تقریبِ عرس حضرت فریدِ ملت رحمۃ اللہ علیہ (رپورٹ)

علامہ حافظ عبدالقدیر قادری

زندگی میں کمال کیسے نصیب ہوتا ہے؟

سالانہ عرسِ مبارک کی تقریب سے محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کا خطاب

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے والد گرامی، محسن تحریک تحریکِ منہاج القرآن حضرت فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کا 44 واں سالانہ عرس مبارک 11 جولائی 2017ء کو جھنگ میں منعقد ہوا۔ عرس تقریبات محترم صاحبزادہ صبغت اللہ قادری (متولی دربار حضرت فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ) کی زیرصدارت اور محترم علامہ حافظ عبدالقدیر قادری (ڈائریکٹر دارالعلوم فریدیہ) کی زیر نگرانی منعقد ہوئیں۔ منہاج القرآن کے صدر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے عرس کی مرکزی تقریب میں خصوصی شرکت کی اور خطاب کیا۔

حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ کے عرس کی مرکزی تقریب میں ڈائریکٹر ایڈمن و اجتماعات محترم محمد جواد حامد کی زیر قیادت مرکزی قائدین کے وفد نے بھی شرکت کی۔ محترم عدنان جاوید (ڈائریکٹر فنانس)، امیر لاہور محترم حافظ غلام فرید، منہاج القرآن فیصل آباد کے امیر محترم سید ہدایت رسول شاہ قادری، محترم محمد رفیق نجم، محترم سید امجد علی شاہ، افغانستان سے محترم درویش بابا اور محترم اشتیاق حنیف مغل بھی مہمانوں میں شامل تھے۔ علماء و مشائخ اور منہاج القرآن جھنگ کے عہدیدار و کارکنان بھی عرس تقریبات میں شریک ہوئے۔

عرس تقریبات کا باقاعدہ آغاز متولی دربار عالیہ صاحبزادہ صبغت اللہ قادری نے مزار پر چادر پوشی سے کیا۔ اس موقع پر درود و سلام پڑھا گیا جبکہ فاتحہ خوانی بھی ہوئی۔

عرس کی مرکزی تقریب کا آغاز تلاوت و نعت سے ہوا۔ تلاوت کی سعادت محترم قاری نور احمد چشتی اور ننھے منے قاری محترم محمد فہیم نے حاصل کی۔ نعت رسولِ مقبولa کی سعادت فریدی نعت کونسل، صابر کمال وٹو، صاحبزادہ افتخارالحسن، شکیل احمد طاہر، خورشید احمد خورشیدی، علامہ ذیشان بیگ نے حاصل کی۔ جبکہ محترم عطاء المصطفیٰ نے منقبت حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ پیش کی۔

استقبالیہ کلمات محترم صاحبزادہ عمر مصطفی نے پیش کئے اور حضرت فرید ملت کی شخصیت و کردار پر روشنی ڈالی۔

محترم شہزاد برادران نے حمدیہ کلام اور صوفیانہ کلام پیش کیا۔ محترم سید ہدایت رسول شاہ نے محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کو دعوتِ خطاب دی۔

محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ’’اولیاء اللہ اور فیض معرفت‘‘ کے موضوع پر خطاب فرماتے ہوئے حضرت فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے چند گوشوں کو بیان کرتے ہوئے انہیں مشعل راہ قرار دیا۔ انہوں نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

اللہ رب العزت نے ہمیں جو حیات عطا فرمائی وہ دیکھنے میں ہم تمام میں ایک جیسی ہے جس کو ہم زندگی کہتے ہیں۔ وہ زندگی جو دیکھنے میں ایک نظر آتی ہے درحقیقت اللہ رب العزت نے اسی ایک جسم میں تین طرح کی زندگیاں داخل فرمائیں۔ دیکھنے میں یہ ایک حیات/ زندگی ہے مگر اپنے اندر تین پہلو رکھتی ہے۔ یہ تینوں طرح کی حیات جب جمع ہوتی ہے تو انسان انسانِ کامل بن جاتا ہے۔ جب تک یہ تین طرح کی حیات اپنے عروج پر نہ پہنچے تو کوئی نہ کوئی نقص اس کے کمال میں رہ جاتا ہے۔ وہ تین طرح کی حیات/ زندگی یہ ہے:

  1. حیاتِ جسدی: یہ ظاہری جسم سے وابستہ ہے۔
  2. حیاتِ روحی: یہ ہماری روح سے وابستہ ہے۔
  3. حیاتِ شعوری

اگر حیات ایک ہوتی تو خوراک بھی ایک سی ہوتی۔ ان تینوں زندگیوں کی خوراک جدا جدا ہے۔ اس لئے یہ زندگیاں بھی جدا جدا ہیں۔

حیاتِ جسدی/ جسمانی کی خوراک دنیاوی چیزیں ہیں جن کے ذریعے ہم اچھے مستقبل و حال کے لئے کوشاں رہتے ہیں مثلاً کھانا، پینا، رہائش، لباس، روزگار، کاروبار وغیرہ۔ گویا جو کچھ اس جسم کی خاطر کرتے پھرتے ہیں، یہ تمام حیاتِ جسدی کی خوراک ہے۔

حیاتِ شعوری کی خوراک علم اور تجربہ ہے۔ اس سے شعوری حیات پروان چڑھتی ہے۔

حیاتِ روحی کی خوراک شب بیداریاں، گریہ و زاریاں، مناجات، اللہ اور اس کے رسولa کو منانے کی تڑپ، ذکر و اذکار، عبادات اور نیک اعمال ہیں۔

ایک ہی جسم میں ایک ہی زندگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے تین طرح کی حیات تو وابستہ کردی ہیں مگر ان تینوں کے تقاضے ایک دوسرے سے یکسر متصادم ہیں۔ جو چیز جسدی حیات کو چاہئے، روحی حیات اس کو رد کرتی ہے اور جو تقاضا روحی حیات کا ہے وہ جسدی حیات کے لئے نہیں ہے۔ اسی طرح جو شے شعوری حیات مانگتی ہے، اس میں جسدی اور روحی حیات کو دلچسپی نہیں ہوتی۔ گویا تینوں حیات کے ذوق اور خوراک متصادم ہیں۔

انسان کے باطن میں زندگی کے ان تینوں پہلوئوں کے حوالے سے ایک میدانِ جنگ برپا ہے، جو ان تینوں حیات میں توازن قائم کرلیتا ہے اسے مرد کامل اور ولی کامل کہتے ہیں اور جو کسی ایک حیات کے ہاتھوں زیر ہوجاتا ہے، اس کے کمال میںنقص رہ جاتا ہے۔

صوفیاء، اولیاء، صالحین کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو یہ چیز سامنے آتی ہے کہ کسی کی زندگی پر حیاتِ روحی کا غلبہ زیادہ تھا، کسی کی زندگی پر حیاتِ شعوری کا غلبہ زیادہ تھا۔ جس پر حیاتِ روحی کا غلبہ ہوگیا، اس نے فقر کو اپنالیا اور حیاتِ جسدی اور حیاتِ شعوری پر توجہ کم کردی۔ انہوں نے بھی اللہ کا رستہ پالیا، اس لئے کہ جو بھی محبت سے اس کو پانے کے ارادے سے سفر کرتا ہے، وہ اسے مل جاتا ہے لیکن ملتا اس کے مقام کے مطابق ہے۔

کچھ لوگ ایسے ہوئے جنہیں علماء ربانیین کہا گیا، ان پر حیاتِ شعوری غالب آگئی۔ انہوں نے درس و تدریس کا معاملہ اپنالیا، ادارے بنائے، علمی و فکری کام کئے، دعوتی امور سرانجام دیئے۔ ان کا رجحان روحی حیات کی طرف کم ہوگیا۔

اس معاشرے میں تیسرا طبقہ بھی ہوا جس نے معاشرے کی بہتری کے لئے روحی اور شعوری حیات کے بجائے جسدی حیات کو اہم قرار دیا اور بڑی بڑی تنظیمیں بنائیں، جماعتیں بنائیں مدارس بنائے، انہوں نے روحی حیات کے تقاضے یکسر چھوڑ دیئے، بعد ازاں آہستہ آہستہ شعوری حیات سے بھی روگردانی کرنے لگے اور فقط دنیا اور جسدی حیات کے تقاضے پورے کرنے لگے۔ ان کی زندگیوں میں بھی نقص رہ گیا اور وہ کمال پر نہ پہنچ پائے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیوں کہا گیا کہ جس پر کسی ایک حیات کا غلبہ تھا، اس میں نقص تھا، وہ کامل نہ ہوا۔ اس لئے کہ کامل وہ ہے جسے خدا اور مصطفیa نے اپنا دوست چنا۔ کامل وہ ہے جو اس زمانے میں صحیح معنوں میں حضور نبی اکرمa کا نائب و خلیفہ بننے کا اہل ہوا۔ اگر حضورa کی ذات کی طرف دیکھیں تو آپa کی ذات مبارکہ پر کسی ایک رنگ کا غلبہ نظر نہیں آتا بلکہ ہر جہت میں کمال نظر آتا ہے۔ سیاست، علم شریعت، تصوف، فقر، معیشت، معاشرت، الغرض ہر حوالے سے کمال نظر آتا ہے۔

لہذا معلوم ہوا کہ جو بھی حضورa کا نائب ہوگا وہ بھی حیاتِ جسدی حیاتِ روحی اور حیاتِ شعوری میں توازن کا حامل ہوگا۔

صوفیاء کہتے ہیں کہ وہ اولیاء جن پر اوائل دور میں ہی سکر غالب آجائے وہ تصوف میں اونچے درجے پر فائز نہیں ہوتے۔ اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں اونچا درجہ اس کا ہے جو اعلیٰ درجہ و مقام پر فائز ہو مگر ہر چیز اس کی نگاہ میں ہو اور وہ اپنے ہوش کو قائم رکھتے ہوئے معاشرے میں بھی اپنا اصلاحی، فکری کردار ادا کرتا نظر آئے۔ جو جتنا اپنے ہوش پر قابو رکھتا ہو، وہ اپنے مقام میں اتنا بڑا ہے۔

افسوس! ہم نے تصوف اور ولایت کی تعریف ہی الگ بنا رکھی ہے۔ جو معاشرے میں بیٹھ کر عجیب عجیب حرکات کرے، مدہوشی اس کے حلیے سے نظر آئے، وہ اللہ والا اور صالح تو ہوسکتا ہے مگر کامل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ کمال ہوش میں ہے۔ تاجدارِ کائناتa بھی معراج کی رات خدا کے دیدار میں مگن تھے مگر وہاں بھی حضورa کو امت کا ہوش باقی تھا اور پھر امت کی خاطر واپس لوٹ آئے۔ اس مقام اور وہاں موجود تجلیات و فیوضات کا تقاضا تھا کہ وہیں رک جاتے مگر ہوش مندی کا تقاضا تھا کہ امت میں واپس آیا جائے اور امت کی نجات اور اصلاح کا سامان پیدا کیا جائے۔ معلوم ہوا بڑا مقام مدہوشی نہیں ہے بلکہ بڑا مقام ہوش مندی ہے۔

گویا ولایت میں چھوٹا وہ ہے جو بہک جائے، ہوش گنوا بیٹھے اور بڑا وہ ہے جو بہکوں ہوئوں کو بھی سنبھال لے۔ جو خود بہکا ہوا ہو وہ کسی کو کیا سنبھالے گا۔ کیفیت اور حال کا کسی پر سوار ہونا چھوٹی بات ہے۔ مرد وہ ہے جو خود حال اور کیفیات پر سواری کرے، نہ کہ اس پر ایسی کیفیت و حال طاری ہو کہ وہ ہوش ہی گنوا بیٹھے۔

حضرت فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادری کے مقام کا اس بات سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کتنے بڑے ہوش مند تھے کہ جن کی تربیت نے شیخ الاسلام جیسا ہوش مند امت کو عطا کردیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ حال، مقام اور کیفیات پر سواری کرنے والے تھے۔ اسی وجہ سے ہم انہیں محسنِ تحریک منہاج القرآن کہتے ہیں۔

جب کسی انسان کے کمال کو پرکھنا ہو تو حیات کے انِ تین پہلوئوں حیاتِ جسدی، حیاتِ روحی اور حیاتِ شعوری کے حوالے سے دیکھو۔ اگر پورا اترے تو جان لو کہ کامل ہے اور اگر نہ اترے تو یہ نہ سمجھو کہ اللہ والا نہیں ہے، وہ اللہ والا ہے مگر کمال درجے پر فائز نہیں ہے۔ حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت اِن تینوں پہلوئوں کے حوالے سے کمال پر موجود تھی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت اور خدمات پر بھی اگر نظر دوڑائی جائے تو آپ کی شخصیت اور خدمات کا دائرہ کار حیاتِ جسدی، حیاتِ روحی اور حیاتِ شعوری کو محیط ہے۔ شیخ الاسلام جیسی شخصیت ہمیں حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے عطا ہوئی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرید ملت کی تربیت کا کامل نمونہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرتِ فریدِ ملت رحمۃ اللہ علیہ کے درجات کو بلند فرمائے اور ہمیں ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے تحریک منہاج القرآن کے مشن پر استقامت سے کاربند ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

عرس تقریب کا اختتام محفلِ ذکر اور محترم صبغت اللہ قادری کی اختتامی دعا سے ہوا۔ عرس تقریبات کے انتظامات میں ڈائریکٹر دارالعلوم فریدیہ قادریہ جھنگ محترم علامہ حافظ عبدالقدیر قادری اور ان کی ٹیم نے اہم کردار ادا کیا۔