تاریخ گواہ ہے کہ انسانی معاشرہ کی تشکیل وتعمیر میں تاریخ ساز شخصیات کا کردار ہی اہم عنصر رہا ہے ۔ ایسی شخصیات بطور خاص قابل ذکر ہیں جنہوں نے اپنی شخصیت و کردار کی قوت سے وقت کے دھارے کا رخ موڑ دیا ۔وہ نہ صرف عامتہ الناس کے لئے ایک نمونہ اور قا بل تقلید بن گئے بلکہ اقدار کی جلاو نشو و نما کا باعث بھی ر ہے۔ عصر حاضر میں انہی شخصیات میں سب سے نمایاں نام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہے جن کی جامعیت مختلف شعبہ حیات مذہب‘ معاشرت‘ معیشت‘ سیاست‘ قیادت اور ثقافت پر محیط ہے ۔ معاشرے کی سوشل اور کلچرل اقدار اور دھاروں کو متاثر کرنے میں آپ کی صلاحیتوں اور اوصاف نے اہم کردار ادا کیا۔

شیخ الاسلام کی عالمی سطح پر خدمات کی بدولت وجود ملت کو نئی زندگی و توانائی میسر آئی۔ آپ کی مجددانہ کاوشوں نے ملی افکار میں نئی روح پھونکی۔ آپ کی بصیرت نے زندگی کو نئے رحجانات سے ہمکنار کیا۔ آپ کی حکمت نے شخصی طرز عمل سے ملی لائحہ عمل تک سب کچھ بدل دیا۔ آپ کی لطافت نگاہ نے انفرادی اور اجتماعی حیات کے مخفی گوشوں کی غمازی کی۔ مرض ملت کی تشخیص کے ساتھ علاج لقمانی بھی تجویز کیا۔ آپ کے فکر و فلسفہ نے ذہن انسانی کو نئی دنیاؤں اور نئے نئے جہانوں سے روشناس کرایا۔ آپ کے رشحات قلم سے علم و عرفان کے نئے چشمے پھوٹے جنہوں نے فرد کی ویراں زمیں فکر کو بھی شاداب و سیراب کیا اور قوم و ملت کی حیات کو بھی نئے موسم و منظر سے آشنا کیا۔

آپ کی عزم کی پختگی ، جذبہ کی حدت اور افکار کی تمازت نے کائنات ہست وبود کو نئے حادثات سے دو چار کر کے حیات نو اور نشاۃ ثانیہ کی لہر پیدا کی۔ معاشرے کی ہیت و تشکیل کے انداز بد ل دیے۔ آپ نے خوابیدہ ضمیر ملت کو بیدار و بے قرار کر کے ایک نیا ولولہ‘ جوش‘ جذبہ‘ فکر اور کردار دیا ۔ آپ نے مایوسی و ناامیدی کے سمندر میں غرق رو حوں کو یقین و عمل کے سفینوں پر نیا عزم زندگی اور ذوق منزل عطا کیا۔ آپ کی دلربا شخصیت‘ سحر انگیز طرز عمل‘ ہیبت ناک استقامت اور حیات آمیز افکار نے فرد اور معاشرہ کی فکر و عمل میں انقلاب برپا کر دیا۔ آپ کے ا فکار و نظریات اور طرز عمل اور جدوجہد مرض ملت کے لئے اکسیر حیات ثابت ہوئیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی گفتگو معنویت‘ جامعیت‘ ربط و تسلسل‘الفاظ کے برجستہ و برمحل انتخاب‘ بلاغت‘فصاحت ہر آہنگ لہجہ اور موثر اظہار بیان میں اپنا نظیر نہیں رکھتی۔ علمیت کا رنگ لئے ہوئے آپ کی گفتگو اصلاح و تعمیر کے در د کے ساتھ سامع تک پہنچتی ہے ۔ آپ نے مسلک پرستی ا ور فرقہ واریت کے ماحول میں بھی ان منفی اقدار کو مرکز توجہ بنانے کے بجائے وحدت واتحاد کو کو موضوع کلام بنایا۔ آپ نے ذہن ملت کو نئی جہتوں سے ہم کنار کیا۔ ان کو یقین محکم سے عمل پیہم کا درس دیا۔ ان کے افکار و نظریات کو چشمہ گنبدِ خضراء سے سیراب کرکے انہیں رفعت پرواز کے نئے رستوں پر ڈال دیا اور اذہان و قلوب میں اسلام کی عظمت و سطوت‘ شوکت و ہیبت وجلال کو زندہ کیا۔ شیخ الاسلام نے اپنی انقلابی شخصیت کی بناء پر عامتہ الناس کے طرز عمل میں واضح تبدیلیاں پیدا کیں۔

لوگوں کے طرز عمل میں تبدیلی ہی دراصل معاشرے میں کسی مثبت تبدیلی کی اساس ہوتی ہے ۔ آپ نے مروجہ ا فکار و نظریات کونئی جہتوں سے آشکار کرکے لوگوں کی بڑی تعداد کو متاثر کیا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت و خدمات کی بناء پر انفرادی و اجتماعی ہر دو سطح پر معاشرے میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ آج سے چند سال قبل کے ماحول کا جائزہ لیا جائے تو واضح نظر آتا ہے کہ علماء حضرات فروعی مسائل میں الجھے ہوئے تھے۔ فرقہ وارانہ موضوعات‘ اختلافی مسائل‘مناظرے اورمجادلے ان کا من پسند موضوع تقریر تھے۔ زندگی کے دیگر عملی گوشے ان کی نظروں سے اوجھل تھے۔ وہ اسلام کے بنیادی فہم سے بھی بالعموم نابلد تھے۔ شیخ الاسلام نے ملک کے طول و عرض اور بیرون ملک وسیع پیمانے پر جب مذہبی اعتقادات کے علاوہ اسلام کے دیگر احکام زندگی کو موضوع تقریر بنایا تو دیگر لوگوں نے بھی یہ مثبت تقلید شروع کی، اب اسلام کے آدابِ معاشرت اور احکام زندگی پر بحث و تقریر کا رواج معاشرے میں عام ہوگیا ہے۔ شیخ الاسلام نے مذہبی طبقہ میں دلائل و براہین عقل و منطق‘ مومنانہ فراست اور حکیمانہ بصیرت سے بات کرنے کورواج دیا۔

آپ نے ملت کو نئے رجحانات سے روشناس کرایا۔علماء اور اہل دین حضرات دین کے اجزاء کو کل سمجھ کر اس پر عمل پیرا تھے۔ وہ صرف اعتقادات اور عبادات کو ہی مکمل دین سمجھ بیٹھے تھے۔ دیگر شعبہ حیات‘ معیشت‘ معاشرت‘ سیاست سیادت‘ تہذیب و ثقافت‘ قانون و اخلاق اور تعلیم و تعلم میں احکام اسلامی بھلا بیٹھے تھے۔ شیخ الاسلام نے ان نئے موضوعات پرنہ صرف قلم اٹھایابلکہ عملی جدوجہد بھی کی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جن شعبہ جات میں اساسی تبدیلیاں پیدا کیں اور نئے رحجانات اور طرز رواج پذیر ہوئے ان میں سیاست بھی سرفہرست ہے۔ آپ نے سیاست میں وسعت‘ بالغ نظری، سیاسی تدبر‘ بصیرت و حکمت، پالیسی (Strategy) اور بامقصد سیاست کے تصور کو فروغ دیا۔ پاکستان کے نظامِ سیاست اور زمامِ حکومت پر بدقسمتی سے جاگیر دار‘و ڈیرے اورسرمایہ دار قابض ہیں۔اس لئے سیاست عصر حاضر کے فرعونوں اور قارونوں کی لونڈی بنی ہوئی ہے۔ سیاست دھوکہ بازی‘ ظلم‘ دجل‘ فریب‘ لوٹ مار اور گالی بن چکی ہے۔ ان حالات میںعام آدمی سیاست اور کارِ جہاں بانی سے دور تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے صالح قیادت‘ انقلاب، احتساب‘ عدل و انصاف اوراقتدارمیں عوامی شمولیت کو متعارف کروایا۔سیاستدانوں کو دلائل سے بات کرنے اور اعداد و شمار کی روشنی میں عوامی جلسوں سے خطاب کا ڈھنگ سکھایا۔ جلسوں ریلیوںاور اجتماعات و سیمینار وغیرہ میں سنجیدگی و نظم کو رواج دیا۔

راہنمائے کامل، حیات آموز افکار و نظریات‘ بہتر و موثر طرز عمل اورمسحورکن شخصیت سے افراد کے عقل و شعور کو مائل کر کے ان کے قلب و باطن میں اضطراب پیدا کردیتا ہے اور یہی اضطراب جب پختگی کے ارتقائی مراحل سے گزر کر اوج کمال پر پہنچتا ہے تو تحریک بن کر افراد کے مزاج و کردار سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ افراد کے مزاج و کردار‘عادات اطوار سے معاشرتی عناصر اور ثقافتی خدوخال تشکیل اور ترتیب پاتے ہیں ۔ یہی کام شیخ الاسلام نے کیا ہے۔ آپ نے نوجوانوں کے جذبے میں سیماب‘ جوش میں اضطراب فکر میں جلا‘ قوت میں ہیجان‘ خودی میں عرفان‘ گرمی کردار‘ جرات اظہار‘ تمناؤں میں تڑپ‘ آزوؤں میں حدت‘ طاقت میں شباب‘ عزم میں پختگی اور حوصلوں میں بلندی عطا کی۔

یہی وجہ ہے کہ تحریک کی سیاسی سر گرمیوں میں بھی نوجوان ہی انقلابی اجتہادی فکر اور جہادی عزم کے ساتھ ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ اور مصطفوی انقلاب کے لئے باطل‘ طاغوتی‘ استحصالی و سامراجی طاقتوں کے خلاف برسر پیکار نظر آتے ہیں۔ آپ نے اپنے عمدہ افکار و نظریات‘دلپذیر طرز عمل اور مسحور کن شخصیت سے نسل نو کی خوابیدہ قوتوں کو جگا کر بیداری و بے قرار ی کی ایک لے اور لہر پیدا کر دی ہے ۔ آج کا جوان شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے مدارِ اثر میں ہے۔ اس لئے ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیخ الاسلام کی شخصیت اور آپ کی علمی و فکری خدمات ہی ہمارا تہذیبی و معاشرتی مستقبل ہیں۔ اقبال نے ایسے ہی مرد انِ حق کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے:

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے

ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضرو موجود سے بیزار کرے