قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا سالانہ عرس

خصوصی رپورٹ: شہزاد رسول قادری

تحریک منہاج القرآن کے روحانی سرپرست قدوۃ الاولیاء حضور پیر سیّدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادی کے یوم وصال 23 ذیقعد کے حوالے سے 16 اگست 2017ء کو دربار غوثیہ بغداد ٹاؤن لاہور میں انتہائی پر وقار تقریب منعقد ہوئی۔ پروگرام میں دنیا بھر سے حضور قدوۃ الاولیائ رحمۃ اللہ علیہ کے مریدین، عقیدت مندان، سالکانِ طریقت بالخصوص شریک ہوئے۔ صبح 11 بجے دربار شریف پر غسل مبارک کی تقریب منعقد ہوئی تقریب میں حضرت صاحبزادہ السیّد طاہر حسام الدین القادری الگیلانی مدّ ظلہ العالی، حضرت صاحبزادہ السیّد عبدالرحمن سیف الدین القادری الگیلانی مدّ ظلہ العالی، اور حضرت صاحبزادہ السیّد احمد نورالدین القادری الگیلانی مدّظلہ العالی نے خصوصی شرکت فرمائی۔ نماز عصر کے بعد قرآنی خوانی کی تقریب منعقد ہوئی۔ بعد از نماز مغرب محفل کی تقریب کا آغاز ہوا محفل کی صدارت شہزادہ غوث الوریٰ حضرت صاحبزادہ پیر السیّد محمود محی الدین القادری الگیلانی مدّظلہ العالی نے کی اور آپ کے چھوٹے صاحبزادہ حضرت صاحبزادہ السیّد احمد نور الدین الگیلانی نے بھی شرکت فرمائی۔ پروگرام میں ملک بھر سے نامور مشائخ، علمائ، اساتذہ اور طلبہ جلوہ افروز تھے۔ تقریب میں تلاوت کلام مجید کی سعادت محترم فخرالقرأ محترم قاری رفیق نقشبندی نے حاصل کی۔ محترم طاہر محمود قادری، محترم حافظ سہیل نذر، محترم سرور حسین نقشبندی، محترم صغیر احمد نقشبندی، محترم آصف چشتی، محترم شہزاد حنیف مدنی، محترم افضل نوشاہی، محترم ظہیر احمد بلالی منہاج نعت کونسل، محترم غلام محمد داتا دربار پارٹی نے حضور سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس میں نعتیہ کلام پیش کیا۔ عرس مبارک کی تقریب QTV سے براہ راست نشر کی گئی۔ محفل کے آخر پر ختم غوثیہ اور درودو سلام پڑھا گیا اورشہزادہ غوث الوریٰ نے خصوصی دعا فرمائی۔

قدوۃ الاولیاء حضور پیر سیدنا طاہر علاؤ الدین رحمۃ اللہ علیہ القادری الگیلانی البغدادی کا نام آسمانِ ولایت پر ایک ایسے درخشندہ ستارہ کی مانند ہے کہ مخلوق جن کے فیوضات سے اُن کی ظاہری حیات میں بھی مستفیض ہوتی رہی اور ان کے وصال کے بعد بھی ان کے فیض کا چشمہ اسی طرح جاری و ساری ہے۔ تحریک منہاج القرآن دراصل حضور پیر صاحب کے فیوضات عالیہ ہی کا ایک عظیم مظہر ہے جو دنیا بھر میں احیائے اسلام، تجدید دین اور معاشی، معاشرتی، دینی، علمی، فکری اصلاح کے لئے مصروف عمل ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ایک مرتبہ مرید صادق ہونے کے ناطے حضور پیر صاحب بارے اپنے مشاہدات و محسوسات بیان کرتے ہوئے نہایت پرمغز اور بصیرت افروز گفتگو فرمائی۔ یہ گفتگو آپ کے اوصاف ِ حمیدہ کے باب میں گیارہ جستہ جستہ پہلوؤں پر محیط تھی۔ ذیل میں شیخ الاسلام کے ان مشاہداتی و تاثراتی گہرپاروں کی تلخیص نذرِ قارئین ہے:

اخلاق و اوصافِ حمیدہ:

محبوبِ سبحانی قطب ربانی غوث الثقلین سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ص نے آج سے آٹھ صدیاں پیشتر اسلامی دنیا کے مرکز اور گہوارۂ تہذیب و تمدن کے حامل تاریخی شہر بغداد میں علم و معرفت اور فیضان و ہدایت کی قندیل روشن کی اس کی ضوفشانیاں قیامت تک مسلمانانِ عالم کو سراب کرتی رہیں گی۔ ?قدوۃ الاولیاء حضور پیر سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ اسی خانوادئہ غوثیت مآب کے چشم و چراغ ہیں جنہوں نے خرقۂ ولایت اپنے والدِ گرامی حضرت سیدنا محمود حسام الدین القادری البغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے زیب تن کرکے نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ دنیائے شرق و غرب کے دیگر ممالک میں بھی سلسلۂ قادریہ کی تجدید و توسیع میں ایسی گرانقدر خدمات سر انجام دیں جن کے نقوش جریدۂ عالم سے کبھی محو نہیں ہوسکتے۔

حضور شیخ المشائخ سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ میری صحبت کا زمانہ تا یوم وصال کوئی پچیس برسوں پر محیط ہے۔ یہ یادوں کا وہ بے بدل اور گراں بہا خزینہ ہے جس سے حسنِ اخلاق کے خوبصورت پھولوں اور نایاب موتیوں کا انتخاب کرکے ہم اپنی ویران زندگیوں کو پھر سے باغ و بہار میں بدل سکتے ہیں۔ یہاں یہ اصولی بات ذہن نشین کرنے کے قابل ہے کہ تصوف و روحانیت از سر تا پا حسنِ اخلاق کا نام ہے۔ خلقِ حسن اور ادبِ حسن یہ دونوں چیزیں جس میں جمع ہو جائیں وہ اچھا صوفی بن جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے اپنی کم علمی اور بے علمی کی وجہ سے تصوف اور روحانیت کا جو تصور قائم کر رکھا ہے اس میں اب ان چیزوں کی گنجائش بہت کم رہ گئی ہے۔ جس تصوف اور فقر میں خوش خلقی اور اخلاق حمیدہ نہیں اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔

اولیاء سے بلند درجہ انبیاء علیہم السلام کا ہے جن سے برتر کوئی طبقہ مخلوق میں نہیں، بہت سے نبیوں کا ذکر قرآن مجید میں ہوا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ جس پیغمبر کا بھی ذکر ہوا ہے اس کے اخلاق حسنہ کے بیان کو اہمیت دی گئی ہے۔

جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوا:

وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ ز اِنَّـهٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ.

’’اور آپ (اس) کتاب میں اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر کریں بے شک وہ وعدہ کے سچے تھے ‘‘۔

(مریم، 19: 54)

اسی طرح قرآن مجید میں مختلف مقامات پر حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور بعض دیگر انبیائے کرام کا جس حوالے سے بھی ذکر کیا گیا ہے وہ اخلاق حسنہ کے گرد گھومتا ہے۔

تصوف کے موضوع پر جن برگزیدہ ہستیوں نے کتابیں لکھیں وہ آسمانِ ولایت کے آفتاب و ماہتاب تھے۔ وہ امہات الکتب جو تصوف اور روحانیت میں سند کا درجہ رکھتی ہیں ان میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ عنہ کی کشف المحجوب، حضرت شیخ ابو القاسم قشیری کا رسالہ قشیریہ، امام ابو طالب مکی کی قوت القلوب، ابو النصر سراج الطوسی کی کتاب اللمع، امام عبدالرحمن سلمی کی طبقاتُ الصوفیہ اور حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی معروف تصانیف غینۃ الطالبین، فتوح الغیب یا الفتح الربانی میں سے کسی کو اٹھا کر دیکھ لیں وہ ساری کی ساری اخلاق حسنہ پر مبنی ہیں۔ آپ کے مواعظِ حسنہ، الہاماتِ کشفی اور خطبات اسی موضوع سے متعلق ہیں۔

اسی طرح خواجہ اجمیر رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ نظام الدین اولیائ، حضرت شیخ عمر سہروردی رضی اللہ عنہ کی کتابوں، حضور قدوۃ الاولیا کی تذکرہ قادریہ اور تصوف کی پوری تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس سے آپ صرف ایک ہی نتیجے پر پہنچیں گے کہ روحانیت و ولایت سرتاپا اخلاق و آداب سے عبارت ہیں۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ ولایت نہ جبہ و قبا میں ہے، نہ چہرے کے جلال و دبدبہ، لہجے کی گرج، آنکھوں کی چمک دمک، تسبیح شماری، پیونددار کپڑے، اعلیٰ ریشمی لباس پہننے، کٹیا یا محل میں رہنے سے ہے۔ یہ ساری چیزیں ولایت اور روحانیت سے لا تعلق ہیں۔ ولی کوئی بھی ہوسکتا ہے خواہ وہ بوعلی قلندر رحمۃ اللہ علیہ کی طرح پھٹے لباس میں ہو یا حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی طرح ستر ہزار دینار کی دستار پہنے ہوئے ہو، سوکھی روٹی پانی میں ڈبوکر کھانے والا اور شاہی دسترخواں سے بھی بڑے لنگر خانے کا مالک نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ بھی ولی ہوسکتا ہے۔

حضرت سلطان العارفین بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے نام اور مقام سے کون واقف نہیں؟ ان کے احوالِ سیرت میں ہے کہ دور دراز کی مسافت طے کر کے کوئی شخص آپ کی خدمت میں مرید بننے کے لئے حاضر ہوا اور چالیس دن صحبت میں گزار کر بیعت کئے بغیر واپس جانے لگا تو آپ نے اس کو واپس بلالیا اور پوچھا کس لئے آئے تھے اور جاکیوں رہے ہو؟ وہ کہنے لگا کہ حضرت بیعت کرنے کے لئے آیا تھا لیکن اتنے دن آپ کی صحبت میں گزارے اور کوئی کرامت ہوتی نہیں دیکھی اس لئے کسی اور آستانے کی طرف جا رہا ہوں۔ آپ فرمانے لگے اے شخص بیعت کر یا نہ کر، تیری مرضی مگر ایک بات کا جواب دیتا جا۔ تو نے ہمارے پاس گزارے ان چالیس دنوں میں جو کیا کوئی ہمارا کلام یا کوئی فعل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ کے خلاف دیکھا۔ کہنے لگا کہ حضرت ایسی تو کوئی بات نہیں دیکھی۔ آپ نے فرمایا کہ جا ہمارے پاس اس سے بڑی کرامت اور کوئی نہیں۔ اولیاء اللہ کا فرمان ہے:

’’الاستقامة فوق الکرامة‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین پر چلتے چلتے استقامت آجائے تو یہ کرامت سے بھی بڑی بات ہے۔

حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ وہ ہستی ہیں کہ جن کے بیس سال اس عالم میں گزرے کہ وہ اللہ سے ہمکلام ہوتے تھے لیکن لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ ہم سے خطاب کر رہے ہیں وہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قائم رہنے کو اور ثابت قدم رہنے کو کرامت سے بھی بلند تر مقام دے رہے ہیں۔

ذیل میں حضور پیر سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے اخلاقِ حمیدہ کے گیارہ اوصاف کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے:

1۔ پہلا وصف: سکوت کثیر، کلام قلیل

حضور پیر صاحب کثیر السکوت اور قلیل الکلام تھے۔ آپ مجالس میں ہوتے تو سکوت کثیر اورکلامِ قلیل فرماتے یعنی بولتے کم اور زیادہ دیر خاموش بیٹھے رہتے۔ سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنتِ غوثیہ پر عمل پیرا ہوتے۔ آپ کا معمول تھا کہ سر مبارک جھکا کر دیر تک دوسروں کا کلام سنتے رہتے۔ ہم نے اکیس سالہ دور میں آپ کی زندگی میں خلق کا یہ پہلو بدرجہ اتم موجود تھا۔

2۔ حسب حال و ضرورت کلام

حضور پیر صاحب میں دوسری خوبی یہ تھی کہ حاضرین و سامعین کے حسب حال اور حسب ضرورت کلام فرماتے۔ اگر علماء سامنے ہوتے تو علمی گفتگو فرماتے، جس سے ان کی تشنگی دور ہوتی۔ مریدین، فقراء اور روحانی الذہن افراد ہوتے تو ان کی ضرورت کے مطابق کلام کرتے اور ریاضت کی تلقین کرتے۔ طلبہ حاضر ہوتے تو آپ کے کلام میں ان کی رہنمائی کا سامان ہوتا۔ اطباء اور حکماء ہوتے تو آپ کی گفتگو طب اور حکمت کے لطائف اور رموز سے مزین ہوتی۔ مختلف اقسام کے پتھروں کا موضوع چھڑتا تو آپ اس پر معلومات کا دریا بہا دیتے۔ علم جغرافیہ اور سمندری علوم کا کوئی ماہر سامنے ہوتا تو آپ کی گفتگو میں ایسے ایسے گوشے بے نقاب ہوتے کہ عقل دنگ رہ جاتی۔ اسی طرح علم جفر، رمل اور علم نجوم پر آپ حسب ضرورت سیر حاصل گفتگو فرما لیتے اور اس کا کوئی پہلو تشنہ نہ چھوڑتے۔ سیاست اور بین الاقوامی امور پر گفتگو فرماتے تو اس کے ہر گوشے اور ہر پہلو پر آپ کی گہری نظر ہوتی۔

3۔ صدق اور راست گوئی

سچ بولنا، سچ سننا اور سچ کو پسند کرنا آپ کی فطرت ثانیہ تھی۔ اگر کوئی شخص آپ کی مجلس میں غلط بیانی سے کام لیتا تو آپ کا غصہ اور جلال دیدنی ہوتا۔ آپ جھوٹ کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ آپ سراپا صداقت اور سچائی ہی سچائی تھے۔ راست بازی اور راست گوئی آپ کے خمیر میں شامل تھی۔ آپ کی طبعیت مبارکہ تھی کہ کبھی گول مول بات نہیں کرتے تھے۔

4۔ ایفائے عہد اور پابندی وقت

حضور پیر صاحب جو وعدہ کرتے وہ پورا کرتے، کبھی زندگی میں وعدہ خلافی نہیں کی۔ ایفائے عہد اور پابندی وقت کا بہت اہتمام فرماتے۔ حضورختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکمل اتباع کو اپنا شعار بنائے ہوئے تھے جن کے بارے میں ارشاد باری ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةً حَسَنَه.

اس فرمان خداوندی کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے آپ کی شخصیت رنگی ہوئی تھی۔ آپ کی سیرت مبارکہ اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھی۔ احسنکم ایمانا و احسنکم اخلاقا (تم میں سب سے بڑھ کر ایمان اس کا ہے جس کا اخلاق سب سے بہتر ہے) کا فیضان پوری طرح آپ کی زندگی میں رچ بس گیا تھا۔

5۔ مہمان نوازی اور کمال سخاوت

یہ مشاہدے کی بات ہے کہ مہمان نوازی حضور پیر صاحب کی شخصیت کا لازمی جزو تھی۔ آپ کے دسترخوان جیسا وسیع دستر رحمۃ اللہ علیہ خوان بادشاہ کا نہ ہوگا۔ میں پچیس سال پہلے درسِ قرآن کے سلسلے میں کوئٹہ یا کراچی جاتا تو تین چار دن کے قیام کے دوران میرے لئے حکم ہوتا تھا کہ کھانا مستقلاً ان کے ہاں کھاؤں، کسی اور جگہ کھانے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ میں نے ہمیشہ آپ کے دسترخوان پر معاشرے کے سرکردہ لوگوں کے ساتھ ساتھ مفلوک الحال لوگوں کو بھی پایا۔ وہ لوگ مجھ سے پوچھتے تھے کہ اگر اجازت ہو تو حضور پیر صاحب کے پاس کھانے کے لئے جائیں۔ پانچ دس مہمان میرے ساتھ ہوتے اور پانچ سات خود حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بلائے ہوتے۔ ہر کھانے پر اتنا بڑا دسترخوان بچھا ہوتا کہ ڈیڑھ دو درجن لو گ شریک طعام ہوتے۔

ہر دسترخوان کی کشادگی کا یہی حال ہوتا، یوں لگتا کسی بادشاہ وقت کا دسترخوان ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ یہ غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا دسترخوان تھا جو کسی سلطانِ عالم کے دسترخوان سے کم نہ تھا۔ پھر دسترخواں پر چنے ہوئے کھانوں کو شرکائے طعام دیکھتے تو عش عش کر اٹھتے۔ اس پر ایسے پھل موجود ہوتے جن کے نام بھی بہت سوں نے نہ سنے ہوتے۔ خود مجھے ایسا اتفاق ہوا کہ ایسے پھل کھانے کو ملے جن کے نام سے بھی میں آشنا نہ تھا۔ حضور پیر صاحب کا دسترخواں صحیح معنوں میں ایک بین الاقوامی دسترخوان تھا جس پر بہت سی نادر ڈشیں موجود ہوتیں۔ حضور پیر صاحب کا عالم یہ تھا کہ کھانے میں کمی نہ آتی، اصرار کرکے کھلاتے رہتے۔

آپ کے دسترخواں پر انواع و اقسام کے پھل ہوتے تھے جو آپ بار بار اصرار کرکے آئے ہوئے مہمانوں کو کھلاتے۔ اتنا وسیع دسترخوان تھا کہ جس سے آپ خود برائے نام کھاتے اور دوسروں کو زیادہ سے زیادہ کھانے کا تقاضا کرتے۔ وہ شاہ جیلاں کے شہزادے تھے جن کی وسیع الظرفی اور کشادہ دلی اپنی مثال آپ تھی۔

6۔ علم اور اہل علم کی تعظیم و تکریم

حضور پیر صاحب چونکہ خود صاحب علم اور علم کا سمندر تھے اس لئے علم کے بڑے قدرداں تھے، علماء کی تکریم فرماتے اور ان کی خاطر مدارات کرنے میں وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے علم اور علماء کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔ آپ بھی اہل علم حضرات کی بہت تکریم کرتے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ پر عمل پیرا تھے حالانکہ وہ خود علم کا بحر بیکراں تھے جبکہ ہماری مثال سمندر کے مقابلے میں ایک قطرے کی ہے۔

7۔ پیکرِ خود داری

حضور پیر صاحب سربراہِ وقت، امراء و حکام کے دروازے پر کبھی نہ جاتے تھے۔ آپ نے کسی اہل دنیا کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کیا تھا۔ آپ سائل نہیں بلکہ معطی تھے اور ہمیشہ معطی رہے۔ آپ کا ہاتھ دینے والا تھا، لینے والا نہیں تھا۔ آپ حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کی سنت پر دل و جاں سے عمل کرتے تھے۔ امراء اور بڑے بڑے متمول افراد کے ہاں آنا جانا کبھی آپ کا معمول نہ تھا بلکہ اس کے برعکس بڑے صاحب ثروت اور دنیا دار لوگ آپ کے دروازے پر سائل بن کر آتے تھے۔ لوگوں نے سابق صدر محمد ایوب خاں اور جنرل ضیاء الحق کو آپ کے درِ دولت پر آتے دیکھا۔ وہ اگر چاہتے تو ایک اشارہ ابرو پر حاکمانِ وقت سے جو چاہتے حاصل کر سکتے تھے مگر استغناء اور شان بے نیازی آپ کے کردار سے جھلکتی تھی جو کسی اہل دولتِ رسم وراہ رکھنے میں حائل تھی۔ چشم فلک نے بار ہا منظر دیکھا کہ دنیادار لوگ بار ہا آپ کے دروازے پر آتے لیکن آپ نے کسی سربراہ، حاکم، امیر کے دروازے پر جانے کا سوچا بھی نہیں۔

8۔ ایتاع شریعتِ محمدی

حضور پیر صاحب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کا مکمل نمونہ تھے۔ دُنیائے اسلام، شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ناموسِ رسالت کی غیرت و حمیت آپ کے ریشے ریشے میں رچی بسی ہوئی تھی۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں ادنیٰ گستاخی بھی برداشت نہ کرتے تھے۔ اگر کسی کی طرف سے دریدہ دہنی کا ارتکاب دیکھتے تو اس وقت آپ کی رگِ حمیت پھڑک اٹھتی اور آپ کا غصہ و جلال دیدنی ہوتا۔

9۔ کمال تقویٰ و پرہیزگاری

آپ زہد و ورع، تقویٰ و پرہیزگاری، پابندیٔ شریعت اور اتباع سنت میں استقامت کے کوہِ گراں تھے۔ آپ کی پوری زندگی اطاعتِ حق اور سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مطابقت کا نمونہ تھی۔ طہارت، تقویٰ و پرہیزگاری کے اتنے عظیم پیکر تھے کہ آپ کا ظاہر بھی آپ کے باطن کی طرح بے داغ، صاف ستھرا اور اجلا ہوتا تھا۔ حددرجہ وصفدار تھے۔ کبھی آپ کے ساتھ تنہائی کے لمحات میسر آتے تو مجھ پر اتنی شفقت فرماتے جو بیان سے باہر ہے۔ مجھے آپ کا ’’طاہر‘‘ کہہ کر پکارنا آج بھی یاد آتا ہے تو کان آج بھی اس پکار کو ترستے ہیں۔ وہ تنہا ایسی ہستی تھی جو میرے لیے شفقت پدرانہ کے بے پناہ جذبات رکھتی۔ میری سماعت میں آج ان کے شریں الفاظ رس گھولتے ہیں۔ ہمیشہ سفید لباس زیب تن کئے رہتے جس پر کبھی کوئی ہلکا سا دھبہ یا داغ نہ ہوتا۔ تقوی اور پرہیزگاری کا اتنا خیال رکھتے کہ اتباع سنت اور خُلقِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ پوری زندگی ظاہری و باطنی طہارت کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔

10۔ حقوق العباد کی پاسداری

حضور پیر صاحب انتہائی خلیق خوش مزاج اور خوش اخلاق تھے آپ کے چہرہ مبارک پر ہر وقت تبسم کھلتا رہتا۔ نیم وا لبوں پر اکثر مسکراہٹ رہتی جو ایک جمال آفریں کیفیت کی آئینہ دار تھی۔ جب بھی آپ کسی مرید یا عقیدت مند سے بات کرتے تو شفقت پدری بولتی محسوس ہوتی۔ کسی کی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دیتے۔ جو بات کہتے شائستگی اور اخلاق کے دائرے کے اندر ہوتی اور اگر کسی پر غضبناک بھی ہوتے تو خلافِ حق اور ظلم و زیادتی کی بات پر ہوتے۔ ورنہ وہ ہر ایک کے لئے سراپا رحمت اور سراپا شفقت تھے۔ نرمی و رقت اور اخلاق کے ساتھ ملتے۔ کسی ملاقاتی سے مصافحہ کرتے تو پورا ہاتھ ملاتے اور ہمہ تن متوجہ ہوتے۔ آپ کی صحبت میں بیٹھنے والا ہر شخص یہ سمجھتا کہ مجھ پر سب سے زیادہ شفیق ہیں۔ مجلس میں ایک ایک آدمی پر نظر ہوتی۔ آپ کی نگاہیں ہر ایک کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہوتیں سب سے یکساں محبت و عاطفت سے پیش آتے۔

11۔ فراست و بصیرت

حضور غوث پاک کی نسبت سے فراست و بصیرت آپ کی وہ خوبی ہے جو خاص اہمیت کی حامل ہے۔ آپ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے لاڈلے بیٹے بھی تھے اور آپ کے عاشق بھی ۔ حضور غوث پاک کا ذکر چھڑ جاتا تو ان پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی۔ آپ کی سوچ اور فکر میں بہت وسعت اور کشادگی تھی، تنگ نظری نام کو نہ تھی۔ آپ کے انداز میں بے پایاں حکمت و تدبر، بصیرت اور فراست تھی جو سالہا سال کے تجربات کا حاصل تھی۔ کسی کی چھوٹی سی کہی ہویی بات سن کر فوراً تہہ تک پہنچ جاتے۔

ایک واقعہ خصوصیت سے قابلِ ذکر ہے۔ کسی نے مجھ سے وقت لیا کہ فلاں شخص جو قادیانی ہے، آپ سے تبادلۂ خیال کے لئے وقت لینا چاہتا ہے اور وہ اسلام قبول کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ میں نے ان کے ساتھ ایک گھنٹہ کی نشست رکھ لی۔ وہ مقررہ وقت پر آئے اور اپنے ساتھ اپنے مبلغ بھی لے آئے۔ ان علماء نے اس شخص کو جس نے وقت لیا تھا، سوال نہ کرنے دیا اور وہ خود ہی سوال کرتے رہے۔ آخر وقت ختم ہوگیا۔ بعد ازاں جب میں حضور پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھ سے تفصیل جاننا چاہی، میں نے عرض کر دی اور وہ سوال بھی بتا دیئے جو مجھ سے کئے گئے تھے۔

آپ نے یہ سن کر فرمایا کہ وہ آئندہ آئیں تو انہیں وقت نہ دینا، اس لئے کہ ’’وہ شخص اسلام قبول کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ آپ کو تھکانے کے لئے آیا تھا‘‘۔

آپ کی بصیرت اور فہم و فراست کے مظاہرے اور بھی کئی بار دیکھنے کو ملے جب آپ نے مجھے تنہائی میں بٹھا کر نصیحت فرمائی کہ فلاں شخص ایسا ہے اس سے بچ کے رہنا، وہ ایسا ہے اس سے ایساتعلق رکھنا۔ آپ میری تربیت فرماتے رہتے تھے۔ اللہ کی عزت کی قسم آپ نے اپنے زندگی بھر کے تجربات کی روشنی میں جس کسی کے بارے میں جو کچھ فرمایا ان کو بلا کم و کاست ویسا ہی پایا۔ میرے شیخ کامل صوفیانہ بصیرت کے مالک تھے، طبعیت میں اعتدال تھا، انتہا پسندی نام کو نہ تھی وسعتِ نظری تھی، کشادہ ظرفی تھی۔

ایسی باتوں سے جو خلفشار کا موجب بنیں آپ نے ان سے ہمیشہ بچنے کی تلقین فرمائی۔ حضور قدوۃ الاولیاء کے اخلاق عالیہ کے یہ گیارہ گوشے تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان کا صحیح خوشہ چیں بنائے اور ہم ان کے فیض سے اپنے دامن کو مالا مال کرتے رہیں۔