اداریہ: مفادات کی قربانی اور بیداریٔ شعور ناگزیر ہے

بلاشک و شبہ جمہوری ممالک میں جمہوریت کے ثمرات سے عوام ضرور بالضرور مستفید ہوتی ہے، اس لئے کہ اس طرزِ حکمرانی میں عوام حقیقی معنوں میں اقتدار میں شریک ہوتی ہے، اُسے اپنے نمائندگان کے نہ صرف انتخاب بلکہ انہیں مسترد کرنے کا بھی حق حاصل ہوتا ہے۔ جمہوری ممالک میں عوام کے نمائندے عوام کے حقوق کے محافظ ہوتے ہیں اور ملکی وسائل کے امین کے طور پر عوام کے وسیع تر مفاد کے لئے ایک ایک پائی نہایت احتیاط سے خرچ کرتے ہیں۔ کروڑوں اور اربوں کی کرپشن تو بڑی دور کی بات محض سرکاری سٹیشنری کے غلط استعمال پر انہیں اپنے عہدہ سے سبکدوش ہونا پڑجاتا ہے۔ حتی کہ عوام کی رائے ان کے برخلاف آجائے تو وہ بغیر کسی مطالبہ کے خود ہی اپنا فرضِ منصبی چھوڑ دیتے ہیں اس لئے کہ جمہوریت میں افراد نہیں ادارے اور عوام طاقتور ہوتے ہیں۔

ملکِ پاکستان اپنی جغرافیائی صورت حال، قدرتی وسائل کی بہتات اور محنتی افرادی قوت کی بناء پر دنیا کے خوش قسمت ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے مگر افسوس کہ ہم اس جمہوریت کے فوائد و ثمرات سے محروم ہیں، اس لیے کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر شخصی اور خاندانی بادشاہت مسلط ہے، آمرانہ رویوں کو جمہوریت کا لباس پہنا دیا گیا ہے جسے موجودہ فرسودہ نظام اور نااہل حکمران تحفظ فراہم کررہے ہیں۔ عوام کو حقوق دینا تو دور کی بات حقوق کا شعور دینا بھی مقتدر طبقات کے نزدیک جرم ہے۔

حکومت کی کارکردگی یہ ہے کہ نندی پور پاور پراجیکٹ، سکول، کالج اور ائیرپورٹس ٹھیکے پر دئیے جا رہے ہیں۔ جعلی سٹنٹ، جعلی دوائیاں اور جعلی آلات جراحی کی فروخت اپنے عروج پر ہے، مریض ہسپتالوں کی راہداریوں میں مر رہے ہیں، 80 فی صد آبادی صاف پانی سے محروم ہے، منتخب بلدیاتی نمائندے اختیارات سے محروم ہیں، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء 27 ماہ سے انصاف کیلئے دربدر ہیں، کرپٹ حکمران عوام کو بنیادی سہولیات، صحت، تعلیم، روزگار اور تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں، پانامہ کرپشن میں ملوث ارباب اقتدارکے ذاتی کاروبار خوب ترقی کر رہے ہیں اور ملکی اداروں کو بدنیتی سے تباہ کیا جا رہا ہے، نا اہل حکمرانوں کی وجہ سے ملک اور عوام بے پناہ مسائل کی دلدل میں دھنس چکے ہیں۔

موجودہ حکمرانوں کا طرز حکمرانی قائداعظم کی فکر اور آئین پاکستان سے متصادم ہے۔ بد قسمتی سے اقتدار پر عوام کے بجائے اشرافیہ قابض ہے۔ ’’سٹیٹس کو‘‘ کے پیداوار حکمرانوں نے سیاسی، سماجی اور معاشی استحصال کو جمہوریت کا نام دے رکھا ہے۔ بقیہ مسائل اور معاملات کی طرف حکومتی توجہ اور دلچسپی تو ایک طرف، موجودہ کرپٹ حکمران قومی سلامتی کے ساتھ بھی سنجیدہ نہیں ہیں۔ قومی ایکشن پلان کو سبوتاژ کرنے، رینجرز کے اختیارات میں توسیع نہ کرنے، پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن نہ کرنے اور فوجی عدالتوں کو متنازعہ بناکر حکمرانوں نے دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے قوم کو متحد کرنے کے بجائے کنفیوژ اور تقسیم کیا اور دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ کو ادھورا چھوڑ دیا، جس کی وجہ سے دہشت گرد پھر متحرک ہو گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمران دہشت گردی کی جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے میں سنجیدہ ہی نہیں ہیں۔

قوم جاننا چاہتی ہے دہشت گردوں کے پھانسی چڑھنے سے حکمرانوں کے کون سے مفادات متاثر ہورہے تھے؟ اصل میں دہشتگردوں کے سپورٹر اور پروموٹر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔ دہشتگردی ختم ہوئی تو ان کا اقتدار اور سیاست بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیگی کیونکہ یہ دہشت گرد گروپوں کی حمایت سے اقتدار حاصل کرتے اور انہیں بچاتے ہیں۔

گذشتہ ماہ مال روڈ لاہور اور ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والے خود کش دھماکے، حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی مشترکہ ناکامی ہے۔ حکومت نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی عوام کے جان و مال کے تحفظ کے ضمن میں مجرمانہ کردار کا مظاہرہ کیا۔خود کش دھماکے سے ثابت ہو گیا کہ دہشتگرد اور انکے سہولت کار ختم نہیں ہوئے، وہ آج بھی ان حکمرانوں کے دائیں بائیں موجود ہیں۔ قومی ایکشن پلان کو سرد خانے میں رکھنے والے اور پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی مخالفت کرنے والے حکمران ان شہادتوں کے ذمہ دار ہیں۔ جب تک موجودہ حکمران اور یہ قاتل نظام برقرار رہے گا، عوام اسی طرح عدم تحفظ کا شکار رہے گی اور اپنے جان و مال سے ہاتھ دھوتی رہے گی۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی ان حکمرانوں کے خلاف ایک واضح چارج شیٹ ہے۔ پوری دنیا نے میڈیا کے ذریعے ریاستی دہشت گردی کا بدترین اظہار اپنی آنکھوں سے دیکھا مگر آج تک شہداء کے ورثاء انصاف کی تلاش میں ہیں۔پوری دنیا میں امن کا پرچم لہرانے والوں کے خلاف حکومت نے دہشتگردی کے جھوٹے مقدمات درج کروا رکھے ہیں۔ عوامی تحریک کے 580 بے گناہ کارکنوں کو بھکر، گوجرانوالہ، راولپنڈی، سرگودھا کی عدالتوں میں دہشتگردی کے الزامات کے تحت آج بھی طلب کیا جاتا ہے اور 10 کارکن جیلوں میں ہیں۔ لاہور کی انسداد دہشتگردی کی عدالت میں ہمارے 42 کارکنوں کو اپنے ہی 14 کارکن قتل کرنے کے الزام پر ہر تاریخ پر طلب کیا جاتا ہے مگر دوسری طرف اسی سانحہ کا ایک کردار پولیس کی سرپرستی میں توڑ پھوڑ کرنے کے باوجود باعزت رہا ہوجاتا ہے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس اصل میں انصاف بمقابلہ ظلم ہے۔ یہ کیس قانونی، اخلاقی، انسانی جنگ ہے جسے ہم آخری سانس تک لڑیں گے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ہماری طرف سے دائر کردہ استغاثہ کے فیصلہ میں سانحہ ماڈل ٹائون کے اصل ذمہ داران اور ماسٹر مائنڈز کے بجائے پولیس افسران و اہلکاران کو طلب کیا ہے جبکہ ہمارا اصل ہدف ماسٹر مائنڈز اور سرغنوں کو کٹہرے میں لانا اور انصاف بشکل قصاص حاصل کرنا ہے۔

جب تک یہ نظام اور یہ ’’سلاطین‘‘ موجود ہیں کوئی ادارہ ان کا احتساب کر سکتا ہے نہ مواخذہ۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جس کیس میں شریف برادران کو سزا کا خطرہ ہو گا اس کیس کا فیصلہ نہیں آئیگا کیونکہ پوری حکومتی مشینری اور قومی اداروں میں ان کے زرخرید غلام بیٹھے ہیں جو ان کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

پاکستان میں حقیقی جمہوریت اور حقیقی تبدیلی کے لیے موجودہ حکمرانوں اور فرسودہ سیاسی نظام کو اکھاڑنا ہوگا۔ اس کے لیے عوام کواپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے باہر نکلنا ہوگا۔ حقیقی جمہوریت کی مضبوط بنیاد رکھنا ہوگی تب کہیں جا کر عوامی حقوق کا تحفظ ممکن ہوگا اور قوم خوشحال اور پر امن معاشرے کے اثرات سے مستفید ہوگی۔ مفادات کی قربانی اور شعور کی بیدار ی کے بغیر حقیقی تبدیلی کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔