سانحہ ماڈل ٹاؤن، جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ، قانونی جدوجہد

چیف ایڈیٹر

سانحہ ماڈل ٹاؤن انسداد دہشتگردی عدالت لاہور میں دائر استغاثہ کے حوالے سے باضابطہ ٹرائل کا آغاز ہو چکا ہے۔ 16 نومبر کو شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے وکلاء کی طرف سے 120 ملزمان کو جملہ دستاویزات آڈیو، ویڈیو کی سی ڈیز اور پرتشدد واقعات پر مبنی تصاویر کے ثبوت جو استغاثہ کا حصہ تھے، فراہم کر دئیے گئے۔ مختلف بیانات اور ثبوتوں سے متعلق 90 ہزار کاغذات، 800 سے زائد سی ڈیز اور 7 ہزار سے زائد تصاویر پر مشتمل ثبوت ملزمان کے حوالے کر دئیے گئے۔ ہمارے موجودہ نظام انصاف میں مظلوموں کو حصول انصاف کیلئے جس مالی، ذہنی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے اس کی ایک جھلک اس طرح سے ہے کہ ملزمان کو ان کے اوپر عائد الزامات کی دستاویزات فراہم کرنا مدعی / مستغیث کی ذمہ داری ہے اور اس حوالے سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان کو دستاویزات کی فراہمی سے لاکھوں روپے کے اضافی اخراجات برداشت کرنا پڑے۔ ابھی ٹرائل کا آغاز ہوا ہے، اس کا اختتام کب ہوتا ہے اور انصاف کب ملتا ہے اور کب تک اخراجات کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اس کے بارے میں کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اس ظالم نظام کو بدلنے اور انقلاب کی بات کرتے ہیں کہ مظلوم کو بروقت انصاف ملے، انصاف کی فراہمی ریاست کی اولین ذمہ داری ہواور عوامی تحریک انصاف کا ایسا نظام چاہتی ہے جس میں کوئی غریب محض پیسے نہ ہونے کی وجہ سے انصاف سے محروم نہ رہے۔

16 نومبر سے ٹرائل کا آغاز ہو چکا ہے، 16 نومبر کو انسداد دہشتگردی کی عدالت میں ملزمان کی طرف سے ہزاروں دستاویزات جو انہیں فراہم کی گئیں کی تصدیق فرانزک لیب کے ذریعے کروانے کی مضحکہ خیز بات کی گئی جس کا مقصد ٹرائل کو تاخیر کا نشانہ بنانا تھا مگر عوامی تحریک کے وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے جو ثبوت استغاثہ کا حصہ بنائے ہیں، انہی کے مطابق ملزمان کو نقول فراہم کی گئی ہیں، جہاں بھی نقول اصل کے مطابق نہ ہوں تو ہم اس کا ازالہ کریں گے۔ ٹرائل کی ابتدائی سطح پر اس قسم کے مطالبات کا مقصد سوائے تاخیری ہتھکنڈوں کے اور کچھ نہیں، تاہم انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج نے کیس کی مزید سماعت 23 نومبر تک ملتوی کر دی۔ زیر نظر تحریر کی اشاعت تک مزید ایک یا دو تاریخیں گزر چکی ہوں گی تاہم ہم اپنے قارئین کو لمحہ بہ لمحہ قانونی صورت حال سے باخبر رکھنے کی سعی کرتے رہیں گے۔ 16 نومبر کی عدالتی سماعت کے دوران سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان کے وکلاء کی طرف سے اے ٹی سی میں ڈی آئی جی رانا عبدالجبار اور ایس پی ڈاکٹر فرخ اقبال کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دی گئی جس کی عوامی تحریک کے وکلاء نے سخت مخالفت کی اور عدالت کے روبرو اپنا موقف دیا کہ مرکزی ملزمان کا ٹرائل کے ہر مرحلہ پر عدالت میں حاضر ہونا قانونی تقاضہ ہے۔ بے گناہ انسانی جانوں کے قتل میں ملوث ملزمان کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ ایس پی ڈاکٹر فرخ اقبال غیر حاضر رہے جس پر انہیں اشتہاری قرار دے دیا گیا۔ اس موقع پر عوامی تحریک کے وکلاء کا میڈیا کے روبرو موقف تھا کہ جس کیس میں بھی شریف برادران کا کوئی تعلق ہے اور انہیں بطور ملزم ٹرائل کا سامنا ہے وہاں وہاں وہ استثنیٰ کی شکل میں ریلیف بھی مانگتے ہیں اور عدالت کو آنکھیں بھی دکھاتے ہیں، شاید آنکھیں دکھانے کی واحد وجہ یہ ہے کہ شریف خاندان کو آج تک صرف ریلیف ہی ملے ہیں اور قانون نے ان کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جو کرپشن، قتل اور عدالتوں میں جھوٹ بولنے والے دیگر عام ملزمان سے ہوتاہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انصاف کے ایوانوں میں بیٹھنے والے سوسائٹی کے بہترین دماغ انسانی جان کی قدر و حرمت سے اچھی طرح آگاہ ہیں اور قاتلوں کو ماورائے قانون کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک کیے جانے سے متعلق دوسرا اہم ترین کیس لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، اس کیس کا مختصرقانونی پس منظر اس طرح سے ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ نے 21 ستمبر 2017ء کو جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیا تھا، اس فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت انٹراکورٹ اپیل میں چلی گئی مگر انہیں فوری سنگل بنچ کے فیصلے کے خلاف سٹے آرڈر تو نہ مل سکا تاہم اس پر بحث جاری ہے۔ 16 نومبر کو شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی طرف سے بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دئیے۔ انہوں نے انتہائی اہم نکات کی طرف معزز بنچ کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ریاستی دہشت گردی کا کیس ہے، ریاست اور نظام انصاف کی ذمہ داری ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے سچ کو سامنے لایا جائے، ریاست کے ایک صوبے نے بے گناہوں کی جانیں لیں، ذمہ دار کون ہے اور سانحہ کے درپردہ کون سے عوامل ہیں؟ اس سچائی کا سامنے آنا انصاف کا ناگزیر تقاضا ہے ورنہ ریاست پر اس کے شہریوں کا اعتماد متزلزل ہو گا، حکومت سچ کو چھپارہی ہے اور جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کے پبلک نہ کرنے کے پس پردہ عوامل میں سچ کو چھپانا سرفہرست ہے۔ سچ کو سامنے لانا آئین، قانون، قرآن و سنت کے احکامات میں سے ہے، دنیا کے کسی مہذب معاشرے کا نظام انصاف سچ کو چھپانے کی اجازت نہیں دیتا۔ 16 نومبر کی سماعت کے بعد جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے آئندہ سماعت 21 نومبر کو ہو گی تاہم زیر نظر تحریر کی اشاعت تک امید ہے جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ سے متعلق معزز بنچ کا بڑا فیصلہ آچکا ہو گا کیونکہ ملزمان کی طرف سے دلائل دئیے جا چکے اور آئندہ ایک دو تاریخوں پر شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے وکلاء کے دلائل ان شاء اللہ تعالیٰ مکمل ہو جائیں گے۔

فی الوقت جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کے حصول کا جو کیس زیر سماعت ہے اس کے پس منظر سے قارئین کو آگاہ کرتے چلیں کہ پنجاب حکومت کا موقف ہے کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک ڈاکومنٹ نہیں ہے اور یہ انکوائری حکومت نے اپنے لیے کروائی، اس لیے اس کا پبلک ہونا ضروری نہیں۔ پنجاب حکومت کا یہ موقف آئین کے آرٹیکل 19A، قانون شہادت آرڈر 1984ء کے سیکشن 85 اور پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے برخلاف ہے۔ آئین کا آرٹیکل 19A کہتا ہے ہر شہری کو سرکاری معلومات تک رسائی کا حق ہے اور اس حق کو بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اب قانون شہادت آرڈر 1984ء کا سیکشن 85 پبلک ڈاکومنٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے خودمختار اتھارٹی کا ریکارڈ، سرکاری باڈیز کا ریکارڈ، ٹربیونلز کا ریکارڈ، جوڈیشل انکوائریز کا ریکارڈ، پبلک آفیسرز کی انکوائری کا ریکارڈ، اسمبلیوں کی کارروائی کا ریکارڈ پبلک ڈاکومنٹ ہیں۔ پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013ء سیکشن 13کے مطابق وہ پبلک ڈاکومنٹ پبلک نہیں ہو سکے گا جس کے پبلک ہونے سے قومی دفاع، ملکی سکیورٹی پر حرف آنے کا احتمال ہو، پرائیویٹ لائف میں مداخلت کا دروازہ کھلے، یا کسی کوصحت، زندگی یا سلامتی کا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء نے عدالت میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کے پبلک ہونے سے قومی دفاع، ملکی سکیورٹی پر کوئی حرف نہیں آئے گا اور نہ ہی کسی کی پرائیویٹ لائف پر حرف آئے گا، اس سے صرف اور صرف سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کے چہروں پر پڑے ہوئے پردے ہٹیں گے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب حکومت نے جسٹس باقر نجفی کمیشن تشکیل دینے کی درخواست دیتے ہوئے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کو لکھا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے بے چینی ہے اور یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے۔ یہ سانحہ ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا لہٰذا جوڈیشل انکوائری کی درخواست کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت کی طرف سے ذمہ داری فکس کرنے کی درخواست بھی کی گئی۔ پنجاب حکومت اپنے تحریری خط میں تسلیم کررہی ہے کہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے اور اس سے خوف و ہراس پھیلا، اس کی عدالتی تحقیقات کروائی جائے اور ذمہ داروں کا تعین کیا جائے اور پھر اسی تحریر کی روشنی میں وزیراعلیٰ پنجاب نے 17 جون 2014ء کی شام کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے پوری قوم کے روبرو کہا تھا کہ عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اگر مجھے ذمہ دار ٹھہرایا گیا تو میں سزا قبول کروں گا۔ اب پنجاب حکومت عدالت میں اپنے اس ابتدائی موقف کے برعکس ایک نیا موقف اختیار کررہی ہے۔ یقینا جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ شریف برادران کے حق میں نہیں ہے، ورنہ وہ کب کے اسے پبلک کر چکے ہوتے۔