اداریہ: سوشل میڈیا پر اہانت آمیزمواد، ذمہ دار ادارے بے خبر کیوں؟

کامل ایمان کا انحصار تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم پر ہے

نوراللہ صدیقی

حدیث مبارکہ ہے کہ ’’ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے والدین، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائوں‘‘ اقامت و احیائے دین کا دارومدار ایمان پراور پھر کامل ایمان کا انحصار حضور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت اور انتہا درجہ کی تعظیم و تکریم پر ہے۔ کچھ عرصہ سے دشمنان اسلام و دشمنان پاکستان ہماری مقدس ہستیوں کے خلاف ہرزہ سرائی کر کے مسلسل اذیت میں مبتلا رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی اساس اور اسکی جغرافیائی سرحدوں پر حملوں کے بعد اسلامیان پاکستان کے ایمان اور عقیدے پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پر ایسے پیجز چلائے جارہے ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں شدید گستاخی کی جارہی ہے۔ اس معاملہ نے اس وقت شدت اختیار کی جب اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے اس کا نوٹس لیا گیامگر حکومت اور اس کے ذیلی ادارے اس نوٹس لیے جانے تک سارے معاملہ سے لاتعلق اور بے خبر رہے۔ سوشل میڈیا پر شان اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلممیں ہرزہ سرائی اورحکومت وقت اور اس کے ذیلی اداروں کا بروقت حرکت میں نہ آنا اور کارروائی کا نہ ہونا قابل مذمت اور قابل گرفت ہے۔

حکومت اور اس کے ذیلی اداروں کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اس توہین آمیز مواد کی روک تھام کے لیے متحرک ہوتے اور ذمہ داروں کو کڑی سے کڑی سزا دی جاتی مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔جب مجاز ادارے بروقت ایکشن نہیں لیتے تو پھر عوامی حلقوں میں اشتعال جنم لیتا ہے اور یہی اشتعال قانون کو ہاتھ میں لیے جانے کا سبب بنتا ہے، شان اقدس میں گستاخی کوئی ایسا عمل نہیں کہ جس پر روایتی احتجاج کے بعد خاموشی اختیار کر لی جائے، یہ ہر مسلمان کے ایمان اور عقیدے کا معاملہ ہے، حیرت ہے حکمران اور ذمہ دار اداروں نے اس سنگین معاملہ پر سنجیدگی نہیں دکھائی اور در پردہ ملکی امن کو تہہ و بالا کرنے پر مُصررہے۔ یہ امر بھی تشویشناک ہے کہ سوشل میڈیا پر سالہا سال منفی اور قابل اعتراض سرگرمیاں جاری رہتی ہیں جن سے معاشرے میں نفرت پنپ رہی ہے ،ایسے گروہ متحرک ہیں جو مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے نفرت اور تشدد کوہوا دے رہے ہیں۔ عوامی، سیاسی، سماجی، مذہبی حلقے عرصہ دراز سے نشاندہی کرتے چلے آرہے ہیں کہ ان شر پسند عناصر کا راستہ اور ان کی سائبر دہشت گردی کو ختم کیا جائے مگر ذمہ دار اداروں نے اس پر کان نہیں دھرے اور نتیجہ توہین آمیز پیجز پر کھلی فکری دہشتگردی کی صورت میں سامنے آیا۔

المیہ یہ ہے کہ حکومت وقت بذات خود کرپشن، بدعنوانی اور بیڈ گورننس جیسے مسائل میں گھری ہے اس میں اتنی انتظامی جرأت اور سکت ہی نہیں کہ وہ نازک ایشوز پر اپنا فیصلہ کن انتظامی کردار ادا کر سکے، حکومت نے اپنی بیڈگورننس اور کرپشن کے خلاف سوشل میڈیا پر ہونے والے تبصروں کا راستہ بند کرنے کیلئے تو سائبر کرائم بل منظور کیے مگر مقدس ہستیوں کے خلاف توہین آمیز مواد کا راستہ بند کرنے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ بادل نخواستہ جب حکومت کو کسی اہم ایشو پر قانون سازی کرنی پڑ جائے تو وہ قانونی ڈرافٹ میں ایسے نکات شامل کر دیتی ہے جن سے اسے بلواسطہ یا بلاواسطہ سیاسی فوائد اٹھانے اور سیاسی مخالفین سے نمٹنے کی سہولت مل جائے، اسی حکومتی رویے کے باعث بل متنازعہ بن جاتا ہے جیسے حکومت نے سائبر کرائم بل میں ایسے نکات شامل کیے جو میڈیا کی آزادی اور آزادی اظہار سے متصادم تھے اور بحث و تمحیص معیاری بل بنانے کی بجائے آزادی اظہار کے تحفظ تک محدود ہو گئی۔

سوشل میڈیا پر توہین آمیز اور نفرت انگیز مواد کی روک تھام کے لیے حکومت نے کوئی پالیسی اور سٹرٹیجی وضع نہیں کی، سائبر کرائم بل بھی ایک ناقص اور اصلاح طلب ہے ۔ایسی حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت توہین آمیز مواد کی فلٹریشن ہو سکے اور ایسے شر پسند عناصر کا راستہ روکا جا سکے۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سکیورٹی اور دفاع کے خلاف مواد کا سدباب کرے ۔ لیکن زمینی حقائق نشاندہی کررہے ہیں کہ جب سے سائبر کرائم بل بنا ہے اس کے بعد سائبر دہشتگردی میں اضافہ ہو چکا ہے۔ 5 کروڑ روپے تک جرمانہ اور 14 سال کی سزا کا بھی کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ، یہاں قومی ایکشن پلان کا ذکر بھی ضروری ہے، قومی ایکشن پلان میں بھی یہ بات شامل تھی کہ نفرت انگیز اور فرقہ واریت کو ہوا دینے والے مواد اور کتب کو تلف کیا جائے گا مگر قومی ایکشن پلان کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کی روداد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمیشن کی رپورٹ میں دیکھی جا سکتی ہے، اس رپورٹ میں قومی ایکشن پلان جو درحقیقت وطن عزیز کو دہشتگردی سے پاک کرنے کا پلان ہے کو ناکام بنانے کی ذمہ داری وزارت داخلہ پر ڈالی گئی مگر تاحال اس رپورٹ کی روشنی میں حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی، یہی وہ غیر سنجیدہ اور مجرمانہ غفلت پر مبنی رویے ہیں جو سانحات کو جنم دیتے ہیں۔

سوشل میڈیا رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والا ایک طاقتور میڈیم بن چکا ہے اسے بند تو نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کے مضر اثرات سے محفوظ ضرور رہا جا سکتا ہے ،ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایسے فول پروف اقدامات کرے کہ کوئی سائبر دہشتگردی نہ کر سکے اور کروڑوں اسلامیان پاکستان اور ملت اسلامیہ کے مذہبی جذبات کو مجروح نہ کر سکے یہ کام محض بیانات داغنے سے نہیںہو گا بلکہ اس کیلئے آئی ٹی ماہرین اکٹھے کیے جائیں جو توہین آمیز مواد اور پیجز کی روک تھام اور آئندہ کے لیے مواد کی پوسٹنگ روکنے کے لیے سافٹ ویئر تیار کریں اور کچھ ایسے سکیورٹی چیک لگائے جائیں تا کہ آئندہ کیلئے کوئی شر پسند اور اسلام و پاکستان کا دشمن دوبارہ ایسی مکروہ حرکت نہ کر سکے۔