الفقہ: حیات دنیوی، حیات برزخی، حیات اخروی

مفتی عبدالقیوم خاں ہزاروی

برزخ کا لغوی معنی ’’پردہ‘‘ ہے۔ یعنی:

الحاجز والحد بین الشیئین.

’’دو چیزوں میں حد اور رکاوٹ‘‘۔

اصطلاحی معنی میں برزخ سے مراد ہے کہ

البرزخ ما بین الموت الی القیامة.

’’مرنے سے لے کر قیامت تک کا وقفہ‘‘۔

(مفردات راغب، 43)، (روح المعانی،27: 106)

قرآنِ مجید میں اللہ تبارک تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمِنْ وَّرَآئِهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ.

(المومنون: 100)

’’اور ان کے آگے اس دن تک ایک پردہ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے‘‘۔

مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے یعنی قیام قیامت تک کا زمانہ عالم برزخ کہلاتا ہے۔ زندگی تین ادوار پر منقسم ہے:

  1. حیات دنیوی
  2. حیات برزخی
  3. حیات اخروی

سب سے پہلے دنیوی زندگی ہے اس کے اپنے لوازمات ہیں، پھر حیات برزخی ہے اس کے اپنے لوازمات و احکام ہیں پھر حیات اخروی ہے اس کے اپنے لوازمات و احکام ہیں۔ زندگی بمنزلہ جنس ہے اور یہ تینوں قسمیں بمنزلہ نوع کے ہیں۔ جہاں نوع ہو وہاں جنس ضرور ہوتی ہے‘ لہٰذا زندگی تینوں میں موجود ہے۔ ہاں، ہر نوع دوسری نوع سے مختلف ہوتی ہے اسی لئے حیات دنیوی، برزخی اور اخروی کی جنس ایک ہونے کے باوجود اختلاف انواع کی وجہ سے اکثر احکامات الگ الگ ہیں۔

مثلاً: احکام شرع کی پابندی حیات دنیا میں ہے، برزخ و آخرت میں نہیں۔ حیات انسانی کی خصوصیات سمع، بصر، ادراک وغیرہ ہیں، یہ زندگی کی تینوں انواع میں موجود ہیں بلکہ دنیوی زندگی سے بڑھ کر اخروی زندگی میں ہیں۔

قبر میں ہونے والے عذاب و ثواب کے بارے میں علمائے اسلام کی تین آراء ہیں:

  1. عذابِ قبر صرف روح کو ہوتا ہے۔
  2. عذابِ قبر صرف جسم کو ہوتا ہے۔
  3. عذابِ قبر جسم و روح دونوں کو ہوتا ہے۔

تیسری رائے صحیح تر ہے کہ قبر کی زندگی میں عذاب یا نعمتیں جسم اور روح دونوں کو ملتی ہیں۔ چنانچہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

محله الروح والبدن جمیعاً باتفاق اهل السنة.

’’اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عذاب و ثوابِ قبر روح اور جسم، دونوں کو ہوتا ہے‘‘

(سیوطی، شرح الصدور، 75)

علامہ ابنِ قیم کہتے ہیں کہ علامہ ابنِ تیمیہ سے قبر کی زندگی کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا:

العذاب والنعیم علیٰ نفس و البدن جمیعاً باتفاق اهل سنت.

’’عذاب و ثواب روح و جسم دونوں کو ہوتا ہے، اسی پر اہل سنت کا اتفاق ہے‘‘

(ابن قیم، الروح، 72)

روح کے ساتھ جسم کو بھی عذاب و ثواب اس لیے ہوتا ہے کہ روح اور جسم کے درمیان ایک معنوی تعلق ہے۔ اس تعلق کے سبب روح پر وارد ہونے والی کیفیات جسم بھی محسوس کرتا ہے۔ عذاب و ثوابِ قبر کے لیے بدن کا سلامت ہونا ضروری نہیں ہے۔ جسم گل سڑ جائے، آگ میں جلا دیا جائے، سمندر میں غرقاب ہو جائے، درندوں کے پیٹ میں چلا جائے‘ روح کا جسم کے ساتھ تعلق ہونے کے سبب ان تمام صورتوں میں بھی جسم پر اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کی وضاحت امام جلال الدین سیوطی نے ان الفاظ میں کی ہے کہ:

عذاب قبر سے مراد عالمِ برزخ کی زندگی کا عذاب ہے۔ اسے عذابِ قبر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ مردوں کو قبروں میں دفنایا جاتا ہے‘ ورنہ ہر میت قبر میں دفن ہو یا نہ ہو جب بھی اللہ اسے عذاب دینا چاہے گا ضرور پہنچائے گا۔

(سیوطی، شرح الصدور، 75)

  • قرآن مجید نے فرعونیوں کے عذابِ قبر، یعنی عالم برزخ کے عذاب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

فَوَقٰـهُ ﷲُ سَیِّاٰتِ مَا مَکَرُوْا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِ. اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّاج وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُقف اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ.۔ وَاِذْ یَتَحَآجُّوْنَ فِی النَّارِ فَیَقُوْلُ الضُّعَفٰٓؤُ لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْٓا اِنَّا کُنَّا لَکُمْ تَبَعاً فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِیْباً مِّنَ النَّارِ۔.

(المومن: 45-47)

’’پھر اللہ نے اْسے اْن لوگوں کی برائیوں سے بچا لیا جن کی وہ تدبیر کر رہے تھے اور آلِ فرعون کو بْرے عذاب نے گھیر لیا۔ آتشِ دوزخ کے سامنے یہ لوگ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت بپا ہوگی (تو حکم ہوگا:) آلِ فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کر دو۔ اور جب وہ لوگ دوزخ میں باہم جھگڑیں گے تو کمزور لوگ ان سے کہیں گے جو (دنیا میں) بڑائی ظاہر کرتے تھے کہ ہم تو تمہارے پیروکار تھے سو کیا تم آتشِ دوزخ کا کچھ حصّہ (ہی) ہم سے دور کر سکتے ہو‘‘؟

اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ آل فرعون صبح اور شام عذاب پر پیش کیے جاتے ہیں حالانکہ قیامت قائم نہیں ہوئی۔ اسی آیت سے علماء کرام نے عذاب قبر کا ثبوت لیا ہے۔ فرعونیوں اور اْن جیسے کافروں کو قیامت سے پہلے بھی صبح و شام عذاب ہوتا ہے‘ یہی عذابِ قبر ہے یا برزخ کا عذاب ہے۔

  • اللہ تعالیٰ نے یہی منافقینِ مدینہ کے بارے میں بتایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

وَ مِمَّنْ حَوْ لَکُمْ مِّنَ الاَعْرَابِ مُنٰـفِقُوْنَ ط وَمِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِقف مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِقف لا تَعْلَمُهُمْط نَحْنُ نَعْلَمُهُمْط سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ۔.

’’اور (مسلمانو!) تمہارے گرد و نواح کے دیہاتی گنواروں میں بعض منافق ہیں اور بعض باشندگانِ مدینہ بھی، یہ لوگ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں (اب تک) نہیں جانتے، ہم انہیں جانتے ہیں۔ عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے پھر وہ (قیامت میں) بڑے عذاب کی طرف پلٹائے جائیں گے‘‘۔

(التوبة: 101)

یعنی منافقین کے لیے ایک مرتبہ دنیا میں ذلت کا عذاب‘ دوسری مرتبہ عالمِ برزخ کا عذاب اور اس کے بعد جہنم کا عذاب عظیم ہے۔

  • حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت میں مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبر کے سوالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

وَیَاتِیهِ مَلَکَانِ فَیُجْلِسَانِهِ فَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبّْکَ؟ فَیَقُولُ: رَبِّیَ اللّٰه. فَیَقُولَانِ لَهُ: مَا دِینُکَ؟ فَیَقُولُ: دِینِیَ الْاِسْلَامُ. فَیَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِی بُعِثَ فِیکُم؟ قَالَ: فَیَقُولُ: هھُوَ رَسُولُ اللّٰهِ صلی الله علیه وآله وسلم فَیَقُولَانِ: وَمَا یُدْرِیکَ فَیَقُولُ: قَرَأتُ کِتَابَ اللّٰهِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ.

’’اْس (میت) کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اْسے اْٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اْس سے پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے : اللہ میرا رب ہے۔ فرشتے اْس سے سوال کرتے ہیں : تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے : اسلام میرا دین ہے۔ فرشتے اْس سے پوچھتے ہیں : یہ شخص (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو تمہارے درمیان مبعوث ہوئے کون ہیں؟ وہ جواب دیتا ہے : وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ فرشتے اْس سے پوچھتے ہیں : تجھے یہ کیسے معلوم ہوا؟ وہ جواب دیتا ہے : میں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب (قرآن مجید) پڑھی، لہٰذا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی۔‘‘

(ابو داود، السنن، کتاب السنة، باب فی المسالة فی القبر وعذاب القبر،4 :239، رقم: 4753)

عن ابی هریرة رضی الله عنه قال: شهدنا جنازة مع نبی الله صلی الله علیه وآله وسلم فلمّا فرغ من دفنھا، وانصرف النّاس، قال نبی الله صلی الله علیه وآله وسلم: انّه الآن یسمع خفق نعالکم، اتاہ منکر ونکیر اعینهما مثل قدور النحاس، وانیابهما مثل صیاصی البقر، واصواتهما مثل الرعد، فیجلسانہ فیسا لانہ ما کان یعبد ومن کان نببیہ فان کان ممن یعبد الله قال: کنت اعبد الله والنبیّ محمد صلی الله علیه وآله وسلم جاء بالبینات فآمنّا واتّبعنا فذلک قول الله : یُثَبِّتُ اللّٰه الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوة الدّْنْیَا وَفِی الْاٰخِرَة فیقال له: علی الیقین حییت وعلیه مت وعلیه تبعث ثم یفتح له باب الی الجنّة و یوسع له فی حفرته وان کان من اهل الشّک قال : لاادری سمعت النّاس یقولون شیئا فقلته فیقال له : علی الشّک حییت وعلیه مت وعلیه تبعث ثم یفتح له باب الی النّار ویسلط علیه عقارب وثعابین لو نفخ احدهم فی الدّنیا ما انبتت شیئا تنهشه وتؤمر الارض فتضم حتّی تختلف اضلاعه.

(طبرانی، المعجم الاوسط، 5 :44، رقم :4629)

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک جنازے میں ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، جب ہم میت کی تدفین سے فارغ ہوئے اور لوگ واپس جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اب یہ (تمہارے واپس پلٹنے پر) تمہارے جوتوں کی آواز سنے گا، اس کے پاس منکر اور نکیر آئے ہیں، جن کی آنکھیں تانبے کے دیگچے کے برابر ہیں، دانت گائے کے سینگ کی طرح ہیں اور ان کی آواز بجلی کی طرح گرج دار ہے، وہ دونوں اس کو بٹھائیں گے اور پوچھیں گے : کس کی عبادت کرتے تھے اور تمہارا نبی کون تھا؟ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندوں میں سے ہوا تو وہ کہے گا : میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا اور میرے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نشانیاں لے کر ہمارے پاس آئے۔ پس ہم ایمان لے آئے اور ہم نے ان کی اتباع کی۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اسی بارے میں ہے : (اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو (اس) مضبوط بات (کی برکت) سے دنیوی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں (بھی)۔) اس سے کہا جائے گا : تو یقین کے ساتھ زندہ رہا اور اسی پر تمہاری موت ہوئی اور اسی پر تم روزِ قیامت اٹھائے جاؤ گے۔ پھر اس کے لئے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اس کی قبر کو کشادہ کر دیا جاتا ہے۔ اگر وہ اہلِ شک (منافقین) میں سے ہو تو وہ (ان کے سوالوں کے جواب میں کہتا ہے :) میں نہیں جانتا میں نے لوگوں کو جو کچھ کہتے سنا میں نے بھی وہی کہا۔ اس سے کہا جائے گا : تو شک پر زندہ رہا، اسی پر تمہاری موت ہوئی اور اسی پر روزِ قیامت تمہیں اٹھایا جائے گا۔ پھر اس کے لئے دوزخ کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے، اس پر ایسے بچھو اور سانپ مسلّط کر دئیے جاتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی زمین میں پھونک مار دے تو زمین کے تمام نباتات جل کر راکھ ہوجائیں، پھر زمین کو حکم دیا جاتا ہے اور وہ سکڑ جاتی ہے حتی کہ اس کے دونوں پہلو ایک دوسرے میں دھنس جاتے ہیں۔‘‘

عن عبد الله بن عمر انّ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ذکر فتانی القبر فقال عمر بن الخطاب: واترد علینا عقولنا یا رسول الله؟ فقال: نعم کھیئتکم الیوم. قال: فبففیه الحجر.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنمہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبر کے فرشتوں کا ذکر فرمایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا ہمیں ہماری یہ سمجھ بوجھ لوٹا دی جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بالکل! آج جیسی ہی سوجھ بوجھ (قبر میں) دی جائے گی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : فرشتے کے منہ میں پتھر (یعنی میں اس کو خاموش کرا دوں گا)۔‘‘

(ابن حبان، الصحیح، 7 : 384، رقم :3115)، (احمد بن حنبل، المسند، 2 :172، رقم :6603)