شہادتِ اِمام عالی مقام سیدنا امام حسین فرامینِ مصطفی کی روشنی میں

محمد فاروق رانا

اﷲ تعالیٰ کی راہ میں دی گئی قربانی نہایت اعلیٰ و اَرفع اور مقرب ترین عمل ہے۔ یہ جس قدر پُرخلوص اور کڑی ہوگی، خالقِ کائنات کی نظر میں اُسی قدر بیش قدر اور مقبولیت کا سبب بنے گی۔ اَہلِ حق روزِ اوّل سے ہی رب کی رضا کے لیے قربانیاں دیتے چلے آئے ہیں۔ کسی نے اللہ کی راہ میں اپنے وقت کو قربان کیا تو کسی نے اُس کی رضا کے لیے اپنا سارا مال و اسباب نثار کر دیا۔ کسی نے رب کی خوش نودی کے لیے اپنے گھر بار، اَعزاء و اقارِب اور وطن کی قربانی دیتے ہوئے ہجرت کی تو کسی نے کلمۂ حق کہنے کی پاداش میں طعن و تشنیع کے تیر برداشت کیے۔ کسی سے اہلِ حق ہونے کی پاداش میں اپنے ہی اعزاء اور خونی قرابت داروں نے قطع تعلق کر لیا تو کسی پر اُن کے آقاؤں نے وحشت و بربریت کی اِنتہا کر دی۔ غرضیکہ ہر حق پرست کو اس راہ میں طرح طرح کی مشکلات، مصائب اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا اور قربانیوں کی ادائیگی سے ہر رکاوٹ کو ٹھکراتے ہوئے آگے بڑھنے پر انہیں کامیابی، کامرانی، سرفرازی اور سربلندی سے نوازا گیا۔

تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں مختلف قربانیوںسے بندگانِ الٰہی نے اپنے رب کا قرب حاصل کیا ہے۔ یوں تو راہِ حق میں پیش کی گئی ہر قربانی ہی قابلِ ستائش ہے، مگر سب سے افضل اور معتبر قربانی خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے اس کی راہ میں لڑتے ہوئے جان قربان کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان قربان کرنے کو یوں بقاے دوام بخشا گیا کہ اس کے عوض شہادت کا سرمدی منصب رکھ دیا گیا۔ قرآن میں فلسفۂ شہادت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ﷲ تعالیٰ کی راہ میں ملنے والی موت، موت نہیں بلکہ حیاتِ ابدی ہے اور یہ اللہ رب العزت کا بیش بہا انعام ہے:

وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْيَآءٌ وَّلٰـکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَo

’’اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مُردہ ہیں، (وہ مُردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں‘‘۔

بقول شاعر:

لاریب شہید کو موت نہیں، وہ مر کر زندہ رہتا ہے
کسی انساں کا یہ قول نہیں، رب میرا خود یہ کہتا ہے

تاریخِ عالم گواہ ہے کہ اللہ کی راہ میں قربان ہونے والی پہلی جان سے لے کر آج کے دن تک لاکھوں، کروڑوں افراد نے راہِ خدا میں جان لٹا کر رب کی رضا کو پایا ہے۔ ان خوش بخت اور سعید افراد میں انبیاء کرام f اور ان کے اَصحاب بھی ہیں، صدیقین بھی ہیں، صالحین بھی ہیں، علماء و فضلا بھی ہیں اور اہل اللہ بھی ہیں۔ ہر ایک کی قربانی دائمی ہے۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو افادیت اور اپنی آفاقی اثرات کے حوالے سے جو مقام و مرتبہ معرکۂ کرب و بلا میں کام آنے والے شہدا کو ملا ہے، وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ جگرگوشۂ علی و بتول اور سبطِ رسول نے اپنے بہتّر (72) رُفقاء کے ہم راہ جس تسلیم و رضا کے انداز سے جامِ شہادت نوش فرمایا ہے، وہ انہیں مقامِ ابدیت پر فائز کر گیا ہے۔ علامہ اقبال اس جاں نثاری کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی

آفاقیت شہداء کربلا کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جب بھی کربلا کی تپتی ریت پر بپا معرکۂ حق و باطل کی یاد دلاتا عاشور کا دن آتا ہے، تو ایسے اثرات مرتب کرتا ہے جیسے یہ سانحہ آج ہی وقوع پذیر ہوا ہے۔ سانحہ کربلا کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ مخبرِ غیوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پورے سانحے کی تمام تر تفصیلات اپنی حیاتِ طیبہ میں بیان فرما دی تھیں اور پھر اِس کائناتِ اَرضی پر دی گئی عظیم ترین شہادت کو خود میدانِ کربلا میں ملاحظہ فرمایا تھا۔

ذیل میں ہم اِس حوالے سے چند ارشاداتِ نبوی کا مطالعہ کریں گے تاکہ جان سکیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس طرح اِس عظیم ترین سانحے کی ایک ایک جزء کو بیان فرما دیا تھا۔

1۔ شہادتِ امام حسین علیہ السلام کا پس منظر:

  • سعید مَقبُری روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو تھیلے یعنی دو طرح کا علم حاصل کیا ہے۔ ان میں سے ایک کو میں نے (لوگوں میں) پھیلا دیا ہے، جب کہ اگر میں دوسرے کو ظاہر کروں تو میرا یہ گلا کاٹ ڈالا جائے‘‘۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جو باتیں بیان نہیں فرمائیں، ان کے بارے میں تمام شارحینِ حدیث نے یہ بیان کیا ہے کہ ان باتوں سے مراد علاماتِ قیامت کی احادیث تھیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین میں فساد کے در آنے، احوال کی تبدیلی اور اﷲ تعالیٰ کے حقوق کو پامال کیے جانے کے بارے میں بتائی تھیں، جیسا کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’اس دین کی بربادی قریش کے کم عمر لڑکوں کے ہاتھوں ہوگی‘۔ اِسی لیے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:

’’اگر میں چاہوں تو میں ان کے نام بھی لے سکتا ہوں۔ پھر انہوں نے اپنی جان کا خطرہ محسوس کیا تو ان کے ناموں کی وضاحت نہ فرمائی‘‘۔

حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اسی لیے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ دعا کیا کرتے تھے کہ میں سن ساٹھ ہجری کے آغاز اور لونڈوں کی حکومت سے پناہ مانگتا ہوں اور یہ یزید بن معاویہ کی حکومت کی طرف اشارہ کرتا ہے، کیونکہ یہ ہجرت کا ساٹھواں سال تھا، اور اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعا قبول فرمائی اور وہ سن ساٹھ سے ایک سال پہلے وفات پا گئے۔

علامہ بدر الدین عینی نے کہا ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس سے علم کی دو اقسام مراد لی ہیں، پہلی قسم سے مراد وہ علم ہے جسے آپ نے اشاعت سنن سے محفوظ کیا، وہ سنن کہ اگر ان کو لکھ لیا جاتا تو اس سے ایک بڑے تھیلے کو بھرا جا سکتا تھا اور دوسرے علم سے مراد فتنوں سے آگاہی پر مبنی احادیث ہیں جنہیں آپ نے پوشیدہ رکھا۔ ابن بطال نے کہا ہے: دوسرے برتن (کے علوم) سے مراد علاماتِ قیامت ہیں اور جو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتلایا ہے کہ دین کی بربادی قریش کے بیوقوف لونڈوں کے ہاتھوں ہوگی۔

ملا علی قاری نے کہا ہے: اس سے مراد وہ علم ہے جو بڑے بڑے منافقوں، یا بنو امیہ کے ظالم حکمرانوں، یا آپ کے زمانہ میں دوسرے فتنوں سے متعلق ہے۔

  • ایک اور حدیث مبارک میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’قریش کا یہ قبیلہ عام لوگوں کو ہلاک کرے گا۔ لوگوں نے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) پھر آپ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کاش! لوگ ان سے کنارہ کش ہو جائیں‘‘۔

حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ یقینا اس سے مراد قریش کے بعض لوگ ہیں سارے نہیں ہیں، ان میں سے بھی صرف نو عمر لڑکے، نہ کہ سارے لوگ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ بادشاہت کی طلب اور اس کے لیے جنگ و جدل کے سبب لوگوں کو ہلاک کریں گے ، نتیجتاً لوگوں کے حالات بگڑ جائیں گے اور پے در پے فتنوں کی وجہ سے قحط بڑھے گا۔ یہ امر بعینہ اسی طرح واقع ہو چکا ہے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی تھی۔

ایک روایت میں سعید بن عمرو بن سعید العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ، مروان اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے تو انہوں نے سنا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرما رہے تھے کہ میں نے (اپنے آقا) صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

’’میری امت کی بربادی قریش کے چند (نوعمر) لڑکوں کے ہاتھوں ہوگی۔ مروان نے کہا: لڑکوں کے ہاتھوں سے؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں! لڑکوں کے ہاتھوں سے۔اور اگر تم چاہو تو میں ان کے نام بھی بتا سکتا ہوں کہ وہ فلاں فلاں کے بیٹے ہیں‘‘۔

  • حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے محبوب نبی مکرم ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

’’میری اُمت کا بگاڑ قریش کے (چند) بے وقوف لڑکوں کے ہاتھوں (پیدا) ہوگا‘‘۔

اس حدیث سے ظاہر ہے کہ اس سے مراد وہ واقعہ ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور آپ کے قاتلوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ اوران کے قاتلوں کے درمیان پیش آیا۔

  • اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’ حسین بن علی (علیہما السلام) کو میری ہجرت کے ساٹھویں سال کے آغاز پر شہید کر دیا جائے گا‘‘۔

امام طبرانی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے، جب کہ امام دیلمی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے: جب ایک (اَوباش) نوجوان ان پر چڑھائی کرے گا۔

2۔ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ’’یزید‘‘ کے نام کی نشاندہی:

  • حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’میری اُمت کا معاملہ انصاف پر قائم رہے گا یہاں تک کہ پہلا شخص جو اس میں رخنہ ڈالے گا وہ بنو اُمیہ کا ایک شخص ہوگا، جسے یزید کہا جائے گا‘‘۔

  • حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

’’سب سے پہلا شخص جو میری سنت کو تبدیل کرے گا وہ بنو امیہ کا ایک شخص ہوگا۔ بعض روایات میں وضاحت کے لیے یہ اضافہ ہے: اسے یزید کہا جائے گا‘‘۔

  • ایک روایت میں محمد بن علی کہتے ہیں: مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’ابو سفیان کی اولاد میں سے ایک شخص اسلام (کی بنیاد) میں ضرور ایسا شگاف ڈالے گا کہ اُس شگاف کو کوئی چیز بند نہیں کر سکے گی‘‘۔

3۔ بچپن سے شہادت کی پیشین گوئیاں:

  • ابو مسلم بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

’’میری اُمت کا معاملہ انصاف پر قائم رہے گا یہاں تک کہ پہلا شخص جو اس میں رخنہ ڈالے گا وہ بنو اُمیہ کا ایک شخص ہوگا۔ اسے یزید کہا جائے گا‘‘۔

امام مناوی بیان کرتے ہیں: پہلا شخص جو میری سنت یعنی میری مضبوط اعتقادی و عملی سیرت اور طریقے کو تبدیل کرے گا وہ بنو اُمیہ میں سے ایک آدمی ہوگا۔ امام رویانی نے لفظ ’اُمیہ‘ کو ہمزہ پر ضمّہ یعنی پیش کے ساتھ پڑھا ہے۔ نیز امام رویانی اور ابن عساکر نے اپنی اپنی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے: ’اُس کا نام یزید ہوگا۔‘ امام بیہقی نے فرمایا ہے: ’وہ یزید بن معاویہ ہے۔‘

  • حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

’’بارش کے فرشتے نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی تو اسے اجازت مل گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: دروازے کی حفاظت کرنا کہ کوئی داخل نہ ہو۔ پھر حضرت حسین بن علی آئے اور چھلانگ لگا کر اندر چلے گئے، وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شانہ مبارک پر چڑھنے لگے، فرشتے نے آپ سے کہا: کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ فرشتے نے کہا: بے شک آپ کی امت انہیں شہید کردے گی، اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو وہ جگہ دکھا سکتا ہوں جہاں انہیں شہید کیا جائے گا۔ راوی بیان کرتے ہیں: فرشتے نے اپنا ہاتھ مارا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سرخ مٹی دکھائی۔ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے وہ مٹی لی اور اسے اپنے کپڑے کے ایک کونے میں باندھ لیا۔ راوی بیان کرتے ہیں: ہم یہ سنا کرتے تھے کہ حسین علیہ السلام کربلاء میں شہید کیے جائیں گے‘‘۔

مسند امام احمد بن حنبل میں مروی اس حدیث مبارک میں صراحتاً شہادتِ اِمام حسین علیہ السلام کی خبر دے دی گئی ہے۔

حضرت اُمّ فضل بنتِ حارث رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے آج رات ایک ناپسندیدہ خواب دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا دیکھا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: وہ بہت سخت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ ہے کیا؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے دیکھا گویا آپ کے جسم اطہر کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں ڈال دیا گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے اچھا خواب دیکھا ہے۔ (میری بیٹی) فاطمہ ان شاء اللہ بیٹے کو جنم دے گی اور وہ تمہاری گود میں دیا جائے گا، پھر حضرت فاطمہ کے ہاں حسین علیہ السلام پیدا ہوئے تو وہ میری گود میں تھے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا۔

ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور حسین کو آپ کی گود میں دے دیا۔ پھر میں نے اچانک دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدس آنسو بہا رہی تھیں۔ آپ فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا: یا نبی اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ کو کیا ہوا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تھے، اور مجھے خبر دی تھی کہ بے شک میری امت میرے اس بیٹے کو عنقریب شہید کر دے گی۔ میں نے عرض کیا: اس بیٹے (حسین) کو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اور میرے پاس اس کے مقتل کی سرخ مٹی بھی لے کر آئے ہیں۔

  • حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی فرمائی:

’’میں نے یحییٰ بن زکریا کے (خون کے) بدلہ میں ستر ہزار لوگوں کو مارا، اور بے شک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لختِ جگر فاطمہ کے بیٹے کے بدلہ میں ستر ہزار اور ستر ہزار لوگوں کو ماروں گا‘‘۔

امام مناوی نے بیان فرمایا: امام حسین علیہ السلام کے واقعۂ شہادت کی تفصیل جگر چیر دیتی ہے اور جسموں کو پگھلا دیتی ہے۔ لعنت ہو اس شخص پر جس نے آپ کو شہید کیا یا اس پر خوش ہوا یا اس کا حکم دیا، اس کے لیے بارگاہِ ایزدی سے ایسی ہی دوری ہے جیسے قوم عاد دور ہوئی۔

حضرت ہانی، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میرے بیٹے حسین کو ضرور ظلم کے ساتھ شہید کیا جائے گا، اور میں دو دریاؤں کے قریب اس سرزمین کی مٹی کو اچھی طرح پہچانتا ہوں، جس میں ان کو شہید کیا جائے گا۔

ایک روایت میں حضرت شداد ابو عمار بیان کرتے ہیں کہ حضرت عباس بن عبد المطلب کی زوجہ محترمہ اُم فضل بنتِ حارث رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:

’’یا رسول اللہ! میں نے ایک خواب دیکھا ہے، آپ کی عظمت کے پیش نظر آپ کے سامنے بیان کرنے سے ڈر لگتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ خواب بیان کرو۔ انہوں نے عرض کیا: میں نے دیکھا، گویا آپ کے جسم اطہر کا ایک ٹکڑا کاٹ کے میری جھولی میں ڈال دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری بیٹی فاطمہ امید سے ہے۔ اس کے ہاں لڑکے کی پیدائش ہو گی، جس کا نام میں حسین رکھوں گا، اور وہ اس بچے کو تمہاری گود میں دے گی۔ وہ بیان کرتی ہیں، پھر حضرت فاطمہ نے حسین علیہ السلام کو جنم دیا، اور وہ میری گود میں دے دیئے گئے، تاکہ میں ان کی تربیت کروں۔ ایک دن جب حسین میرے پاس تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ آپ انہیں لے کر کچھ دیر کھلاتے رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمان مقدس نمناک ہو گئیں۔ میں نے عرض کیا: آپ کو کس چیز نے رلا دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ جبریل مجھے خبر دے رہے ہیں کہ میری امت میرے اس بیٹے کو شہید کر دے گی‘‘۔

4۔ امام حسین علیہ السلام کی کربلا کی طرف روانگی:

حضرت عبد اﷲ بن عباس k بیان کرتے ہیں: میرے پاس حضرت حسین علیہ السلام عراق کی طرف روانہ ہونے کے بارے میں مشورہ طلب کرنے کے لیے تشریف لائے۔ میں نے کہا: اگر لوگوں کو میری اور آپ کی وجہ سے غصہ نہ دلایا جائے تو میں اپنے ہاتھ آپ کے بالوں میں چپکا لوں۔ آپ کہاں روانہ ہو رہے ہیں؟ ایسے لوگوں کی طرف جنہوں نے آپ کے والد کو شہید کیا اور آپ کے بھائی کو زخمی کردیا؟ وہ (ہستی کریم) جس نے میری رائے سے خود کو آمادہ نہ پایا، اس نے فرمایا: ایک شخص کی وجہ سے اس حرم کی بے حرمتی کی جائے گی۔ (اس لیے) میں فلاں فلاں جگہ اگرچہ وہ دور ہے، شہید ہونا زیادہ پسند کرتا ہوں اس وجہ سے کہ کہیں حرم کی بے حرمتی کا سبب بننے والا وہ شخص میں ہی نہ بن جاؤں۔

بشر بن غالب ایک روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن زبیر نے امام حسین بن علی سے کہا: آپ کہاں جارہے ہیں؟ کیا ان لوگوں کی طرف جنہوں نے آپ کے والد کو شہید کیا، اور آپ کے بھائی کو زخمی کیا؟ امام حسین علیہ السلام نے ان سے کہا: اگر میں فلاں فلاں جگہ شہید کر دیا جاؤں تو یہ میرے لیے اس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میری وجہ سے مکہ مکرمہ کو حلال جانا جائے (یعنی بے حرمتی کی جائے)۔

ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن جعفر بن ابو طالب l نے آپ کو ایک خط لکھا جس میں انہیں اہل کوفہ سے محتاط رہنے کا مشورہ دیا اور انہیں اﷲتعالیٰ کا واسطہ دیا کہ وہ ان کی طرف لوٹ آئیں۔ امام حسین علیہ السلام نے ان کی طرف جواباً خط لکھا:

’’میں نے ایک خواب دیکھا ہے، اور اس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی ہے جنہوں نے مجھے ایک حکم فرمایا ہے۔ میں اسے پورا کرنے والا ہوں، اور میں اپنا کام مکمل کرنے تک اس کے بارے میں کسی کو بھی بتانے والا نہیں ہوں‘‘۔

علامہ ابن الجوزی فرماتے ہیں: بے شک امام حسین علیہ السلام اہل کوفہ کی طرف روانہ ہوئے، کیونکہ آپ نے دیکھا کہ شریعت کو ٹھکرایا جا رہا ہے، اس لیے اپنے جد امجد کی لائی ہوئی شریعت کی بنیادیں اٹھانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ جب وہ لوگ آپ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ کا محاصرہ کر لیا، آپ نے فرمایا: مجھے واپس جانے دو۔ انہوں نے کہا: نہیں، بلکہ آپ ابن زیاد کے حکم کی اطاعت کریں۔ اس پر آپ نے ذلت (کی زندگی) پر شہید ہوجانے کو ترجیح دی، اور غیرت مند نفوس ایسا ہی کرتے ہیں۔

5۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا سانحہ:

حضرت عبد اﷲ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نصف النھار کے وقت میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غبار آلود بالوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس میں ایک شیشی ہے، جس میں خون ہے۔ میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! یہ کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (میرے بیٹے) حسین اور اس کے (جانثار) ساتھیوں کا خون ہے اور میں اسے سارا دن جمع کرتا رہا ہوں۔ پس ہم نے اس دن کا شمار کیا تو (راوی کہتے ہیں کہ) انہیں معلوم ہوگیا کہ ٹھیک اسی دن امام حسین علیہ السلام شہید کیے گئے تھے۔

حضرت سلمیٰ بیان کرتی ہیں کہ میں حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی تو وہ رو رہیں تھیں، میں نے عرض کیا: آپ کس وجہ سے رو رہی ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے، یعنی خواب میں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر انور اور ریش مبارک پر مٹی پڑی ہے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو کیا ہوا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں ابھی ابھی حسین کی شہادت دیکھ کر آیا ہوں۔

حضرت شہر بن حوشب بیان کرتے ہیں: میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا، فرمایا:

’’ہم نے ایک آواز سنی، میں آواز کی سمت بڑھا یہاں تک کہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آ پہنچا، تو آپ نے فرمایا: امام حسین علیہ السلام کو شہید کر دیا گیا۔ آپ نے (مزید) فرمایا: کیا واقعی انہوں نے ایسا کر دیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ان کے گھروں، یا فرمایا: ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے۔ پھر وہ بے ہوش ہوکر گر گئیں اور ہم وہاں سے اٹھ گئے‘‘۔

حضرت علی بن زید بن جدعان بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس نیند سے بیدار ہوئے تو ’إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون‘ پڑھا، اور فرمایا: بخدا، (امام) حسین علیہ السلام کو شہید کردیا گیا ہے، ان کے ساتھیوں نے ان سے کہا: اے ابن عباس! ہرگز نہیں، انہوں نے فرمایا: میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس خون کی ایک شیشی بھی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ نہیں جانتے کہ جو میری امت نے میرے بعد کیا ہے، انہوں نے میرے بیٹے حسین کو شہید کر دیا ہے، یہ اس کا اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے، میں اسے اللہ تعالیٰ کے پاس لے جا رہا ہوں۔ راوی بیان کرتے ہیں جس دن انہوں نے یہ فرمایا تھا، وہ دن اور گھڑی لکھ لی گئی، پھر چوبیس دن ہی گزرے تھے کہ انہیں مدینہ منورہ میں یہ خبر آگئی کہ اُس روز اور اُسی گھڑی میں (امام) حسین علیہ السلام کی شہادت ہوئی تھی۔

مذکورہ بالا تمام احادیث و روایات اور ائمہ و محدثین کی تعلیقات و تصریحات کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ امام عالی مقام سیدنا حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کی ایک ایک جزء احادیث مبارکہ میں مذکور ہوئی ہے کہ سید الشہدا علیہ السلام کو کب، کیسے اور کن حالات میں شہید کیا جائے گا اور کیسے امام حسین علیہ السلام اپنے پورے خانوادہ سمیت اپنے نانا کے دین کی خاطر راہِ حق میں قربان ہوئے۔

لشکر حسینی کی کربلا آمد اور تپتی ریت پر تین دن کی پیاس اور بھوک سے نڈھال سید شباب أہل الجنۃ اور ان کے رفقا کی دل دوز شہادت سے سے ہمیں یہ سبق لینا چاہیے کہ حالات کیسے بھی ہوں، صبر کا دامن ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے اور ہمیشہ راہِ حق میں قربان ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور من حیث القوم، ظلم پر خاموش رہنے والے کوفی طرزِ عمل کو ترک کرتے ہوئے حق کی خاطر اپنا سب کچھ لٹا دینے کا حسینی جذبہ اپنے اندر بیدار کرنا چاہیے۔ اگر خوش قسمتی سے ہمیں یہ جذبہ نصیب ہو گیا تو اس قوم کا ہر پیر و جواں حسینی بن کر یزیدی نظام سے ٹکرا کر اسے پاش پاش کر دے گا۔ (اِن شاء اﷲ)۔