صحابۂ کرام کی باہمی شفقت و ہمدردی اور حضرت عمر فاروق کا کردار

ڈاکٹر ظہور احمد اظہر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جس اخوت و مساوات کی لڑی میں پروکر ان میں جو باہمی شفقت و ہمدردی اور جذبۂ ایثار و حسن سلوک پیدا کیا تھا، اسے تمام خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مزید تقویت دی اور اس پر خود بھی عمل کیا اور امت سے بھی کروایا۔ خصوصاً سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا کردار نمایاں اور قابل تقلید ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس جماعت مقدس، رضوان اللہ علیہم اجمعین ، کے اوصاف ستودہ اور امتیازی خصائص پر مہر تصدیق ثبت فرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِط وَالَّذِيْنَ مَعَهُ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ.

’’محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔‘‘

(الفتح، 48: 29)

یہاں پر جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، کی جو امتیازی شان بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ حفاظت و دفاعِ اسلام میں کفار کے مقابلے میں سخت موقف اختیار فرماتے ہیں مگر آپس میں وہ سراپا رحمت و شفقت اور ہمدردی و غمخواری کا رویہ رکھتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اس روش کو اپنے قول و عمل سے مزید تقویت دی مگر اس میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی عمل کیا اور پورا پورا تعاون کیا۔

اس تعاون کی عملی صورت کا ایک پہلو باہمی مشاورت اور اس میں آزادانہ رائے دینا ہے۔ اس سے قوم میں خود اعتمادی کے ساتھ ساتھ باہمی اعتماد اور بھروسہ بھی مضبوط ہوتا ہے۔ یہ زندگی کی روح بھی ہے اور اس سے اہلیت اور صلاحیت کی قدرو قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ اہلیت اور صلاحیت کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ باہمی مشاورت میں ہر شخص کی آزادانہ رائے دوسروں سے مختلف بھی ہوتی ہے اور یہ قدرتی بات ہے۔ اختلاف رائے مستحسن و مفید ہے اور اس میں کوئی قباحت ہرگز نہیں ہے۔ آراء کا یہ آزادانہ اختلاف معاملات کے حسن و قبح کو کھول کر واضح کردیتا ہے اور اس سے اعتماد کو تقویت ملتی ہے۔ اس اختلاف رائے کے متعلق فرمان نبوی ہے:

اختلاف امتی رحمة.

’’میری امت کا باہمی اختلاف رائے باعث رحمت ہے‘‘۔

کیونکہ یہ صحتمندانہ اختلاف بھرپور زندگی اور فعال قوت کے مترادف ہے۔ یہ زندہ دلی اور آزادی کی علامت ہے۔

درسگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تعلیم و تربیت پانے والے اللہ تعالیٰ کے نیک بندے (ان سب پر خدائے تعالیٰ کی رحمتیں اور خوشنودیاں ہمیشہ جاری و ساری رہیں) اس اختلاف رائے کو برحق اور جائز سمجھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی جانتے اور دل سے مانتے تھے کہ یہ اختلاف رائے صرف زندہ ضمیر کی آواز ہے جسے کسی صورت دبا کر نہیں رکھنا چاہئے بلکہ اس کا برملا اظہار ہوتے رہنا چاہئے کہ یہ تعدد اور تنوع کے رنگ پیش کرتی ہے اور آراء کے اس تعدد اور تنوع میں برکت ہے۔ ان متعدد و متنوع آراء میں سے بہترین رائے کا انتخاب کرکے صراط مستقیم نکالنا بے حد آسان ہوجاتا ہے۔

جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت یافتہ جماعت ہے۔ تاریخ انسانی میں یہ پہلا موقع تھا جب دار ارقم مکہ مکرمہ اور پھر صفہ مسجد نبوی مدینہ منورہ میں اصلاح و فلاح انسانیت کے لئے شروع کی گئی ہمہ جہت اور ہمہ گیر تحریک کے لئے تربیت یافتہ کارکن تیار کئے گئے۔ دنیا کو پہلی بار یہ پیغام ملا کہ ہمہ گیر انقلاب برپا کرنے کے لئے کارکنوں کی تعمیر سیرت اور کردار سازی کرنا پڑے گی۔ اس کے بعد دنیا کی ہر تحریک نے اس سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشہ چینی اور معاشرہ میں تبدیلی لانے کے لئے تربیت یافتہ کارکن کو ناگزیر قرار دیا۔

اس سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ پیغام بھی ملا کہ انسان خود بخود نہیں بنتے سنورتے بلکہ انہیں بنانا اور سنوارنا پڑتا ہے مگر مسلمان اپنی اولاد اور نئی نسل کی تربیت، تعمیر سیرت اور کردار سازی سے اکثر و بیشتر غافل چلے آتے ہیں۔ مگر ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین خصوصاً سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس ضرورت کو بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ پھر عملی طور پر اسے نافذ کیا اور اپنے عمال و حکام کو بھی بڑے زور دار انداز میں تاکیدی احکام صادر فرماتے رہے، جیسا کہ ان کے خطوط سے واضح طور پر ثابت ہے۔ عمال کے علاوہ عامۃ المسلمین کے نام بھی اس قسم کے خطوط و احکام دربارِ فاروقی سے صادر ہوتے رہے۔ مسلمان معاشرہ کے نام ان کا یہ حکم تو ہر عرب اور عربی دان کی زبان پر ہے کہ:

علموا اولادکم العربية وتعلموها فانها من دينکم.

خود بھی عربی زبان سیکھتے رہو اور اپنی اولاد کو بھی سکھاتے رہو کیونکہ عربی تو تمہارے دین کا حصہ ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین چونکہ وحی ربانی اور ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اولین مخاطب اور امین تھے اس لئے ان نفوس قدسیہ کو زبان نبوت نے بارہا یہ تاکیدی حکم دیا تھا کہ بلغوا عنی ولو آیۃ (میرا پیغام لوگوں تک پہنچا دو خواہ ایک آیت ہی ہو) یہ بھی فرمایا کہ جو حاضر ہے وہ غائب تک بات پہنچادے۔

قرآن و حدیث کی بنیاد پر صادر ہونے والے ان احکام نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جو باتیں بے حد اہم اور نمایاں ہیں ان میں یہ بھی شامل ہے کہ دنیا میں قیام امن کے لئے یہ ضروری ہے کہ پہلے دنیا میں عدل و انصاف قائم ہو، ہر حقدار کو اس کا حق ملے اور کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ منصفانہ حق ملنے سے جب لوگ پرسکون اور مطمئن ہوجائیں گے تو انسانی معاشروں میں امن و سکون خود بخود قائم ہوجائے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہ عظیم و جلیل حکمران ہیں جنہوں نے اپنی وسیع و عریض سلطنت میں عدل و انصاف قائم کیا۔ چنانچہ ان کے عہد خلافت میں امن و اطمینان بھی عام ہوگیا، ملک کے کسی کونے میں بھی بدامنی کا کوئی نشان بھی نہ تھا، مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تک ایک اکیلی بڑھیا ہاتھ میں سونا اچھالتی جاتی تھی، اسے کسی امن دشمن قوت کا ڈر نہ تھا۔ عراق و ایران تک چونکہ پورے ملک پر فاروقی عدل و انصاف کا سایہ تھا اس لئے ہر طرف جہاں خوراک کا تسلی بخش انتظام تھا وہاں سواری و بار برداری کے لئے جانور بھی دستیاب ہوتے تھے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تاریخ میں پہلے حکمران ہیں جنہوں نے امن عامہ کے تحفظ کے لئے پولیس کا محکمہ قائم کیا اور سراغ رسانی کا محکمہ کونے کونے سے پل پل کی خبر دینے کے لئے موجود تھا۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی قلمرو میں کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا اور نہ کوئی لاوارث یا بے سہارا ہوتا تھا۔ شہری سہولتوں میں کسی جنسیت یا مذہب کا کوئی فرق و امتیاز نہ تھا۔ ہر نادار اور بے سہارا کے لئے سرکاری بیت المال کے دروازے کھلے تھے۔ یہاں تک کہ سکینڈے نیویا کے ممالک میں آج سوشل ویلفیئر کے جو قوانین نافذ ہیں وہ بھی عمر لاز (Omer Laws) کہلاتے ہیں۔ خدمتِ خلق اور رفاہ عامہ کے اداروں کا تصور دنیا نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے احکام و انتظام سے حاصل کیا ہے۔ ایسے حالات اور ایسے انتظامات میں کسی کو چوری یا ڈاکہ زنی یا کسی قسم کی بدامنی اور قانون شکنی کی کیا پڑی تھی جبکہ سب کو حق ملتا تھا اور سب کے ساتھ انصاف ہوتا تھا۔ اسی لئے تو آج کا ایک مغربی مصنف تاریخ کے سو کامیاب ترین انسانوں کا انتخاب کرتا ہے تو ان میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نمبر باون ہے جبکہ پہلا نمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے۔

قرآن کریم اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بنیاد پر جو نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سامنے آتا ہے اور جو سیاسی نظام مرتب ہوتا ہے اس میں حکومت کے قیام، کارکردگی اور بقاء کا دارومدار عام آدمی کی رائے دہی یا ووٹ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، بیعت عامہ کا مقصد دراصل عام انتخابات تھے، خلیفہ وقت کے انتخاب اور بیعت میں عام آدمی پر مردو عورت کا حق تھا۔ حاکم وقت کا محاسبہ صرف مجلس شوریٰ تک محدود نہ تھا بلکہ ایک عام شہری، مرد و عورت، حاکم کا محاسبہ کرسکتا تھا اور اس کے کسی بھی کام پر جواب طلب کرسکتا تھا۔ ہر کام اور ہر فیصلہ باہمی مشاورت کے ساتھ طے ہوتا تھا۔ انصاف کرنے والے قاضی اور جج کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھلا تھا جہاں بلا روک ٹوک مفت میں سب کو انصاف ملتا تھا۔ کوئی بھی قانون سے مستثنیٰ نہ تھا، قانون کی نظر میں سب برابر تھے۔ والی یا گورنر اور خلیفہ وقت کو بھی عدالت میں حاضر ہوکر جواب دینا ہوتا تھا۔ قاضی یا جج کی عدالت میں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک کی اجازت نہ تھی۔ مجالس شوریٰ میں ہر قانون، ہر مسئلہ پر بحث ہوتی تھی جس میں ہر رکن کو بے دھڑک اور آزادانہ رائے دینے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ اختلاف رائے پر کوئی قید یا پابندی نہیں تھی۔ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا مسئلہ بحث کے لئے مجلس شوریٰ میں لایا جاتا تھا اور تمام ارکان کی آزادانہ بحث و تنقید کے بعد فیصلے ہوتے تھے۔ مجلس شوریٰ یا حکومت کا ہر اہل کار صرف مجلس کے سامنے جوابدہ نہ تھا بلکہ ہر شہری، ہر اہلکار کا محاسبہ کرسکتا تھا۔ دنیا کی نام نہاد جمہوریتوں یا عوام کی نمائندہ حکومتوں میں عوام الناس کو آج بھی یہ حق حاصل نہیں۔

شرعی اور قانونی مسائل میں اختلاف رائے کی کھلی آزادی تھی اور یہ اختلاف رائے مخالفت یا جھگڑے کا رنگ اختیار نہیں کرتا تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خصوصاً حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں اختلاف رائے نے کبھی بھی مخالفت یا دنگے فساد کا رنگ بھی اختیار نہیں کیا تھا۔ ہر ایک کی بات سنی جاتی تھی اور فیصلہ میرٹ پر ہوتا تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جو احادیث سنیں اور روایت کیں ان میں اگر کہیں فرق یا اختلاف پایا جاتا تھا تو وہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ایک دوسرے پر فتوے نہیں لگاتے تھے اور نہ ایک دوسرے کا منہ بند کرتے تھے۔ جس نے جو بات جیسے بھی سنی تھی یا جیسے اسے یاد تھی وہ روایت کرتا تھا، مگر کسی صحابی نے کسی دوسرے صحابی کو نہ کبھی منع کیا، نہ اس سے کبھی جھگڑا کیا، کیونکہ وہ سب جانتے تھے کہ ان میں سے کوئی بھی دانستہ غلط بیانی نہیں کرتا تھا، بس جو اس نے جیسے سنا یا جو اسے جیسے یاد رہ گیا وہ بیان کردیتا تھا مگر ان میں سے کوئی بھی کسی کی تکذیب یا تکفیر کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ سوا لاکھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی نے کسی پر کبھی بھی کسی قسم کا فتویٰ نہیں لگایا، اس کا کہیں بھی کوئی بھی ثبوت نہیں ملتا۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اس روش اور اس طریقہ عمل میں بہت بڑا سبق اور بہت بڑی عبرت ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے وہ نیک بندے ایک دوسرے کی بات آرام سے سن لیتے تھے اور جھگڑنے کے بجائے چپ ہوجاتے تھے تو پھر ہم ایک دوسرے کی بات آرام سے اور توجہ سے سننے کے لئے خاموش کیوں نہیں رہ سکتے؟ اگر کسی سے ہماری رائے مختلف ہے تو ہم اس پر اپنی رائے ٹھونسنے پر کیوں اصرار کرتے ہیں۔ اگر کسی بھائی کی بات غلط لگے تو آرام اور پیار سے کیوں نہیں سمجھادیتے؟ کوئی کسی کی بات کسی سے زبردستی نہیں منواسکتا بلکہ اپنی بات زبردستی منوانے کی کوشش حماقت اور بے سود بات ہے۔

پندرہ صدیوں سے آج تک ہم اپنی اپنی بات دوسرے سے اگر زبردستی نہیں منواسکتے تو ذرا اپنی بات خصوصاً دینی معاملات کی بات اب آرام سے اور پیار سے سمجھا کر بھی تو دیکھیں اور حوصلہ مندی سے کام لیں تو شاید بات بن جائے۔ دو ہی لفظ کہنے کے بعد ہی حوصلہ کیوں ہار دیتے ہیں۔ اگر ہم اپنے بھائی سے ہمدردی رکھتے ہیں اور اسے عذاب سے بچانا چاہتے ہیں تو پھر اسے آرام سے اور پیار سے سمجھانا چاہئے اور اگر ہمدردی نہیں ہے (خدانخواستہ!) تو پھر اسے عذاب میں جانے دیجئے۔ آپ غصے ہوکر اور دھونس سے اپنی طاقت کیوں ضائع کرتے ہیں؟ ہمارے سب جھگڑے سمجھانے میں سختی کرنے، حوصلہ ہارنے اور رعب جمانے سے پیدا ہوتے ہیں۔ دعوتِ اصلاح کے جو تین طریقے اور انداز قرآن کریم نے بتائے ہیں ان سے کبھی بھی فساد یا جھگڑے نہیں پیدا ہوسکتے لست علیکم بمصیطر (تو ان پر مسلط نہیں ہے) میں یہی تو سبق ہے۔

آج بھی اگر اصلاح چاہتے ہیں اور اپنے بھائیوں میں بھلائی چاہتے ہیں تو پھر ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین والے انداز اپنانے کی ضرورت ہے۔ باہمی شفقت اور ہمدردی سے اپنے بھائیوں کو پیار سے، آرام سے سمجھانے کی کوشش کریں گے تو یقینا کامیاب ہوں گے، ان شاء اللہ۔

سبق حاصل کرنے کے لئے اور عبرت پکڑنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو جلیل القدر، عظیم الشان اور پیارے پیارے صحابیوں کا باہمی ہمدردی اور خیر خواہی کا ایک منظر دیکھتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ امیرالمومنین اور خلیفہ وقت ہیں جبکہ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ان کی مجلس شوریٰ کے رکن رکین اور مشیر اعظم ہیں۔ خلیفہ کے سامنے ایک عورت کا کیس پیش ہوتا ہے جو حاملہ مگر غیر شادی شدہ ہے، مگر وہ اللہ تعالیٰ کی بندی بدکاری میںملوث ہونے کا سب کے سامنے بھری عدالت میں اعتراف کرتی ہے۔ ظاہر ہے جرم ثابت ہے تو سزا تو ہونا ہے۔ خلیفہ عادل اس عورت کو سزا سناتے ہیں مگر یہ خیال نہیں کر پاتے کہ اس کے پیٹ میں تو بچہ ہے۔ مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سب سے ذہین و دور اندیش قاضی بھی عدالت میں موجود ہے۔ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ پیارے بھائی عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے تو بھول ہوگئی ہے، ایک معصوم جان ضائع ہوسکتی ہے۔ عدالت میں لوگ موجود ہیں، ایسے حاکم وقت کی غلطی پکڑنا کارے دارد! مگر یہ شیر خدا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہیں! وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پیارے بھائی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تو یہ فرماچکے ہیں کہ:

نضرالله عبدا اهدی الی عيوبی.

’’اللہ تعالیٰ سرخ رو کرے اس بندے کو جو مجھے میرے عیبوں کا تحفہ پیش کرے‘‘۔

ویسے بھی شیر خدا رضی اللہ عنہ کو حق گوئی سے کوئی روک سکتا ہے؟ فوراً بول اٹھتے ہیں:

’’امیرالمومنین شاید یہ بھول گئے ہیں کہ اس عورت کے پیٹ میں تو ایک معصوم انسانی جان ہے جو ماں کی سزا سے ضائع ہوجائے گی۔ اور دیکھئے! کہ خلیفہ وقت اسے اپنی توہین سمجھنے کی بجائے اپنے قانونی مشیرا عظم کی یاد دہانی پر تشکر آمیز بلکہ عاجزی اور تشکر سے لبریز الفاظ میں برسر عام اعتراف فرماتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ:

لولا علی لهلک عمر.

’’آج اگر پیارے بھائی ابوالحسن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نہ ہوتے تو عمر تو ہلاک ہوگیا تھا‘‘۔

دیکھا آپ نے، کس طرح ایک صحابی دوسرے صحابی کو، ایک پیارا بھائی اپنے پیارے بھائی کو کس طرح غلطی سے بچاتا ہے اور کس تواضع اور تشکر کے ساتھ دوسرا پیارا بھائی اپنے پیارے بھائی کے احسان کا اعتراف کرتے ہیں۔ کیا ہم بھی آج اپنے کسی پیارے بھائی کی اسی طرح اصلاح کرنے اور غلطی کا برملا متشکرانہ اعتراف کرنے کی جرات اور حوصلہ پیدا کرسکتے ہیں؟ اصلاح تو ایسے ہی ہوگی۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تاریخ انسانی کے عجائبات میں سے ہیں۔ وہ اسلامی تاریخ کے اصحاب کمال عظماء میں سے ہیں۔ نام اور کام کے لحاظ سے وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آتے ہیں۔ انہیں بعض کارناموں میں اولیت کا شرف بھی حاصل ہے۔ وہ سب سے پہلے مسلمان حکمران ہیں جنہیں بیک وقت براعظموں ایشیاء اور افریقہ پر حکمرانی کا اعزاز حاصل ہے۔ اسی طرح تاریخ عرب و اسلام میں ’’الفاروق‘‘ (حق و باطل میں حد فاصل قائم کرنے والا) کا لقب بھی سب سے پہلے انہیں کے حصے میں آیا۔ جب وہ اسلام لائے تو ان کی بدولت مسلمان بیت اللہ میں آزادانہ عبادت کرنے لگے تھے اور کفار مکہ میں مزاحمت کی جرات نہ رہی تھی۔ اس لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آج سے حق و باطل الگ الگ ہوگئے کہ عمرالفاروق رضی اللہ عنہ اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے ہیں۔ وہ واحد صحابی ہیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کے طفیل مشرف بہ اسلام ہوئے۔ گویا اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب سے انہیں مانگ لیا تھا، اس لئے آپ کو ’’مرادِ رسول‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے ’’امیرالمومنین‘‘کا لقب اختیار کیا تھا اور تیرہ سو سال تک عالم اسلام کی برتر قوت حاکمانہ کا لقب اور عالم اسلام کی وحدت کی علامت رہا۔ تقویم ہجری یا قمری کیلنڈر بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ہی اولین کارنامہ ہے۔

اللہ تعالیٰ کے اس نیک بندے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عظیم الشان صحابی اور خلیفہ نے تاریخ میں ایسے غیر فانی اور انمٹ نقوش ثبت کئے ہیں جن سے وہ مورخین کے ممدوح بن گئے ہیں اور دنیا کا ہر مورخ، مسلم اور غیر مسلم انہیں خراج تحسین پیش کرنے پر آمادہ بلکہ مجبور ہے۔ بعض مسلمان مورخین کی رائے یہ ہے کہ اگر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خدمت اسلام و انسانیت کے لئے دگنا وقت مل جاتا یا ایک اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ پیدا ہوجاتا تو روئے زمین پر اسلام کو غالب قوت کی حیثیت حاصل ہوجاتی اور لیظہرہ علی الدین کلہ کا منشائے خداوندی کبھی کا پورا ہوچکا ہوتا۔

امام شاہ ولی اللہ دہلوی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی کثیرالجہات شخصیت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

سینہ فاروق رابمنزل خانہ شمرکہ درھائے مختلف دارد و در ھر در کا ملے نشستہ.

یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سینے کو ایک حویلی سمجھو جو متعدد دروازوں والی ہے اور ان میں سے ہر دروازہ پر ایک صاحب کمال شخص بیٹھا ہوا ہے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شخصیت واقعی کثیر الجہات و کمالات ہے۔ روم و ایران کی قدیم تاریخ کے ساتھ ساتھ وہ اقوام و مذاہب عالم سے بھی آگاہ تھے۔ شمالی اور جنوبی عربوں کی تاریخ کے علاوہ عرب قبائل کے انساب و روایات خصوصاً قبائل قریش کے احوال، عادات و روایات پر بھی کامل عبور رکھتے تھے۔ تاریخ کے مدبر حکمران اور سیاستدان تو وہ تھے ہی، اس کے علاوہ عربوں کے ادب و شعر اور ان کے نشیب و فراز سے بھی واقف تھے۔ عرب شعرائ، کے کلام پر ان کے تبصرے اور تنقیدی آراء آج بھی نقادان شعر و ادب کے لئے معلومات کے خزانے ہیں۔ جدید مصر کا عظیم مورخ پروفیسر محمد الخضری انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنی رعایا سے بے حد پیار کرتے تھے، جس بات سے ان کی رعایا کی بہتری ہوتی اسے پسند کرتے اور جس میں ان کا نقصان ہوتا اسے ناپسند کرتے تھے۔ ان کی سیاسی پالیسیاں ایسی ہوتی تھیں جو انہیں اپنی رعایا کے دلوں سے قریب کرتی تھیں۔ چنانچہ وہ اپنی رعایا کی دولت کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے، ان کے درمیان عدل و انصاف کرتے تھے، ان کے درمیان مساوات قائم کرتے، سب لوگوں سے یکساں سلوک کرتے تھے‘‘۔

میرے نزدیک حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ کرم اور تربیت کا معجزہ ہیں، مکہ اور مدینہ میں نگاہ و زبان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن بزرگوں کی تربیت فرمائی اور سیرت و کردار بنایا ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت نمایاں ہیں مگر حضرت عمر کی کایا تو اسی لمحے پلٹ گئی تھی اور ان کا مقدر بھی سنور گیا تھا جب دار ارقم میں قبول اسلام کے وقت نبوت کا ہاتھ ان کے سینے پر لگا تھا اور ان کے دل و نگاہ میں انقلاب برپا ہوگیا تھا۔