عظمت و رفعت کا اعلیٰ معیار۔۔۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بقائے دوام حاصل کرنے والوں کی صف میں ایک نمایاں وجود ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی رفعتِ شان کا اعتراف ہر صاحبِ بصیرت کے ہاں ہے۔ یہ اعتراف اس قدر ہمہ جہت ہے کہ سیرت و کردار اور خصائص و شمائل کا کوئی پہلو مستثنیٰ نہیں۔ شخصی وجاہت و جلالت کا تذکرہ ہو تو آپ رضی اللہ عنہ کا نام اولین اسماء میں سے ہے کہ ایسی باوقار شخصیت خال خال نظر آتی ہے۔۔۔ خاندانی عظمت و وقار کا حوالہ ہو تو ہم عصر معاشرہ احترام سے سرجھکائے ہوئے ہے۔۔۔ معاشرتی رویوں کا شمار ہو تو آپ رضی اللہ عنہ کی ذات ہر منصب کی اہل ٹھہرتی ہے۔۔۔ حسن شمائل کا بیان ہو تو سب کی نظر اسی وجود کی متلاشی دکھائی دیتی ہے۔۔۔ حتی کہ معاشی سربلندیوں کا ذکر ہو تو نظریں اسی ملک التجاء کی جانب اٹھتی ہیں۔

  • اخلاقی صیانت کی بات چلے تو سرِ عنوان آپ رضی اللہ عنہ ہی کا وجود ہے۔۔۔ باطنی طہارت و قلبی پاکیزگی پر توجہ ہو تو سب کی گردنیں انہی کے حضور عقیدت سے جھک جاتی ہیں۔۔۔ غرضیکہ حکمرانی کی گفتگو ہو یا اطاعت شعاری کی۔۔۔ ایثار کے جذبوں کا بیان ہو یا جودو سخاوت کا تذکرہ۔۔۔ آپ رضی اللہ عنہ کا وجود خیر بھی ہے اور ہمہ صفات بھی۔ تاریخ کے صفحات آپ رضی اللہ عنہ کی عظمتوں کو مسلسل شمار کررہے ہیں اور صاحبانِ بصیرت ہر موڑ پر انہی کو دیکھنے میں راحت پاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو جامع الصفات قرار دیا۔

حضرت سیدنا سلیمان بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اچھی خصلتیں تین سوساٹھ ہیں اور اللہ جب کسی سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی ذات میں ایک خصلت پیدا فرمادیتا ہے اور اسی کے سبب اسے جنت میں بھی داخل فرمادیتا ہے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا میرے اندر بھی ان میں سے کوئی خصلت موجود ہے؟ ارشاد فرمایا: اے ابوبکر! تمہارے اندر تو یہ ساری خصلتیں موجود ہیں۔

(تاريخ مدينة و دمشق، 30:103)

  • سعادت مندی کی حکایت کا مردِ اول اس وقت درِ نبوت پر گردن خم کئے حاضر ہے کہ ابھی معاصرین حیرت و استعجاب کے مخمصوں کا شکار ہیں۔ اسلام کے اعلان کا اولین مرحلہ تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ کی حق شناس نظر فیض یابی کا مطلع اول بنی، صداقت ہویدا ہی ہوئی کہ تصدیق کا حق ادا کردیا۔ یہ آپ رضی اللہ عنہ کی بالغ نظری اور صداقت آشنائی ہی کا فیض تھا کہ ’’بوبکر‘‘ قرار پائے یعنی راہِ حق کے اولین مسافر کے اعزاز کے حامل قرار دیئے گئے:

وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ.

(الزمر: 33)

’’اور جو شخص سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ ہی تو متقی ہیں‘‘۔

آپ رضی اللہ عنہ اسی فرمان الہٰی کی مراد قرار پائے اور ’’صدیق‘‘ کے لقب کے مستحق ٹھہرے۔

  • تبلیغ دین کا مرحلہ آیا تو آپ رضی اللہ عنہ مبلغین کے امام قرار پائے۔ تبلیغ کا وہ دورانیہ مشکل بھی تھا اور خطرات سے اَٹا ہوا بھی، مگر جس جرأت و ہمت سے آپ رضی اللہ عنہ اس سے عہدہ براء ہوئے، وہ تاریخ کا زریں باب ہے۔ یہی نہیں کہ دعوت حق میں سرگرم رہے بلکہ اس کے نتائج بھی اہل نظر نے برآمد ہوتے دیکھے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ عشرہ مبشرہ اصحاب رضی اللہ عنہم میں سے اکثر آپ کی مومنانہ مساعی کے نتیجے میں دامنِ اسلام میں آئے!!۔۔۔ پُرخلوص تبلیغ میں کتنے نامور وجود حاضرِ دربار کردیئے اور کیا یہ تاریخِ عزیمت کا حصہ نہیں کہ اسی راہ میں وہ وہ صعوبتیں برداشت کیں جو ایسے سر بر آوردہ انسانوں کا وطیرہ نہیں ہوتا!!۔
  • معاشرتی حیثیت کی قربانی کا جذبہ، انسان آپ رضی اللہ عنہ کے وجود ہی سے سیکھے گا۔ ایک طویل جدوجہد کی بناء پر ہی آپ رضی اللہ عنہ کو ترویج و اشاعتِ اسلام کا پیش رَو گردانا گیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بے پناہ مساعی کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں سرفراز فرمایا کہ ابھی وہ سب قید حیات میں تھے کہ انجام کی خبر دے دی اور جنتی قرار دے دیا گیا۔ صیانتِ کردار کا اس سے بڑا حوالہ کیا ہوسکتا ہے؟۔۔۔ ان خوش قسمت افراد کی فہرست دیکھئے تو سرِ عنوان حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔
  • راہِ حق میں ایثار و قربانی کا مرحلہ آیا تو انفاق کا درجہ کمال آپ رضی اللہ عنہ ہی کو حاصل ہوا۔ یہ شخصی دعویٰ نہ تھا بلکہ ہر صداقت شعار زبان کا اعتراف تھا کہ

صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس!!

آپ رضی اللہ عنہ چونکہ ایک کاروباری آدمی تھے اور کپڑے کا وسیع کاروبار کرتے تھے، لہذا جس دن اسلام لائے آپ کے پاس چالیس ہزار درہم یا دینار تھے، سارے کے سارے راہ خدا میں خرچ کردیئے۔

(الاستيعاب في معرفة الاصحاب، عبدالله بن ابي قحافة، الرقم:1651،ج3، ص94، تاريخ مدينة دمشق، ج30، ص66)

غزوۂ تبوک کے موقعہ پر آپ رضی اللہ عنہ نے مالی خدمت کا ایسا عظیم مظاہرہ فرمایا کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال اسلام اور مسلمانوں پر نچھاور کردیا حتی کہ آپ رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو ببول کے کانٹوں والا چوغہ پہنے ہوئے تھے۔ (تاریخ دمشق، 30:۷1)

  • مخالفت کا طوفان اٹھا تو جو مردِ جری، کفر کی ہر یلغار کے سامنے سینہ سپر ہوگیا وہ آپ رضی اللہ عنہ ہی کا وجود تھا۔ سماجی حیثیت کی پروا نہ کی، معاشرتی برتری کا خیال دامنگیر نہ ہوا، ایک دھن تھی کہ ایک لگن تھی کہ وجودِ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر صورت میں امن مہیا کرنا ہے اور کفر کے حملوں سے بچانا ہے۔ اسی رویے کے پیشِ نظر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو ’’اشجع الناس‘‘ کہا تھا۔

اوصافِ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ

حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشروں بلکہ انسانی معاشروں میں جو بھی عظمت و رفعت کے درست پیمانے ہیں، ان میں سے کسی پر بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جانچ لیا جائے، آپ رضی اللہ عنہ ہر معیار پر پورے اتریں گے اور صفِ اولین میں شمار ہوں گے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے لاتعداد اوصاف میں سے چند ایک کا تذکرہ کرتے ہیں تاکہ وجہ عظمت شخصیت کا ایک مختصر سا جائزہ رقم ہوسکے:

  1. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں کے پیش رَو ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے آوازۂ حق سنا اور تسلیم کرلیا، کسی قسم کا تردد یا کسی قسم کامخمصہ آڑے نہ آیا۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ دعوت کی پہلی صدا حیرت کا باعث ہوا کرتی ہے۔ انسان قبولیت کی منزل تک پہنچنے میں گہرے غوروفکر کی راہوں سے گزرتا ہے۔ بسا اوقات ردِ عمل بھی دیتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ہاں بھی ایسا ردِ عمل بار بار دیکھنے میں آیا، بعض تو دعوت و تلقین کے جذب ہی سے تسلیم کی راہ اختیار کرگئے مگر بعض کے ہاں مخالفت بلکہ معاندت نے عجب رنگ دکھایا۔ معجزات کی سطوت نے بعض اذہان میں ہیجان پیدا کیا اور وہ درِ رسالت تک نیاز مندانہ حاضری کے قابل ہوئے۔ ان سب کیفیات سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی کیفیت مختلف تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ کے گوش حق ہوش میں دعوت کا پہلا حرف ہی پڑا تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ سراپا نیاز بن گئے۔ یہ فوری ردِ عمل فکر کی پاکیزگی اور قلبی طہارت کا آئینہ دار تھا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ فکرو نظر کی ساری صلاحیتیں حق شناسی کے جوہر سے منور تھیں اور صرف اشارے کی منتظر تھیں کہ یکا یک دمک اٹھیں۔ یہ آپ رضی اللہ عنہ ہی کا اختصاص تھا جو زندگی بھر ساتھ رہا۔
  2. حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تسلیم و رضا کی منزل تک بتدریج نہیں پہنچے بلکہ ان کے ہاں تسلیم کا پہلا قدم ہی آخری منزل تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی زندگی کا ہر لمحہ گواہ ہے کہ روزِ اول کا کیف عمر بھر دمساز رہا اور پوری زندگی ثبات و یقین کے بامِ عروج پر رہی۔ یہ طرزِ تسلیم، راہِ حق کے ہر مسافر کے لئے نمونۂ عمل ہے کہ ایقان کہیں بھی اور کسی صورت میں بھی متزلزل نہ ہو۔

فنا فی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام پر فائز

  1. حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا کردار سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا عکسِ جمال ہے کہ ذاتی رائے کبھی بھی تعمیلِ حکم کی راہ میں حائل نہیں ہوئی۔ رسول تسلیم کرلیا تو ہر حال میں رسول مانا۔ یہ عملی اظہار سیرتِ صدیقی رضی اللہ عنہ کے ہر پہلو اور ہر رخ میں ظاہر ہوا۔ خصوصیت سے اس وقت یہ تسلیم، تکمیل کے لمحے میں تھی جب صلحِ حدیبیہ کی شرائط طے پارہی تھیں۔ بظاہر جھکی جھکی شرائط اضطراب کی محرک بن رہی تھیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ حیرت زدہ تھے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے، حتی کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ تو بَرمَلا اس تردد کا اظہار فرمارہے تھے۔ یہ سوال ان کے لبوں پر تھا کہ آخر ایسا کیوں کیا جارہا ہے؟۔۔۔ مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا وہی جواب تھا جو آپ رضی اللہ عنہ کی سیرت کا نقشِ دوام تھا کہ:

جب رسول مان لیا ہے تو سوال کیسا اور اضطراب کیوں؟۔۔۔ رسالت کا حکم سمجھتے ہو، سب فیصلوں کو تسلیم کرلو۔

یہ دائمی اطاعت کا جذبہ اور یہ ہر فیصلے پر سر جھکالینے کی عادت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہمہ تن سیاسی شخصیت کا وہ مرتبہ ہے جو آپ رضی اللہ عنہ کو اطاعت شعاروں کے قافلے کا امام بناتی ہے۔

  1. ہجرت مدینہ منورہ کا سارا واقعہ رفاقتِ صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ کا درخشاں نشان ہے۔ مکہ مکرمہ میں بے پناہ مصائب عقیدتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں برداشت کئے۔ حتی کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بَرمَلا اس کا اظہار فرمایا اور استقامت کے رویے کی تصدیق و تائید فرمائی، فرمایا:

’’اخلاق، قربانی، ایثار اور بزرگی میں تمہارا کوئی ثانی نہ تھا‘‘

اور یہ بھی فرمایاکہ:

’’اس رفاقت کا بدلہ اللہ تعالیٰ ہی تمہیں دے گا‘‘۔

ہجرت کی منزل آئی تو اعتمادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوں اظہار ہوا کہ ایسا محتاط سفر جو رات کی تاریکیوں میں ہورہا تھا اور سب مخفی رکھا جارہا تھا، اس میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ رفیقِ سفر ہی نہ تھے بلکہ آپ رضی اللہ عنہ کا خاندان اس سفر کی ہر منزل سے آگاہ تھا۔ حتی کہ گھرانے کے غلام کو بھی خبر تھی۔ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس گھرانے پر اعتماد تھا جو لائق فخر بھی تھا اور باعثِ عظمت بھی۔

غارِ ثور کی عزلت نشینی سینکڑوں برسوں کے مراقبوں سے بڑھ کر تھی اور پناہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر جذبے کی قربانی دے دینا، راہِ حق کے مسافروں کے لئے نمونہ عمل بھی ہے اور وسیلہ نجات بھی۔

  1. حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہ کا اشاعتِ اسلام میں جو کردار رہا، وہ مخدراتِ اسلام کے لئے کامل نمونہ ہے کہ صاحبزادی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جوانی کی ہر امنگ کو کس طرح پابندِ آداب بنالیا اور ہر خواہش کو درِ رسالت پر کس طرح قربان کردیا!!۔۔۔ یہ خاندانوں کے ملاپ کا اعلیٰ نمونہ تھا مگر جب چند شرپسندوں کی وجہ سے مظہرۂ عصمت پر حملہ آور ہونے کا سانحہ پیش آیا تو کئی روز تک فضا مغموم رہی۔ یہ سارا واقعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سیرت کا وہ باوقار باب ہے جس پر آج تک ہر صاحبِ عدل و ایمان خراجِ محبت نچھاور کررہا ہے۔

لمحہ لمحہ پر غور کیجئے، کنواری صاحبزادی جو جوانی کی دہلیز پر قدم ہی رکھ رہی تھی، عمر کے تفاوت کے باوجود پناہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دے دی گئی۔ کیا یہ وفا شعاری کی عمدہ مثال نہ تھی؟۔۔۔ پھر جب یہ چہیتی بیٹی ناکردہ گناہ کے اتہام کا شکار ہوئی تو عقیدت مند باپ پر کیا گزری ہوگی؟۔۔۔ عرب معاشرت کا ردِ عمل ، پدری شفقت کی جولانی اور تقدیسِ رشتہ کی لرزش، کس قدر اسباب تھے جو اضطراب کو جنم دے سکے تھے!!۔۔۔

سوچئے! ایک باوقار، لائقِ احترام و عظمت باپ پر اسی الزام کی برق کیسے گری ہوگی؟۔۔۔ عرب کا مخصوص ماحول آپ رضی اللہ عنہ کے دل و دماغ پر کیا اثرات مرتب کررہا ہوگا؟۔۔۔ مگر قرآن مجید کا ہر قاری اور تاریخِ اسلام کا ہر طالب علم باخبر ہے کہ تسلیم و رضا کے پیکرِ عظیم یہ سب کچھ کس وقار سے برداشت کررہے تھے کہ سامنے وہ وجود تھا جس پر اعتماد اُن کی سرشت میں شامل تھا۔ حالات کی نامساعدت کے باوجود پیمانِ محبت کو مضبوط تر رکھنا ایسی مثال ہے جو سالکانِ راہِ حق کو ہر لحظہ نئی تب و تاب مہیا کرتی رہے گی۔

سربراہان حکومت کیلئے راہِ نجات

  1. خلیفۃ المسلمین کا اعزاز پاکر بھی نقوشِ رسالت کو ہر لمحہ راہنما بنائے رکھنا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا وہ اسوہ ہے جو سربراہانِ حکومت کے لئے دائمی راہِ نجات ہے۔ ایک مختصر سے دورانئے میں اس قدر عظیم کارنامے انجام دینا کہ نہ کوئی خودستائی آئی اور نہ کسی حکم سے انحراف ہوا۔

حضرت سیدہ انیسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بننے کے تین سال پہلے اور خلیفہ بننے کے ایک سال بعد بھی ہمارے پڑوس میں رہے۔ محلے کی بچیاں آپ رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی بکریاں لے کر آتیں، آپ ان کی دلجوئی کے لئے دودھ دوھ دیا کرتے تھے۔ جب آپ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا تو محلے کی ایک بچی آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی: اب تو آپ خلیفہ بن گئے ہیں، آپ ہمیں دودھ دوھ کر نہیں دیں گے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: کیوں نہیں! اب بھی میں تمہیں دودھ دوھ کر دیا کروں گا اور مجھے اللہ کے کرم سے یقین ہے کہ تمہارے ساتھ میرے رویے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ چنانچہ خلیفہ بننے کے بعد بھی آپ رضی اللہ عنہ ان بچیوں کو دودھ دوھ کردیا کرتے تھے۔

(تهذيب الاسماء واللغات، امام نووی، 2: 480)

آپ رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالنے کے بعد جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس کا ایک ایک لفظ آپ کے مقام و مرتبہ، بصیرت اور فنا فی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا اظہار ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’اے لوگو! مجھے آپ لوگوں کا امیر و والی بنایا گیا ہے، حالانکہ میں آپ لوگوں سے بہتر نہیں۔ اگر میں بہتر کام کروں تو میری مدد کرو اور اگر کہیں غلطی کروں تو میری اصلاح کرو۔ یاد رکھو!

الصدق امانة والکذب خيانة.

یعنی سچ بولنا امانت ہے اور جھوٹ بولنا خیانت۔

یاد رکھو! تم میں سے کوئی شخص کتنا ہی کمزور ہو لیکن جب تک اللہ رضی اللہ عنہ کی مدد سے میں اسے اس کا حق نہ دلادوں وہ میرے سامنے بہت طاقتور ہے اور تم میں سے کوئی شخص کتنا ہی طاقتور ہو اور اس نے کسی کا حق دینا ہو تو اس سے حق لینے تک وہ میرے نزدیک بہت کمزور ہے۔ (یعنی میرے ہوتے ہوئے کسی کمزور شخص کی کوئی بھی حق تلفی نہیں ہوسکتی اور کوئی طاقت ور شخص اپنی طاقت کے بل بوتے پر کسی کمزور کا حق تلف نہیں کرسکتا۔) جہاد چھوڑ دینے والی قوم پر اللہ  رضی اللہ عنہ ذلت مسلط کردیتا ہے اور بے حیا قوم پر مصائب نازل فرماتا ہے۔ جب تک میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرتا رہوں، تم میری اطاعت کرتے رہنا اور جب میں ان کی نافرمانی کروں تو تم پر میری کوئی اطاعت نہیں۔

(الرياض النضرة، ج1، ص239 تا 240)

  • آپ رضی اللہ عنہ نے متعدد مواقع پر عامۃ المسلمین کو بھی ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا۔ حضرت رافع الخیر طائیؒ فرماتے ہیں کہ میں مقام عزاۃ میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر تھا، میں نے عرض کی:

’’آپ رضی اللہ عنہ مجھے نصیحت فرمائیں‘‘۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دو بار فرمایا: ’’اللہ تم پر رحم کرے اور برکت دے۔ فرض نمازیں بروقت ادا کیا کرو۔ زکوٰۃ خوشی سے دیا کرو۔ رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو اور ہاں! کبھی حاکم نہ بنو‘‘۔ میں نے عرض کیا:ـ ’’حضور! آج کل تو حکمران ہی امت کے بہترین لوگ ہیں‘‘۔ ارشاد فرمایا:

’’آج کل امارت یعنی حکمرانی آسان ہے لیکن مجھے یہ ڈر ہے کہ آئندہ زمانے میں فتوحات کی زیادتی کے سبب حکومتیں بھی زیادہ ہوں گی اور اس طرح ممکن ہے کہ نااہل حکمران بھی آئیں گے۔ جب کہ کل بروز قیامت حاکم کا حساب لمبا ہوگا اور عذاب زیادہ جبکہ غیر حاکم کا حساب کم اور عذاب ہلکا۔ اس لئے کہ حکمران ہی سے زیادہ ظلم سرزد ہوتا ہے اور ظالم حاکم اللہ رضی اللہ عنہ کے عہد کو توڑ دیتا ہے۔ انہی حکمرانوں میں سے (عدل و انصاف کرنے والے) بعض اللہ کے مقرب بھی ہوتے ہیں اور بعض (ظلم و ستم کے سبب) مردودِ بارگاہِ خدا بھی۔ خدا کی قسم! تم میں سے جب کوئی شخص ہمسائے کی بکری یا اونٹ قبضہ میں کرلے تو بڑا خوش ہوتا ہے کہ میں نے ہمسائے کی بکری یا اونٹ ہتھیالیا ہے، حالانکہ ایسے ہمسایوں پر عذاب نازل کرنا اللہ کا زیادہ بڑا حق ہے‘‘۔ (شعب الایمان، فصل فی ماورد من الشدید، الحدیث:24۷2، ج6، ص51)

اسی لئے تو فلپ کے ہٹی، عصرِ حاضر کا ایک نامور مستشرق اپنی ’’تاریخِ عرب‘‘ میں پکار اٹھا کہ یقین نہیں آتا کہ اس قدر کم عرصے میں اتنے نمایاں کام کیسے ہوگئے، ان کاموں کے لئے تو طویل مدت درکار ہوتی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ سب کچھ اسی قلیل عرصے میں ہوا جس کے اثرات آج تک تاریخ اسلام پر دمک رہے ہیں۔ پھر حیرت مزید حیرت ہے کہ کوئی حاکمانہ خمار نہ آیا، بودوباش میں امارت نہ اتری اور معاشرتی زندگی کا رنگ نہ بدلا، اسی لئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اعتراف تھا کہ:

’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! تم نے بعد والوں کو مشکلات میں ڈال دیا ہے‘‘۔ (کہ کون ایسا ایثار کرے اور کون اس مردِ حق نما کی سی وفا نبھائے گا)

یہ مختصر سا جائزہ سیرتِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ہمہ پہلو شمار نہیں، یہ صرف شخصیت کی عظمتوں کو سلام پیش کرنے کا ایک وسیلہ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی شخصیت ہر دور کے انسان کے لئے راہنما ہے اور اس سے ہر شعبہ جات کا انسان فیض یاب ہوسکتا ہے۔ ایک حکمران، سوا دو سال کی حکمرانی کو وسیلہ حکمرانی بنالے تو تاریخ کے صفحات میں ہر دور میں چمکتا رہے۔۔۔ ایک باوفا ساتھی آپ رضی اللہ عنہ کی رَوِش کو اپنالے تو وفاداری کی عمدہ مثال ہے۔۔۔ ایک عبادت گزار آپ رضی اللہ عنہ کے سجدوں کی قبولیت سے راہنمائی پالے تو سجدوں کا وقار قائم ہوجائے۔۔۔ ایک عالم آپ کے طرزِ استدلال پر غور کرلے تو مسائل کے حل کی انسان راہ پالے۔۔۔ اور اگر ایک صوفی آپ رضی اللہ عنہ کی سیرت کے جمال کو اپنے وجود کا حصہ بنالے تو قدم قدم پر رہنمائی کا حق ادا کرنے لگ جائے۔