حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شوقِ دیدار میں انبیاء کرام علیہم السلام کا سفرِ مکہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ربیع الاول کی مناسبت سے خصوصی تحریر

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور شوق دیدار کی خاطر ہزارہا سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنا فریضہ نبوت ادا کرنے کے بعد اپنے اپنے علاقوں سے پیدل طویل مسافتیں طے کرکے مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کرتے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تھی۔ فقط اسی غرض سے کہ شاید وہ خاتم المرسلین نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار کرلیں۔ اسی مضمون کو شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے قرآن و حدیث سے دلائل کے ساتھ خوبصورت اور منفرد انداز میں بیان کیا ہے۔ (ادارہ)

روئے زمین پر مکہ مکرمہ سب سے بہترین جگہ اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کی سرزمین پر اپنا گھر بنایا اور اس کو شرف بخشا کہ اس کے اطراف و اکناف سے اسلام کے نور کی کرنیں پھوٹیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس شہر مکہ کو دنیا کے باقی تمام شہروں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی شان کے بارے میں کثیر تعداد میں آیتوں کا نزول فرما کر اسے بلند فرمایا ہے۔ بالخصوص شہر مکہ کی فضیلت میں جس قدر آیات نازل فرمائی ہیں اتنی آیات کسی اور شہر کے بارے میں نازل نہیں فرمائیں۔

اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کے فضائل کے ضمن میں ارشاد فرمایا:

اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّةَ مُبٰرَکًا وَّهُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَo فِیْهِ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَج وَمَنْ دَخَلَهٗ کَانَ اٰمِنًا.

(آل عمران، 3/ 96-97)

’’بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا وہی ہے جو مکہّ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لیے (مرکزِ) ہدایت ہے۔ اس میں کھلی نشانیاں ہیں (ان میں سے ایک) ابراہیم (علیہ السلام) کی جائے قیام ہے، اور جو اس میں داخل ہوگیا امان پا گیا۔‘‘

دوسرے مقام پر مکہ اور اہلِ مکہ کے لیے نعمتوں کی فراوانی کی ابراہیمی دعا کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهٖيمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِناً وَّارْزُقْ اَهْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ بِاﷲِ وَالْیَومِ الْاٰخِرِط قَالَ وَمَنْ کَفَرَ فَاُمَتِّعُهٗ قَلِیْلاً ثُمَّ اَضْطَرُّهٗٓ اِلٰی عَذَابِ النَّارِط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُo وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُط رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo

(البقرة، 2/ 126-127)

’’اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! اسے امن والا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں کو طرح طرح کے پھلوں سے نواز (یعنی) ان لوگوں کو جو ان میں سے اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے، (اللہ نے) فرمایا اور جو کوئی کفر کرے گا اس کو بھی زندگی کی تھوڑی مدت (کے لیے) فائدہ پہنچائوں گا پھر اسے (اس کے کفر کے باعث) دوزخ کے عذاب کی طرف (جانے پر) مجبور کر دوں گا اور وہ بہت بری جگہ ہے۔ اور (یاد کرو) جب ابراہیم اور اسماعیل خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (تو دونوں دعا کر رہے تھے) کہ اے ہمارے رب! تو ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے، بے شک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو مرکز اور جائے امان بنانے کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًاط وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهيمَ مُصَلًّیط وَعَهِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰهيمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِo

(البقرة، 2/ 125)

’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک (صاف) کر دو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے بیت الحرام کو لوگوں کے لیے قبلہ بنایا اور اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے اپـنے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ارشاد فرمایا:

وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْ تُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍo

(الحج، 22/ 27)

’’اور تم لوگوں میں حج کا بلند آواز سے اعلان کرو وہ تمہارے پاس پیدل اور تمام دبلے اونٹوں پر (سوار) حاضر ہو جائیں گے جو دور دراز کے راستوں سے آتے ہیں۔‘‘

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی قبولیت کی بدولت ان کے دل شوق ومحبت سے اس کی طرف مائل رہتے ہیں اور لوگ دورانِ نماز اپنا چہرہ اس کی سمت کرتے ہیں۔ کعبۃ اللہ کے پاس اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ شوقِ محبت سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے، گناہ مٹ جاتے ہیں اور یہاں پر نیک اعمال کا اجر کئی گنا بڑھ جاتاہے۔ جو شخص یہاں پناہ مانگے اللہ تعالیٰ اسے پناہ عطا فرماتا ہے اور جو شخص یہاں کوئی گناہ کرے اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی تعمیر انبیاء کرام علیہم السلام کے مبارک ہاتھوں سے فرمائی اور یہی شرف اس کی اہمیت پر شہادت کے لیے کافی ہے۔

سابقہ اَنبیاء کرام علیہم السلام کا سفرِ مکہ

امام حسن بصری نے فضائل مکہ کے ضمن میں بیان کیا ہے: روئے زمین پر مکہ مکرمہ کے علاوہ کوئی ایسا شہر نہیں ہے جس کی طرف تمام انبیاء کرام علیہم السلام، تمام ملائکہ اور جن و انس میں سے زمین و آسمان کے تمام نیک بندوں نے سفر کیا ہو۔ فرماتے ہیں:

وَکُلُّ نَبِيٍّ مِنَ الْأَنْبِیَاءِ عَلَیْهِمُ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ إِذَا کَذَّبَهٗ قَوْمُهٗ خَرَجَ مِنْ بَیْنِ أَظْهُرِهِمْ إِلٰی مَکَّةَ. وَمَا مِنْ نَبِيٍّ هَرَبَ مِنْ أُمَّتِهٖ إِلاَّ هَرَبَ إِلٰی مَکَّةَ، فَعَبَدَ اﷲَ تَعَالٰی بِهَا عِنْدَ الْکَعْبَةِ، حَتّٰی أَتَاهُ الْیَقِیْنُ، وَهُوَ الْمَوْتُ.

انبیاء کرام علیہم السلام میں سے ہر پیغمبر علیہ السلام کو جب ان کی قوم جھٹلاتی تھی تو وہ اس قوم کو چھوڑ کر مکہ معظمہ چلے آتے تھے، جو نبی بھی اپنی قوم سے نکلا وہ مکہ ہی کی طرف عازم سفر ہوا۔ چنانچہ جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کعبۃ اللہ کے قرب میں ہی اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ یقین یعنی موت سے ہمکنار ہو جاتے۔

کعبۃ اللہ کے گرد تین سو انبیاء کرام علیہم السلام کی قبریں ہیں، اور رکن یمانی اور رکن اسود کے مابین ستر انبیاء کرام علیہم السلام کی قبریں ہیں، جبکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ ہاجرہ h کی قبریں حطیم میں میزاب (پرنالے) کے نیچے ہیں، حضرت نوح، ھود، شعیب اور صالح علیہم السلام کی قبریں، زمزم اور مقام ابراہیم کی درمیانی جگہ پر ہیں۔

جن انبیاء کرام علیہم السلام نے مکہ مکرمہ کی طرف سفر کیا ہے ان میں سیدنا آدم، سیدنا نوح، سیدنا ابراہیم، سیدنا اسماعیل، سیدنا موسی، سیدنا یونس، سیدنا ہود، سیدنا صالح، سیدنا شعیب اور سیدنا عیسی علیہم السلام جیسے جلیل القدر انبیاء کرام شامل ہیں۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

حَجَّ مُوْسَی بْنُ عِمْرَانَ علیه السلام فِي خَمْسِیْنَ أَلْفًا مِنْ بَنِي إِسْرَائِیْلَ وَعَلَیْهِ عِبَائَتَانِ قَطْوَانِیَّتَانِ وَهُوَ یُلَبِّي: لَبَّیْکَ، اللّٰهُمَّ، لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ تَعَبُّدًا وَرِقًّا لَبَّیْکَ، أَنَا أَعْبُدُکَ، أَنَا لَدَیْکَ، لَدَیْکَ، یَا کَشَّافَ الْکُرَبِ، قَالَ: فَجَاوَبَتْهُ الْجِبَالُ.

(السنن الکبریٰ، للبیهقی، 5/177، الرقم: 9619)

’’حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے پچاس ہزار لوگوں کی معیت میں کعبۃ اللہ کا حج ادا کیا۔ آپ پر دو قطوانی عبائیں تھیں اور وہ تلبیہ کہہ رہے تھے (جس کے کلمات ہیں:) اے اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، میں تیری عبادت اور غلامی کے لیے حاضر ہوں۔ میں تیری عبادت کرتا ہوں، تیرے پاس ہوں، تیرے پاس ہوں اے مصائب کو دور کرنے والے رب!۔ آپ بیان کرتے ہیں: پہاڑوں نے آپ کی اس لبیک کا جواب دیا، یعنی انہوں نے بھی تلبیہ پڑھا۔‘‘

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَقَدْ مَرَّ بِالصَّخْرَةِ مِنَ الرَّوْحَاءِ سَبْعُوْنَ نَبِیًّا، مِنْهُمْ مُوْسٰی نَبِيُّ اﷲ،ِ حُفَاةً، عَلَیْهِمُ الْعَبَاءُ، یَؤُمُّوْنَ بَیْتَ اﷲِ الْعَتِیْقَ.

(مسند ابی یعلیٰ، 13/ 201، الرقم: 7231))

’’وادی روحاء کے مقام صخرہ سے ستر انبیاء کرام علیہم السلام ، ننگے پاؤں اپنے اوپر عباء زیب تن کیے ہوئے گزرے ہیں، ان میں اللہ کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی تھے اور وہ سب اﷲ تعالیٰ کے قدیم گھر (کعبۃ اللہ) کی زیارت کا قصد کیے ہوئے تھے۔‘‘

امام احمد نے حضرت عبد اللہ بن عباس k سے روایت کیا ہے کہ دورانِ حج رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وادی عُسْفان سے گزر ہوا، آپ نے دریافت فرمایا: اے ابو بکر! یہ کونسی وادی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: وادی عُسْفان۔ آپ نے فرمایا:

لَقَدْ مَرَّ بِهٖ هُودٌ، وَصَالِحٌ عَلَی بَکَرَاتٍ حُمْرٍ؟ خُطُمُهَا اللِّیْفُ، أُزُرُهُمْ الْعَبَاءُ، وَأَرْدِیَتُهُمْ النِّمَارُ، یُلَبُّونَ یَحُجُّونَ الْبَیْتَ الْعَتِیقَ.

(مسند احمد بن حنبل، 1: 232، الرقم: 2067)

’’اس وادی پر سے حضرت ہود اور حضرت صالح کا گزر ہوا تھا۔ وہ ایسی سرخ اونٹنیوں پر سوار تھے جن کی نکیلیں کھجور کی چھال کی تھیں، ان کے تہبند عبائیں اور ان کی چادریں چیتوں کی کھال کی تھیں، وہ تلبیہ پڑھ رہے تھے، اور اس قدیم گھر (کعبۃ اللہ) کی زیارت کو جا رہے تھے۔‘‘

حضرت ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:

لَقَدْ کَانَ هٰذَا الْبَیْتُ یَحُجُّهٗ سَبْعُ مِائَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِیْلَ، یَضَعُوْنَ نِعَالَهُمْ بِالتَّنْعِیْمِ، وَیَدْخُلُوْنَ حُفَاةً تَعْظِیمًا لِلْبَیْتِ.

(المصنف، لابن ابی شیبه، 3: 238، الرقم: 13798)

’’بیت اللہ کا حج بنی اسرائیل کے سات سو انبیاء کرام علیہم السلام نے کیا، وہ اپنے جوتے تنعیم کے مقام پر ہی اتار دیتے تھے، اور حرم میں بیت اﷲ کی تعظیم کی خاطر ننگے پاؤں داخل ہوتے تھے۔‘‘

سابقہ اَنبیاء کرام کا مکہ معظمہ کی طرف ہجرت کا سبب

بلاشک و شبہ کعبہ زمین پراللہ تعالیٰ کا سب سے پہلا گھر ہے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ تعمیر کعبہ کے صرف چالیس سال کے بعد اسی زمانے میں اللہ تعالیٰ کا دوسرا گھر مسجد اقصیٰ بھی بن گیا تھا۔ جیساکہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے، اُنہوںنے بیان کیا ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں عرض کیا:

یَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الأَرْضِ أَوَّلَ؟ قَالَ: الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: الْمَسْجِدُ الأَقْصٰی، قُلْتُ: کَمْ کَانَ بَیْنَهُمَا؟ قَالَ: أَرْبَعُوْنَ سَنَةً.

(صحیح البخاری، کتاب الانبیاء، 3: 1231، الرقم: 3186)

’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسجد حرام۔ اُنہوں نے کہا: میں نے پھر عرض کیا: اس کے بعد کونسی مسجد تعمیر ہوئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسجد اقصی (بیت المقدس)۔ اس پر میں نے عرض کیا: ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنی مدت کا فرق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: چالیس سال کا۔‘‘

اس سے واضح ہوا کہ اس زمانے میں زمین پر کعبۃ اللہ ہی تنہا اللہ تعالیٰ کا گھر نہیں تھا، اسی زمانے میں ایک دوسرا گھر مسجد اقصی کی صورت میں بھی موجود تھا۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام جن ملکوں یا شہروں میں مبعوث ہوئے، وہ علاقے مکہ معظمہ کی نسبت القدس یعنی مسجد اقصی کے قریب تر تھے اور بیشتر انبیائ علیہم السلام تو مقیم ہی مسجد اقصیٰ کے قرب و جوار میں تھے۔ بنی اسرائیل جو کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد ہیں وہ القدس اور اس کے قرب جوار میں آباد تھے۔ لہٰذا یہ علاقہ خطہء بنی اسرائیل کے نام سے مشہور تھا۔ سیدنا عیسیٰعلیہ السلام کی بعثت مبارکہ کے وقت تو بیت المقدس میں سارے کے سارے یہودی آباد تھے۔ اسی علاقے یعنی خطہ بنی اسرائیل سے ایک ہزار انبیاء کرام علیہ السلام مکہ مکرمہ آئے جہاں بنی اسماعیل آباد تھے۔

حضرت شعیب علیہ السلام وادی سینا کے پاس طور کے قریب شہر مدائن میںسکونت پذیر تھے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے جب فرعون کا شہر مصر چھوڑا تھا تو اُنہی کے پاس گئے تھے۔ پھر حضرت شعیب علیہ السلام بھی اپنا علاقہ چھوڑ کر مکہ مکرمہ تشریف لے آئے اور صحن کعبہ میں دفن ہوئے۔

اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی بعثت بھی مصر میں ہوئی جہاں سے القدس قریب ہے، وہ بھی حج کرنے مکہ مکرمہ آتے رہے۔ اسی طرح سیدنا عیسی علیہ السلام جن کی جائے ولادت اور وطن القدس تھا اور وہ مسجد اقصی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے مگر وہ بھی بیت اﷲ کا حج کرنے مکہ مکرمہ آتے رہے۔

المختصر! تمام انبیاء کرام علیہم السلام جو القدس (یروشلم) کے قرب وجوار میں مبعوث ہوتے رہے وہ اپنے اپنے علاقوں سے پیدل چل کر مکہ مکرمہ آتے رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی برہنہ پا پیدل چل کر آتے رہے ہیں اور کچھ اپنی سواریوں پر سوار ہو کر آتے رہے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جلیل القدر انبیاء و رسل علیہم السلام اپنے قریب موجود اللہ تعالیٰ کا گھر مسجد اقصیٰ چھوڑ کر طویل سفرطے کرکے مکہ معظمہ میں اللہ تعالیٰ کے دوسرے گھر کعبہ کی زیارت کے لیے کیوں آتے رہے ہیں؟ آخر کعبہ اورمکہ معظمہ کو وہ کون سی خصوصیت یا انفرادیت حاصل تھی جو مسجد اقصیٰ کو میسر نہ تھی؟ اگر اللہ تعالیٰ کے گھر کا ہی طواف کرنا تھا یا اللہ تعالیٰ کے گھر میں جاکر اس کی عبادت کرنی تھی تو القدس میں رہ کر وہ مسجد اقصیٰ میں یہ اعمال بجا لا سکتے تھے۔ وہ کیوں مکہ مکرمہ جاتے رہے اور وہاں قیام اختیار کرتے رہے ہیں؟ وہ مکہ میں وفات پانے کی آرزو کیوں کرتے رہے اور مکہ میں ہی اُن کی قبریں کیوں بنیں؟

ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ وہ بیت المقدس کے بجائے یہاں مکہ مکرمہ میں کعبۃ اللہ کا محض طواف کر نے اور عبادت کرنے نہیں آتے تھے بلکہ ان کی یہاں تشریف آوری کی وجہ فقط ایک تھی اور وہ یہ کہ ہر نبی کو معلوم تھا کہ ہمارے بعد آخری زمانے میں نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اسی شہر مکہ میں ہو گی، شاید کہ وہ اس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ پا لے، ان کی زیارت کرلے اور (حکمِ الٰہی کی تعمیل میں) ان پر ایمان لائے، ان کی تصدیق کرے اور ان کی مدد و نصرت کرے۔ جیساکہ اس حکم کو قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں بیان کیا ہے:

وَ اِذْ اَخَذَ اﷲُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَةٍ ثُمَّ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗط قَالَ ئَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْط قَالُوْٓا اَقْرَرْنَاط قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَo

(آل عمران، 3/ 81)

’اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔‘‘

اللہ رب العزت نے سیدناآدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو ان کے مبارک جسموں کی تخلیق سے پہلے ان کی روحوں کو جمع کیا تھا اور فرمایا تھا: میں تم سب کو نبوت دوں گا اور دنیا میں مبعوث کروں گا۔ تمہیں کتابیں دوں گا، تم پر وحی نازل کروں گا، اور جب تم سب کا زمانہ ختم ہو جائے گا تو میرا آخری رسول آئے گا، جس کی وجہ سے میں نے ساری کائنات بنائی ہے۔ اُن کی بعثت شہر مکہ میں ہو گی۔ یہ بات سابقہ صحیفوں اور کتب آسمانی میں بھی درج تھی کہ اُن کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہوگی اور وہ کھجوروں والے شہر (مدینہ منورہ) کی طرف ہجرت کریں گے۔ لہٰذا ہر نبی اپنی امت کو کہتا تھا کہ اگر میرے زمانے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہو جائیں تو اُن پر ایمان لے آنا۔ مکہ معظمہ ہی عظمت والا شہر ہے جہاںرب کائنات کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس مبارک شہر کی قسم کھائی، ارشاد فرمایا:

لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِo وَ اَنْتَ حِلٌّم بِهٰذَا الْبَلَدِo وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَo

(البلد، 90/ 1-3)

’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں۔ (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔ (اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئی۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰةِ وَالْاِنْجِیْلِ.

(آل عمران، 7/ 157)

’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں‘‘

لہٰذا تمام انبیاء کرام علیہم السلام اپنا فریضہ نبوت ادا کرنے کے بعد چاہتے تھے کہ مکہ معظمہ چلے جائیں، شاید نبی آخر الزمان اُن کی زندگی میں ہی تشریف لے آئیں اور وہ بھی اُن کی ملاقات اور زیارت کا شرف حاصل کر لیں، اُن پر ایمان لے آئیں اور اُن کے اُمتی بن جائیں۔

صرف نبی آخر الزمان کی محبت وجہ سے ہزارہا انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنے اپنے علاقوں سے ہجرت کی اور پیدل سفر کر کے اِس مبارک شہر مکہ میں آئے، جہاں نبی اُمی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہونی تھی۔ فقط اسی غرض سے وہ طویل مسافتیں پیدل طے کرتے رہے۔

اسی غرض سے انبیاء کرام علیہم السلام مسجد خیف بھی آئے، اس کے قرب و جوار میں رہائش اختیار کی، پھر یہیں وفات پائی اور اسی مسجد میں دفن کئے گئے۔ اسی طرح وادی ازرق، وادی سرر، وادی ہر شیٰ، وادی روحاء اور وادی عُسْفان سے انبیاء کرام علیہم السلام اسی تمنا اور آرزو میں تلبیہ پڑھتے ہوئے گزرے۔

چونکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نبی آخر الزمان کی مکہ مکرمہ میںبعثت مبارکہ اور پھر یہاں سے مدینہ منورہ ہجرت سے باخبر تھے، اسی بناء پر وہ اپنی اُمت کو بھی اس کی خبر دیتے تھے۔ یہود جو مدینہ منورہ میں آباد تھے وہ بھی اپنی نسلوں کو بتاتے تھے کہ نبی آخر الزماں مبعوث ہونے والے ہیں۔ وہ حضور نبی اکرم کے اسم گرامی کا وسیلہ دے کر اللہ تعالیٰ سے کافروں پر فتح یابی کی دعا مانگتے تھے، جیسا کہ قرآن مجید نے اس امر کو بیان کیا ہے:

وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْاج فَلَمَّا جَآئَهُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِهٖ فَلَعْنَةُ اﷲِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَo

’’حالاں کہ اس سے پہلے وہ خود (نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان پر اترنے والی کتاب ’قرآن‘ کے وسیلے سے) کافروں پر فتحیابی (کی دعا) مانگتے تھے، سو جب ان کے پاس وہی نبی (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اوپر نازل ہونے والی کتاب ’قرآن‘ کے ساتھ) تشریف لے آیا جسے وہ (پہلے ہی سے) پہچانتے تھے تو اسی کے منکر ہوگئے، پس (ایسے دانستہ) انکار کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘

(البقرة، 2/ 89)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کے مکہ مکرمہ میں آنے اور وہاں سکونت اختیار کرنے کا واحد سبب ان کی یہ آرزو تھی کہ شاید وہ خاتم المرسلین کا دیدار کرلیں، ان پر ایمان لائیں اور ان کے دین متین کی نصرت کریں۔

سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کی حرم مکہ کی طرف ہجرت، اس میں سکونت اور پھر وہیں ان کی وفات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ ایسا وہ فقط نبی آخر الزمان کے شوقِ دیدار، ملاقات اور آپ پر ایمان لانے کی خاطر کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نبی مکرم کا ادب بجا لانے کی توفیق مرحمت فرمائے اورہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکار، مددگار اور ساتھیوں میں سے بنائے، ہمیں آپ کی اطاعت اور شفاعت نصیب فرمائے۔ نیز روزِ قیامت ہمیں آپ کے ساتھ جمع فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین