الفقہ: آپ کے فقہی مسائل

مفتی عبدالقیوم خاں ہزاروی

سوال: شریعت میں نجاست کی تعریف کیا ہے؟ کتنی مقدار پر نجاست کا حکم لگے گا؟ کسی شے کے نجس ہونے پر کیا کیا جائے گا؟

جواب: نجاست کی درج ذیل اقسام ہیں اور ہر قسم کا حکم مختلف ہے:

  1. نجاستِ حقیقیہ

نجاستِ حقیقیہ اس گندگی کو کہتے ہیں جو ظاہراً نظر آئے، اسے شرع نے اصل نجس قرار دیا ہے۔ انسان اپنے بدن، کپڑوں اور کھانے پینے کی چیزوں کو اس سے بچاتا ہے مثلًا پیشاب، شراب، خون، فضلہ وغیرہ۔ اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور اگر کسی چیز پہ لگ جائے تو اسے دور کر کے اس چیز کو پاک کرنے کا حکم ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں:

  1. نجاستِ غلیظہ
  2. نجاستِ خفیفہ

نجاستِ غلیظہ

نجاستِ غلیظہ اسے کہتے ہیں جس کے ناپاک ہونے کی صراحت قرآن و حدیث میں موجود ہو۔ کوئی نص اس کی ناپاکی کے خلاف موجود نہ ہو یعنی اس میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو اور تمام دلائل سے اس کا ناپاک ہونا ثابت ہو۔ یہ نجاست سخت ہوتی ہے۔ یہ درج ذیل چیزوں پر مشتمل ہے:

آدمی کا فضلہ، پیشاب، منی، جانوروں کا گوبر، اور حرام جانوروں کا پیشاب، انسان اور جانوروں کا بہتا ہوا خون، شراب۔ اسی طرح مرغی، مرغابی و بطخ، چیل، کوا، گدھ وغیرہ کی نجاست غلیظہ ہے۔ حرام پرندے جو اڑتے ہیں ان کی بیٹ نجاستِ غلیظہ میں شامل ہیں۔

نجاستِ غلیظہ کا حکم یہ ہے کہ نجاستِ غلیظہ کپڑے یا بدن میں مقدارِ درہم کے برابر ہو تو دھونا واجب ہے اورمقدارِ درہم سے کم لگ جائے تو معاف ہے، نماز ہو جائے گی۔ لیکن اگر مقدارِ درہم سے زائد لگی ہو تو معاف نہیں بلکہ دھونا فرض ہے۔

نجاستِ خفیفہ

نجاستِ خفیفہ اس کو کہتے ہیں جس کا نجس ہونا یقینی نہ ہو۔ کسی دلیل سے اس کا ناپاک ہونا معلوم ہوتا ہو اور کسی دلیل سے اس کے پاک ہونے کا شبہ ہوتا ہو۔ نجاستِ خفیفہ درج ذیل چیزوں پر مشتمل ہے :

حلال جانوروں مثلاً گھوڑا، گائے، بکری وغیرہ کا پیشاب نجاستِ خفیفہ ہے۔ چڑیا یا اس طرح کے حلال چھوٹے پرندوں کی بیٹ نجاست خفیفہ ہے۔

نجاستِ خفیفہ کا حکم یہ ہے کہ اگر نجاستِ خفیفہ کپڑے یا بدن پر لگ جائے تو جس حصہ میں لگی ہے اگر اس کے چوتھائی حصہ سے کم ہو تو بغیر دھوئے نماز ہو جائے گی اور اگر پورا چوتھائی یا اس سے زیادہ ہو تو معاف نہیں بلکہ دھونا لازم ہے۔

  1. نجاستِ حکمیہ

وہ نجاست جو ظاہر میں نظر نہ آئے لیکن شریعت نے اس سے پاک ہونے کا حکم دیا ہو جیسے حدثِ اصغر (جن امور سے وضو لازم ہوتا ہے) اور حدثِ اکبر (جن امور سے غسل فرض ہوتا ہے) کو نجاستِ حکمیہ کہتے ہیں۔ یہ شریعت کی رو سے ایک عارضی کیفیت ہے جو تمام بدن پر یا اس کے اعضاء پر وارد ہوتی ہے اور طہارت سے دور ہو جاتی ہے۔

سوال: آن لائن اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا کیا حکم ہے؟

جواب:اشتہارات سے ہونے والی آمدن کی حلت و حرمت کا انحصار اس بات پر ہے کہ اشتہار کس شے کا ہے؟ جس شے کی تشہیر کی جا رہی ہے حلت و حرمت کے حوالے سے اس کی اپنی حیثیت کیا ہے؟ اگر اشتہارات ایسی مصنوعات کے ہیں جن کا استعال اسلام میں جائز ہے تو اس سے ہونے والی آمدن بھی جائز اور حلال ہے، اور اگر اشتہارات ممنوعہ اشیاء کے ہیں جیسے: شراب، سور کا گوشت یا فحش فلمیں وغیرہ یا پھر فحش و بیہودہ اشتہارات ہیں تو ان سے حاصل کی جانے والی آمدن بھی جائز نہیں۔

سوال: روزگار تلاش کرنے میں مدد دینے پر کمیشن لینا کیسا ہے؟ مثلاً جب نوکری مل جائے تو ایک سال تک اپنی تنخواہ کا 30 فیصد کمپنی کو دینا ہوگا۔ کیا اس طرح کمیشن طے کرنا اور لینا شرعاً جائز ہے؟

جواب:کسی شخص سے کوئی چیز مقررہ کرائے پر لینا یا مقررہ اجرت پر کسی سے مزدوری کروانا اجارہ کہلاتا ہے۔ فقہائے کرام کے نزدیک اجارہ سے مراد ہے:

الاجارة عقد علیٰ المنافع بعوض.

’’عقدِ اجارہ ایک معاہدہ ہے جو کسی معاوضہ کے بدلے کسی منفعت پر کیا جائے‘‘۔

(مرغينانی، الهداية، 3: 213، المکتبة الاسلامية)

اور امام جرجانی کے نزدیک اجارہ کا مطلب ہے:

الاجارة: عبارة عن العقد علیٰ المنافع بعوض هو مال، و تمليک المنافع بعوض اجارة و بغير عوض اعارة.

’’اجارہ اس معاہدے سے عبارت ہے کہ جو کسی معاوضہ کے بدلے منفعت پر کیا جائے، یہ معاوضہ (عام طور پر) مال ہوتا ہے اور جب معاوضہ کے بدلے منفعت کا مالک ہو تو اجارہ (ہوتا ہے) اور بغیر معاوضہ کے ہو تو عاریت ہے‘‘۔

(جرجانی، التعريفات، 1:23، دارالکتاب العربي، بيروت)

یعنی اجارہ سے مراد ایسا معاہدہ ہے جو مقررہ مال کے بدلے اپنی خدمات پیش کرنے پر عمل میں آتا ہے۔ مزدوری، ٹھیکہ، کرایہ اور ملازمت وغیرہ سب ہی اجارہ کی مختلف اقسام ہیں۔ آجر یا مستاجر اس شخص یا ادارے کو کہتے ہیں جو کسی سے اجرت پر کام لے رہا ہو اور اجیر وہ شخص ہے جو اجرت کے بدلے اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔

جو صورت آپ نے پیش کی ہے یہ بھی اجارہ ہی کی ایک شکل ہے جس میں معاوضہ یا اجرت کے بدلے اپنی خدمات اور معاونت پیش کرتے ہیں۔ اس لیے معاونت کے بدلے آپ کے لیے کمیشن لینا جائز ہے۔

لیکن ملازمت دلوانے کے لیے کسی کی حق تلفی کرنا جائز نہیں، اس لیے میرٹ کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ اگر کمیشن لینے کی لالچ میں میرٹ کی خلاف ورزی کی گئی اور غیرشرعی و غیرقانونی ذرائع کی مدد لی گئی تو پھر کمیشن لینا بھی جائز نہیں ہوگا۔ میرٹ کے مطابق، شرعی و قانونی تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے مدد کرنا اور اس کے بدلے کمیشن لینا جائز ہے۔

سوال: پراپرٹی فائل کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے؟ مثلاً اگر ہم نے فائل 100 روپے کی خریدی ہو تو کیا اس کو 200 روپے میں کسی اور کو فروخت کر سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يٰٓـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْهُ.

(البقرة،2: 282)

’’اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لیے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو‘‘۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ واضح طور پر خرید و فروخت، لین دین اور معاہدات کی دستاویزات تیار کرنے کا حکم فرما رہا ہے۔ اس لیے پراپرٹی کی فائل وغیرہ تیار کرنا شرعاً نہ صرف درست ہے بلکہ لازم ہے۔

اگر پراپرٹی کی خرید وفروخت، بیع کے شرعی اصول و ضوابط اور جائیداد کے مروّجہ طریقہ کار کے مطابق ہے تو خریداری کے معاہدے کے بعد زرِ بیعانہ ادا کرکے فائل حاصل کرنے، بقیہ رقم قسطوں میں ادا کرنے اور مکان کی تعمیر کے بعد قبضہ حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مکان کی اس طرح کی خرید و فرخت کرنا جائز ہے۔

اگر معاہدہ بیع میں یہ شرط شامل ہو کہ بیعانہ ادا کرنے والا اس معاہدے کی بنیاد پر پراپرٹی کسی تیسرے فریق کو فروخت کرنا چاہے تو فروخت کنندہ کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ بیعانہ دینے والا جس خریدارکا نام پیش کرے گا، فروخت کنندہ اس کے نام ملکیت منتقل کرنے کا پابند ہوگا، تو باہمی رضامندی سے 100 روپے کی فائل 200 روپے میں فروخت کرنا جائز ہے۔

سوال: انسانی دودھ کے ذخیرہ (Human Milk Bank) کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ پاکستان میں بچوں کی اکثریت خوراک(دودھ) کی کمی کی وجہ سے مرتی ہے۔ بچوں کی بہترین غذاء ماں کا دودھ ہے جس کا انہیں ملنا ضروری ہے۔ اس لیے ہم ایک انسانی دودھ کا ذخیرہ (Human Milk Bank) بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ بچوں کو ماؤں کا دودھ مل سکے۔ ہمارا یقین ہے کہ یہ رضاعت کی جدید شکل ہے جو کہ اسلامی اْصولوں کے خلاف نہیں ہے۔ براہِ مہربانی اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی فرمائیں۔

جواب: آپ نے جو سوال دریافت کیا ہے، دراصل یہ رضاعت کا مسئلہ ہے۔ لفظ ’رضاعت‘ اور اس کے دیگر مشتقات قرآن حکیم میں دس مقامات پر آئے ہیں۔ ’المعجم الوسیط‘ میں رضاعت کا معنی کچھ یوں بیان ہوئے ہیں:

ارضعت الام: کان لها ولد تْرضِعه.

’’ماں کا بچہ کو دودھ پلانا رضاعت کہلاتا ہے۔‘‘

فقہی اصطلاح میں بچہ کا پیدائش کے بعد پہلے دو سال میں ماں کے سینہ سے دودھ چوسنا رضاعت کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر223 میں رضاعت کے احکامات ارشاد فرمائے ہیں جن کے مطابق:

وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ کَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ.

’’اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے‘‘۔

وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْآ اَوْلاَدَکُمْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْکُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ.

’’اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو‘‘۔

پیدائش کے بعد بچہ کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنی زندگی کی حفاظت اور افزائش کے لیے ماں کے دودھ کے علاوہ کوئی غذا استعمال کرے۔ اس لیے وضعِ حمل کے بعد عورت کے پستانوں میں قدرتی طور پر دودھ جاری ہو جاتا ہے اور بچے کے لیے اس کے دل میں پیدا ہونے والی محبت و شفقت اْسے بچے کو دودھ پلانے پر اْکساتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت پر واجب کیا ہے کہ وہ بچے کو پورے دو سال دودھ پلائے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ مدت ہر طرح سے بچے کی صحت کے لیے ضروری ہے۔

اسلام نے یہ بھی اجازت دی ہے کہ والدہ کے علاوہ دوسری عورت بھی بچے کو دودھ پلا سکتی ہے جسے رضاعی ماں کا رتبہ ملتا ہے اور رضاعی ماں کا درجہ بھی حقیقی ماں کے برابر ہے۔ اگر بچہ خدا نخواستہ ماں اور باپ دونوں سے محروم ہو جائے تو اس کو دودھ پلانے کا انتظام کرنا اس کے ورثاء کی ذمہ داری ہے۔ گویا شرعِ متین نے شیرخوار بچوں کو اپنی ماں کے علاوہ دوسری عورت کا دودھ پلانے کی اجازت دی ہے۔ اسلام میں اس کی بیسیوں مثالیں بھی ملتی ہیں اور شارع علیہ السلام نے کوئی ایسا امر بھی جاری نہیں فرمایا جس سے یہ عمل منسوخ ہوتا ہو۔ لہٰذا اسلامی اصول وضوابط کے مطابق یہ امر تو طے ہے کہ بچہ مدت رضاعت میں اپنی ماں کے علاوہ دوسری عورت کا دودھ بھی پی سکتا ہے۔

ماضی قریب تک رضاعت کا جو طریقہ کار رائج تھا اس کے مطابق بچہ براہ راست (direct) اپنی ماں یا کسی دوسری عورت کا دودھ پیتا تھا۔ آپ کے سوال سے دورِ جدید کی یہ نئی صورت سامنے آئی ہے کہ انسانی دودھ کے ذخیرہ کے لئے بینک (Human Milk Bank) بن چکے ہیں، جہاں انسانی دودھ کو ذخیرہ کر کے ضرورت مند بچوں کو دودھ مہیا کیا جا رہا ہے۔

ہماری دانست میں انسانی دودھ کو ذخیرہ کرنے اور بچوں کے مہیا کرنے کے حوالے سے چند شرائط کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے:

  1. دودھ کے حصول کے لئے باپردہ اور محفوظ بندوبست کیا جائے جہاں مردوں کی مداخلت نہ ہو۔
  2. دودھ کی خریدو فرخت نہ کی جائے۔ اس عمل کو خالصتاً انسانی ہمدردی اور فلاحی بنیاد پر کیا جائے۔ محض انسانی دودھ کی خرید و فروخت کے لئے دودھ بینک قائم کرنا جائز نہیں ہے۔
  3. ہر عورت کا دودھ الگ الگ رکھا جائے اور Disposable آلات استعمال کئے جائیں تاکہ حرمت رضاعت کا خصوصی اہتمام ہو سکے، کیونکہ دودھ پلانے سے بھی رشتے، خونی رشتوں کی طرح حرام ہوتے ہیں۔ شرعِ متین کا اصول ہے:

وَاُمَّهٰتُکُمُ الّٰتِيْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَاَخَوٰ تُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ.

’’اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں (تم پر حرام ہیں)۔‘‘

(النساء، 4: 23)

حدیث مبارکہ میں ہے:

يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ.

’’رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘

(بخاری، الصحيح، 2: 935، رقم: 2502)

  1. بچہ جس عورت کا دودھ پیئے گا، وہ اس کی رضاعی ماں، اس عورت کا خاوند بچے کا رضاعی باپ، اس کے بیٹے رضاعی بھائی، اس کی بیٹیاں رضاعی بہنیں اور اسی طرح دیگر رشتہ دار بھی نسبی رشتوں کی طرح حرام ہو جائیں گے۔ اس عمل میں حرمت رضاعت کا خیال رکھنا ادارے کے لیے انتہائی ضروری ہے تاکہ رشتوں کا تقدّس پامال نہ ہو اور حلال و حرام کی تمیز قائم رہے۔
  2. کوشش کی جائے کہ ایک بچے کو ایک ہی عورت کا دودھ پلایا جائے تاکہ کم سے کم رضاعی رشتے ثابت ہوں۔ بامر مجبوری اگر دوسری عورت کا بھی دودھ پلایا جائے تو اس بچے کے ریکارڈ میں درج کیا جائے، خواہ ایک بار ہی کیوں نہ پلایا ہو۔
  3. بچے اور اس کے خاندان کا مکمل ریکارڈ اس خاتون کو مہیا کیا جائے جس کا دودھ بچے کو پلایا جا رہا ہے۔ اسی طرح خاتون اور اس کے خاندان کا مکمل ریکارڈ اس بچے کو مہیا کیا جائے جس نے مذکورہ خاتون کا دودھ پیا تھا۔

ہمارے نزدیک مذکورہ بالا شرائط کا خصوصی خیال رکھتے ہوئے بحالت مجبوری انسانی دودھ کا ذخیرہ کر کے ضرورت مند بچوں کو پلانا جائز ہے۔