۔

اس لئے ہمیں اپنے سفر حج کو تمام تر حوالوں سے ھدی للعلمین کا مصداق بنانا ہے۔۔۔ اسلام کی تعلیمات کا دفاع کرنا ہے۔۔۔ اسلام پر ہونے والے نظریاتی اور فکری حملوں کا تدارک کرنا ہے۔۔۔ اسلام کی اصل صورت کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہے۔۔۔ اسلام کی طرف منسوب باطل اور فاسد تصورات کا خاتمہ کرنا ہے۔۔۔ امت مسلمہ کی یکجہتی اور اتحاد کے حوالے سے سوچ کو فروغ دینا ہے۔۔۔ فرقہ واریت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے۔۔۔ اور ایک مسلمان کے وجود کو ساری دنیا کے لئے باعثِ رحمت بنانا ہے۔ یہی سوچ ہی ہمارے حج کو اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف حج مبرور بنائے گی۔

باری تعالیٰ ہمیں حج کے مقاصد کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین