شہدائے ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے لئے قصاص اور سالمیتِ پاکستان تحریک

ملک بھر کے 175 سے زائد شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں سے قصاص لینے، سالمیت پاکستان کو یقینی بنانے اور پاکستان کو معاشی و عسکری دہشت گردوں سے نجات دلانے کے لئے 20 اگست تا 03 ستمبر 2016ء ملک بھر کے 175 سے زائد شہروں میں قصاص اور سالمیت پاکستان کے عنوان کے تحت قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہدایات پرپاکستان عوامی تحریک کے زیر اہتمام عظیم الشان احتجاجی مظاہرے، مارچ اور دھرنے منعقد ہوئے۔ ان دھرنوں میں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، ق لیگ، جماعت اسلامی، سنی اتحاد کونسل، جمیعت العلمائے پاکستان، مجلس وحدت المسلمین اور مینارٹیز سمیت ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ 175 سے زائد شہروں میں ہونے والے احتجاجی دھرنوں میں جن دھرنوں کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ان کی تفصیل ذیل میں درج کی جارہی ہے جبکہ دیگر احتجاجی مظاہروں، مارچ اور دھرنوں کی تفصیلات کے لئے www.minhaj.org اور www.pat.com.pk ملاحظہ فرمائیں۔

20 اگست 2016ء۔۔۔ 105 شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے

قائد انقلا ب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہدایات پر 20 اگست کو ملک بھر کے 105 شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے ہوئے۔ جن میں ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ 105 شہروں میں ہونے والے ان دھرنوں میں لاہور مال روڈ پر ہونے والے احتجاجی مظاہرے اور دھرنے کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ احتجاجی دھرنوں کے شرکاء سے ویڈیو لنک سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ آل شریف سن لیں اگر چاہیں تو 7 دن کے اندر 17 جون کا بدلہ لے سکتے ہیں مگر میں نے ساری عمر امن کا درس دیا ہے، لہذا ہم ایسا نہیں کریں گے۔ پنجاب دہشت گردوں کا نظریاتی درالخلافہ ہے، وزیرستان سے دہشت گردی ختم ہو گئی، پنجاب سے کب ہو گی؟ نواز شریف کا وجود پاکستان کی سالمیت کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ ہمارا مطالبہ صرف قصاص ہے۔ ہماری ایف آئی آر آرمی چیف کی مدد سے درج ہوئی انہی سے انصاف کا مطالبہ ہے۔ فوج پر تنقید کرنے والے نواز شریف کے اتحادیوں نے ان کی حکومت اور جمہوریت کی اپنی چادر میں چھپا رکھا ہے۔ جب بھی نواز شریف کو خطرہ ہوتا ہے دھماکے شروع ہو جاتے ہیں۔ ہم جاننا چاہتے ہیں پنجاب اور وفاق کے حکمرانوں کا اور دہشت گردی کا آپس میں کیا تعلق ہے؟

ہم سڑکوں پر آنے پر اس لئے مجبور ہوئے کہ ہمیں ایف آئی آر کے اندراج کا حق نہیں دیا گیا۔ ہمیں غیر جانبدار جے آئی ٹی کی تشکیل کا حق نہیں دیا گیا، ہمیں قانون کے مطابق فیئر ٹرائل نہیں ملا، جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کی کاپی نہیں ملی، ہم پر انصاف کے دروازے بند کیے گئے کیونکہ جنہوں نے قتل کیے وہ حکومت میں بیٹھے ہیں۔ آل شریف نے اپنے آپ کو بچانے کیلئے ضابطہ فوجداری قانون میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے تاکہ یہ ہمارے استغاثے کی گرفت سے بچ سکیں مگر انہیں اتنی مہلت نہیں ملے گی۔ عوامی تحریک کے کارکنان نے 105 شہروں میں بیک وقت انقلابی دھرنے دے کر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئی مثال رقم کی ہے۔ ہمارے کارکن جھکنا، رکنا، ڈرنا نہیں جانتے، ایسے کارکن کسی جماعت کے پاس نہیں ہیں۔

کلبھوشن پکڑا جائے یا بلوچستان میں انڈین وزیراعظم اپنی کھلی مداخلت کا اعتراف کرے یا ان کی فیکٹریوں سے جاسوس پکڑے جائیں یا کوئٹہ میں دھماکہ ہو یا مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوں وزیراعظم کے لب کیوں سلے رہتے ہیں؟ دہشت گردوں کی اس سرپرست آل شریف نے اے پی ایس کے معصوم بچوں سمیت دہشتگردی کے شکار ہزاروں پاکستانیوں کے خون سے غداری کی۔ میں قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر 2018 کے الیکشن ہوئے تو پھر یہ ملک قائداعظم کا ملک نہیں ہو گا بلکہ یہ سلطنت شریفیہ ہو گی اور جہاں پاک فوج بھی پنجاب پولیس کی طرح ہو گی۔ قوم کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ انہوں نے پاکستان یا شریف خاندان میں سے کس کو رکھنا ہے؟

پنجاب دہشتگردی، کرپشن، خواتین کے خلاف جرائم، اغواء برائے تاوان، بچوں کے اغواء، کار ڈکیتی، سٹریٹ کرائم میں نمبر ون ہے۔ شریف برادران جو سوچتے ہیں اسے قانون سمجھتے ہیں۔ سستی روٹی پراجیکٹ کے 30 ارب کے فراڈ سے لے میٹرو منصوبوں تک شریف برادران کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کسی نے پوچھا 2008 ء کا سرپلس پنجاب آج ایک ہزار ارب کا مقروض کیوں ہے؟ وزیرستان کا امن بحال ہو گیا مگر پنجاب جوں کا توں ہے یہاں رینجرز کا آپریشن کیوں نہیں ہوتا؟ پاکستان اس وقت 25 ہزار ارب کا مقروض ہو چکا ہے۔ 30 ہزار ارب ہونے پر جی ڈی پی کے برابر قرض ہو جائیگا اور پاکستان دیوالیہ قرار پائے گا۔ قومی ایکشن پلان کے حوالے سے وزیراعظم بتائیں انہوں نے کتنے اجلاسوں کی صدارت کی؟ نیکٹا کو فنڈکیوں نہیں دئیے؟ دہشت گردی کے کیسز سننے والی عدالتوں کو فنڈز اور عملہ کیوں نہیں دیا؟ بلوچستان میں وزیراعظم کے اتحادی قومی شناختی کارڈ کے اجراء اور تصدیق کے عمل میں رکاوٹ ہیں۔ وہ دہشت گردوں کو جاری ہونے والے شناختی کارڈوں کی تصدیق نہیں ہونے دے رہے۔

پنجاب میں دہشت گردوں کے سر پرستوں کے خلاف آپریشن کیا جائے۔پنجاب دہشتگردوں کا نظریاتی خالق ہے۔ ڈھیل کا وقت ختم ہوگیا اب آئین و قانون کے مطابق انتقام لیں گے۔جان کے بدلے جان، خون کے بدلے خون اور سرکے بدلے سرلیں گے۔ جھکیں گے نہ بکیں گے۔ کیا دہشت گردی کا خاتمہ صرف فوج کی ذمہ داری ہے ؟حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کو خود ناکام کیا۔ اس نظام کے تحت قائداعظم، علامہ اقبال بھی آجائیں تو وہ بھی ان سے یونین کونسل کا الیکشن نہیں جیت سکتے۔

قائد انقلاب نے 105 شہروں کے دھرنوں میں شریک ہونے والے کارکنوں اور جملہ جماعتوں کے عزم و جذبہ اور حب الوطنی کو سراہا اور احتجاجی دھرنوں میں شرکت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ لاہور کے اس مرکزی دھرنے سے محترم ولید اقبال (پی ٹی آئی)، محترم خرم نواز گنڈا پور اور دیگر مقررین نے خطابات کئے۔

  • عوامی مسلم لیگ کے سربراہ محترم شیخ رشید احمد اور محترم بشارت جسپال نے فیصل آباد، محترم خرم نواز گنڈاپور نے لاہور، محترم مخدوم ندیم ہاشمی اور محترم سردار شاکر مزاری نے سندھ، محترم خالد درانی نے خیبرپختونخوا میں احتجاجی ریلیوں کی قیادت کی اور خطابات کئے۔
  • فیصل آباد میں عوامی تحریک کی ریلی سٹیشن چوک سے روانہ ہو کر چنیوٹ بازار چوک جلسہ گاہ میں پہنچی جس میں ہزاروں مرد و خواتین نے شرکت کی۔ چنیوٹ بازار میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے بھی جلسے میں شرکت کی اور شرکاء سے پرجوش خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک پر قبضہ گروپ کی حکومت ہے اور قبضہ چھڑانے کیلئے عوام بھرپور جدوجہد کریں۔ پاکستان اور نواز شریف اب کسی صورت اکٹھے نہیں چل سکتے۔حکومت صرف چند دنوں کی مہمان ہے۔
  • جتوئی، مظفر گڑھ سے بھی ریلیاں نکالی گئیں۔سندھ کے بھی کئی شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں، لاڑکانہ میں ریلی کے شرکانے حکومت مخالف نعرے لگائے۔سکھر میں پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا گیا اور ریلی نکالی گئی۔ ریلی کی قیادت تحریک کے صوبائی صدر مخدوم ندیم احمد ہاشمی ، تحریک انصاف کے رفیق احمد سومرو نے کی۔ خیبر پختونخوا کے کئی شہروں میں بھی دھرنے دیئے گئے۔عوامی تحریک کے کارکنوں نے پشاور میں ہشت نگری سے قیوم سٹیڈیم تک قصاص ریلی نکالی۔ کارکنوں نے قیوم سٹیڈیم سے پریس کلب تک پیدل مارچ بھی کیا۔ دھرنے سے عوامی تحریک کے صوبائی صدر محترم خالد درانی نے خطاب کیا۔ان مواقع پر مقررین نے خطاب میں موجودہ حکمرانوں کو قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے قصاص و انصاف کا مطالبہ کیا۔

21 اگست 2016ء۔۔۔ 46 شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے

21 اگست 2016 ء کو قصاص اور سالمیت پاکستان تحریک کے ضمن میں 46 شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے ہوئے جس میں سیاسی جماعتوں کے قائدین، جملہ طبقہ زندگی کے نمائندہ افراد اور لاکھوں عوام نے بھرپور شرکت کی۔ 46 شہروں میں ہونے والے ان احتجاجی مظاہروں میں گوجرانوالہ میں ہونے والے احتجاجی مظاہرہ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ پاکستان قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گوجرانوالہ سمیت 46 شہروں میں احتجاجی دھرنوں سے ویڈیو لنک کے ذریعہ خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

ظالم اکٹھے اور مظلوم منتشر ہیں۔ انصاف کیلئے کسانوں، ڈاکٹرز، مزدوروں، کلرکوں، نرسز، اساتذہ کو متحد ہو کر نکلنا ہوگا۔ الگ الگ نکلنے سے18، 18گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو گی نہ غربت۔ اصلی ڈگری والے سڑکوں پر اور جعلی ڈگری والے اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ ہماری تحریک قصاص 20کروڑ عوام کو حقوق دلوانے اور ملک میں حقیقی جمہوریت بحال کرنے کیلئے ہے۔ یہ کیسی پارلیمنٹ ہے جو اپنے وزیر اعظم کا احتساب کرنا تو دور کی بات ٹی او آرز بھی نہیں بنا سکتی۔ ہمارے کارکنوں نے جان و مال کی بے دریغ قربانیاں دیں اور دے رہے ہیں، اب قوم کو بھی پاکستان بچانے اور لٹیروں کو بھگانے کیلئے اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ کل بیک وقت 105 شہروں میں اور اب 46 شہروں میں دھرنے عوامی تحریک کا امتیاز ہے۔ عوامی تحریک کے کارکنوں نے نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ عوامی تحریک کے دھرنوں نے ظالم نظام اور کرپٹ حکمرانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ میرا آج قوم کے نام ایک ہی پیغام ہے کہ مل کر نکلو، جدا جدا نکلو گے تو جدا جدا مارے جاؤ گے۔ یہ نہیں کہتا کہ پاکستان عوامی تحریک کا جھنڈا لے کر نکلو بلکہ کسان اپنا بینر، مزدور اپنا بینر، نرسز اپنا بینر، اساتذہ اپنا بینر لیکر نکلیں مگر اکٹھے نکلو۔

اسلام، آئین، قانون کو انتہا پسندوں نے اغوا کر لیا۔ ایف بی آر، پولیس، الیکشن کمیشن جیسے اداروں نے انصاف دینا تھا، ان اداروں کے سربراہان کا تقرر یہ ڈاکو کرتے ہیں۔ یہ جمہوریت نہیں ڈاکوؤں کا نظام ہے۔ چند سو خاندانوں نے پوری قوم کو یر غمال بنا رکھا ہے۔ قومی ایکشن پلان کے صرف اس حصے پر عمل ہوا جو فوج کے ذمہ تھا۔ اب ایک بار مل کر مظلوموں کو ظالموں کے خلاف جنگ لڑنا ہوگی۔ ظالموں کا گریبان پکڑنے سے ہی انصاف ملے گا۔

بلدیاتی نمائندوں کو 8 سال سے اختیار نہیں ملے، پہلے الیکشن نہیں ہوئے اب آخری مرحلہ مکمل نہیں ہونے دیا جا رہا۔ کیا جمہوریت اختیارات چھیننے کا نام ہے۔ ملک میں مردم شمار نہیں ہوتی کیا اسے جمہوریت کہتے ہیں۔ قائد اعظم رحمہ اللہ علیہ کے اس نشیمن کو آگ لگانے والے ایوانوں میں بیٹھے ہیں، کیا قائد اعظم رحمہ اللہ علیہ نے ان لٹیروں کیلئے ملک بنایا تھا؟ ہماری قصاص تحریک دہشتگردی کے خاتمے کی کنجی ہے۔ اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کا قصاص ہوگیا تو ملک سے دہشتگردی بھی ختم ہوجائے گی۔

  • اس احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کے رہنما محترم شیخ رشید احمد نے کہا کہ ڈاکٹر توقیر کو بھگایا گیا، باقی افسر بھاگنے کی تیاری میں ہیں، وزراء بھاگ رہے ہیں۔ حکومتی صفوں میں بھاگم دوڑ ہے۔ قوم ان لٹیروں کے خلاف اکٹھی ہو جائے۔

تحریک انصاف کے رہنماء محترم چودھری سرور نے کہاکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے کارکنوں کے ساتھ جو ظلم ہوا وہ ناقابل بیان ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا انصاف اور قصاص صرف ڈاکٹر طاہرالقادری کی نہیں پاکستان کے ہر مظلوم کی آواز ہے۔ پی ٹی آئی شہدائے ماڈل ٹاؤن کو انصاف دلانے تک عوامی تحریک کے شانہ بشانہ کھڑی رہے گی۔

عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل محترم خرم نواز گنڈا پور نے کہاکہ قائد اعظم رحمہ اللہ علیہ نے پاکستان انگریزوں سے آزاد کروایا، ہم آل شریف سے آزاد کروائیں گے۔ حکمرانوں کا اندرونی بیرونی دہشتگردوں سے رابطہ ہے۔ جب بھی شریف برادران کی حکومت کو خطرہ ہوتا ہے تو بھارت اور دو کرائے کے سیاستدان متحرک ہو جاتے ہیں۔

  • گوجرانوالہ میں قصاص ریلی جنرل بس اسٹینڈ سے شروع ہو کر شیرانوالہ باغ پہنچ کر اختتام پذیر ہوئی۔ ریلی کے شرکاء نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر سانحہ لاہور اور حکمرانوں کے خلاف نعرے درج تھے۔

25 اگست 2016ء۔۔۔ 15 شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف اور ملک سے سیاسی و معاشی دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے پاکستان عوامی تحریک کے زیر اہتمام 25 اگست کو 15 شہروں میں عظیم الشان دھرنے منعقد ہوئے۔ ان دھرنوں کی قیادت PAT اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین اور سول سوسائٹی کے افراد نے شرکت کی۔ 15 شہروں میں ہونے والے ان احتجاجی مظاہوں میں ڈیرہ غازی خان میں ہونے والے احتجاجی دھرنے اور مارچ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اس دھرنے میں مرکزی قائدین نے خصوصی شرکت کی اور خطابات کئے۔

ڈی جی خان میں احتجاجی ریلی فیصل مسجد سے شروع ہو کر ٹریفک چوک پر اختتام پذیر ہوئی۔ احتجاجی دھرنے سے شیخ رشید احمد، خرم نواز گنڈاپور، فیاض وڑائچ، سابق وزیراعلیٰ دوست محمد کھوسہ، سردار سیف الدین کھوسہ، سردار شاکر مزاری، سردار سیف اللہ سدوزئی ایڈووکیٹ، سردار ریاض خان لغاری اور ملک اختر ملانہ نے بھی خطاب کیا۔

قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ڈی جی خان میں منعقدہ احتجاجی جلسے اور دھرنے سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرپٹ لیڈروں کا گٹھ جوڑ اب ملکی سالمیت کے خلاف کارروائیوں میں بدل گیا۔ مفاہمت کی سیاست ہر قومی جرم کو آب زم زم سے دھو کر پاک صاف کرتی جا رہی ہے، خدا جانے ملک کا انجام کیا ہو گا؟ ماڈل ٹاؤن کے قاتل وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وفاقی و صوبائی کابینہ کے وزراء ہیں۔ قصاص ملنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ شریف برادران کے درمیان رابطوں کا کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر توقیر کو سفیر بنا کر سوئٹرز لینڈ بھجوایا گیا۔ گولیاں چلانے والے ایس پی سلیمان کو بیرون ملک فرار کروا دیا گیا۔ ڈی آئی جی اور سانحہ ماڈل کے آپریشن کے نگران رانا عبدالجبار کو 11 اگست کو 2 سال کی چھٹی دے کر غائب کر دیا گیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ایک اور اہم کردار ایس پی عمر ریاض چیمہ کو بھی دو سال کی چھٹی دے کرمنظر سے ہٹا دیا گیا۔ بقیہ بھاگنے کی تیاریوں میں ہیں۔ کیا ابھی بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار کون ہیں؟۔ پاکستان کو گالیاں دینے والوں اور انکے سہولت کاروں، فوائد اٹھانے والے تمام کرداروں کے چہروں سے پردہ اٹھانا انتہائی ضروری ہے۔

آزادی کے مہینے میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سلامتی پر سنگین حملے ہوئے مگر نہ سوموٹو ایکشن ہوا نہ وزیراعظم نے لب کشائی کی۔ کراچی کے واقعات کے پیچھے سانحہ کوئٹہ طرز کی سوچ، پلاننگ اور مقاصد کارفرما ہیں۔ ان مقاصد میں پاکستان کو برابھلا کہہ کر عوام کو مشتعل کرنا، فوج کی مشکلات بڑھانا، کشمیر کے دہکتے ہوئے ایشو سے توجہ ہٹانا، دباؤ کا شکار شریف حکومت کو ریلیف دینا اور سلامتی کے ایشوز سے میڈیا کی توجہ ہٹانا شامل ہیں۔

ہم متحدہ قائد کی طرف سے پاکستان کو گالیاں دئیے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ جب بھی پاکستان کی سا لمیت پر حملہ ہوتا ہے وزیراعظم لب کشائی کیوں نہیں کرتے۔ ملکی سلامتی کے ایشوز پر ٹھوس اقدامات کی بجائے قرارداد اور بیانات کا سہارا لیا جارہا ہے جن پر کبھی عمل نہیں ہوتا۔ کراچی کے ان واقعات سے قبل میڈیا پر جو قومی بحثیں چل رہی تھیں حکومت اس سے ناخوش تھی۔ تحریک قصاص، تحریک احتساب، پانامہ لیکس مقبوضہ کشمیر میں مظالم، ناجائز اثاثوں پر بحث ہورہی تھی اب ٹی وی کی سکرینوں پر نئی بحثوں کا آغاز ہو چکا ہے اس لیے ہم کہتے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور کراچی کے واقعات کا آپس میں گہرا تعلق اور ٹائمنگ انتہائی اہم ہے۔

تخت لاہور نے جنوبی پنجاب کے ساتھ اقتدار کے مسلسل 8 ویں سال بھی امتیازی سلوک ختم نہیں کیا۔ ڈیرہ غازی خان میں ترقیاتی بجٹ کا 1.3 فیصد جبکہ لاہور میں 58 فیصد خرچ کیا۔ کسانوں کے ساتھ ظلم انتہا کو پہنچ گیا، گندم کی امدادی قیمت 1300، تھی کسانوں کو بمشکل 1100 ملے۔ ہر سال دریائے سندھ لاکھوں خاندانوں کا رزق بہا لے جاتا ہے مگر حکمرانوں کے پاس لاہور کی ایک سڑک پر اورنج ٹرین بنانے کیلئے کھربوں روپے ہیں مگر دریا کے پشتے پختہ کرنے کیلئے فنڈز نہیں۔

  • اس موقع پر محترم شیخ رشید احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ نواز حکومت پاکستان کو سول وار کی طرف دھکیل رہی ہے، ان لٹیروں کو اقتدار سے نہ بھگایا تو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ فوج کے خلاف سازشوں کی منصوبہ بندی وزیر اعظم ہاؤس سے ہو رہی ہے۔

سیکرٹری جنرل عوامی تحریک خرم نواز گنڈا پور نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ عوامی تحریک کے کارکن ظالم نظام سے لڑتے ہوئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذریعے ہماری قیادت اور کارکنوں کو ڈرانے کی کوشش کی گئی مگر ہمارے کارکن پہلے سے زیادہ پر عزم ہیں اور قصاص لے کر رہیں گے۔

محترم سردار دوست محمد کوسہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شریف برادران نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے ماڈل ٹاؤن میں بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ شیخ رشید اور میں شریف برادران کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ تمام تر اختلافات سے بالا ہو کر انہیں اقتدار سے باہر نکالنا ہو گا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کا قصاص ہر صورت لینا ہوگا۔ انکی کرپشن کے چرچے پوری دنیا میں ہیں۔ لہذا ان کی معاشی دہشت گردی کو بھی منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا۔

27 اگست 2016ء۔۔۔ 11 شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے

پاکستان عوامی تحریک کی تحریک قصاص کے سلسلے میں 27 اگست کو 11 شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے ہوئے۔ ان دھرنوں میں ملتان شہر میں ہونے والے دھرنے کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔

ملتان میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے قصاص کا مطالبہ لے کر قصاص مارچ و دھرنا گھنٹہ گھر چوک سے شروع ہوکر نواں شہر چوک پر اختتام پذیر ہوا، جہاں پر قائدین نے دھرنے سے خطاب کیا۔ احتجاجی مارچ کی قیادت عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشیداحمد، سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا، پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور، صوبائی صدر چوہدری فیاض احمد وڑائچ، مرکزی رہنما راجہ زاہد محمود، انجینئر رفیق نجم، سردار شاکر مزاری اور ڈاکٹر زبیر اے خان کررہے تھے۔ مارچ اور دھرنے میں پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، مجلس وحدت المسلمین، آل پاکستان مسلم لیگ، شیعہ علماء کونسل، پاکستان سنی تحریک، تحریک بقائے اسلام، مرکزی جماعت اہلسنت، پاکستان مسلم لیگ ق، عوامی راج پارٹی، سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے علاوہ سکھ، ہندو اور عیسائی رہنما نے بھی شرکت کی۔ دھرنے میں مرد و خواتین کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔

قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے لاہور سے بذریعہ ویڈیولنک ملتان میں قصاص اور سالمیت پاکستان تحریک کے احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن، دہشتگردی اور عوام دشمن پالیسیوں کو چیلنج کرنے پر شریف حکومت نے ماڈل ٹاؤن میں 14 لاشیں گرائیں۔ وزیراعظم بتائیں پاکستان کی سالمیت پر حملے کرنے والوں کے خلاف انہوں نے کیا ایکشن لیا؟ قوم جاننا چاہتی ہے پاکستان کو توڑنے کے مشن پر کاربند کلبھوش کی گرفتاری، سانحہ کوئٹہ، مقبوضہ کشمیر کی بربریت اور پارلیمنٹ میں افواج پاکستان کے خلاف بار بار ہرزہ سرائی پر ان کی زبان گنگ کیوں ہے؟۔ وہ کن کے احسانات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں کہ ملکی سالمیت کا تحفظ ثانوی حیثیت اختیار کر گیا۔ قصاص ملنے تک شریف برادران کا پیچھا کرتے رہیں گے۔ قصاص کی تحریک انصاف کی فراہمی اور ظلم کے خاتمے کی تحریک ہے۔ ملک کی سالمیت پر حملے ہورہے ہیں جبکہ ’’موٹروے برادران‘‘ سڑکوں کے افتتاح کرنے میں مصروف ہیں۔

ملکی ادارے کرپٹ شریف برادران نے یرغمال بنارکھے ہیں۔ ان اداروں کے سربراہ شریف برادران کے زر خرید غلام ہیں۔ ان کے پاس پانامہ کی دولت کے ذخائر ہیں۔ یہ ہر ایک کی قیمت لگاتے ہیں۔ یہ ضمیروں کے سوداگر ہیں۔ فرعون کی طاقت اور قارون کی دولت رکھنے والے یہ ظالم اگر آج تک کسی کو نہیں خرید سکے تو وہ پاکستان عوامی تحریک کے غریب مگر غیرت مند اور جرات مند کارکن ہیں جنہوں نے ان فرعونوں کی کروڑوں کی آفرز کو پاؤں کی ٹھوکر ماردی۔

سپریم کورٹ کے انتہائی معزز تین ججز نے بھی کہا ہے کہ بدعنوانی کا تدارک نہ ہوا تو ریاستی بنیادیں کھوکھلی اور انجام خطرناک ہو گا۔ اس سے پہلے پاک فوج کے سربراہ نے کرپشن اور دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا۔ انصاف اور سلامتی کے اداروں سے سوال ہے دیر کس بات کی؟ مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس ناقابل تردید شواہد کے ساتھ قوم اور قانون کی عدالت میں موجود ہے۔ پانامہ لیکس کا کیس زندہ ثبوتوں کے ساتھ کارروائی کا منتظر ہے۔ کرپشن کے 150 میگا سکینڈل کارروائی کے منتظر ہیں۔ قرضہ معافی سکینڈل کی عدالتی انکوائری کارروائی کی منتظر ہے۔ اداروں کو فیصلہ کرنا ہو گا شریف اقتدار اور کاروبار اہم ہے یا ملک اور قوم کا مفاد۔ ہم ترقی کے منصوبوں کے مخالف نہیں ہیں، ہم سے زیادہ کوئی ترقی پسند نہیں ہے مگر اربوں، کھربوں کے فینسی منصوبے اس وقت اچھے لگتے ہیں جب ہر بچہ سکول جارہا ہو، ہر ڈگری ہولڈر برسر روزگار ہو، انصاف گھر کی دہلیز پر ہو، لوڈشیڈنگ نہ ہو، سستی خوراک اور سستی دوائی میسر ہو، قوم کے بچے اور بچیاں اغواء نہ ہورہی ہوں۔

داجل شہر میں شہریوں نے خونی ڈکیتیوں کے خلاف احتجاج کیا تو پولیس نے ڈاکوؤں کو پکڑنے کی بجائے 15 سو شہریوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ امن پسند شہری پہلے ڈاکوؤں کے خوف سے گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے تھے، اب پولیس کے چھاپوں کے خوف سے گھر نہیں آتے۔ یہ ظلم کا راج کب تک رہے گا۔ عوام کو ڈاکوؤں اور ڈاکوؤں کے بھیس میں پولیس والوں سے کون بچائے گا۔ اسی ملتان کے شہری آصف نے غربت کی وجہ سے چند ماہ قبل اپنے معصوم بچوں کو زہر دے کر خود بھی خودکشی کر لی۔ خودکشی سے قبل اس نے اپنے بچوں کو سکول سے اٹھا کر مدرسے میں داخل کروایا کیونکہ اس کے پاس سکول کی فیس دینے کے پیسے نہیں تھے۔ جو حکومتیں بچوں کو تعلیم دینے کی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کرتیں ان کے بچے نامعلوم آمدنی والے مدارس میں پڑھتے اور پھر خودکش بمبار بنتے ہیں۔ جمہوری حکومتیں اپنے عوام کی ویلفیئر پر قومی دولت نچھاور کرتی ہیں۔ تعلیم، صحت اور انصاف کی سہولتوں پر پیسہ خرچ کرتی ہیں مگر پانامہ کے ڈاکو اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتل میگا کرپشن اور کمیشن کیلئے میگا منصوبے بنارہے ہیں۔ ان کے منصوبوں سے عام آدمی کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ غربت بڑھی ہے، ملک پر قرضے بڑھے ہیں اور ترقی کا معکوس سفر جاری ہے۔

  • احتجاجی دھرنے سے شیخ رشید احمد، چودھری سرور، جمشید دستی، فیاض وڑائچ، سردار شاکر مزاری، ڈاکٹر زبیر و دیگر نے خطاب کیا۔ احتجاجی دھرنے میں ہزاروں کارکنان نے شرکت کی۔ اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے دھرنا دیا۔ خواتین کی بڑی تعداد بھی احتجاج میں شریک ہوئی شرکائے احتجاج نے ’’گو نواز گو، قاتلو جواب دو خون کا حساب دو‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگائے۔

28 اگست 2016ء۔۔۔ 7 شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے

سانحہ ماڈل ٹاؤن میں تاریخ کی بدترین ریاستی دہشت گردی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں انصاف کی عدم فراہمی کے خلاف پورے ملک میں پاکستان عوامی تحریک کا احتجاج جاری ہے۔ 28 اگست 2016ء کو 7 شہروں میں عظیم الشان دھرنے اور مظاہرے ہوئے۔ ان شہروں میں سے کراچی اور کوئٹہ کے دھرنے کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔

  • کراچی:

پاکستان عوامی تحریک کراچی نے ’قصاص و سالمیت پاکستان تحریک‘ کے تحت مزار قائد سے تبت سینٹر تک احتجاجی مارچ کیا اور تبت سینٹر کے سامنے دھرنا دیا۔ قصاص مارچ کی قیادت عوامی مسلم لیگ کے سربراہ محترم شیخ رشید احمد کر رہے تھے۔ بارش کے باوجود احتجاجی مارچ اور دھرنے میں پاکستان عوامی تحریک اور اپوزیشن جماعتوں کے کارکنان اور سول سوسائٹی، مذہبی و انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندگان بڑی تعداد میں شریک تھے۔ مارچ اور دھرنے کے شرکاء شہدائے ماڈل ٹاؤن کے قصاص اور قاتلوں کی گرفتاری کیلئے نعرے لگا رہے تھے۔

مارچ کے شرکاء سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ ہماری قصاص و سالمیت پاکستان تحریک کی کامیابی سے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ساتھ ساتھ سانحہ اے پی ایس پشاور، سانحہ کوئٹہ، سانحہ گلشن اقبال پارک لاہور، سانحہ واہگہ بارڈر، سانحہ بلدیہ کراچی اور سانحہ کارساز کے انصاف کے لئے بھی ہے۔ ان شہداء کے ورثاء کو انصاف ملے گا اور پھر کسی امیر کو کسی غریب کو اپنے اقتدار کے لیے کچلنے کی جرات نہیں ہو سکے گی۔

کلبھوشن کی گرفتاری کا سراغ حکمران خاندان کی شوگر ملوں میں بیٹھے ہوئے انڈین سے ملا، آج بھی شریف خاندان کی ملوں میں کئی بھارتی موجود ہیں، جو واہگہ بارڈر سے لائے جاتے ہیں۔ وزیر اعلی پنجاب اپنے گیسٹ ہاؤ س میں ان کا استقبال کر تے ہیں اور کسی ایجنسی کو ان کی تلاشی اور کاغذات کی جانچ پڑتال کی اجازت نہیں ہوتی۔ ہمیں سلامتی کے اداروں کے صبر پر حیرت ہے کہ وہ یہ گھناؤنا کھیل کب تک دیکھتے رہیں گے؟ پاکستان کی سالمیت شٹل کاک بن کر درخواست کرتی پھرتی ہے کہ کوئی ہے مجھے بچانے والا؟ جہاں پاکستان کا آئین اور ریاست انصاف کی منتظر ہو وہاں شہدائے ماڈل ٹاؤن کو انصاف کون دے گا؟ قاتل حکمرانوں کے ملکی سالمیت کے ساتھ دشمنی پر مبنی کردار پر انگلی اٹھائیں تو یہ کہتے ہیں جمہوریت خطرے میں پڑ گئی، نظام خطرے میں پڑ گیا۔ کراچی کی سر زمین پر پاکستان کو گالی دی گئی، حکومت کہتی ہے کہ خط لکھ دیا ہے، ہم پوچھتے ہیں پاکستان کی سالمیت پر حملے ہو رہے ہیں وزیر اعظم کے لب کیوں سلے ہوئے ہیں۔ پارلیمینٹ کے فلور پر پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کر کے پاکستان کی سالمیت کو زخمی کیا گیا اور یہ مذموم کھیل کھیلنے والے آج بھی وزیر اعظم کے اتحادی ہیں۔ پاکستان کے لیے ہجرت کرنے اور جان، مال، اولاد کی قربانیاں دینے والے پاکستان کو گالی دینے والوں کو کبھی برداشت نہیں کر سکتے۔

  • محترم شیخ رشید احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کا لٹیرا راج ختم ہونے والا ہے۔ پاکستان کو گالیاں دینے والوں کو نواز شریف کی سر پرستی حاصل ہے۔ تمام اپوزیشن جماعتوں کو نواز شریف کے لٹیرے اقتدار کے خلاف ایک ہونا ہو گا۔ سیاسی جماعتوں سے کہتا ہوں کہ دیر مت کرو، وقت تھوڑا اور مقابلہ سخت ہے۔ شریف راج کے خلاف ان شاء اللہ یہ تحریک اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی۔

پاکستان عوامی تحریک مرکزی نائب صدر ڈاکٹر ایس ایم ضمیر اور پاکستان عوامی تحریک کراچی کے صدر سید علی اوسط نے کہا انصاف دینے والوں کی آنکھیں بند ہیں۔ دو سال سے انصاف نہیں ملا۔ جنرل راحیل شریف صاحب 14 لاشیں انصاف کی منتظر ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس نیشنل ایکشن پلان کے تحت بننے والی انسداد دہشت گردی کی فوجی عدالت میں چلایا جائے۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے قصاص، حکمرانوں کے احتساب اور استحصالی نظام سے نجات تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری 20 کروڑ عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں، ہم کراچی، حیدرآباد سمیت سندھ میں تمام مظلوم طبقات کی آواز بن کر انکے حق کی جدوجہد کریں گے۔

احتجاجی ریلی سے پاکستان عوامی تحریک کے قائدین اور جماعت اسلامی کے رہنما حافظ نعیم الرحمان، پاکستان سنی تحریک کے مطلوب اعوان، جے یو پی کے مفتی رفیع الرحمان اور بشپ اعجاز عنایت نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک انصاف نہیں ملتا ہم ان شہداء کو نہ بھولے ہیں نہ بھولیں گے۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے قاتل حکمران ہیں، جب تک قاتل کیفر کردار کو نہیں پہنچتے ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔

  • کوئٹہ:

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے انصاف کے لئے 28 اگست 2016ء کو پاکستان عوامی تحریک کوئٹہ نے ’قصاص و سالمیت پاکستان تحریک‘ کے تحت جی پی او سے منان چوک تک احتجاجی مارچ کیا اور منان چوک میں دھرنا دیا۔ کوئٹہ میں احتجاجی تحریک کی قیادت پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی رہنما محترم احمد نواز انجم نے کی، جبکہ مارچ اور دھرنے میں پیر حبیب اللہ چشتی، بختیار احمد بلوچ، محمد اسماعیل نورزئی، حامد بلوچ ایڈووکیٹ، عطاء اللہ کامریڈ، ڈاکٹر عطاء الرحمٰن، مفتی محمد قاسمی، عبد الرحیم کاکڑ، سید قیوم آغا، عنایت اللہ درانی، محمودہ شبنم، سیدہ انجم ضیاء سمیت پاکستان عوامی تحریک اور اپوزیشن جماعتوں کے کارکنان اور سول سوسائٹی، مذہبی و انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندگان نے خصوصی شرکت کی اور خطابات کئے۔ مارچ اور دھرنے کے شرکاء شہدائے ماڈل ٹاؤن کے قصاص اور قاتلوں کی گرفتاری کیلئے نعرے لگا رہے تھے۔

قائد انقلاب ڈاکٹر طاہرالقادری نے ویڈیو لنک کے ذریعے کوئٹہ کے احتجاجی شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کے عوام پاکستانی کی خوشحالی اور بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہم بلوچستان کے عوام کو انکی جرات، بہادری اور ثابت قدمی پر سلام کرتے ہیں انکی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ بلوچستان پاکستان کے شہیدوں کی سر زمین ہے۔ شہیدوں کے بہنے والے اس خون کو عوامی تحریک رائیگاں نہیں جانے دے گی۔ ہم شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ساتھ ساتھ سانحہ کوئٹہ کے شہیدوں کے خون کا بھی قصاص لیں گے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ناانصافی ہے۔ ناانصافی کو ختم کر کے پاکستان کو امن اور خوشحالی کا گہوارہ بنائیں گے۔

ہماری تحریک قصاص، انصاف، احتساب، اور سالمیت پاکستان کی تحریک ہے۔ اس کے ذریعے کرپشن اور دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کا خاتمہ ہوگا۔ سالمیت پاکستان کی اس تحریک کے ذریعے پہاڑوں کی چوٹیوں پر بیٹھے ہوئے بلوچوں کو بھی ملکی ترقی اور سالمیت کے تحفظ کے دھارے میں لائیں گے۔ کرپٹ شریف حکومت پاکستان کی سالمیت کو شہید کر نے کی سازش کر رہی ہے۔ اب سیاست نہیں ریاست کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کی 20 کروڑ عوام، ہزاروں شہداء اور مظلوموں کے حقوق کا مسئلہ ہے۔ قصاص تحریک کی ابتداء شہدائے ماڈل ٹاؤن سے ہوئی مگر اس کی کامیابی سے پاکستان کے ہر شہید و مظلوم کو انصاف ملے گا۔

  • محترم احمد نواز انجم نے کہا انصاف دینے والوں کی آنکھیں بند ہیں۔ دو سال سے انصاف نہیں ملا۔ جنرل راحیل شریف صاحب 14 لاشیں انصاف کی منتظر ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس نیشنل ایکشن پلان کے تحت بننے والی انسداد دہشت گردی کی فوجی عدالت میں چلایا جائے۔

پاکستان عوامی تحریک کوئٹہ کے صدر میر بختیار رند اور دیگر مقررین نے دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے قصاص، حکمرانوں کے احتساب اور استحصالی نظام سے نجات تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری 20 کروڑ عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہم اس جنگ میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ ہیں۔

3 ستمبر2016ء۔۔۔ راولپنڈی: قصاص مارچ

قصاص اور سالمیت پاکستان تحریک کے پہلے فیز کے آخری مرحلہ میں راولپنڈی میں 3 ستمبر 2016ء کو قصاص اور سالمیت پاکستان مارچ ہوا۔ لاکھوں شرکا نے لیاقت باغ سے چاندنی چوک تک ریلی نکالی۔ اس احتجاجی مظاہرہ اور دھرنے میں قائد انقلاب ڈاکٹر طاہرالقادری نے بنفسِ نفیس شرکت کی۔ اس موقع پر انہوں نے شریف خاندان کی ملک دشمن سرگرمیوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ حکمران خاندان ملک دشمن اور بھارتی ایجنٹ ہیں۔ جنہوں نے ملک دشمنوں کو اپنے پروں میں چھپا رکھا ہے۔ صرف ایک کلبھوشن ہی نہیں بلکہ 300 سے زائد بھارتی ایجنٹ پاکستان آئے۔ یہ بھارتی شہری نواز شریف کی شوگر ملوں میں آ کر رہتے ہیں۔ جن کو ٹیکنیکل اور مکینیکل انجینئرز کے ویزے دیئے جاتے ہیں۔ ان بھارتی ایجنٹوں کو واہگہ بارڈر سے پنجاب حکومت سرکاری پروٹوکول دیتی ہے۔ کسی ادارے کو ان کے پاسپورٹ اور نہ ہی ان کا سامان چیک کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ ان کے پاسپورٹ نمبر سمیت دیگر معلومات بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔ اب ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں چیک کریں۔

قومی اسمبلی میں نواز شریف کے بعض اتحادی بھی دشمن ملک کے ایجنٹ ہیں، جو ہمسایہ دشمن ملک کی ایجنسی کے پے رول پر کام کرتے ہیں۔ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والا یہ شخص نوازشریف کا اتحادی جو پاک فوج اور پاکستان کی قومی سالمیت پر بھی برستا رہتا ہے۔ پاکستان کی وزارت داخلہ نے سیکرٹری وزارت خارجہ اور بلوچستان کے ہوم سیکرٹری کو اپنے سرکاری لیٹر میں لکھا کہ یہ شخص ہمسایہ ملک کی ایجنسی کے لیے کام کرتا ہے، اس شخص کو ایک ٹرانزیکشن میں دس لاکھ ڈالر ملے ہیں۔ اس طرح کی اور کئی ٹرانزیکشن ہونگی۔ کیا پاکستان کے قومی اداروں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کا محاسبہ کیا جائے اور ان کی گرفت کی جائے۔ سوال کرتا ہوں کہ نواز شریف کی ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی گرفت کون کرے گا۔ پاکستان کی سلامتی کا تحفظ ملکی اداروں سمیت پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔ متعلقہ ادارے چاہیں تو ہم سے ثبوت لیکر تحقیقات کر سکتے ہیں۔

ہم سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے پاک فوج سے بھیک نہیں مانگ رہے بلکہ آرمی چیف نے انصاف دلانے کا جو وعدہ کیا تھا، اس کو وہ پورا کریں۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں ماڈل ٹاون کے شہدا کو انصاف نہ ملا تو انہیں اللہ کی عدالت میں جواب دینا ہوگا۔

شہدا کے لواحقین تو دور کی بات ان کا ادنی سا کارکن بھی ماڈل ٹاون کے شہیدوں کے خون سے بیوفائی نہیں کر سکتا۔ اس لیے ہم قصاص لیے بغیر قاتلوں کی جان نہیں چھوڑیں گے۔ نواز شریف اور شہباز شریف دونوں بھائیوں کو پھانسی پر لٹکنا ہوگا۔

پاکستان کے وزیراعظم نے ملکی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو نواز شہباز دونوں بھائی پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی بھی بیچ دیں گے۔ پاک فوج کو پنجاب پولیس میں بدلنا ان کا اگلا ہدف ہے۔ ملک کی معاشی بدحالی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان آج 25 ہزار ارب روپے کا مقروض جبکہ سوا پانچ ارب روپے کے نوٹ روزانہ چھاپے جا رہے ہیں۔

اس موقع پر اپنے کارکنان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ان کارکنان کے عزم و حوصلہ کی خاطر خود قصاص اور سالمیت پاکستان مارچ کی قیادت کے لیے میں خود راولپنڈی آیا۔ راولپنڈی میں عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے آج 23 دسمبر 2012ء کے مینار پاکستان جلسہ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ کارکن ہی میرا عظیم سرمایہ ہیں۔ ہماری اس تحریک کا پہلا راؤنڈ مکمل ہو گیا۔ بقیہ 2 راؤنڈ ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ ان کے بارے میں ہم خود جگہ اور وقت کا تعین کرتے ہوئے فیصلہ کریں گے۔

  • قصاص اور سالمیت پاکستان مارچ سے سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا، جمعیت علمائے پاکستان نورانی گروپ کے صدر صاحبزادہ ابوالخیر ڈاکٹر محمد زبیر اور پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور نے بھی خطابات کیے اور شہداء ماڈل ٹاؤن کے انصاف کا مطالبہ کیا۔

محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، صدر پاکستان عوامی تحریک شمالی پنجاب بریگیڈیئر (ر) محمد مشتاق، پاکستان تحریک انصاف، مجلس وحدۃ المسلمین اور دیگر جماعتوں کے قائدین بھی سٹیج پر موجود تھے۔

قصاص اور سالمیت پاکستان تحریک کے ضمن میں درج ذیل شہروں اور مقامات پر احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دیئے گئے:

1۔ لاہور، 2۔گوجرانوالہ، 3۔ڈی جی خان، 4۔ ملتان، 5۔کراچی، 6۔کوئٹہ، 7۔راولپنڈی، 8۔راجن پور، 9۔مظفر گڑھ، 10۔لیہ، 11۔کوٹ چھٹہ، 12۔روجھان، 13۔فاضل پور، 14۔چوک قریشی، 15۔علی پور، 16۔جتوئی، 17۔کروڑ لعل عیسن، 18۔چوک اعظم، 19۔ملتان، 20۔خانیوال، 21۔میاں چنوں، 22۔کبیر والا، 23۔وہاڑی، 24۔بورے والا، 25۔گڑھا موڑ، 26۔ایبٹ آباد، 27۔چکوال، 28۔جہلم، 29۔اٹک، 30۔ہری پور، 31۔حویلیاں، 32۔دینہ، 33۔پنڈدادنخان، 34۔واہ کینٹ، 35۔گوجر خان، 36۔دولتالہ، 37۔پنڈی گھیپ، 38۔فتح جنگ، 39۔حسن ابدال، 40۔اسلام آباد

ضلع فیصل آباد: 41۔ (پی پی 61، 42۔پی پی 62، 43۔پی پی 63، 44۔پی پی 64، 45۔پی پی 65، 46۔پی پی 66، 47۔پی پی 67، 48۔پی پی 68، 49۔پی پی 69، 50۔پی پی 70، 51۔پی پی 71، 52۔پی پی 72)، 53۔چک جھمرہ

جڑانوالہ: 54۔(پی پی 52، 55۔بچیانہ (پی پی53)، 56۔پی پی 54، 57۔پی پی 55، 58۔پی پی 56، 59۔سمندری، 60۔ تاندلیانوالہ، 61۔ماموں کانجن، 62۔پی پی 59، 63۔جھنگ، 64۔شور کوٹ کینٹ، 65۔شور کوٹ سٹی، 66۔اٹھارہ ہزاری، 67۔اکڑیانوالا، 68۔موچیوالا، 69۔احمد پور سیال، 70۔ٹوبہ ٹیک سنگھ، 71۔گوجرہ، 72۔کمالیہ پی پی 88، 73۔رجانہ، 74۔سندھیلیانوالی، 75۔پیر محل، 76۔نیا لاہور، 77۔چنیوٹ، 78۔لالیاں، 79۔بھوآنہ، 80۔بہاولپور، 81۔فورٹ عباس، 82۔بہاولنگر + میکلوڈ گنج، 83۔چشتیاں، 84۔ہارون آباد، 85۔رحیم یار خان، 86۔لیاقت پور، 87۔ڈاہرانوالہ، 88۔خانپور، 89۔خوشاب، 90۔قائد آباد، 91۔نوشہرہ، 92۔میانوالی، 93۔پیپلاں، 94۔عیسیٰ خیل، 95۔دائود خیل، 96۔بھکر، 97۔کلورکوٹ، 98۔حیدر آباد، 99۔سکھر، 100۔لاڑکانہ، 101۔شہداد پور، 102۔مورو، 103۔سیون شریف، 104۔خیر پور، 105۔بان سید آباد، 106۔کھپرو، 107۔پھولجی سٹی، 108۔میہر سٹی، 109۔ٹھل، 110۔جیکب آباد، 111۔میر پور خاص، 112۔ڈہرکی، 113۔گھوٹکی، 114۔آپارو، 115۔پشاور، 116۔ڈی آئی خان، 117۔مانسہری، 118۔صحبت پور، 119۔ڈیرہ اللہ یار، 120۔اوستہ محمد، 121۔گلگت، 122۔سکردو، 123۔شیخوپورہ، 124۔نارنگ منڈی، 125۔مریدکے، 126۔فاروق آباد، 127۔مانانوالہ، 128۔کوٹ عبدالمالک، 129۔عموکے، 130۔فیروز والہ، 131۔صفدر آباد، 132۔گنجانہ نو، 133۔خانقاہ ڈوگراں، 134۔ننکانہ، 135۔سید والہ، 136۔شاہ کوٹ، 137۔منڈی فیض آباد، 138۔سانگلہ ہل، 139۔قصور، 140۔مصطفی آباد، 141۔چونیاں، 142۔سرائے مغل، 143۔پھولنگر، 144۔کوٹ رادھا کشن، 145۔کھڈیاں، 146۔پتوکی، 147۔اوکاڑہ، 148۔حجرہ شاہ مقیم، 149۔دیپالپور، 150۔بصیر پور، 151۔رینالہ خورد، 152۔حویلی لکھا، 153۔پاکپتن:، 154۔نور پور، 155۔عارف والا، 156۔ساہیوال، 157۔چیچہ وطنی، 158۔کسووال، 159۔سرگودھا، 160۔کوٹ مومن، 161۔بھلوال، 162۔ساہیوال، 163۔شاہ پور، 164۔سلانوالی
ضلع گوجرانوالہ: 165۔(پی پی 91، 166۔پی پی 92، 167۔پی پی 93، 168۔پی پی 94، 169۔پی پی 95، 170۔پی پی 96، 171۔پی پی 97، 172۔پی پی 98، 173۔پی پی 99، 174۔نوشہرہ ورکاں، 175۔گکھڑ منڈی، 176۔کامونکی، 177۔وزیرآباد، 178۔علی پور چٹھہ
ضلع سیالکوٹ: 179۔پی پی 121، 180۔پی پی 122، 181۔پی پی 123، 182۔پی پی 125، 183۔پی پی 126، 184۔پی پی 127، 185۔پی پی 128، 186۔پی پی 129، 187۔پی پی 130، 188۔پی پی 131، 189۔نارووال، 190۔شکر گڑھ، 192۔ظفر وال، 193۔حافظ آباد، 194۔کالیکی منڈی، 195۔پنڈی بھٹیاں، 196۔سکھیکی، 197۔منڈی بہائوالدین، 198۔پھالیہ، 199۔ملکوال، 200۔گوجرہ، 201۔قادر آباد، 202۔گجرات، 203۔سرائے عالمگیر، 204۔جلالپور جٹاں، 205۔کنجاہ، 206۔ڈنگہ، 207۔لالہ موسیٰ، 208۔کڑیاں والہ، 209۔کھاریاں، 201۔کوٹلہ ارب علی خان۔