سہ روزہ دورہ علوم الحدیث

7، 8 اور 9 اکتوبر 2017 ء جامع المنہاج لاہور میں تشنگانِ علمِ حدیث شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کی صحبت میں اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے ملک بھر سے جامع المنہاج بغداد ٹاؤن، ٹاؤن شپ میں جمع ہورہے ہیں ۔شیوخ الحدیث ،علمائے کرام ،علوم اسلامیہ کے پروفیسرز اور جامعات کے طلبہ و طالبات کیلئے بلا شبہ یہ ایک نادر و نایاب موقع ہے کہ وہ علم حدیث جیسے اہم ترین موضوع پر سیر حاصل گفتگو اور لیکچرز سماعت کریں گے۔ تشنگان علمِ قرآن و حدیث 4 اکتوبر 2017 ء تک رجسٹریشن کروا سکیں گے جس کی جملہ تفصیل منہاج القرآن کی ویب سائٹ پرملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ آن لائن رجسٹریشن کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ اس سہ روزہ دورہ علوم الحدیث کے اختتام پر شرکاء کو علوم الحدیث کی اسناد بھی دی جائیں گی۔ نادر موقع سے فیض یاب ہونے کے لیے طالبانِ حدیث کے لیے صلائے عام ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں جب تک انہیں مضبوطی سے تھامے رہوگے گمراہ نہ ہوگے، (وہ) اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت ہے۔‘‘

حضرت ابو سعید خدری g سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’اے لوگو! میں تم میں دو بڑی قیمتی چیزیں چھوڑ رہاہوں۔ (وہ) اللہ کی کتاب او رمیری سنت ہے، تم قرآن مجید کے مطالب میری سنت کے ذریعے سمجھو، اور قرآن فہمی میں تکلف نہ برتو (یعنی گھما پھرا کر اپنی مرضی کا مطلب نہ نکالو) (اگر تم نے قرآن وسنت کو تھام لیا تو) تمہاری نگاہیں (حق کو پہچاننے سے) قاصر نہیں رہیں گی، اور تمہارے قدم (راہِ حق سے) نہیں پھسلیں گے اور تمہارے ہاتھ(کارخیر کی انجام دہی میں) ہرگز کوتاہی نہیں کریں گے‘‘۔

ان ارشادات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قرآن مجید اگرچہ کتاب ہدایت ہے لیکن سنت اور حدیث رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر قرآنی ہدایات اور احکامات کو سمجھنا اور ان پر عمل پیرا ہونا بڑا دشوار بلکہ ناممکن ہے۔ قرآن مجید میں دین کی اساسی تعلیمات اور کلیات بیان ہوئی ہیں، ان کی تفصیلات ہمیں احادیث مبارکہ میں اور اس کی عملی تشکیل سنت رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ملتی ہے۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محض پیغام رساں نہ تھے بلکہ آپ امت کے معلم و مربی بھی تھے اور احکامات الہٰی کی قولاً و عملاً توضیح و تشریح پر بھی آپ مامور من اللہ تھے۔ آپ کا ہر ہر عمل قرآن مجید کے احکامات کی عملی تفسیر اور تشریح تھا۔ مثلاً: قرآن مجید میں اقیمو الصلوۃ کہہ کر نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن نماز کو ادا کیسے کرنا ہے؟ ہر نماز کی رکعات کتنی ہیں’ نماز میں قیام، رکوع اور سجود کیسے کرنا ہے؟ اس کی تفصیلات ہمیں قرآن مجید میں نہیںملتیں۔ قرآن مجید نے ان تفصیلات کو معلوم کرنے اور سمجھنے کے لئے حتمی راستہ بھی دکھادیا، فرمایا:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔.

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے۔‘‘

(الاحزاب، 33: 21)

سورۃ آل عمران کی آیت 31 میں فرمایا:

اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اﷲُ.

’’اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا‘‘۔

اسی لئے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’تم بھی ویسے ہی نماز ادا کرو جیسے مجھے ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘

معلوم ہوا کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید کے احکامات کی عملی تشریح کرتی ہے۔ لہذا قرآن مجید کا صحیح فہم اور اس کے احکامات پر عمل کرنا سنت اور ارشادات رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ یہ مسلّم حقیقت ہے کہ قرآن مجید کے بعد رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ اور ارشادات عالیہ شریعت اسلامیہ اور اسلامی قانون سازی کا بنیادی ماخذ ہیں۔ اس پر قرآن مجید کئی آیات میں وضاحت سے فرمادیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کو امت مسلمہ کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دے دیا گیا۔ لہٰذا فہم قرآن حضور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں رجوع کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ قرآن فہمی کے لیئے امت مسلمہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توضیحات و تشریحات کی محتاج ہے۔سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید سے مل کر اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ قوانین اور ہدایات کی عملی تشکیل کرتی ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں، انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔

حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دینی اور تاریخی اہمیت کے پیش نظر صحابہ کرام ث کی جماعت سے لے کر آج تک اسلامی دنیا کے اعلیٰ ترین دماغ احادیث کی تعلیم و تدریس اور ترویج و اشاعت میں مصروف رہے۔ قرونِ اولیٰ سے لیکر موجودہ صدی تک جمع و تدوین حدیث کا کام جاری ہے اور ہزاروں کتب کا بے مثال ذخیرہ موجود ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں اکابر قومیں اور نامور علماء خدمت حدیث پر مامور رہے۔مگر موجودہ صدی میںاحادیث کی تخریج و تحقیق کو آسان فہم پیرائے میں عوام و خواص کی ضرورت کی تکمیل کے لئے پیش کرنے کی توفیق اور سعادت اللہ تعالیٰ نے مؤسسِ تحریکِ منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کے لئے مختص کر دی۔

انہوں نے اِصلاحِ اَحوالِ اُمت کے لئے دین کے حقیقی سرچشموں سے اِکتسابِ فیض کیا اور تعلیماتِ قرآن و سنت کو عصری ضرورتوں کے سانچوں میں ڈھال کر نوجوانوں کی ذہنی سطح کے عین مطابق پیش کرنا شروع کیا۔آج زندگی نئے ادوار میں داخل ہو کر نئے تقاضوں کا سامنا کر رہی ہے۔ ہر دور کی طرح آج کی حشر سامانیوں کا مقابلہ بھی اہل علم و رجال دین کا فرض ہے۔ آج جس طرح قرآن کی تشریحات، اطلاقات اور مفاہیم کی تعبیر نو وقت کا تقاضا ہے اسی طرح احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اسلام کا دوسرا بڑا ماخذ اور ذریعہ عمل (source of inspiration) ہے اس کی حقانیت اور حجیت مسلّم کرنے کی کہیں زیادہ ضرورت ہے اور اس کی کئی بنیادی وجوہات ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

  • پہلی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی قطعیت، آفاقیت اور حجیت امر ثابتہ ہے۔ اگرچہ مبغضینِ اسلام اس پر بھی اظہار تشکیک سے باز نہیں آتے لیکن قرآن کی حقانیت و صداقت پر اعتراض کرنے والوں کے مقابلے میں احادیث و سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حجیت و اتباع پر انگلی اٹھانے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
  • احادیث نبویہ پر کام کرنے کی ضرورت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ نسل نو جدید علوم و افکار سے متاثر ہورہی ہے۔ ان کے ذہنی افق پر جدید مادی اور الحادی افکار و نظریات کی چھاپ نمایاں ہورہی ہے جس کے مظاہر روزمرہ حالات و واقعات سے عیاں ہیں۔ ایسے میں ذہن جدید کی تسکین، اضطراب اور تشکیک کا علاج قرآن حکیم کے بعد حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترویج و تدریس سے ہی ممکن ہے۔
  • احادیث کا ذخیرہ امت مسلمہ کے پاس ایک نعمت خداوندی ہے جس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔ یہ علوم اور معارف کی ایک مستند تاریخ ہے جس سے قیامت تک ہر دور کا انسان حسب حال مستفیض ہوتا رہے گا۔ آج کا انسان اپنی علمی انتہائوں پر پہنچ کر بھی علم بالوحی کے بغیر حقیقت مطلقہ تک رسائی سے قاصر ہے۔ اس لئے نام نہاد ترقی کی منزلیں طے کرنے والی انسانیت کے لئے ہدایت ربانی کے اس نبوی کلام اور پیغمبرانہ دستور کی معرفت بہت ضروری ہے۔

قرآن حکیم کی طرح حدیث نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تمام علوم و معارف کا سرچشمہ ہے۔ ہر دور کے انسان نے اس سرچشمہ صافی سے راہنمائی حاصل کی۔ آج علوم معاشرت (Social Sciences)، علوم طبعی (Natural Sciences)، علوم الاقتصاد (Economics)، علومِ طب (Medical Sciences) اور دیگر علوم کی نئی نئی جہتیں سامنے آرہی ہیں۔ نئی تہذیب اور ثقافت جنم لے رہی ہے۔ مسلم تاریخ ایک بالکل نئے موڑ پر آپہنچی ہے جہاں اسے نئے مسائل اور نئے چیلنج در پیش ہیں۔ ان مسائل اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں وہی نور وہی یقین اور وہی وثوق اور عرفان درکار ہے جو ہر دور میں اہل ایمان کا طرہ امتیاز رہا ہے اور اس کا حصول قرآن و سنت جیسے یقینی علم کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست، معیشت، معاشرت، تربیت، تجارت اور تدریس و تعلیم جیسے بنیادی موضوعات پر نئے سرے سے حدیث نبوی کے محققہ مجموعے مرتب کئے جائیں۔ اس میں شک نہیں کہ آج کل ہمارے مذہبی، تعلیمی اداروں اور خصوصاً جامعات میں اس نوعیت کے منتخبات پر کام ہورہا ہے مگر امتحانی ضرورت اور مخصوص تحقیقی نقطہ نظر سے ہٹ کر عامۃ الناس کی ضرورت اور افادیت کو سامنے رکھا جانا زیادہ ضروری ہے۔

  • متون حدیث کی ترتیب نو کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ احادیث کے مفاہیم و معانی اور تشریح کو دور جدید کے تناظر میں رکھ کر بیان کیا جائے۔

مندرجہ بالا حقائق سے واضح ہوجاتا ہے کہ عصر حاضر میں خدمت حدیث کا کتنا وسیع سکوپ موجود ہے۔ چنانچہ شیخ الاسلام مجدد الدین والملہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ جیسی دانا و بینا ہستی کی نظروں سے یہ میادین علم و فکر اوجھل نہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت بھی مرحمت فرمائی ہے کہ وہ محض علمی ذخیرے جمع نہیں کرتے بلکہ امت مسلمہ کا ایک قابل ذکر حصہ خصوصاً نئی نسل ان سے مانوس بھی ہے اور ان کے اشارہ ابرو پر جان بھی چھڑکتی ہے۔ ان کے مواعظ حسنہ اور علمی و تحقیقی نشریات سے ایک جہان مستفیض ہورہا ہے۔

یوں تو انہوں نے تفسیر، سیرت، تصوف، سائنس، معاشیات، سیاسیات، عمرانیات اور فکریات پر بے مثال ذخیرہ سمعی، بصری اور کتابی شکل میں قوم کو دیا ہے اور یہ مقدس مشن اب بھی جاری ہے لیکن احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کے محاذ پر جتنی عرق ریزی اور جانفشانی سے انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیئے یہ توفیق ہمارے دور میں عرب و عجم کے کسی شخص کے حصے میں نہیں آئی۔ بلاشبہ ان کی مجتہدانہ شان اور منصب اس بات کا متقاضی بھی تھا کہ وہ اس بنیادی دینی ضرورت کی طرف متوجہ ہوتے۔

آخر میں اُن تمام احباب کو دعوتِ عام ہے کہ وہ اس دورۂ حدیث میں شرکت کر کے علمی پیاس بجھائیں اور حدیث شریف کو جدید تقاضوں کے مطابق سمجھیں اور پھر سمجھائیں۔ اللہ رب العزت ہمیں قرآن و سنت کو سیکھنے ،سمجھنے اور اپنی زندگیوں کو ایمانیات سے لبریز تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ نیز ہمیں خدمت دین کی عظیم خدمت کی سعادت عطا فرمائے تاکہ ہم علم کی تحصیل و ترسیل کا آخری سانس تک حق ادا کرتے رہیں۔