الفقہ: آپ کے فقہی مسائل

مفتی عبدالقیوم خاں ہزاروی

سوال: پہنے ہوئے سونے کے زیورات، کبھی کبھی استعمال ہونے والے زیورات اور سیف میں پڑے ہوئے زیورات پر زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟

جواب: جس شخص کے پاس بھی نصاب کے برابر سونا یا چاندی موجود ہے، خواہ ڈلی کی صورت میں ہو، زیورات کی صورت میں، برتن کی صورت میں، اس مالیت کے برابر کرنسی نوٹ یا اس کے مساوی مالِ تجارت، ان سب پر سال گزرنے کے بعد مقررہ شرح کے مطابق زکوٰۃ فرض ہے۔ خواہ زیورات پہنے یا نہ پہنے، گھر میں رکھے یا لاکرز میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ صرف ملکیت شرط ہے۔ جب بھی مالِ نصاب ہوگا، زکوٰۃ فرض ہوگی۔ اس کی تدبیر کرنا اس مالک کا کام ہے کہ مضاربہ یا مشارکہ کے اصول پر مالِ تجارت یا صنعت میں لگائے یا کسی اور مناسب طریق پر اس کو استعمال میں لائے تاکہ پڑے پڑے مال کو زکوٰۃ ہی نہ کھاتی رہے۔ جب کاروبار میں لگائے گا تو رزق حلال بھی بڑھے گا، دوسروں کے حصول رزق کا ذریعہ بھی بنے گا اور یوں وہ سونا شخصی و ذاتی دولت کے بجائے قومی سرمائے کی صورت اختیار کر لے گا، جس سے صرف ایک کا نہیں بلکہ کئی دوسروں کا بھی بھلا ہوگا۔

زیورات کبھی کبھی استعمال کریں، روزانہ یا کبھی نہ کریں، اس میں کوئی فرق نہیں ہے جو بھی صاحبِ نصاب ہوگا اس پر زکوٰۃ، فطرانہ اور دیگر صدقات واجب ہوں گے۔

سوال: بلوغت سے پہلے ہونے والے نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب:نابالغ بچوں کا نکاح کرنا، قرآن و حدیث اور ملکی قانون کے بالکل منافی ہے کیونکہ قرآن مجید صحتِ نکاح کے لئے بالغ ہونا شرط قرار دیتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَابْتَلُوا الْيَتٰمٰی حَتّٰی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ج فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَيْهِمْ اَمْوَالَهُمْ.

’’اور یتیموں کی (تربیتہً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حْسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو‘‘۔

(سورة النساء ،4: 6)

اس آیت کریمہ میں نابالغ و نادان بچوں کو ان کا اپنا مال بھی اس بنا پر سپرد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اسے ضائع کر دیں گے، تو پھر ان کے نکاح کا فیصلہ کیونکر جائز ہو گا، جس سے ان کا مستقبل وابستہ ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا تُنْکَحُ الْاَيِّمُ حَتَّی تُسْتَامَرَ وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتَّی تُسْتَاْذَنَ قَالُوا يَارَسُولَ اللّٰهِ وَکَيْفَ اِذْنُهَا قَالَ اَنْ تَسْکُتَ.

’’بیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی (بالغہ) کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کنواری کی اجازت کیسے معلو م ہوتی ہے؟ فرمایا اگر پوچھنے پر وہ خاموش ہوجائے تو یہ بھی اجازت ہے‘‘۔

(بخاری، الصحيح، 5: 974، رقم: 4843)

  • احناف کے نزدیک نابالغ لڑکے لڑکیوں کا نکاح جائز ہے، تاہم اگر بعد میں باپ کی لاپرواہی، حماقت یا لالچ ثابت ہو جائے تو نکاح نہیں ہوگا۔ بالغ ہونے پر لڑکی جہاں چاہے اپنی مرضی سے شادی کرسکتی ہے۔

الدر المختار میں ہے کہ

لَمْ يُعْرَفْ مِنْهُمَا سُوْئُ الْاِخْتِيَارِ مَجَانَةً وَ فِسْقًا وَ اِنْ عُرِفَ لَا يَصِحُّ النِّکَاحُ اِتْفَاقًا.

’’باپ دادا کے نکاح کرنے سے خیارِ بلوغ اس وقت ختم ہو گا جب ان سے لاپرواہی یا فسق کی وجہ سے غلط فیصلہ نہ ہو۔ اگر غلط فیصلہ معلوم ہو جائے تو بالاتفاق نکاح غلط ہے‘‘۔

(حصکفی، الدر المختار، 3: 66، 67)

فقہا مزید وضاحت فرماتے ہیں:

اِنَّ الْمُرَادَ بِالْاَبِ مَنْ لَيْسَ بِسَکْرَانَ وَلَا عُرِفَ بِسُوئِ الاِخْتِيَارِ.

’’باپ سے مراد وہ جو نشہ میں بھی نہ ہو اور جو غلط فیصلہ کرنے والا بھی نہ ہو‘‘۔

(ابن عابدين شامی، رد المحتار، 3: 67)

بالغ ہونے کے بعد لڑکی کو حق ہوتا ہے کہ وہ نابالغ عمر میں کئے ہوئے نکاح کا انکار کر دے اور اپنی مرضی سے کہیں اور نکاح کر لے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

وَاِذَا اَدْرَکَتْ بِالْحَيْضِ لَا بَاسَ بِاَنْ تَخْتَارَ نَفْسَهَا مَعَ رُوْيَةِ الدَّمِ.

’’اگر لڑکی حیض کے ذریعے بالغ ہوئی تو خون دیکھتے ہی اسے اختیار حاصل ہوگیا، خواہ بچپن کے نکاح کو برقرار رکھے یا رد کر دے‘‘۔

(الشيخ نظام و جماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 1: 286)

ہمارے نزدیک تو مذکورہ بالا دلائل کی رو سے نابالغوں کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا مگر جن کے ہاں منعقد ہوتا بھی ہے اُن کے مطابق لڑکی کو بالغ ہونے پر حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ بچپن کے کئے ہوئے نکاح کو برقرار رکھے یا ردّ کر دے۔ اگر لڑکی ردّ کر دے تو نکاح ختم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اگر لڑکی اس نکاح کو قائم رکھنا چاہتی ہے تو رضا مندی کا اظہار کرے گی۔ اگر ردّ کرنا چاہتی ہے تو پھر بھی اس کو اختیار ہے کہ اپنی مرضی سے کہیں اور نکاح کر سکتی ہے۔

سوال: مفقود الخبر شخص کی بیوی کب تک شوہر کا انتظار کرسکتی ہے اگر دوسری شادی کرنا چاہے تو کتنی مدت کے بعد کرے گی؟

جواب: جس عورت کا خاوند مفقود الخبر ہو وہ مالکی مسلک کے مطابق چار سال تک انتظار کرے گی، اس کے بعد کسی اور جگہ حسبِ منشاء عقدِ نکاح کر سکتی ہے۔ احناف کا فتوی آج کل اسی قول پر ہے۔

اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ عورت مجسٹریٹ یا فیملی کورٹ کے جج کے روبرو پیش ہوگی، اپنے خاوند کے مفقود الخبر ہونے کا ثبوت دے گی اور دوسری شادی کا اجازت نامہ حاصل کر کے بیوہ والی عدت پوری کرنے کے بعد دوسری شادی کرسکتی ہے۔ اب مجسٹریٹ کا اجازت نامہ ملنے کے بعد بالفرض کچھ دنوں بعد پہلا شوہر واپس بھی آجائے تو اس صورت میں بھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہو گا۔ کیونکہ اب شرعی مسئلہ کو ریاستی تحفظ حاصل ہوگیا ہے۔ یہ عورت دوسرے خاوند کی ہی بیوی رہے گی، پہلے سے کوئی تعلق نہ ہو گا۔ البتہ پہلے شوہر کے ذمے اگر حق مہر یا چار سال کا خرچہ واجب الادا ہے تو عورت چاہے تو بذریعہ عدالت وصول کرلے چاہے تو معاف کرسکتی ہے۔

سوال: نظرِ بد کی حقیقت کیا ہے؟

جواب:نظر بد یا نظر لگنا ایک قدیم تصور ہے جو دنیا کی مختلف اقوام میں پایا جاتا ہے۔ اسلام کے صدرِ اوّل میں دشمنانِ اسلام نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے عرب کے ان لوگوں کی خدمات لینے کا ارادہ کیا جو نظر لگانے میں شہرت رکھتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ جس چیز کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے دیکھتے ہیں ان کے دیکھتے ہی وہ چیز تباہ ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے شر سے محفوظ رکھا اور ان بدنیتوں کے تمام حربے ناکام ہوگئے۔ ان کی اس شرانگیزی کو قرآن میں اس طرح سے بیان کیا ہے کہ:

وَاِنْ يَکَادُ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا لَيُزْلِقُوْنَکَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ وَيَقُوْلُوْنَ اِنَّهُ لَمَجْنُوْنٌ.

(القلم،68: 51)

’’اور بے شک کافر لوگ جب قرآن سنتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ آپ کو اپنی (حاسدانہ بد) نظروں سے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے۔‘‘

اس آیت میں نظرِ بد کے نقصان اور اس کے اثر انداز ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ نظرِ بد کسی دوسرے انسان کے جسم و جان پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔

  • رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

الْعَيْنُ حَقٌّ.

(بخاری، الصحيح، 5: 2167، رقم: 5408)

’’نظر کا لگ جانا حقیقت ہے‘‘۔

  • حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا:

الْعَيْنُ حَقٌّ وَلَوْ کَانَ شَيْیٌٔ سَابَقَ الْقَدَرَ سَبَقَتْهُ الْعَيْنُ وَاِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا.

’’نظر حق ہے اگر کوئی چیز تقدیر کو کاٹ سکتی ہے تو نظر ہے اور جب تم سے (نظر کے علاج کے لیے) غسل کرنے کے لیے کہا جائے تو غسل کر لو‘‘۔

(مسلم، الصحيح، 4: 1719، رقم: 2188)

نظرِ بد کے برے اثرات ہوتے ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے بچاؤ کے لئے جھاڑ پھونک یعنی دم درود کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دم کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:

رُخِّصَ فِی الْحُمَةِ وَالنَّمْلَةِ وَالْعَيْنِ.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین چیزوں کے لئے جھاڑ پھونک کی اجازت دی:نظر بد، بچھو وغیرہ کے کاٹے پراور پھوڑے پھنسی کے لئے

(مسلم، الصحيح، 4: 1725، رقم: 2196)

  • آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نظرِ بد لگنے پر دَم کرنے کا حکم بھی فرمایا:

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ نظر بد لگنے کا دم کیا کرو‘‘۔

(بخاری، الصحيح، 5: 2166، رقم: 5406)

  • حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے گھر کے اندر ایک لڑکی دیکھی جس کے چہرے پر نشانات تھے۔ ارشاد فرمایا کہ:

اسْتَرْقُوا لَهَا فَاِنَّ بِهَا النَّظْرَةَ.

’’اس پر کچھ پڑھ کر دم کرو کیونکہ اس کو نظر لگ گئی ہے‘‘۔

(بخاری، الصحيح، 5: 2167، رقم: 5407)

  • نظرِ بد سے علاج کے لئے معوذتین پڑھ کر دم کیا جائے اور یہ دعا بھی کی جائے جو حدیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہوتے تو جبرئیل علیہ السلام آکر آپ کو دم کرتے اور یہ کلمات کہتے:

بِاسْمِ اللّٰهِ يُبْرِيکَ وَمِنْ کُلِّ دَاءٍ يَشْفِيکَ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ وَشَرِّ کُلِّ ذِی عَيْنٍ.

’’اللہ کے نام سے، وہ آپ کو تندرست کرے گا، اور ہر بیماری سے شفا دے گا اور حسد کرنے والے حاسد کے ہر شر سے اور نظر لگانے والی آنکھ کے ہر شر سے آپ کو اپنی پناہ میں رکھے گا‘‘۔

(مسلم، الصحيح، 4:1718، رقم:2185)

قرآن مجید کی آخری دو سورتیں’’معوذتین‘‘ کے ذریعے سے بھی نظربد کا علاج کیا جاتا ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرضِ وصال میں معوذتین پڑھ کر اپنے اوپر دم کیا کرتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکلیف بڑھ گئی تو میں انہیں پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دم کیا کرتی اور بابرکت ہونے کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر پر پھیرا کرتی۔

(بخاری، الصحيح، 5: 2165، رقم: 5403)

درج بالا آیات و روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ نظرِ بد کوئی وہم یا توہم پرستی نہیں بلکہ حقیقت ہے جس کے اثرات ظاہر ہونے پر دَم کرانا درست ہے۔