اُمتِ مسلمہ کی زبوں حالی کا تدارک

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

(واقعہ ذو القرنین علیہ السلام کی روشنی میں)

آج امت مسلمہ کی زبوں حالی سے ہر درد مند دل پریشان ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور دست بہ دعا ہے کہ وہ اس امت مرحومہ کو زوال سے نکالنے کی سبیل پیدا فرمائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ محض دعائوں اور وظائف و اذکار کے ذریعے پریشانیاں اور زوال ختم نہیں ہوتے بلکہ اس کا قانون یہ ہے کہ وہ اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک خود اس قوم میں اپنی حالت بدلنے کا مصمم ارادہ پیدا نہ ہو۔

قرآن حکیم میں جابجا اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کا ذکر کیا ہے جو حالات کے سامنے جھکنے کے بجائے ڈٹ گئے۔ ان کی جرأت و جواں مردی اور بے لوث قربانیوں پر نصرت الہی نے انہیں کامیابی و کامرانی سے سرفراز کیا۔ قرآن مجید میں ان جرأت کے پیکر رہنماؤں اور قائدین کا بیان درحقیقت ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ ان مردانِ خدا کی تقلید کے بغیر امت مسلمہ کا زبوں حالی سے باہر نکلنا ناممکن ہے۔

زیر نظر سطور میں ہم واقعہ ذوالقرنین کی روشنی میں اُمت کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔

اللہ تعالیٰ نے سورۂ کہف میں اپنے بندے ذوالقرنین کا ذکر کیا ہے جنہیں زمین کے تمام وسائل، اسباب، قوت و تمکنت کے ساتھ اقتدار عطا کیا اور management & administration کے تمام اسرار و رموز سے بھی آگاہ کیا۔ اس واقعہ میں ہمیں اس امر سے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، وہ آج بھی ایسے بندے پیدا کرسکتا ہے جن کے اقتدار کا سورج مشرق سے مغرب تک ہو، جو شرق و غرب میں بیک وقت اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں اور جن کی بصیرت بیک وقت مشرق و مغرب کا احاطہ کیے ہوئے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ رحمت خداوندی اس حقیقی تبدیلی کے لیے مسلمانوں کی طرف سے طلبِ صادق کی منتظرہے۔ طلبِ صادق حقیقت میں جرأتِ کردار اور صبر و استقامت کے ساتھ باطل کے خلاف کھڑے ہونے سے عبارت ہے۔

قرآن مجید میں ذوالقرنین کا ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اِنَّا مَکَّنَّا لَهُ فِی الْاَرْضِ وَاٰتَيْنٰهُ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ سَبَبًاo

’’بے شک ہم نے اسے (زمانۂ قدیم میں) زمین پر اقتدار بخشا تھا۔ اور ہم نے اس (کی سلطنت)کو تمام وسائل و اسباب سے نوازا تھا‘‘۔

(الکهف، 18: 84)

اس آیت کریمہ میں ذو القرنین، ان کی سلطنت اور اُن کو حاصل وسائل و اسباب کا تعارف کروایا جا رہا ہے کہ اللہ رب العزت نے ذوالقرنین کو اقتدار، قوت، اہلیت، وسائل، تمکن فی الارض اور قوت و جرأت عطا کی تھی۔ اللہ کی طرف سے حاصل اس صلاحیت و اہلیت نے ذوالقرنین کو دنیوی طاقت کے مقابلے میں سرنگوں ہونے سے محفوظ رکھا اور وہ د نیا کے کسی مفاد کی خاطرنہ بکے، نہ جھکے اور نہ کسی سے خوفزدہ ہوئے۔ اسی وجہ سے وہ مشرق و مغرب کی متواتر کئی مہمات میں کامیابی سے سرخرو ہوئے۔ ذیل میں قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں انہی مہمات اور ان سے حاصل ہونے والے اسباق و نتائج کو بیان کیا جارہا ہے:

مغرب کی مہم

ذوالقرنین نے پہلا سفر مغرب کی جانب کیا، اللہ رب العزت نے اس بارے ارشاد فرمایا:

حَتّٰی اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِيْ عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَّوَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا.

’’یہاں تک کہ وہ غروبِ آفتاب (کی سمت آبادی) کے آخری کنارے پر جا پہنچا وہاں اس نے سورج کے غروب کے منظر کو ایسے محسوس کیا جیسے وہ (کیچڑ کی طرح سیاہ رنگ) پانی کے گرم چشمہ میں ڈوب رہا ہو اور اس نے وہاں ایک قوم کو (آباد) پایا۔‘‘

(الکهف، 18: 86)

اللہ رب العزت نے یہاں طلوع آفتاب سے پہلے غروب آفتاب کا ذکر کیا حالانکہ واقعتاً سورج پہلے طلوع ہوتا ہے اور پھر غروب۔ اس ترتیب سے بظاہر مشرق کا ذکر مغرب سے پہلے ہونا چاہیے تھا مگر یہاں معکوس الترتیب ذکر کا مقصد یہ تھا کہ کسی مظلوم قوم کے پاس مسیحا تب بھیجا جاتا ہے جب اس کے اقتدار کا سورج زوال پذیر ہو چکا ہو۔ جب قوموں پر زوال آتے ہیں تو ظلم کی سیاہ رات چھا جاتی ہے اور ظالموں، غاصبوں اور استحصالی طاقتوں کے آہنی شکنجے عوام سے اُن کا حق چھین لیتے ہیں۔ ایسے میں وہ لوگ غروب آفتاب کی مانند ظلم کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں، جسے قرآن میں سیاہ پانی سے تشبیہہ دی گئی ہے۔

یہ منظر دکھا کر فرمایا: وہاں بھی ایک قوم تھی جس پر ظلم و ستم کا ایک بازار گرم تھا۔ اس میں استحصالی، غاصبانہ، جابرانہ، ظالمانہ اور لٹیرا شاہی نظام مسلط تھا۔ ظلم کی اندھیری رات اس پورے عالم پر چھائی ہوئی تھی۔ ظلمت کی اس تاریکی نے قوم کو مقصد سے بے خبرکرنے کے ساتھ ساتھ ان سے کچھ کر گزرنے کا حوصلہ بھی سلب کر لیا تھا۔ ظالم و جابر طبقے کے ظلم اور استحصالی نظام نے اُن کے جان و مال اور عزت و آبر کو پامال کر کے رکھ دیا تھا۔ ایسے حالات میںیہاں حضرت ذوالقرنین قوم کی مدد کے لئے مسیحا بن کر آئے۔

قوم کا مسیحا پیکرِ حکمت و تدبر ہوتا ہے

اللہ رب العزت نے ذوالقرنین کو اس قوم کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے دو اختیار (options) دیئے:

  • حکمت و دانائی، فہم و فراست اور حسن سلوک سے معاملات کو حل کریں۔ یا
  • ظالموں کے ساتھ سختی سے پیش آئیں۔

ارشاد فرمایا:

اِمَّآ اَنْ تُعَذِّبَ وَاِمَّآ اَنْ تَتَّخِذَ فِيْهِمْ حُسْنًاo

(یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے) خواہ تم انہیں سزا دو یا ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

(الکهف، 18: 86)

ذوالقرنین کی فوج اُن کے ایک اشارے پر اس ظالم و جابر طبقے کا مواخذہ کر کے ان کو کٹہرے تک پہنچا سکتی تھی۔ مگر حکمت، تدبر اور فراست کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی عطا کردہ اہلیت و صلاحیت کو پہلے استعمال کرکے دیکھیں کہ شاید اسی کے نتیجہ میں حالات سدھر جائیں۔ اس لئے کہ اصل سیاسی صلاحیت کا حامل قائد وہی ہوتا ہے جو ڈرانے سے پہلے قوم کی جملہ خرابیوں کو دور کرنے اور مشکلات کا حل عطا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور انہیں ایک ایسا نظام دیتا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر وہ قوم کامیابی سے ہم کنار ہو سکتی ہے۔

اللہ رب العزت نے جب ذوالقرنین کو دو اختیار (options) دیے تو انہوں نے اس قوم سے کہا:

اَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ اِلٰی رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًا نُّکْرًاo

’’جو شخص (کفر و فسق کی صورت میں) ظلم کرے گا تو ہم اسے ضرور سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا، پھر وہ اسے بہت ہی سخت عذاب دے گا‘‘۔

(الکهف، 18: 87)

ساتھ ہی فرماتے ہیں:

وَاَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَآءَ الْحُسْنٰی.

’’اور جو شخص ایمان لے آئے گا اور نیک عمل کرے گا تو اس کے لیے بہتر جزا ہے‘‘۔

(الکهف، 18: 88)

معلوم ہوا کہ اصلاحِ احوال کے لئے ایک ہی چھڑی سے سب کو نہیں ہانکتے بلکہ پہلے اچھے اور برے میں فرق سمجھاتے ہیں، پھر بھی جو سرکشی سے باز نہ آئے تو ایسے ظالم کو انجام تک پہنچانے کے لیے عدل اور انصاف کا نظام قائم کرتے ہیں۔ اگر کوئی معافی مانگنے آ جائے تو پھر ابوسفیان کی طرح اسے معاف کر کے اس کے گھر کو دار الامن بھی بنا دیتے ہیں۔ اس واقعہ سے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ربِّ کائنات کی طرف سے احکامات و ہدایات دی جارہی ہیں کہ آپa کی قیادت میں جو اسلامی سلطنت بنے گی اس میں معاملات کو حل کرنے میں خدائی دستور کو کلیدی حیثیت حاصل ہوگی، جس سے انحراف کرنے والوں کو جزا و سزا کے عمل سے گزرنا پڑے گا۔

مشرق کی مہم

مغرب میں فتوحات کے بعد حضرت ذوالقرنین مشرق کی مہم پر روانہ ہوئے، جس کا ذکر قرآن حکیم میں یوں کیا گیا:

حَتّٰی اِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلٰی قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَّهُمْ مِّنْ دُوْنِهَا سِتْرًاo

یہاں تک کہ وہ طلوعِ آفتاب (کی سمت آبادی) کے آخری کنارے پر جا پہنچا، وہاں اس نے سورج (کے طلوع کے منظر) کو ایسے محسوس کیا (جیسے) سورج (زمین کے اس خطہ پر آباد) ایک قوم پر اُبھر رہا ہو جس کے لیے ہم نے سورج سے (بچاؤ کی خاطر) کوئی حجاب تک نہیں بنایا تھا (یعنی وہ لوگ بغیر لباس اور مکان کے غاروں میں رہتے تھے)۔

(الکهف، 18: 90)

پہلے ایک ظالم قوم کا نقشہ دیا جبکہ اس آیت میں ایسی مظلوم قوم کا نقشہ پیش کیا جا رہا ہے جو کم علمی اور جہالت کی وجہ سے بے حیائی کا مرکز بن چکی تھی۔ جن کے ہاں ثقافت اور کلچر نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔گویا جہاں ظلم و بربریت اور جہالت و بے حیائی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہو وہاں بھی اللہ رب العزت مسیحا بھیجتا ہے جو مظلوموں کو ظلم سے بچا کر عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی عطا کی گئی حکمت و اہلیت سے قوم سے جہالت و بے حیائی کو بھی ختم کرتا ہے۔

ذوالقرنین کی قوت و جرأت

مشرق و مغرب کی مہمات سر کرنے کے لیے امرِ الہی کے ساتھ ظاہری استعداد کی بھی اشد ضرورت و اہمیت ہے جسے اللہ رب العزت نے یوں بیان فرمایا:

کَذٰلِکَ وَقَدْ اَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْرًاo

(الکهف، 18: 91)

’’واقعہ اسی طرح ہے، اور جو کچھ اس کے پاس تھا ہم نے اپنے علم سے اس کا احاطہ کرلیا ہے۔‘‘

یعنی ہم نے حضرت ذوالقرنین کو اُن اقوام کے احوال کی مکمل خبر دی تھی خواہ ان احوال کا تعلق معاشرتی امور سے تھا یا سیاست، عدل و انصاف اور administration سے تھا۔ ان سب امور سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہم نے ذوالقرنین کو وہ سب کچھ عطا کر دیا تھا جس کی اسے ضرورت تھی۔ اللہ تعالی کی ذات اس بات سے با خبر تھی کہ ذوالقرنین کے پاس ان مہمات کو سر کرنے کے لیے وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جن کے ذریعے وہ مختلف طبائع اور معاشرتی مسائل رکھنے والی اقوام سے جرأت کے ساتھ نبرد آزما ہوسکتے ہیں۔ ثابت ہوا کہ لیڈر اور قائد وہ ہوتا ہے جو ہر رنگ، زبان، برادری اور مذہب کے افراد کی رہنمائی کرنے کی اور ہر قسم کے مسائل کا حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

تیسری مہم

زمین کے مغربی کنارے ظالم قوم اور مشرقی کنارے اخلاقیات سے عاری قوم کی رہنمائی کے بعد ذوالقرنین زمین کے وسط میں ایک تیسری زبوں حال قوم کو ظالموں سے چھٹکارا دلانے کے لیے نکلے جو ’’یاجوج و ماجوج‘‘ کے ظلم سے مجبور تھے۔

ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًاo حَتّٰی اِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمَا قَوْمًالا لَّا يَکَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ قَوْلًاo

(مشرق میں فتوحات مکمل کرنے کے بعد) پھر وہ (ایک اور) راستہ پر چل پڑا۔ یہاں تک کہ وہ (ایک مقام پر) دو پہاڑوں کے درمیان جا پہنچا اس نے ان پہاڑوں کے پیچھے ایک ایسی قوم کو آباد پایا جو (کسی کی) بات نہیں سمجھ سکتے تھے۔

(الکهف، 18: 92،93)

یاجوج و ماجوج کے ظلم تلے دبی یہ ایسی قوم تھی جو نہ تو خود کسی کی زبان سمجھتی تھی اور نہ کوئی اور ان کی زبان سمجھ سکتا تھا۔مگر ذوالقرنین نے اللہ تعالی کی عطا کردہ فہم و فراست سے اس قوم کے احوال جان لیے۔ معلوم ہوا کہ قوم کے مسیحا کے لیے اس قوم کے بنیادی مسائل سے آگاہ ہونا اور سمجھنا بھی ضروری ہوتا ہے ورنہ مسائل کا حل پیش نہیں کر سکے گا۔

اس مظلوم قوم کو جب ذوالقرنین کی شکل میں اپنا مسیحا نظر آیا تو فورا عرض گزار ہوئے:

يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَکَ خَرْجًا عَلَی أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا.

(الکهف، 18: 94)

’’اے ذوالقرنین! بے شک یاجوج اور ماجوج نے زمین میں فساد بپا کر رکھا ہے تو کیا ہم آپ کے لیے اس (شرط) پر کچھ مالِ (خراج) مقرر کردیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک بلند دیوار بنادیں۔‘‘

اُن کے اس سوال اور کام کے بدلے میں کچھ مال دینے کی خواہش پر ذوالقرنین نے جواب دیا:

مَا مَکَّنِّيْ فِيْهِ رَبِّيْ خَيْرٌ فَاَعِيْنُوْنِيْ بِقُوَّةٍ اَجْعَلْ بَيْنَکُمْ وَبَيْنََهُمْ رَدْمًاo

’’مجھے میرے رب نے اس بارے میں جو اختیار دیا ہے (وہ) بہتر ہے، تم اپنے زورِ بازو (یعنی محنت و مشقت) سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں گا‘‘۔

چنانچہ حضرت ذوالقرنین نے اس قوم کی مدد یوں کی کہ فساد برپا کرنے والوں اور قوم کے درمیان ایک ایسی دیوار تعمیر کردی جس سے اس فتنہ کو روک دیا گیا۔

واقعہ ذوالقرنین موجودہ حالات کے تناظر میں

حضرت ذوالقرنین کی مذکورہ مہمات سے ہمارے لئے رہنمائی اور قیادت کے انتخاب و صلاحیت کے حوالے سے بہت سے اصول سامنے آتے ہیں، جن میں سے کئی ہم نے مہمات کے ذکر کے ساتھ ہی گزشتہ صفحات میں بیان کردیئے ہیں۔ آیئے اس سلسلہ میں مزید اصولوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

  1. اقتداراللہ تعالی کی امانت ہے

اللہ کے اس فرمان سے کہ’ ہم نے ذوالقرنین کو زمین میں اقتدار کے ذر یعہ تمکنت دی‘ کا مطلب ہے کہ اقتدار اللہ کی امانت ہے، جسے اس کے بندوں کی مدد اور فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

  1. مسیحا کی بعثت

اس واقعہ کی روشنی میں ہمیں سبق ملتا ہے کہ جب کسی قوم میں ظلم عروج پر پہنچتا ہے تو اللہ رب العزت ایسے حالات میں کسی مسیحا کو بھیج دیتا ہے جو انہیں حق کی طرف بلاتا ہے اور نظام عدل قائم کرتا ہے تا کہ حقدار کو اس کا حق دلایا جا سکے اور ظالم و سر کش کو کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکے۔

  1. سزا سے پہلے بیداریِ شعور اور حق کی دعوت

قائد اور لیڈر وہ ہوتا ہے جو پہلے لوگوں کے شعور کو بیدار کرتا ہے اور انہیں حق کی دعوت دیتا ہے۔ پھر بھی اگر وہ نہ مانیں تو اقتدار کی قوت کے ذریعہ انہیں حق کے راستے کی طرف مائل کرتا اور عذاب الہی سے ڈراتا ہے۔

  1. وسائل کے استعمال پردسترس

وَاٰتَيْنٰهُ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ سَبَبًاo کے ذریعے یہ بتایا ہے کہ لیڈر یا قائد وہ ہے جو اللہ کی عطا کی گئی صلاحیت اور ذہنی استعداد کے ذریعے وسائل کا درست استعمال کر کے اقتدار کو مظبوط کرتا ہے۔ گویا قائد کی بنیادی خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی قابلیت اور استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے مشرق ومغرب میں نظام الہی کا سکہ رائج کرتا ہے اور بیک وقت مشرق و مغرب کی ثقافت اور مسائل کو سمجھ کر اُن کا حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

واقعہ ذوالقرنین میںایک طرف وہ قوم ہے جو بات سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی اور دوسری طرف leadership دیکھیں کہ ایک نالائق، کند ذہن اور کم صلاحیت رکھنے والی قوم سے وہ دیوار بنوا رہے ہیں۔ قیادت وہ ہوتی ہے جس کے سامنے جو بھی قوم دے دی جائے، اس سے کام لے لے۔ بظاہر جو لوگ بالکل نا سمجھ ہوں، ان سے ایسے اہم کام لینا معمولی بات نہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب قوم میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ بلا شبہ قومی سطح پر اس جذبے کا کوئی دوسرا نعم البدل نہیں۔ چنانچہ حقیقی رہنما وہ ہوتا ہے جو باوفا اور بلند کردار لوگوں کا چناؤ کر کے انہیں اپنی تربیت سے بے مثال بنا دیتا ہے اور یہی سب کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختصر سی مدت میں کر کے دکھایا۔ وہ لوگ جو جہالت، تعصب اور انتقامی جذبات پر کٹ مرتے تھے، ساری دنیا کے امام بن گئے۔

  1. طلبِ صادق کی ناگزیریت

اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے اگر کسی قوم میں ظلم سے چھٹکارا حاصل کرنے اور انقلاب کے لیے سچی طلب پائی جائے تو پھر انقلاب واقع بھی ہوتا ہے۔جیسے ذوالقرنین مشرق و مغرب کی قوموں کے پاس گئے مگر وہاں کسی خاطر خواہ تبدیلی کا ذکر موجود نہیں جیسی تبدیلی یا نجات اس قوم کو ملی جو یاجوج و ماجوج کے ظلم سے پس رہے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ اس قوم کے اندر ظالم کے پنجہ استبداد سے نجات حاصل کرنے کے شعور کا موجود ہونا تھا۔ انہیں اس بات کا شعور تھا کہ ان کے حقوق غصب ہو رہے ہیں اور ایک ظالم قوم نے ان کا جینا مشکل بنا رکھا ہے۔جب اُنہیں ایسا شخص نظر آیا جس میں قائدانہ صلاحیتیں تھیں تو انہوں نے دعوتِ حق پر لبیک کہا۔

  1. قائد متوکل علی اللہ ہوتا ہے

مظلوم قوم نے یاجوج، ماجوج سے نجات کے عوض ذوالقرنین کو مال و دولت کی پیش کش کی، جس پر انہوں نے فرمایا: مجھے اس کی لالچ نہیں۔ مجھے میرے رب نے اپنی بارگاہ سے جو خیر، قوت، جرأت، تمکن اور فتح و نصرت عطا کی ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تم مجھے دینا چاہتے ہو۔ البتہ مجھے تمہارا زورِ بازو یعنی جرأت اور غیرت و حمیت چاہیے۔ کیونکہ جو قوم محنت و مشقت سے عاری ہو جائے تو ذلت و رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ ثابت ہوا کہ ایسا لیڈر اور قائد جس نے قوم کی تقدیر بدلنی ہو، وہ ان کے مال و دولت پر نظر نہیں رکھتا بلکہ اگر وقت کے قارون و فرعون اسے مال و دولت کی آفر کر کے انقلاب کی راہ سے ہٹانا چاہیں تو وہ پاؤں کی ٹھوکر سے ایسی پیشکش کو رد کردیتا ہے۔

ذوالقرنین کے واقعے کی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اُس وقت کے سرداروں نے جاہ و منصب اور مال و دولت کے ذریعے راهِ حق سے ہٹانے کی کوشش کی مگر بری طرح ناکام ہوئے۔گویا حقیقی قائد یا لیڈر مشکلات برداشت کر لے گا مگر مال و دولت کے پیچھے نہیں بھاگے گا۔

  1. وسائل اور افرادی قوت کے استعمال کی استعداد

واقعہ ذوالقرنین سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ مسیحا،لیڈر اور قائد جس نے قوم کو مشکل سے نکالنا ہو، ایسا ہو گا کہ وہ مال وولت جمع کرنے کے بجائے افرادی قوت کے ذریعے وسائل کا بہتر استعمال کر کے مظلوموں کو ہمیشہ کے لیے ظلم سے چھٹکارا دلاتا ہے جیسے ذوالقرنین نے ان کا مال و دولت لینے سے انکار کیا اور ان کی افرادی قوت اور وسائل کو استعمال میں لا کر اپنی قائدانہ بصیرت کے ساتھ دیوار بنائی اور ہمیشہ کے لیے انہیں یاجوج و ماجوج سے نجات دلا دی۔

اﷲ تعالیٰ کے ولی کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ قوم کو امن و آشتی سے ہم کنار کرتا ہے۔ انہیں ایک نظام (system) میں پرو کر ایسی مضبوط دیوار کی مانند بنا دیتا ہے جسے قیامت تک قائم رہنا ہے۔ اپنی اس جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کی گئی کامیابی کو وہ اﷲ رب العزت سے منسوب کرتا ہے جیسے حضرت ذوالقرنین نے فرمایا کہ دیوار کی تعمیر میرے رب کی جانب سے ایک رحمت ہے۔

  1. واقعہ ذوالقرنین اور پاکستان کے مسائل

اس پورے واقعے کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج کے دور میں ان تینوں اقوام کے حالات پاکستان میں نظر آتے ہیں:

  1. ایک ظالم طبقہ ہے جو ہر سطح پر عوام کا استحصال کر رہا ہے اور ہر طرح کے وسائل پر قابض ہے۔ یہ ایسا ظالم طبقہ ہے جوغریب کی زندگی بدلنے کے بجائے اپنے اکاؤنٹ بھرنے میں لگا ہوا ہے۔
  2. ایک طبقہ وہ ہے جو عیش و عشرت میں پڑا ہے اوربے حیائی سے تماشا دیکھ رہا ہے۔ یہ طبقہ دوسروں کی پرواہ کئے بغیر اپنے من میں مگن ہے۔ یہ بے راہ روی کا شکار ہے اور کسی مثبت تبدیلی کا خواہاں نہیں۔
  3. ایک مظلوم طبقہ ہے، جو ظالم طبقے کے ظلم سے پسا ہوا ہے۔ یہ طبقہ بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے، جس کو انقلاب اور نظام کی تبدیلی کی ضرورت کا احساس ہے۔ یہ چاہتا ہے کہ ملک کا مقدر اور حالات بدل جائیں۔ یہ انقلاب کے لیے جان دینے کو بھی تیار ہیں۔ اس آخری طبقے کے پاس آخرکار ذوالقرنین پہنچ جاتے ہیں۔ جس کو انقلاب کی نہ صرف ضرورت تھی بلکہ خواہش بھی تھی۔ ہمارے ملک میں بھی یہ تیسرا طبقہ ہی ہے جو ملک کے نظام میں مثبت تبدیلی کا خواہش مند ہے۔

ان تینوں طبقات کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس ایسی لیڈر شپ اور قیادت بھی موجود ہے جو باصلاحیت و با کردارہے اور دنیا کے مال و متاع کو کئی بار ٹھکرا چکی ہے۔ جو اس ملک کے عوام کو ان کے حقوق بارے کئی بار آگاہ کر چکی ہے۔آج اگر کسی بات کی کمی ہے تو وہ انقلاب کے لیے طلبِ صادق کی کمی ہے۔جس دن قوم نے سچے دل سے تبدیلی کی نیت کرلی، ان شاء اللہ اس ملک میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زیر قیادت مصطفوی انقلاب کا سویرا ضرور طلوع ہوگا۔