الفقہ: آپ کے فقہی مسائل

مفتی عبدالقیوم خاں ہزاروی

سوال : گیارھویں شریف کی حقیقت اور اصل روح کیا ہے؟ کب اور کیوں شروع ہوئی؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں؟

گیارھویں شریف قدوۃ الواصلین، زبدۃ العارفین، سیدی و سندی غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی بغدادی قدس سرہ کے نام پر منعقد ہونے والی تقریب ہے جس میں آپ کے حوالہ سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور ولایتِ اولیاء کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ کے علمی و عملی کارناموں سے امت آگاہ ہو۔ اس سے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سینوں میں پیدا ہوتی ہے، اولیاء اللہ سے انس پیدا ہوتا ہے، اللہ والوں کی صحبت میسر آتی ہے۔ روحانیت، فیض اور ذہنی آسودگی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی عبادت کی ترغیب ملتی ہے۔ اللہ والوں کی اتباع و اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ نیکی کی ترویج اور برائی کے مٹانے میں مدد ملتی ہے۔ کہنے کو یہ ایک شخص کی تقریب ہوتی ہے مگر در حقیقت یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بزم ہوتی ہے جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہوتا ہے۔

دوسری طرف نذرانوں کی صورت میں یہاں کھانے پینے کی اشیاء آتی ہیں جو حاضرین، زائرین، بھوکے مسافر بے بسوں کے کام آتی ہیں۔ دینے والوں کو ثواب اور کھانے والوں کو سیری و سیرابی ملتی ہے۔ اس صدقہ سے زبانوں اور دلوں سے نکلتی دعاؤں، تلاوتوں، اذکار کا ثواب زائرین، ان کے آباؤ و امہات، ان کے اساتذہ، مشائخ اور تمام مسلمانان عالم، زندہ مومنین اور بالخصوص اہل قبور و مزارات کو قبولیت کے یقین کے ساتھ پہنچایا جاتا ہے۔

رسم کی نہیں حقیقت کی ضرورت ہے:

ہمارا آج کا المیہ علم و تحقیق کی کمی نہیں بلکہ عمل سے فرار ہے۔ ہم حقائق کو جانتے ہیں، ان کی حکمتوں سے اچھی طرح سے واقف ہیں، ان کے فوائد اور عملی زندگی میں ان کی ناگزیریت کے دل سے قائل ہیں مگر افسوس کہ علم و آگہی کی جس قدر فراوانی ہوئی ہے عمل سے فراغت حاصل کر لی گئی ہے۔ اسی لیے ہمارا معاشرہ ہزار ہا تدابیر کے باوجود دن بدن تیزی سے زوال کی طرف جا رہا ہے۔ آج ہم اگر ان رسوم سے نالاں ہیں تو ان پر کبھی ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ یہ رسوم اتنی ہی غلط تھیں تو ہمارے اسلاف نے اس پر غور کیوں نہ کیا اور ان کو کیوں رواج دیا ؟ کیا وہ اپنی آنے والی نسلوں کے خیر خواہ نہ تھے؟ کیا کوئی شخص اپنی اولاد کی تباہی کو پسند کر سکتا ہے؟ نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہوتا۔

یہ ہے کہ مختلف نیک مقاصد کے حصول کے لیے مختلف ادوار میں مختلف تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔ عرصہ تک وہ مقاصد حاصل ہوتے رہتے ہیں اور معاشرہ زندہ وخوشحال ہوتا ہے مگر مرور زمانہ کے ساتھ وہ مقاصد نظروں سے اوجھل ہوتے جاتے ہیں اور اصول، رسوم میں ڈھلتے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اچھے کام بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اولیاء اللہ سے منسوب دن اور ساعتیں، ان کے نام پر منعقد ہونے والی تقریبات کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔

گیارہویں شریف کے مقاصد:

اولیاء اللہ کی اصطلاح قرآنی اصطلاح ہے، ان کا ذکر خیر کرنا اللہ تعالیٰ کی سنت اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک طریقہ ہے۔ امت نے روز اول سے اس نام اور اس کے مصداق پاکیزہ نفوس کی ہمیشہ تعظیم و تکریم کی ہے۔ اولیاء اللہ اس دین کے شعائر ہیں، ان سے منسوب ہر چیز اللہ تعالیٰ کی نظر میں محبوب ہے۔ یہ حضرات اللہ تعالیٰ کے دین کے خادم اور مخلوقِ خدا کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ ان کی صحبت سے مردہ دلوں کو حیات ملتی ہے۔ ان کے پاس زخمی دلوں کو مرہم، پریشان حالوں کو سکون اور دنیا کی نظروں سے دھتکارے ہوؤں کو امان ملتی ہے۔ یہ خالق و خلق دونوں کی نظر میں محبوب ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے کثیر فضائل و محاسن بیان فرمائے ہیں۔ قرآن کریم میں ان کی تاریخ و واقعات، فضائل و محاسن بیان کرنے کے ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا :

وَذَکِّرْهُمْ بِاَيّٰـامِ اﷲِ.

(ابراهيم، 14: 5)

’’اور انہیں اللہ کے دنوں کی یاد دلاؤ۔‘‘

اللہ کے دن تو سارے ہی ہیں، سبھی اس کے پیدا کردہ ہیں پھر اللہ کے دنوں کی یاد دہانی کا اس کے سوا کیا مفہوم ہے کہ لوگوں کو اللہ والوں کا ذکر سناؤ اور بالخصوص ان دونوں کا جو اللہ والوں سے منسوب ہیں تاکہ اولاً ان کا ذکر ہمیشہ زندہ رہے جنہوں نے عمر بھر اللہ تعالیٰ کا ذکر بلند کیے رکھا۔ اللہ تعالیٰ کا ان سے وعدہ ہے۔

فَاذْکُرُوْنِيْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِيْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ.

’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو۔‘‘

(البقرة، 2: 152)

گیارہویں شریف کا عمل ایک ولی کامل حضرت غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے یوم وفات 11 ربیع الثانی کی نسبت سے اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا مقبول ہوا کہ ہر مہینہ کی گیارہ تاریخ کو لوگ آپ کی یاد میں محفلیں سجایا کرتے ہیں۔ گیارہویں شریف ہو یا چالیسواں یا سالانہ عرس، ان تمام کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اللہ والوں کا ذکر خیر ہو، اللہ تعالیٰ کا ذکر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام اور سرکار کی سیرۃ طیبہ اور قرآن و سنت کے جس چشمہ صافی سے ان بزرگوں نے اپنے آ پ کو اور پھر ایک جہان کو سیراب کیا ہے مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کیا جائے اور ان کو عبادتِ خداوندی کی رغبت دلائی جائے۔

محافل میلاد، محافل اعراس، سوم، چالیسواں، یوم پاکستان، یوم اقبال، یوم قائد اعظم، صحابہ کرام و اہل بیت کے ایام، مدارس، دار العلوموں، کالجوں اور جامعات کی سالانہ، پچیس سالہ، پچاس سالہ، سو سالہ تقریبات، تبلیغی و تربیتی اجتماعات، کانفرنسز، سیمینارز، یہ تمام سرگرمیاں اسی مقصد کے لیے تو ہوتی ہیں کہ لوگوں تک اپنے بزرگوں کے مقام و مرتبہ، علمیت، جد و جہد، تعلیم و تزکیہ، خدمت خلق، اعلیٰ اخلاق و کردار کے کارنامے پہنچائے جائیں۔ جس سے ایک طرف ان محسنین کا ذکر خیر ہوتا رہے اور دوسری طرف آنے والی نسلیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتی رہیں اور بلندیوں، عظمتوں اور عزیمتوں کا سفر جاری و ساری رہے اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگاتی رہے۔

گیارہویں شریف ہو یا کسی اور بزرگ کا عرس یا دیگر مواقع ان پر معمول سے زیادہ قرآن خونی ہوتی ہے، نعت و منقبت پڑھی و سنی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب پاک کا ذکر خیر ہوتا ہے، احکام شرع کی تعلیم و تبلیغ کا موقع ملتا ہے، رزق حلال سے حاضرین کی تواضع کی جاتی ہے، ماحول میں نیکی کا غلبہ اور بدی کی پسپائی ہوتی ہے، صدقہ و خیرات کے ذریعے انفاق فی سبیل اللہ پر عمل ہوتا ہے، شریک محفل لوگوں میں میل ملاقات ہوتی ہے، محبت و اخوت کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں، غریبوں کو اچھا کھانا ملتا ہے۔

آج بھی دنیا کے کونے کونے میں اولیاء اللہ کے مزارات پر بندگان خدا کو بغیر کسی مذہبی و نسلی امتیاز کے مفت کھانا ملتا ہے اور ہر وقت ملتا ہے، ہر ایک کو ملتا ہے۔ ضرورت مندوں کا پیٹ بھرتا ہے اور کھلانے والے اجر وثواب کے مستحق بنتے ہیں۔ مرحوم عزیزوں، بزرگوں کو اس تمام نیک کام کا اجر و ثواب ملتا رہتا ہے۔ کوئی دانشمند آدمی کھانا کھلانے کی حکمت، فائدہ اور حسن کا انکار نہیں کر سکتا۔ گیارہویں، عرس اور چہلم وغیرہ کے موقع پر یہی کچھ ہوتا ہے پھر اس کے جواز میں کلام کیا ؟ جہاں کام ہوتا ہے وہاں کمی، کوتاہی اور غلطی بھی ہو سکتی ہے اس لیے ہر کام کتنا ہی مفید اور اچھا کیوں نہ ہو اصلاح طلب رہتا ہے۔ خوب سے خوب ترکا سلسلہ رکتا نہیں۔

جس چیز پر غیراللہ کا نام آجائے:

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

حُرِّمَتْ عَلَيْکُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ.

’’خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ۔۔۔‘‘

(المائدة، 5: 3)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کا ذکر فرمایا ہے جن کا گوشت حرام ہے۔ مردار، خون، سور کا گوشت، جس جانور کے ذبح میں غیر اللہ کا نام بلند کیا جائے۔ بعض تنگ نظر اور کم علم لوگوں نے اس سے خواہ مخواہ گیارہویں شریف اور تبرکات، مٹھائی، کھانے اور مشروب وغیرہ کو ما اھل بہ لغیر اللہ میں شامل کر کے حرام قرار دیدیا ہے۔ خود پر ہی ظلم نہیں کیا بلکہ امت میں فتنہ، افتراق اور اسلام کو بدنام کیا اور مسلمانوں کو مشرک قرار دیا اور فرقہ واریت کو خوب خوب ہوادی۔ پس مناسب ہے کہ ما اھلکی عہد نبوت سے آج تک جو تفسیر و تصریح کی گئی ہے اسے لغت، تفسیر اور حدیث و عقل کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ جس شخص نے قرآن کریم کو خدا خوفی اور حیاء کے ساتھ سمجھ کر پڑھا ہے وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ حلال حرام جانوروں کے ذکر میں مٹھائی، حلوہ، کھیر، فرنی پلاؤ، قورمہ، دودھ، شربت، پھل کہاں سے آ گئے ؟ یہاں صرف گوشت کی بات ہو رہی ہے مگر خدا نا ترسوں نے کھینچا تانی کر کے بات کہاں سے کہاں تک پہنچا دی؟

قرآن کریم میں جن جانوروں کے گوشت کھانے سے منع فرمایا گیا ہے ان میں ایک وہ جانور بھی ہے جو حلال ہے مگر وہ جانور جس کو ذبح کرتے وقت کسی بت، انسان یا دیوتا وغیرہ کا نام لیا جائے۔ اگر بوقت ذبح صرف اللہ کا نام لیا جائے اور ذبح کرنے والا مسلمان یا کتابی ہو، مسلمان سے کتابی نہ بنا ہو، نسلی ہو یا کسی اور مذہب سے ہٹ کر کتابی بنا ہو تو گوشت حلال ہے، خواہ ذبح سے پہلے اور بعد میں اس پر کسی کا نام پکارا جائے۔ حرمت کا تعلق صرف وقت ذبح سے ہے۔

اس آیت میں لفظ ’’ما‘‘ سے مراد صرف جانور ہیں کہ پیچھے جانوروں کا ہی ذکر ہے، اس سے مٹھائی، دودھ، کھانے، کپڑے، روپیہ، پیسہ وغیرہ ہرگز مراد نہیں کہ ان کا ذبح سے کوئی تعلق نہیں۔ الحمدللہ ہر مسلمان حلال جانوروں کو اللہ کے نام پر بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کرتا ہے، اس کے حلال ہونے میں شک وہی کرے گا جو پر لے درجہ کا جاہل، تنگ نظر اور سخت متعصب و جھگڑالو ہے۔

حلال کو حرام نہ کہو

اے ایمان والو!

لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اﷲُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ط اِنَّ اﷲَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ.

’’(اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بے شک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘

(المائدة، 5: 87)

حرام کو حلال کرنا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منصب ہے، کسی اور کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنی مرضی سے جسے چاہے حلال اور جسے چاہے حرام کرتا پھرے۔ یہ اللہ کے قانون سے بغاوت ہے۔

چند تلخ گزارشات

گیارہویں شریف کے اسباب و مقاصد اور طریقہ کار ہم نے بیان کر دئیے ہیں مگر فکری اور قدرتی امر ہے کہ وقت کے ساتھ اچھے کاموں میں بھی نقائص ہو جاتے ہیں، یہی حالت گیارہویں شریف کی ہے۔ ان تقریبات میں چند خامیاں اکثر نظر آتی ہیں جن کا تدارک علماء، واعظین، مرشدین اور منتظمین کا ذمہ ہے۔ لوگوں سے لپٹ لپٹ کر بلکہ لڑ جھگڑ کر زبردستی اور گھٹیا طریقوں سے ان تقریبات کے لیے چندہ کرنا، لاؤڈ سپیکر پر سارا سارا دن چندوں کی اپیلیں کرنا، اسلام اور تصوف و ولایت کو بدنام کرنا ہے۔ ایک آدھ مرتبہ محض اطلاع کے لیے اعلان کرنا معیوب نہیں لیکن بعض لوگ جس طرح مسلسل و متواتر کئی کئی دن تک سپیکر پر چندہ مانگتے ہیں اور بھانت بھانت کی بولیاں بولتے اور مختلف حربے استعمال کرتے ہیں وہ باعث شرم ہیں۔ اس کے ذمہ دار امام، خطیب اور مسجد کی انتظامیہ ہے۔ اس رسم قبیح کو ختم ہونا چاہیے۔

نعت و منقبت پڑھنا ایک پاکیزہ اور خوشگوار فرض ہے مگر اس کے مقام و مرتبہ کا تقاضا ہے کہ اسے احتیاط ووقار کے ساتھ ادا کیا جائے۔ اولاً نعت خواں غیر شرعی، غیر معیاری اور ادب و احترام سے عاری کلام سے پرہیز کریں۔ ثانیاً مقررین و نعت خواں حضرات نماز با جماعت اور شریعت کے دیگر احکام کی پابندی کریں۔ ثالثاً وہ اختتام مجلس تک شامل محفل رہیں، مختلف بہانوں سے کھسکنے کی کوشش نہ کریں، رابعاً معیاری کلام کے لیے صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور بعد والے با علم و با عمل علماء و کاملین کا کلام پیش کریں۔

تبرک

گیارہویں شریف اور اس طرح کی دیگر تقاریب میں کھلائے جانے والے کھانے کو انفاق فی سبیل اللہ سمجھ کر وسعت دیں۔ ختم شریف کے لیے عمدہ کھانے، مستحقین کے لیے کپڑے اور نقدی، بیماروں کے لیے کھانے، پھل اور دوائیاں، بیروزگاروں کو گزارا الاؤنس، غریب بچیوں کے لیے شادی کا بندوبست، نادار طلبہ کو تعلیمی وظائف، معذوروں کے لیے کفالت خانے اور حادثات کے متاثرین کے لیے امداد کا اہتمام کیا جائے۔ رفاہی و تعلیمی و تربیتی ادارے قائم کیے جائیں۔ بیواؤں، یتیموں کے لیے کفالت عامہ کا بندوبست کیا جائے اور ان تمام نیک کاموں کا ثواب اپنے نیک بزرگوں کو پہنچایا جائے تاکہ ان کے احسانات کا کسی قدر حق ادا ہو۔ اور ان کے درجات مزید بلند اور ان کے فیوض و برکات مزید وسیع ہوں اور گناہ گاروں کو اس کا ثواب پہنچایا جائے تاکہ ان کی اخروی نجات ہو۔ ان نیکیوں کے صدقہ و وسیلہ سے پروردگار سے دعا ئیں مانگی جائیں کہ مسلمانوں پر پڑنے والی مصیبتوں کا خاتمہ ہو۔ یہ ہے میری نظر میں عرس، گیارہویں شریف، چالیسواں اور برسی منانے کا صحیح طریقہ ہے۔

نیکی، نیکی ہے جب بھی کی جائے، جہاں بھی کی جائے۔ یہ سوال بے معنی ہے کہ یہ کب شروع ہوئی؟ ایصال ثواب کے مختلف طریقے اور نام ہیں، ہر دور میں تھے، ہر دور میں رہیں گے۔ ان میں درپیش آنے والی خرابیوں کا ازالہ کریں۔ ہر عمل میں خلوص و للہیت کا رنگ پیدا کریں۔ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اور مخلوق خدا کی بہتری پیش نظر رکھیں۔ نیکی کی راہیں کثرت سے کھلی ہیں لیکن خلوص اور جذبہ و عمل کی ضرورت ہے۔