ثمر بار محبتیں۔۔۔ سدا بہار چاہتیں

راشد حمید کلیامی

دنیا مقامِ فنا ہے، اس کی ہر چیز جلد یا بدیر فنا ہونے والی ہے۔ انسان اور جن سب فنا ہوجائیں گے، چرند اورپرند، حیوان اور وحوش، طوطا اور مینا، بلبل اور جگنو، ہاتھی اور چیونٹی، کیڑے اور حشرے، پتنگے اور بھنورے، مچھلی اور کیکڑے، سب پہ فناآجائے گی۔۔۔ بحر و بر، ارض و سما، صباح و مسائ، شرق و غرب، مکین و مکان، چنین و چناں، پربت و ریگزار، اشجار و اثمار، ہوا و فضا، نشیب و فراز، عباد و ملوک، سب فنا کی زد میں آنے والے ہیں۔۔۔ مگر ایک ذات، جس کے ہاتھ کُل کائنات کا نظام ہے، جو زیست کی آخری ہچکیاں لینے والو ںکو طویل زندگی کی خوشگوار سانسیں عطا کردیتی ہے اور زندگی کے ہنگاموں میں گم ہونے والوں کو دفعتہ موت کی دہلیز پہ لاکھڑا کردیتی ہے، اُس ذات کو، اُس کریم مولا کو، اُس پالنہار رب کو، اُس قادر قدیر خالق کو کبھی فنا نہیں آئے گی۔ صرف بقا ہی بقا اُس کی صفت ہے۔

یہی تا ابد زندہ و قائم رہنے والی ذات، کائنات کا رب جب اپنے سوا کسی اور ذات کو اپنا محبوب، اپنا دلبر، اپنا دلربا، اپنا دلگیر، اپنا دلدار، اپنا دلپذیر، اپنا دل چاہا قرار دے کر اُسے اپنے سے ’’دو کمانوں یا اُس سے بھی کم فاصلے پر‘‘ بُلا کر اپنی انمٹ محبت، لازوال چاہت کی سب داستانیں کہہ ڈالتا ہے تو پھر یہ محبوب بھی فنا کے دائروں سے نکل کر ابدیت کے جہان کا نظارہ کرنے لگ جاتا ہے۔

بھلا محب کب چاہے گا کہ اُس کا محبوب فنا ہوجائے، اُس کی محبتیں اکارت چلی جائیں، اُس کی چاہتیں چند گھڑی کی ہوجائیں، جبھی تو محب نے اپنے لئے ’’الاوّل‘‘ ’’الآخر‘‘ کے وصف تراشے تو محبوب کو بھی ’’اوّل‘‘ اور ’’آخر‘‘ کی حُسن آفرینیوں سے متصف کردیا۔

’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ۔۔۔ ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘

ایک ایسا محبوب جو اپنی خِلقت کے اعتبار سے تمام خلائق سے اول اور اپنی رحمتوںکی تقسیم کیلئے سب سے آخر تک رہیگا۔۔۔ ایک ایسا محبوب جو روشنی کا ہالہ بھی ہے اور نور کی کرن بھی ہے ۔۔۔ جو اجالوں کا نقیب بھی ہے اور چاند کا استعارہ بھی ہے۔۔۔ جو خوشبوئوں کا معدن بھی ہے اور نکہتوں کا مخزن بھی ہے۔۔۔ جو رحمت کا سراپا بھی ہے اور رافت کا دریا بھی ہے۔۔۔ جو ہدایت کا سرچشمہ بھی ہے اور راہبری کا منبع بھی ہے۔۔۔ جو امن کا ضامن بھی ہے اور سلامتی کا سفیر بھی ہے۔۔۔ جو حقوق کا محافظ بھی ہے اور فرائض کا مبلّغ بھی ہے۔۔۔ جو شمشیر و سناں بھی اُٹھاتا ہے اور گُل و یاسمین بھی بانٹتا ہے۔۔۔ جو برائی کا دشمن بھی ہے اور بُروں کی جائے پناہ بھی ہے۔۔۔ جو تخت و تاج و حکومت کو نوکِ پا پہ بھی رکھتا ہے اور جس کی دہلیز پہ زمانے کی بادشاہت کی خیرات بھی بٹتی ہے۔

جس نے اپنے لبوں کی مُسکان، اپنے ہونٹوں کے تبسم کو اپنی امت کی سربلندی، فتحمندی، ارجمندی سے مشروط کردیا ہو۔۔۔ جس نے اپنی آنکھوں کے آنسوئوں، اپنی آشا کی لڑیوں کو اپنے پیروکاروں کی امانت کرکے رکھ چھوڑا ہو۔

صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔صلی اللہ علیہ وسلم

ایک ایسا محبوب جس کی اپنے محب کے سامنے نیاز آفرینی کا عالم یہ ہو کہ خود محب ’’ قُمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلاً‘‘ کی تاکید کرنے لگ جائے۔۔۔ ایک ایسا محبوب جس کی اپنے محب کے سامنے ناز انگیزی کا عالم یہ ہو کہ امتحان گاہِ بدر کو نکلتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کو اُٹھا کے محب سے کہہ دے کہ اگر آج تونے ہم گنتی کے لوگوں پہ اپنی چاہت کی چادر نہ پھیلائی تو قیامت تک تیرا نام لینے والا کوئی نہ ہوگا۔۔۔ ایک ایسا محبوب جو ’’ قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِی السَّمَآءِ‘‘ کے تحت اپنے من میں مچلتی آرزوئوں کو نطق و لب کی امانت بننے سے پہلے ہی اپنے محب کی صفتِ معبودیت کی جلوی گری کا مقام بدلتا ہوا دیکھ لیتا ہے۔۔۔ ایک ایسا محبوب کہ ’’ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی‘‘ کے تحت جس کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ اُس کی اپنی پسند و نا پسند اور خواہشات کے عکاس نہیں بلکہ اُس کے محب کی چاہتوں اور ارادوں کے امین ہوتے ہیں۔

صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم

کوئی پوچھے کہ یہ سب مدحت کس کی ہو رہی ہے؟ سب جانیں کہ یہ سب مدحت کس کی ہورہی ہے، فقط اُس کی جو سراپا اعجاز ہے۔۔۔ جو والی ٔ کائنات ہے۔۔۔ جو انسانیت کا ناز ہے۔۔۔ جو غریبوں کا ہمدم بھی ہے۔۔۔ جو دُرِّ یتیم بھی ہے اور یتیموں کا مولا بھی ہے۔۔۔ جو مولا کا پرستار بھی ہے اور پرستاروں کا دست گیر بھی ہے۔۔۔ جو دست گیروں کا امام بھی ہے اور اماموں کا راہبر بھی ہے۔۔۔ جو راہبروں کا مقدر بھی ہے اور مقدر کا مصور بھی ہے۔۔۔ جو مصورِ اعلیٰ کا شاہکار بھی ہے اور شاہکاروں کا طلبگار بھی ہے۔۔۔ جو طلب گاروں کی دعا بھی ہے اور دعائوں کیلئے باعثِ قبولیت بھی ہے۔۔۔ جو قبولیت کا راز بھی ہے اور راز آشنا بھی ہے۔۔۔ جو آشنائے خدا بھی ہے اور خدا کی دلیل بھی ہے۔۔۔ جو دلیل سے ماوریٰ بھی ہے اور ماوریٰ کا شاہد بھی ہے۔

جس کی نظیر ڈھونڈے سے نہ ملے۔۔۔ جس کا مل جانا نجات کا پروانہ بنے۔۔۔ جو پروانوں کی خاطر غم زدہ ہو جاتا ہے۔۔۔ جس کو غم زدہ کرنا خدا کو غضب ناک بنا دیتا ہے۔۔۔ جو غضب ناکی میں بھی منصف رہا۔۔۔ جومنصف کو ہر حال میں محبوب رکھتا ہے۔۔۔ جس کو محبوب رکھنے والا کسی اور کا محتاج نہ رہے۔۔۔ جو محتاجوں کی نوا بھی ہے اور نوائوں کا اثربھی ہے۔۔۔ جو اثر میں بے مثل بھی ہے اور جس کی مثل کائنات میں نہیں۔۔۔ جو کائناتِ حُسن بھی ہے اور حُسنِ کائنات بھی ہے مگرحقیقت پوچھو تو سچ یہی ہے کہ

مَا اِنْ مَدَحْتُ مُحَمَّدًا بِمَقَالَتِيْ
وَلٰکِنْ مَدَحْتَُ مَقَالَتِيْ بِمُحَمَّدَا

ورنہ ایک اُمی و عامی، ’’راشد کلیامی‘‘ اُس نیرِّ تاباں، مہرِ درخشاں، ماویٰ ٔ فقیراں، جلوہ گاہِ غریباں، کی رحمتوں بھری چوکھٹ پہ اپنا دستِ طلب کیسے پھیلا سکتا ہے؟ یہ تو مچلتی محبتوں، سسکتی تمنائوں کی گٹھڑی باندھے، اپنے رخساروں پہ آنسوئوں کے ستارے ٹانکے، اپنے پِیا کی دہلیز کے ساتھ چپکا، چپ چاپ کھڑا ہے کہ:

ہزار باربشویم دہن زمشک و گلاب
ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است

اور

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا

لیکن کس کا جگرا کہ اس حقیقت سے انکاری ہو کہ:

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است

انسانیت کی ہدایت و راہنمائی کیلئے اتارے گئے خدا کے دین کو اگر مجسم صورت میں دیکھنا ہو تو ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھنا چاہیے کہ ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نفی کے بعد جو کچھ بچ جائے وہ جہالت و گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ ہدایت، حیاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوسرا نام اور کائنات کی بقا محتاجِ وجودِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔

صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم

صفتِ خدا قرآن میں وارد، تعارفِ رسول کے عکس سے لفظوں کے جودائرے ہم تراش سکے وہ یہی ہیں کہ (ھُوَ الَّذِيْ) یہ کسی مخلوق کی دسترس میں نہیں بلکہ لافانی ذات کا ذاتی فیصلہ تھا کہ (بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلاً) اُس نے تخلیقِ کائنات سے کہیں پہلے اپنی صنّاعی کا شاہکار ایک پیکر تخلیق کرکے اسے اپنی محبوبیت کے اعزاز سے سرفراز کیا اور پھر اسے رسالت کا منصب عطا کرکے ردائے کائنات لپیٹنے سے قبل علمِ حقیقی سے نابلد ان پڑھوں کے ایک طبقہ انسانی میں مبعوث کردیا۔

(مِّنْهُم) یہ رسول اپنے اخلاق و فضائل میں اس درجہ کمال پہ تھا کہ اُس نے لمحوں اور ثانیوں میں لوگوں کے دل جیت لئے اور لوگوں کی خیر خواہی اس طور کی کہ وہ سمجھے گویا یہ انہی میں سے کوئی ان کا چاہنے والا ہو۔

(يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِه) پھر وہ ایک سہانی صبح فاراں کی چوٹیوں پہ چڑھ کر اپنوں سے کہتا ہے کہ تمہارے بیچ گزاری ہوئی برسوں کی زندگی جسے تم اپنی جاگتی آنکھوں سے پڑھتے رہے، یہ میرے سچے خدا کی آیتیںہی تھیں۔

(وَيُزَکِّيْهِمْ) پھر وہ آلائشوں میں لتھڑے انسانوں کو تا قیام قیامت پاک کرنے کی ذمہ داری نبھاتا ہے کہ یہ ذمہ داری فقط اسی کو زیبا ہے۔ کیونکہ پاک کرنے کی صلاحیت اُسی میں ہوسکتی ہے جو پہلے خود ہر آلائش ،کمزوری اور عیب سے پاک ہو۔

(وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَة) اور پھر ان کو کتاب و حکمت اور تقدیر و بقا کی تعلیم دیتا ہے۔

(وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْن) یہ ثابت شدہ ہے کہ ہدایتِ انسانی کاآخری زینہ نقوشِ قدمِ رسول ہی کے ذریعے پہچانا جاسکتا ہے۔

بعثتِ رسول سے پہلے تو روشنیاں قید اور اندھیروں کا راج تھا۔ ذاتِ کامل کے اسوہ کی روشنیوں کی لَو جب بڑھی اور اُس کی کرنیں یہاں سے وہاں اوراِدھر سے اُدھر کو پھیلنے لگیں تو گدڑیوں میں لپٹے دنیا سے بے تعلق، بے غرض لوگوں کے دلوں میں ان کرنوں کو پالینے کی طمع نے انگڑائیاں لینا شروع کردیں۔ پھر کیا ہوا کہ کسی کے ہاتھ ننھی سی کرن آئی تو کسی نے شعاع کو پالیا۔ کسی نے ایک ہالہ سمیٹ لیا تو کوئی اجالوں کاایک سلسلہ اپنے من میں سمونے لگ گیا۔ من میں بسے اجالے جب نور بن کر چہروں سے پھوٹے تو شناختیں آسان ہوگئیں۔ کوئی چہرہ اویس قرنی کہلایا توکوئی رابعہ بصری۔۔۔ کوئی علی ہجویری، عبدالقادر جیلانی، شہاب الدین سہرودری، بہائوالدین نقشبند، صابر کلیری اور حاجی محمد نوشہ گنج بخش کے نام جانا گیا۔۔۔ کوئی بابا تاج الدین ناگپوری، حاجی وارث علی شاہ، محکم الدین سیرانی، بو علی قلندر، شاہ رکن عالم، نظام الدین اولیاء، عبدالطیف بھٹائی، شمس تبریز، مہر علی، طاہر علائو الدین الگیلانی اور کوئی فضل الدین کلیامی(رحمہم اللہ) کہلایا۔

یہ سب نام اس فانی دنیا کے لافانی خالق کے لافانی محبوب کے گلستان ِ ہدایت میں اُگنے والے لافانی گُلوں کے ہیں۔ جن کی تازگی سے کائنات تازہ ہے۔۔۔ جن کی شگفتگی سے انسانیت خنداں ہے۔۔۔ اور جن کی مہک سے جنت آباد ہے۔ یہ سب نام اُس ایک نامِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مختلف آئینوں میں جھلکتی اور مختلف جاموں میں چھلکتی نورآور لکیریں ہیں۔ یہ سب نام ایک سراج منیر کے گرد جمع ہونے والے پروانے ہیں۔۔۔ یہ سب نام عکس ہیں اُس سیرۃ مطہرہ کے جس کا ہر ہر پہلولائق تقلید و اتباع ہے۔۔۔ یہ سب نام شمعیں ہیں، اُس ایک شمعدان کی جو نورِ ازل کا نقیب ہے۔۔۔ یہ سب نام زاویے ہیں اُس لافانی حُسن کے جس کی خیرات چاہناکسی کو تحقیر کی وادیوں میں نہیں بلکہ فضل کی بلندیوں پہ لے جاتا ہے۔

سراپا حُسن بن جاتا ہے جس کے حُسن کا طالب
بھلا اے دل حسین ایسا بھی ہے کوئی حسینوں میں

صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم