الفقہ: اللہ تعالیٰ نے بعثتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوشیاں منانے کا حکم دیا

مفتی عبدالقیوم خاں ہزاروی

سوال: میلاد کیوں منایا جائے اور آج کے دور میں میلاد منانے کی ضرورت واہمیت کیا ہے؟

جواب: دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک اپنا یوم آزادی مناتا ہے اور آزادی دلانے والے اپنے ہر لیڈر کا یوم پیدائش بھی مناتا ہے تو پھر تمام دنیا کے لئے آزادی کا منشور لانے والے، کائنات کو قیصرو کسریٰ، فرعون و نمرود، شداد و قارون، ہامان و چنگیز، ہلاکو اور ان جیسے ظالموں کے آہنی پنجوں اور خونخوار جبڑوں سے سسکتی بلکتی انسانیت کو نجات دینے والے کائنات کے سب سے بڑے محسن اور رحمتِ عالمیاں کی تشریف آوری کے دن کی خوشیاں کیوں نہ منائی جائیں، جن کی آمد کے دن سے بڑھ کر کوئی خوشی کا دن ہو نہیں سکتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اﷲِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَالَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖٓ اِخْوَانًاج وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْهَا.

’’اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر (پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا۔‘‘

(آل عمران، 3: 103)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کے ذکر کرنے کا حکم دیا گیا اور بتایا گیا ہے کہ لوگو! تم اپنے اعمالِ بد کی بناء پر دوزخ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے اور اس میں گرا ہی چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیج کر تمہیں اس خطرناک صورت حال سے تمہیں بچالیا۔ مزید فرمایا:

وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍط فَسَاَکْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰـتِنَا یُؤْمِنُوْنَ. اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰةِ وَالْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْهِمْط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَهُلا اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ. قُلْ یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ ﷲِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا.

’’اور میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے، سو میں عنقریب اس(رحمت) کو ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے رہتے ہیں اور وہی لوگ ہی ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ (یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور اُن سے اُن کے بارِگراں اور طوقِ (قیود)- جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے - ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔ آپ فرما دیں: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں۔‘‘

(الاعراف، 7: 156 تا 158)

جس دن اتنا بڑا رہنما دنیا میں تشریف فرما ہو، اتنا عظیم نجات دہندہ دنیا کے مظلوموں کو ملا ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم نہیں تو کیا ہے۔ پھر اس دن کو کیوں نہ منایا جائے؟ ایک اور مقام پر فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ.

’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔‘‘

(الانبیاء، 21: 107)

پھر فرمایا:

لَقَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰـتِهٖ وَیُزَکِّیْهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَج وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰـلٍ مُّبِیْنٍ.

’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘

(آل عمران، 3: 164)

یہ ہیں وہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کی بعثت کا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر احسان عظیم جتلایا۔ لہذا اس نعمتِ عظمیٰ کے حصول پر خوب خوشیاں منایا کرو، ان کے خوب گن گایا کرو، ان خوشیوں کے منانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

قُلْ بِفَضْلِ ﷲِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ.

’’فرما دیجیے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیںبہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘

(یونس، 10: 58)

ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خدائی اہتمام

آقا علیہ السلام کی آمد کی خوشیاں منانا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکارِ جمیلہ سے اپنے قلوب و ارواح کو منور کرنا ہر مومن پر واجب ہے۔ اس لئے کہ ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہتمام خود رب کائنات بھی فرماتا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ ﷲَ وَمَلٰٓئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّط یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.

’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘

(الاحزاب، 33: 56)

اللہ تعالیٰ نے کسی بڑے سے بڑے کام میں بھی کسی کو اپنا شریک نہیں کیا مگر ذکرمحبوب درود و سلام جو درحقیقت ذکرِ محبوب ہے، اس عمل میں اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنے آپ کو شامل کیا کہ میں اپنے محبوب پر درود و سلام بھیجتا ہوں مرے فرشتے بھی یہی وظیفہ کرتے ہیں لہذا مومنین بھی اگر میری رضا و خوشنودی کے طالب اور میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت بھرا تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں تو اُن پر درود و سلام پڑھا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ذکرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس اہتمام میں خود کو اس لئے شامل فرمایا تاکہ کسی کے ذہن میں یہ خیال نہ آئے کہ محبوب کسی کے ذکر کا محتاج ہے، اس لیے کہ جس کے ذکر کو رب کائنات بلند کرے اس کو کسی اور کی محتاجی نہیں بلکہ محض اہل ایمان کی بھلائی اور انہیں اپنی رحمتوں، برکتوں اور مغفرتوں سے بہرہ ور فرماتے ہوئے ان کو اس کار سعادت میں شریک کردیا۔ یہ سراسر اس کا کرم ہے،شفقت ہے جیسے اللہ کو کسی کی عبادت کی ضرورت نہیں، جو کرے گا اپنے بھلے کو کرے گا۔ اسی طرح رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کے ذکر و نعت، درود و سلام کے محتاج نہیں جو یہ عمل صالح کرے گا اپنے بھلے کو کرے گا اور جو بدنصیب شیطانی وساوس کا شکار ہوکر اس سعادت سے محروم رہا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اسی لیے رب کریم فرماتا ہے:

وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ.

’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔‘‘

(الانشراح، 94: 4)

سراپا ذکر

اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ذکر قرار دیا۔ ارشاد فرمایا:

فَاتَّقُوا اﷲَ یٰٓـاُولِی الْاَلْبَابِج الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاط قَدْ اَنْزَلَ ﷲُ اِلَیْکُمْ ذِکْرًا. رَّسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ ﷲِ مُبَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ.

’’سو اللہ سے ڈرو اے عقل والو! بے شک اﷲ نے تمہاری طرف ’ذکر‘ اتارا جو کہ رسول معظم ہیں، جو تم پر اﷲ کی روشن آیتیں پڑھتے ہیں تاکہ اُن لوگوں کو جو ایمان لائے اور اچھے کام کرتے ہیں کو اندھیریوں سے روشنی کی طرف نکال لائے۔‘‘

(الطلاق، 65: 10تا11)

مفسرین کی کثیر تعداد نے آیت مذکورہ میں ’’ذکر‘‘ سے مراد ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات‘‘ مراد لی ہے۔حوالہ جات درج ذیل ہیں:

(ابن کثیر، تفسیر،4: 385۔ الرازی، تفسیر الکبیر، 30: 35۔ بغوی، معالم التنزیل، 4: 361۔ بیضاوی، أنوار التنزیل وأسرار التاویل، 5: 352۔سیوطي، جلالین، 1: 750۔ آلوسی، روح المعانی، 28: 141۔ قرطبي، الجامع الأحکام القرآن، 18: 173۔محمد بن جریر، تفسیر طبري، 28: 152۔ مودودي، تفہیم القرآن، 5: 585)

چشم عالم یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شان ورفعنالک ذکرک دیکھے

اس کی تفصیل یہ ہے کہ فرمان باری تعالیٰ {قَدْ اَنْزَلَ اﷲُ اِلَیْکُمْ ذِکْرًا رَّسُوْلًا} میں ان کلمات طیّبات میں کلمہ’ ذِکْراً‘ مبدل منہ ہے اور کلمہ ’رَسُوْلاً‘ اس کا بدل کل ہے جس کا مطلب ہوا کہ اﷲ نے تمہاری طرف ذکر یعنی رسول محترم کو بھیجا۔

طرزِ استدلال

ذکرِ مصدر ہے جو کبھی اسمِ فاعل کے معنی میں اور کبھی اسم مفعول کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی ’’ذکر‘‘، ’’ذاکر‘‘ (ذکر کرنے والا) کے معنی میں ہوگا یا مذکور (جس کا ذکر کیا جائے) کے معنی میں۔ اگر ذاکر کے معنی میں ہو تو مطلب ہوا کہ رسول اپنے رب کا ذکر کرنے والے ہیں اور اگر ذکر ’’مذکور‘‘ کے معنی میں لیں تو مطلب ہو گا جس کا ذکر کیا جائے۔ پہلی صورت میں پتہ چلا کہ رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب کا ساری مخلوق سے بڑھ کر ذکر کرنے والے ہیں جیسے کہا جاتا ہے زیدٌ عَدْلٌ زید اتنا زیادہ عدل کرنے والا ہے کہ گویا سراپا عدل ہے۔ اسی طرح اگر ذکر کو بمعنی مذکور لیں تو مطلب ہوگا اس رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اتنا زیادہ ذکر کیا گیا اور کیا جاتا رہے گا کہ ان کو ’’مذکور‘‘ نہ سمجھو بلکہ یہ تو سراپا ذکر ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ ان کا ذکر سب سے بڑھ کر ہوا جس کا اعلان اﷲ خود فرماتا ہے:

اِنَّ اﷲَ وَمَلٰٓئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّط یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.

’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘

(الاحزاب، 33: 56)

لہٰذا ان کا ذکر کبھی ختم ہوا، نہ ہو گا۔۔۔ اس نور کی آن بان نہ کبھی مدہم ہوئی، نہ ہوگی۔۔۔ حضور کی تخلیق سب سے اول اور بے مثال۔۔۔ آپ کی ولادت باسعادت بھی بے مثال۔۔۔ آپ کی زندگی کا لمحہ لمحہ بے مثال وبے نظیر۔۔۔ جس کی قسم خدا نے کھائی:

لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَo

’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔‘‘

(الحجر، 15: 72)

لہٰذا حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانا ہمارا فرض بنتا ہے اس لئے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ تمام انسانیت کو سنہرے اصول زندگی عطا کئے، اخلاقِ حسنہ سے نوازا اور قیامت تک کے لئے لائحہ عمل عطا فرمادیا ہے۔