سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس اور انسداد دہشتگردی کی عدالت کا فیصلہ

عین الحق بغدادی

7 فروری 2017 ء کے دن انسداد دہشتگردی کی عدالت کی طرف سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے دائر استغاثہ پر فیصلہ سناتے ہوئے 139 ملزمان میں سے وزیراعظم،وزیراعلیٰ پنجاب سمیت ان 12 ملزمان کو طلب نہیں کیا گیا جن کا سانحہ ماڈل ٹاؤن سے براہ راست تعلق ہے اور جن کے متعلق عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے وکلاء کی طرف سے اے ٹی سی میں ٹھوس شواہد پیش کیے گئے۔

پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس سانحہ کے ماسٹر مائنڈز (وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور وزرائ) کو طلب نہ کیے جانے کے اے ٹی سی کے اس فیصلے کے اس حصے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

اس استغاثہ کو دائر کرنے کا پسِ منظر یہ ہے کہ 17 جون 2014ء کو ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس نے حکامِ بالا کے احکامات پر منہاج القرآن سیکرٹریٹ اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ پر حملہ کرتے ہوئے 14 افراد کو شہید اور 80 سے زائد کو گولیاں مار کر شدید زخمی کردیا تھا۔ اس سانحہ پر پولیس نے پاکستان عوامی تحریک اور شہداء کے ورثاء کی طرف سے درج ہونے والی ایف آئی آر نمبر 696 پر قانون کے مطابق تفتیش کرنے کے بجائے قانون اور انصاف کا قتل عام کیا اور دو پولیس والوں سمیت عوامی تحریک کے 42 کارکنوں اور عہدیداروں کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے چالان اے ٹی سی میں پیش کر دیا۔پولیس کی اس غنڈہ گردی اور انصاف کے قتل عام پر بلآخر پاکستان عوامی تحریک نے استغاثہ دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔

ٹھوس شواہد کے باوجود۔۔۔؟

استغاثہ 15 مارچ 2016 ء کے دن دائر کیا گیا اور لگ بھگ 9 ماہ تک اس استغاثہ پر عوامی تحریک کے وکلاء نے ٹھوس دلائل اور شواہد پیش کیے جن میں 56 چشم دید گواہان نے عدالت میں گواہیاں قلمبند کروائیںاور تمام پولیس افسران اور اہلکاروں کے نام بتائے جنہوں نے 17 جون 2014 ء کے دن ماڈل ٹاؤن میں منہاج القرآن اور سربراہ عوامی تحریک کی رہائش گاہ کے سامنے خون کی ہولی کھیلی۔ سماعت کے دوران عوامی تحریک کی طرف سے اے ٹی سی میں ماسٹر مائنڈز کے خلاف ٹھوس شواہد پیش کیے گئے۔

قارئین کے مطالعہ کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ قانون کے مطابق دائر استغاثہ کے ضمن میں ملزمان کو طلب کرنے کیلئے ان کا ذکر کر دینا ہی کافی سمجھا جاتا ہے اور واقعاتی شہادتیں دینا ہی کافی ہوتی ہیں مگر یہاں وہ شہادتیں دی گئیں جو سزا کے لیے بھی کافی ہوتی ہیں۔ عوامی تحریک کے رہنمائوں محترم خرم نواز گنڈاپور اور محترم فیاض احمد وڑائچ نے عدالت کے روبرو ایک ٹھوس شہادت دی کہ 15 جون 2014 ء کی شام حکمرانوں نے انہیں بلا کر ڈاکٹر طاہر القادری کی وطن واپسی کے شیڈول کو تبدیل کرنے کی دھمکی دی اور کہا کہ اگروہ پاکستان آئے تو پھر سنگین نتائج کے لیے تیار رہیں۔ یہ ٹھوس شہادت ماسٹر مائنڈز کو طلب کرنے کے لیے کافی تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا اور انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے وزیراعظم، وزیراعلیٰ سمیت اس سانحہ کے ماسٹر مائنڈز کو طلب کرنے کے بجائے ان ماسٹر مائنڈز کے احکامات پر عمل کرنے والے پولیس افسران و اہلکاران کو طلب کرلیا۔

وزیر قانون اور وزیراعلیٰ کے بیاناتِ حلفی

یہ امر ذہن نشین رہے کہ پاکستان عوامی تحریک کے وکلاء نے عدالت کو جے آئی ٹی کی ایک رپورٹ کی کاپی بھی دی جس میں وزیرقانون پنجاب کا یہ بیان شامل ہے کہ اس نے 16 جون 2014 ء کے دن سول سیکرٹریٹ میں ایک میٹنگ کی۔ اس میٹنگ کا ایجنڈا ماڈل ٹاؤن میں سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر سے بیریئر ہٹانا تھا اور اس میٹنگ میں وزیراعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ، ہوم سیکرٹری اعظم سلیمان اور کمشنر لاہور ڈویژن راشد محمود لنگڑیال بھی شریک تھے۔

اس بیان میں ملزم سانحہ ماڈل ٹاؤن سے اپنے تعلق کا تحریری اعتراف کررہے ہیں۔اس اعتراف کے بعد کیا وزیر قانون کے اس سانحہ میں ملوث ہونے کے حوالے سے کسی اور ثبوت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟

اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی اپنے بیان میں اعتراف کیا کہ 17 جون 2014 ء کی صبح ساڑھے 9 بجے سے قبل ان کے علم میں یہ بات آ چکی تھی کہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس جمع ہے اور انہوں نے کہا کہ میں نے پولیس کو ہٹ جانے کا حکم دیا تو گویا 10بجے سے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب بھی باخبر ہو چکے تھے۔

حکم دینے والے بری الذمہ کیوں؟

عدالت نے استغاثہ کا فیصلہ سناتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں آئی جی پنجاب کو طلب کیے جانے کے ضمن میںفیصلے میں لکھا کہ وہ 17 جون 2014 ء کی صبح 9:55 اپنے دفتر میں موجود تھے۔ اگر آئی جی پنجاب کو محض اس بات پر طلب کیا جا سکتا ہے کہ صبح 9:55 پر وہ اپنے فرائضِ منصبی سنبھال چکے تھے تو وزیراعلیٰ پنجاب بھی تو 10بجے سے پہلے سانحہ سے باخبر ہونے کا اعتراف کر چکے ہیں، اسی شہادت کی بنیاد پر انہیں اور وزیر قانون کو طلب کیوں نہیں کیا گیا؟ ہمارا اے ٹی سی کے فیصلے پر سب سے بڑا تحفظ یہ ہے کہ حکم ماننے والوں کو تو طلب کر لیا گیا جبکہ حکم دینے والوں کو چھوڑ دیا گیا، اس سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کا سیاسی پس منظر

سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ایک سیاسی پس منظر ہے، اس پسِ منظر کو نظر انداز کرتے ہوئے اس سانحہ کے ذمہ داران تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ اس واقعے کا سیاسی پس منظر یہ ہے کہ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری عرصہ دراز سے پاکستان کے بگڑے ہوئے سیاسی نظام اور اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال موجودہ فرسودہ نظام میں تبدیلی لانا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ہمیشہ اپنے کارکنان کی تربیت بھی کی اور بیداریٔ شعور مہم کے ذریعے اس پیغام کو پاکستانی قوم تک پہنچایا۔

  • 23دسمبر2012ء کو قائد انقلاب کی پاکستان آمد پر مینار پاکستان ایک جلسہ عام رکھا گیا جس میں عوام نے اتنی کثیر تعداد میں شرکت کی کہ پاکستان کی تاریخ کے تمام جلسوں کے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔یہ وہ اجتماع تھا جس نے پہلی بار اربابِ سیاست کو پریشان کیا۔
  • اس کے معاً بعد اسلام آباد کی طرف 13 جنوری 2013ء کو پہلا منظم لانگ مارچ ہوا جس نے ایک اور نئی تاریخ رقم کی۔
  • 11 مئی2013ء کو جعلی الیکشن کمیشن کے ذریعہ ہونے والے نام نہاد انتخابات کا پاکستان عوامی تحریک نے نہ صرف بائیکاٹ کیا بلکہ انتخابات والے دن ملک گیر دھرنوں کے ذریعے انتخابات پر عدم اعتمادکے اظہار کے ساتھ ساتھ ہر بڑے شہر میں افرادی قوت کا بھی مظاہرہ کیا۔
  • قائد انقلاب نے29 مئی 2014 ء کو ق لیگ کی قیادت کے ہمراہ لندن میں پریس کانفرنس کی جس میں عوامی خوشحالی پر مبنی10 نکاتی انقلابی ایجنڈے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کو قومی میڈیا پر غیر معمولی پذیرائی ملی اور یہ خبریں چلنا شروع ہوئیں کہ حکومت کے خلاف ایک بڑاالائنس تشکیل پانے والا ہے اور تحریک چلنے والی ہے۔ان خبروں سے حکمران حواس باختہ ہوگئے۔

جب حکمرانوں کو یقین ہو گیا کہ اب ان کے خلاف تحریک چلے گی چونکہ انہیں23 دسمبر2012ء کے عوامی اجتماع اور 11 مئی2013ء کے احتجاجی دھرنوں سے اندازہ ہو گیا تھا کہ عوام سڑکوں پر آنے کے لیے تیار ہیں توشریف برادران نے 12 اپریل 2014 ء کے بعد دی جانے والی دھمکیوں پر عملدرآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔

  • 15 جون 2014ء کے دن وزیراعظم نے جاتی عمرہ میں وزیراعلیٰ پنجاب سے ہنگامی ملاقات کی جس کا واحد ایجنڈا قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی پاکستان آمد کو ہر حال میں روکنا تھا۔ قومی اخبارات نے اس ملاقات کے ایجنڈے کے حوالے سے اگلے دن خبریں شائع کیں۔
  • 15 جون2014 ء کے ہی دن حکمرانوں نے پاکستان عوامی تحریک کے سینئر رہنمائوں کو بلا کر دھمکیاں دیں اور کہا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد کو روکیں یا سنگین نتائج کے لیے تیار رہیں۔
  • 16 جون کو قائد انقلاب نے پریس کانفرنس کے ذریعہ نواز شریف،شہباز شریف،چوہدری نثار،خواجہ آصف،خواجہ سعد رفیق،پرویز رشید،حمزہ شہباز اور عابد شیر علی آٹھ افراد پر عوامی ایف آئی آر کروائی کہ میری جان کو یا تحریک کے کسی کارکن کو کسی قسم کا کوئی نقصان ہوا تو یہ افراد ذمہ دار ہوں گئے۔یہ ایف آئی آر ان وزراء کی طرف سے ملنے والی مسلسل دھمکیوں کے نتیجے میںتھی۔
  • جب حکمرانوں نے دیکھ لیا کہ قائد انقلاب کا پاکستان آنے کا فیصلہ اٹل ہے تو انھوں نے فوری میٹنگ طلب کی جس کا مقصد ہر ممکن طریقے سے ڈاکٹر صاحب کی آمد کو روکنا تھا۔ چنانچہ 16 جون 2014 ء کو رانا ثناء اللہ نے سول سیکرٹریٹ میں ایک میٹنگ کی۔ اس میٹنگ میں وزیراعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ،کمشنر لاہور راشد محمود لنگڑیال اور ہوم سیکرٹری اعظم سلیمان شریک تھے۔ ان تینوں افراد نے اس ملاقات کا اعتراف پنجاب حکومت کی طرف سے قائم کی جانے والی جے آئی ٹی کے روبرو بھی کیا جو ریکارڈ پر ہے۔ صوبائی وزیر قانون نے جے آئی ٹی کے روبرو یہ اعتراف کیا کہ یہ میٹنگ ماڈل ٹاؤن میں بیئررز ہٹائے جانے کے لیے بلائی گئی تھی۔
  • چنانچہ اس میٹنگ میں ہونے والے فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے 17جون کو خون کی ہولی کھیلی گئی۔

چند سوالات

  1. کیا مذکورہ میٹنگ کا اعتراف ان افراد کے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے تعلق کو ثابت نہیں کرتا۔۔۔؟کیونکہ یہی واقعہ سانحہ ماڈل ٹاون کا سبب بنا۔
  2. اگر حکومت پنجاب کا مقصد بیئررز ہٹانا تھا تو دن کے وقت آتے، رات کے ایک بجے آنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔؟
  3. بیئررز ہٹانے کے لیے پولیس کی تین ہزار نفری کی کیا ضرورت تھی۔۔۔؟ اور سب سے اہم بات کہ بیئررز ہٹانے کا کام پولیس کا نہیں بلکہ ٹی ایم اے کی ٹیم کا ہوتا ہے اور اگر ضرورت پڑے تو وہ پولیس کو باضابطہ درخواست کرتا ہے جبکہ یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔
  4. پولیس کا ہائی کورٹ کے حکم نامے کو بھی نہ ماننا اور ہر صورت بیئررز ہٹانے پر اصرار کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انھیں قتل و غارت گری کاحکم ملا ہوا تھا۔ پولیس کا مقصد رکاوٹیں ہٹانا نہیں بلکہ جانی نقصان پہنچانا تھا تاکہ قائد انقلاب خوفزدہ ہوجائیں اور ملک آنے کا فیصلہ تبدیل کردیں اور عوام بھی ڈر اور خوف کے باعث حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر نہ نکلے۔
  5. اس پر ایک اور مضبوط دلیل رانا ثناء اللہ کا وہ بیان ہے جو اُس نے 17جون2014ء کو ہی پنجاب اسمبلی کے فلور پر حزب اختلاف کے نکتہ اعتراض پر دیا تھا۔اس نے کہا کہ ریاست کے اندر ریاست قائم نہیں ہونے دیں گئے اور ہمیں مصدقہ اطلاعات ملی ہیں کہ پاکستان عوامی تحریک نے ملک میں انارکی پھیلانے کے لیے اسلحہ جمع کر رکھا ہے اور کارکنان کی عسکری تربیت کے ساتھ ساتھ ان سے قرآن پر حلف لیا جا رہا ہے۔ بعد میں وقت نے جھوٹوں کے اس سردار کے سارے دعوے غلط ثابت کر دیے۔کیا رانا ثناء کا یہ بیان سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ساتھ ان کے تعلق کو ثابت نہیں کرتا۔۔۔؟
  6. اگر حکومتی ٹولہ اس سازش میں شریک نہیں تھا تو گیارہ گھنٹے کی اس لڑائی کو روکنے کا حکم کیوں نہیں دیا گیا۔۔۔؟
  7. حکمران ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ اُن کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں،اگر تعلق نہیں تھا تو پھرخون کی ہولی کھیلنے والے پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف کاروائی کیوں نہ کی۔۔۔؟
  8. جسٹس باقر علی نجفی کمیشن کی رپورٹ شائع کیوں نہیں کی گئی۔۔۔؟
  9. مان لیں کہ اس پورے واقعے کی کسی حکومتی وزیر،مشیر کو خبر نہیں ہوئی تو پھر پتہ چلنے پر ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی گئی۔۔۔؟
  10. اس واقعہ کے ذمہ داران میں سے بعض پولیس افسران کو عہدوں سے نوازا گیا اور deputation پر بیرون ملک بھیج دیا گیا۔ کیا حکومت کا پولیس کے خلاف کاروائی نہ کرنا اور انھیں تحفظ دینا، اس سانحے کے ساتھ ان کے تعلق کو ظاہر نہیں کرتا۔۔۔؟
  11. اگر حکمران طبقہ اس سانحے کا پلانر نہیں ہے تو پھر مقتولین و مجروحین کی ایف آئی آر کیوں درج نہ ہونے دی بلکہ اُلٹا مقتولین اورزخمیوں کے لوحقین کے خلاف پولیس کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کر کے انسانیت کے بعد انصاف کا قتلِ عام کیا گیا۔کیا یہ ’’شریفوں‘‘ کی بدمعاشی پر واضح دلالت نہیں۔۔۔؟
  12. شہداء کے ورثاء کو دیت لینے پر مجبور کرنا بھی کیا حکومت کے اس سانحے میں شامل ہونے کے لیے کافی نہیں۔۔۔؟
  13. اس واقعے کے فوراً بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے ایک کمیشن بنایا جس نے حکومت پنجاب کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا،ایسی صورت میں حکومت نے باقر علی نجفی کمیشن کی رپورٹ دبا دی۔ اگر اس رپورٹ میں ’’شریف‘‘ لوگوں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا تھا تو رپورٹ کیوں منظر عام پر نہیں آنے دی۔ کیا یہ بھی اس واقعے کے ساتھ حکومت کے تعلق کو ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہے۔۔۔؟
  14. اگر شریف برادران خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں تووہ شہداء اور زخمیوں کے ورثاء کی تائید سے جے آئی ٹی کی تشکیل سے خوفزدہ کیوں تھے۔۔۔؟
  15. اگر شریف برادران اس سانحے کے ماسٹر مائنڈ نہیں تھے تو پھر عدالت کے حکم کے باوجود پاکستان عوامی تحریک کی ایف آئی آر درج کیوں نہیں ہونے دی گئی۔۔۔؟
  16. ان کے وزراء نے عدالتی فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع کیوں کیا۔۔۔؟
  17. ہائیکورٹ سے رٹ خارج ہونے کے بعد بھی ایف آئی آر درج کیوں نہ ہونے دی گئی۔۔۔؟ جسے بعد ازاں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مداخلت پر درج کیا گیا۔
  18. پنجاب حکومت کی ہدایت پر بننے والی پہلی جے آئی ٹی میں ’’ایم آئی‘‘ اور ’’آئی ایس آئی‘‘ کے اختلافی نوٹ کو پولیس نے جے آئی ٹی رپورٹ سے نکال دیا اور لف دستاویزات کی فہرست میں یہ لکھا کہ جے آئی ٹی مکمل رپورٹ لف ہے۔اگر ان لوگوں کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں تو پھر ان ایجنسیوں کے اختلافی نوٹ کو کیوں غائب کیا گیا۔۔۔؟

یہ وہ سارے حقائق ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ شریف برادران سانحہ ماڈل ٹائو ن میں براہ راست ملوث ہیں۔ وہ انسانی خون بہانے کے ساتھ ساتھ انصاف کے قتل عام میں بھی پیش پیش ہیں۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے ہمارا بنیادی موقف اور مطالبہ ہے کہ شریف برادران اور ان کے وزراء کو طلب کیا جائے کیونکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے منصوبہ ساز اورماسٹر مائنڈ شریف برادران ہی ہیں اور اس واقعے کا براہ راست فائدہ بھی انہی کو پہنچا ہے۔