علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی نظر میں

محمد افضل قادری

حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال محض ایک شاعر، فلسفی اور مفکر ہی نہیں تھے بلکہ آپ دانائے راز اور ترجمانِ حقیقت بھی تھے۔ دین کا حقیقی فہم، تاریخ اسلام پر عمیق نظر، مذاہب عالم اور اقوام وملل کے وسیع مطالعہ اور معروضی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے۔ قدرت نے انہیں ایسی بصیرت اور حکمت و دانائی عطا فرمائی تھی کہ آپ کے آئینہ دل پر ایامِ فردا کی تصویر پہلے ہی عیاں ہو جاتی تھی۔ اس خداداد بصیرت سے آپ نے مسلمانانِ عالم کی نہ صرف فکری و نظریاتی رہنمائی کی بلکہ عملی سطح پر بھی ان کی قیادت کا فریضہ سرانجام دیا۔

حکیم الامت کی ہمہ جہت شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر اربابِ فکر و دانش اور صاحبانِ ذوق اپنے اپنے انداز میں خراجِ تحسین پیش کرتے رہے ہیں، ذیل میں ہم شاعر مشرق کی شخصیت کے چند پہلوئوں پر نابغہ روز گار، محققِ عصر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے خیالات سپردِ قلم کرتے ہیں۔

عقیدہ و تہذیب کو ترجیح:

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے دینی رسوخ اور عقیدہ و ایمان کی پختگی کا یہاں سے اندازہ لگائیں کہ آپ نے مسلمانوں کے جغرافیائی تشخص کی شدید خواہش کے باوجود، جغرافیائی وفاداری کے مادی تصور کے بجائے عقیدہ و مذہب کو ترجیح دی۔ وہ ایک ایسی آزاد ریاست چاہتے تھے جہاں دین اپنی حقیقی روح کے ساتھ کارفرما ہو۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری علامہ اقبال کی اس فکر کے حوالے سے رقمطراز ہیں:

’’علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے قوم اور ملت کی تشکیل کے لئے جغرافیائی وفاداری کا مادی تصور رد کر دیا تھا اور اس کی جگہ جینے اور مرنے کے لئے عقیدہ، تہذیب اور تاریخی روایات کو منتخب کیا۔ وہ امت مسلمہ کو ایک نظریاتی قوم کے طور پر زندہ دیکھنا چاہتے تھے۔ علامہ کے نزدیک سب سے اہم چیز آدمی کا عقیدہ، اس کی تہذیب اور تاریخی روایات ہیں، نہ کہ وہ زمین کا ٹکڑا جس کے ساتھ عارضی طور پر روح انسانی کا رابطہ ہو گیا ہو۔‘‘

(شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری، اقبال کا خواب اور آج کا پاکستان: 7)

ہندوستان کے مسلمانوں کی سیاست میں اسلامی فکر کی نفوذ پزیری اقبال کے نزدیک کتنی اہم تھی، اس کا اندازہ اس خط سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے 5 دسمبر 1928ء کو میر سید غلام بھیک نیرنگ کے نام لکھا۔ آپ فرماتے ہیں:

’’اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات سے محض آزادی اور اقتصادی بہبود ہے اور حفاظتِ اسلام اس مقصد کا عنصر نہیں ہے، جیسا کہ آج کل کے ’قوم پرستوں‘ سے معلوم ہوتا ہے، تو مسلمان اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہ ہوں گے۔‘‘

(اقبال نامہ، مجموعہ مکاتیب اقبال، شیخ عطاء اللہ: 196)

قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں

(علامہ محمد اقبال، بانگ درا: 213)

شیخ الاسلام کے نزدیک علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس خطہ ارضی پر معرض وجود میں آنے والی نئی ریاست کو ایک اسلامی اور فلاحی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ ایسی ریاست جس میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہو اور اس میں بسنے والی قوم ایک نظریاتی قوم ہو۔ چنانچہ وہ 28 مئی 1937ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کے نام خط میں لکھتے ہیں:

’’اسلامی شریعت کے گہرے اور دقیق مطالعے اور طویل غور و فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ معاشی مسئلے کا حل صرف اسلامی آئین کا نفاذ ہے۔ اگر اس آئین کو کما حقہ سمجھ کر نافذ کر دیا جائے تو کم از کم ہر ایک کا حق معیشت محفوظ ہو سکتا ہے لیکن اس ملک میں جب تک ایک آزاد مسلم ریاست یا مسلم ریاستیں معرض وجود میں نہیں آئیں گی۔ اسلامی شریعت کا نفاذ ممکن نہیں ہو سکتا۔ سال ہا سال سے میرا یہ عقیدہ ہے اور میں اب بھی اس کو مسلمانوں کی روٹی اور ہندوستان کے امن و امان کا بہترین حل سمجھتا ہوں کہ مسلمان ایک الگ ریاست قائم کریں اور اس میں اسلامی شریعت کو نافذ کر دیا جائے۔‘‘

شیخ الاسلام فکرِ اقبال سے روگردانی کے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

’’علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا اور قیام پاکستان کے لئے جن مقاصد کا تعین کیا تھا، طویل عرصہ گزرنے کے باوجود اس طرف کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس تاخیر کے نتیجے میں صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ اب بعض وطن دشمن عناصر نے اخبارات اور رسائل کے ذریعے یہ تاثر دینا شروع کر دیا ہے کہ قیام پاکستان کا مقصد اسلامی شریعت کا نفاذ نہیں تھا اور پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اﷲ کا نعرہ قائد اعظم نے نہیں لگایا تھا۔ جدوجہد پاکستان کا مقصد محض انگریزوں کے جانے کے بعد غالب ہندو اکثریت کی غلامی سے مسلمانوں کو نجات دلا کر انہیں سیاسی اور سماجی طور پر ایک آزاد خطہ دلانا تھا۔‘‘

شیخ الاسلام اس اسلام گریز فکر کا محاکمہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:

’’ وہ لوگ جنہوں نے پاکستان کی مادی تعریف کی ہے اور اس کی تہذیبی اور نظریاتی تعبیر کے آج قائل نہیں رہے، وہ نسلیں جو قیام پاکستان کے بہت عرصہ بعد پیدا ہوئیں اور انہوں نے فقط کتابوں اور اخبارات کے ذریعے قیام پاکستان کی تعبیر سمجھنے کی کوشش کی ہے، آج جب ان کے کان یہ سنتے ہیں کہ قیام پاکستان کسی تہذیبی، ثقافتی اور نظریاتی بنیادوں پر نہیں بلکہ فقط سیاسی، سماجی اور معاشی بنیادوں پر وجود میں آیا تو خود قیامِ پاکستان کا جواز اور اس کے لئے دی گئی لاکھوں انسانوں کی قربانیوں کا جواز محل نظر ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے خطبات واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ جس پاکستان کا تصور انہوں نے پیش کیا وہ تہذیبی اور ثقافتی طور پر ایک اسلامی، نظریاتی اور فلاحی مملکت تھا۔‘‘

(شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری، اقبال کا خواب اور آج کا پاکستان: 6)

ایک مسلمان کے لیے دین سے وابستگی اور عقیدہ و ایمان سے تمسک کتنا اہم ہے، اس حوالے سے دانائے راز علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں:

مذہب کی حرارت بھی ہے کچھ اس کی رگوں میں؟
تھی جس کی فلک سوز کبھی گرمیِ آواز

آیا ہے مگر اس سے عقیدوں میں تزلزل
دنیا تو ملی، طائرِ دیں کر گیا پرواز

دِیں ہو تو مقاصد میں بھی پیدا ہو بلندی
فطرت ہے جوانوں کی زمیں گیر زمیں تاز

مذہب سے ہم آہنگیِ افراد ہے باقی
دِیں زخمہ ہے، جمعیّتِ مِلّت ہے اگر ساز

بنیاد لرز جائے جو دیوارِ چمن کی
ظاہر ہے کہ انجامِ گُلستاں کا ہے آغاز

(علامہ محمد اقبال، بانگ درا: 258)

اسلامی سلطنت کے قیام کا شعور اور اقبال:

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری بیان کرتے ہیں کہ حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی دور رس نگاہوں نے برصغیر میں ہونے والی سیاسی و جغرافیائی تبدیلیوں کو پہلے ہی بھانپ لیا تھا۔ وہ مشترکہ ہندوستان میںمسلمانوں کا مستقبل بہت مخدوش دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اسلامیان ہند کو اپنا اور اپنی نسل کا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے ایک الگ اسلامی سلطنت کے قیام کا مشورہ دیا۔انہوں نے قیام پاکستان سے کئی سال قبل مسلمانوں کو خبردار کر دیا تھا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اسلام فقط ایک مذہب اور روایت کے طور پر نہیں بلکہ ایک تمدنی قوت کے طور پر زندہ رہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کریں۔ شیخ الاسلام شاعر مشرق کے سیاسی نظریہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

’علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا سیاسی مسلک ان کے اسلامی عقائد و نظریات کے تابع تھا۔ آپ 1930ء میں اسلامی مرکزیت کے خطے کے طور پر پاکستان کا تصور پیش کر کے جا بجا اسلامی سلطنت کے خدوخال بیان کرتے ہیں اور اسلامی قیادت کی تیاری کے لئے اسلامی تعلیمات مہیا کرتے ہیں۔‘

(شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری، اقبال کا خواب اور آج کا پاکستان: 6)

عالمی سازشوں بارے انتباہ:

شیخ الاسلام کے نزدیک اس وقت امت مسلمہ کو کفر اور طاغوت کی عالمی سازش کے تحت قرآن و سنت سے دور رکھ کر مغربی جمہوریت کے جال میں پھنسا دیا گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت اور تجارتی سیاست کے متعلق یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ اسلام کے عین مطابق ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس کے مکروہ چہرے سے بھی پردہ اٹھاتے ہیں اور اپنی قوم کو مخاطب کر کے خواب غفلت سے بیدار کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر
شاخ آھو پر رہی صدیوں تلک تیری برات

دستِ دولت آفریں کو مُزد یوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوٰۃ

نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
خواجگی نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات

(علامہ محمد اقبال، بانگ درا: 276)

اقبال اور دین و سیاست کی یکجائی کا تصور:

شیخ الاسلام دین اور سیاست کے باہمی تعلق پر اقبال کے نظریات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ دین اور سیاست کی دوئی کو رد کرتے ہیں اور اسے چنگیزی سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب بھی وطن کے جغرافیائی بنیادوں پر معرض وجود میں آنے اور قوم و ملت کے وطنیت کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے کی بات ہوتی تو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس کی مخالفت کرتے اور اسے امت مسلمہ کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی
ہوس کی امیری، ہوس کی وزیری

دوئی ملک و دین کے لئے نامرادی
دوئی چشم تہذیب کی نابصیری

(علامہ محمد اقبال، بال جبریل: 122)

دین و سیاست میں دوئی کے بھیانک نتائج کا ذکر کرتے ہوئے حکیم الامت فرماتے ہیں:

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہوں دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

(علامہ محمد اقبال، بال جبریل: 50)

فکر اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا امتیازی پہلو- قدیم و جدید کا حسین امتزاج:

شیخ الاسلام کی نظر میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی فکر و نظر قدیم بھی ہے اور جدید بھی، نہ وہ ایسے تجدد کو پسند کرتے ہیں جو ہمارے سرمایہ ایمان کو اسلاف سے کاٹتا ہو اور نہ دینِ ملا کے جمود کے حامی ہیں جس کی وجہ سے شریعت اسلامیہ کا تحرک رک جائے۔ وہ ایسی ہر سوچ کی مخالفت کرتے ہیں جس سے ارتقاء کا سلسلہ بند ہو جائے اور امت جدید مسائل کے مطابق اجتہادی صلاحیتوں کے ساتھ اسلام کا حل پیش کرنے کی بجائے چار، پانچ صدیاں پیچھے چلی جائے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی حیثیت یہ تھی کہ ان کا ایک ہاتھ قدیم پر تھا اور ایک ہاتھ جدید پر تھا۔ وہ حرف رابطہ تھے، وہ دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض مدینے سے لے کر امت مسلمہ کو یورپ سے بہتر روشنی دے رہے تھے۔

فلسفۂ اقبال اور تصور عشق:

حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے اپنے سحر آفریں کلام کے ذریعے افرادِ امت میں عشق و جنوں اور درد و سوز کے جذبات پیدا کیے ہیں۔ علامہ اقبال کے تصورِ عشق کی حقیقت پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے شیخ الاسلام فرماتے ہیں:

’’اقبال کے نزدیک عشق ہرگز ایسا جذبہ نہیں جو انسان کے فکر و عمل کی قوتوں کو مضمحل یا مفلوج کرکے رکھ دے۔ اسی طرح اقبال اس کیفیت کو بھی عشق تصور نہیں کرتا جو انسانی زندگی کو جہدِ مسلسل کی تلخیوں سے راہ فرار اختیار کرنے کی ترغیب دے بلکہ اقبال کے ہاں عشق اس جذبے اور کیفیت کا نام ہے جو اگر فردِ واحد کے وجود میں سرایت کر جائے تو اس کی اقلیم زندگی میں انقلاب برپا کر دے اور اگر اس کا پر تو معاشرے کی اجتماعی زندگی پر پڑ جائے تو اس کے فکر و عمل کے دھاروں کو بدل کے رکھ دے۔‘‘

(شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری، اقبال اور تصور عشق: 11)

عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زِیر و بم
عشق سے مٹّی کی تصویروں میں سوزِ دم بہ دم

آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق
شاخِ گُل میں جس طرح بادِ سحَر گاہی کا نَم

(علامہ محمد اقبال، بال جبریل: 44)

اقبال اور ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ عقیدت:

شیخ الاسلام کے نزدیک علامہ اقبال ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی امیدوں کا مرکز و محور گردانتے تھے۔ اقبال کے نزدیک خلق انسانی سفر کا آغاز ہے اور تقدیر اس کی صورت گری ہے جب کہ ہدایت حیاتِ انسانی کے سفر کی انتہائی منزل ہے۔ تاہم یہ سب کچھ محض ابتداء ہے لیکن جب ارتقائے انسانیت کا سفر اپنے نقطۂ کمال کو پہنچتا ہے تو وہ وجودِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روپ دھار لیتا ہے۔علامہ اقبال اس مضمون کو اپنے اس شعر میں یوں بیان کرتے ہیں:

خلق و تقدیر و ہدایت ابتدا است
رحمۃ للعالمینی انتہا است

وجودِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فکر انسانی کی معراج ہے اور عمل انسانی کا نقطۂ کمال بھی۔ اس لیے اقبال کے نزدیک اتباع مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصول اس ذاتِ ستودہ صفات کے اندر فنا ہوئے بغیر میسر نہیں آسکتا۔ اقبال مرد مومن کو اس حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے:

بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ ادست
اگر بہ اُو نرسیدی تمام بولہبی است

شیخ الاسلام مذکورہ شعر کی شرح میں فرماتے ہیں:

اقبال در اصل مرد مومن سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ تو اپنی ہستی کو وجودِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس طرح فنا کردے کہ نہ تو تیرا انفرادی تشخص نسبت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر باقی رہے اور نہ ہی تیرا قومی وملی امتیاز۔ تو جہاں کہیں بھی جائے مصطفوی ہونے کے ناطے پہنچانا جائے۔ کیونکہ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ نہ صرف فرد کا امتیاز انفرادی وجود بلکہ قوموں کا جدگانہ تشخص بھی نسبت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی کا مرہون منت ہے اور اگر وہ اس سے مستغنی و بیگانہ ہونے کی کوشش کریں گے تو پھر ان کی بقا مبدل بہ فنا ہوجائے گی کیونکہ بقول اقبال:

تاشعارِ مصطفی از دست رفت
قوم را رمز بقا از دست رفت

تاریخ اسلام کے اوراق پر نظر ڈالیے تو دکھائی دے گا کہ قومیں اور ملتیں اُس وقت تک زندہ رہیں جب تک کہ وہ دہلیز مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دریوزہ گری کرتی رہیں اور جب وہ بدبختی کی وجہ سے در مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے نیاز ہوگئیں تو گردش لیل و نہار نے انہیں نظر انداز کر کے قعر مذلت میں دھکیل دیا اور پھر سے بولہبی ان کا مقدر بن گئی۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغاثہ:

اقبال حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنوں کی حد تک محبت کرتے تھے۔ وہ معاملاتِ حیات میں رہنمائی اور استعانت کے لیے ہمیشہ بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع کرتے تھے۔ شیخ الاسلام اقبال کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں استغاثہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

’’علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ہر طرف سے پریشان ہو کر سوچتے ہیں کہ وہ اپنے خواب کی تعبیر کے لئے کہاں جائیں۔ انہیں سارے مادی، لادینی افکار و نظریات اور تہذیب و ثقافت کے تصورات میں ہر طرف گھناؤنا پن نظر آتا ہے۔ وہ اپنے خواب کی خوبصورت تعبیر کے لئے دربار رسالت میں عرض کرتے ہیں:

تو اے مولائے یثرب! آپ میری چارہ سازی کر
میری دانش ہے افرنگی، میرا ایمان ہے زُنّاری

امت مرحومہ کے احیاء کے لیے روح محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استمداد کرتے ہوئے پکارتے ہیں:

شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر
اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے!

وہ لذت آشوب نہیں بحر عرب میں
پوشیدہ جو ہے مجھ میں وہ طوفان کدھر جائے

ہر چیز ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد
اس کوہ و بیاباں سے حدی خوان کدھر جائے

اس راز کو اب فاش کر اے روح محمد
آیاتِ الٰہی کا نگہبان کدھر جائے

(علامہ محمد اقبال، ضربِ کلیم: 61)

شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نے فکرِ اقبال کا محض فکری و نظریاتی سطح پر مطالعہ ہی نہیں کیا بلکہ تحریک منہاج القرآن کی صورت میں اس حیات آفریں فکر کا عملی اظہار بھی کیا ہے۔ وہی جذبہ، ولولہ، امنگ، تڑپ اور عشق و جنوں کے جذبات جو فکر اقبال کا طرہ امتیاز تھے آج شیخ الاسلام نے لاکھوں لوگوں پر پھونک کر اُن کے عروقِ مردہ میں زندگی کی لہر دوڑا دی ہے۔ آج جب تحریک کے توسل سے مشرق و مغرب میں اقبال کے پیغامِ امن و آشتی کا پرچار ہوتا ہے تو یقیناً روحِ اقبال سکون و راحت محسوس کرتی ہو گی۔