جشنِ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فکری و تربیتی پہلو

محمدعلی قادری

ماہ ربیع الاول کے پُر سعید لمحات ہم پر سایہ فگن ہیں۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم میلاد کو عشاق انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ منارہے ہیں۔ عاشقانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہروں کی دمک اور آنکھوں کی چمک صاف ظاہر ہے۔ ہر ایک رحمتوں، برکتوں اور عنایتوں کی خیرات سمیٹ رہا ہے۔

ربیع الاول میں خوشیوں کا نظارہ ایک عجیب خوش کن نظارہ ہے،ہاتھوں میں قندیلیں اٹھائے، نعلین مقدسہ کے نقش سے مزین جھنڈے ہاتھوں میں تھامے، لبوں پہ آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرحبا مرحبا کا نعرہ سجائے، رنگ و نور میں نہائے ہوئے چہرے قابل دید نظارہ پیش کرتے ہیں۔ صَلِّ عَلٰی کے نغمے کانوں میں رس گھول رہے ہیں۔ غلامان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جوق در جوق محافل میں کھنچے چلے آرہے ہیں۔

جشنِ آمدِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ قریہ قریہ، نگر نگر، شہرشہرجاری ہے۔ تمام اہلِ محبت اپنے اپنے انداز سے اس کا اہتمام کرتے ہیں اور حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ جشن میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے:

قُلْ بِفَضْلِ ﷲِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo

’’فرما دیجیے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔ ‘‘

(یونس، 01: 58)

جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز پر قرآن و حدیث کے بے شمار دلائل موجود ہیں جن کو ائمہ متقدمین و متاخرین کی تصانیف میں دیکھا جا سکتاہے۔ دور حاضر میں اس موضوع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی انتہائی مدلل، جامع اور معرکۃ ا لآراء تصانیف ’’میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ اور ’’مولد النبی عند الأئمۃ والمحدثین‘‘ موجود ہیں۔ یہ دلائل اپنی جگہ مسلّمہ ہیں اورامت ان پر عمل پیرا بھی ہے مگر اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقاصد اور تقاضوں کو مد نظر رکھ کر اصلاحِ امت کا فریضہ سر انجام دیا جائے اور جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسب ذیل فکری اور تربیتی پہلوئوں پر روشنی ڈالی جائے۔

1۔ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فروغ

جشن میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک اہم ترین پہلو محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فروغ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اسے کثرت سے یاد کرتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہمارا جزو ایمان ہے۔ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لبریز نہ ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَ وَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ.

’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اُس کے والد (یعنی والدین)، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔ ‘‘

(صحیح البخاری،کتاب الإیمان، 1: 14، رقم: 15 )

جبکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے درج ذیل الفاظ مروی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا یُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ.

’’کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے گھروالوں، اس کے مال اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔ ‘‘

(صحیح مسلم،کتاب: ا لإیمان، 1: 67، رقم: 44)

میلاد النبی کی خوشیاں منا کر ہم اپنے پیارے آقا سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی لازوال تعلق حبی کا اظہارکرتے ہیں جو تقاضائے ایمان ہے۔ ماہ میلاد میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و شمائل، خصائص و خصائل، نسبی طہارت، نورانی ولادت، بعثت و رسالت، شانِ علم و معرفت، شان ورفعنا لک ذکرک اور دیگر اوصاف و کمالات کا تذکرہ کیا جاتا ہے، یہ تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امت کے تعلقِ حبی اورعشقی کو مزید مضبوط اورمستحکم کرتا ہے۔

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن خوشیاں منانے والے عشاق در حقیقت محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار وہ امتی ہیں جن کا ذکر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی درج ذیل حدیث میں ہوا ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مِنْ أَشَدِّ أُمَّتِي لِي حُبًّا، نَاسٌ یَکُوْنُوْنَ بَعْدِي، یَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ رَآنِي، بِأَهْلِهِ وَمَالِهِ.

’’میری امت میں سے میرے ساتھ شدید محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کی تمنا یہ ہوگی کہ کاش وہ اپنے سب اہل و عیال اور مال و اسباب کے بدلے میں مجھے (ایک مرتبہ) دیکھ لیں۔ ‘‘

(صحیح مسلم،کتاب: الجنة، 4:2178، رقم: 2832)

یہ وہ خوش نصیب ہیں جن کو آقا علیہ السلام نے سات مرتبہ خوشخبری دی۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

طُوْبَی لِمَنْ رَآنِي وَآمَنَ بِي وَطُوْبَی سَبْعَ مَرَّاتٍ لِمَنْ لَمْ یَرَنِي وَآمَنَ بِي.

’’ خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لئے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اور سات بار خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لئے جس نے مجھے دیکھا بھی نہیں اور مجھ پر ایمان لایا۔ ‘‘

(مسند احمد بن حنبل، 5: 257، رقم: 22268)

جشن میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشیاں منانے سے ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی تعلق پیدا ہوتا ہے اور سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی۔ ان دونوں صورتوں سے محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا داعیہ بیدار ہوتاہے۔ ہم اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت منا کر ثابت کرتے ہیں کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے۔

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے

2۔ اطاعت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوسرا اہم پہلو اطاعت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق ہے کہ ہم میلادِ مصطفی کی خوشیاں منانے کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا جذبہ بھی اپنے اندر پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بندوں پر اپنی اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو واجب قرار دیا: ارشاد فرمایا:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اﷲَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ.

’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرو۔ ‘‘

(النساء، 4: 59)

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا۔ :ارشاد فرمایا:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲَ.

’’جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔ ‘‘

(النساء، 4: 80)

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کو بھی محبتِ الہٰی کے حصول کی شرط قرار دیا۔ ارشاد فرمایا:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اﷲُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ.

’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا۔ ‘‘

(آل عمران، 3: 31)

احادیث مبارکہ میں بھی اطاعت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاکید ہمیں جابجا نظر آتی ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے:

فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا فَقَدْ أَطَاعَ ﷲَ، وَمَنْ عَصَی مُحَمَّدًا فَقَدْ عَصَی ﷲَ، وَمُحَمَّدٌ فَرَّقَ بَیْنَ النَّاسِ.

’’جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی (درحقیقت) اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھے اور برے لوگوں میں فرق کرنے والے ہیں۔ ‘‘

(صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، 6: 2655، رقم: 6852)

صحابہ کرام نے اطاعت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ مثالیں قائم کیں کہ تاریخ عالم میں جس کی نظیر نہیں ملتی۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن مسعود کا بیان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جذبہ اطاعت و اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمال درجہ عکاسی کرتا ہے۔ امام بخاری نے اسے الصحیح کی کتاب الشروط ( 2: 974، رقم: 581) میں روایت کیا ہے۔

جشن میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل اور اجتماعات سے اطاعت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درس ملتا ہے۔ اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد خوب دھوم دھام سے منائیں مگر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی اطاعت و اتباع کے حکم سے پہلو تہی کریں تو ہمارا دعویٰ محبت خالی دعویٰ کہلائے گا۔ اس دعوی میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل اور سنت کی اتباع کی جائے۔

3۔ دعوت و تبلیغ دین کے بہترین مواقع

جشن میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تربیتی پہلووں میں سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ داعیین اور واعظین کو اسلامی تعلیمات کے ابلاغ کے بہترین مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ محافل میلاد اور جلسہ ہائے میلادیا جلسہ ہائے سیرت کا باقاعدہ انعقاد کیا جاتا ہے جس میں علماء و خطباء کو دعوت سخن دی جاتی ہے۔ اس طرح انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے منظم انداز میں مواقع میسر آتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنا بنیادی فریضہ ادا کرتے ہیں یا نہیں۔ بہرکیف یہ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک اہم تقاضا ہے کیونکہ بعثت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بنیادی مقصد ہی نیکی کو پھیلانا اوربرائی کو جڑ سے ختم کرنا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo

’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں۔ ‘‘

(آل عمران، 3: 104)

دور فتن میں دعوت حق کا فریضہ سر انجام دینے والوں کا درجہ بیان کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّهُ سَیَکُوْنُ فِي آخِرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَوْمٌ لَهُمْ مِثْلُ أَجْرِ أَوَّلِهِمْ، یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَیُقَاتِلُوْنَ أَهْلَ الْفِتَنِ.

’’بے شک اس امت کے آخر (دور) میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے لئے اجر اس امت کے اولین (دور کے لوگوں) کے برابر ہو گا، وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اور فتنہ پرور لوگوں سے جہاد کریں گے۔ ‘‘

(دلائل النّبوّة للبیهقی، 6: 513)

جشن میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل اور دیگر تقریبات میں نیکی پھیلانے اور برائی کو روکنے کا نظریہ شامل اہداف ہونا چاہیے۔ اس طرح ہم اصلاح معاشرہ میں بہترین کردار اد کر سکتے ہیں۔

4۔ بچوں کی تربیت کا پہلو

بچے کسی بھی قوم کا مستقبل اور سرمایہ ہوتے ہیں۔ آج کا بچہ کل کا نوجوان ہے جس کے کندھے پر طرح طرح کی ذمہ داریوں کا بوجھ ہو گا۔ ان کی ذہنی و فکری تربیت قوموں کی تقدیر بدل دیتی ہے۔ اسلام میں بچوں کی تعلیم و تربیت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ جب بچہ پانچ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اسے نماز پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ دس سال کی عمر میں اسے سختی سے نماز پڑھانے کا حکم دیا گیا۔ دیگر عبادات و معاملات میں بھی اسے بلحاظ عمرشریک کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوںپر شفقت و مہربانی کا حکم دیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

من لم یرحم صغیرنا ویعرف حق کبیرنا فلیس منا

’’جو چھوٹوں پر مہربانی نہیں کرتا اور بڑوں کا حق نہیں پہچانتا، وہ ہم میں سے نہیں۔ ‘‘

(سنن ابی داود، 4: 286، رقم: 4942)

تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچوں سے بہت زیادہ پیار فرماتے تھے۔ ان کو سلام میں پہل کرتے،ان کے سر پر دست شفقت پھیرتے،ان پر لطف و احسان اور مہربانی فرماتے، انہیں کبھی ڈانٹ نہ پلاتے،انہیں شریک دسترخوان کرتے اور کھانا کھانے کے دوران ان کی کسی غلطی پر سرزنش فرمانے کے بجائے انتہائی نرمی اور پیار سے آداب طعام سکھا دیتے۔ شیرخوار بچوں کو لایا جاتا تو ان کو اپنے دست اقدس سے گھٹی دیتے اور برکت کی دعا فرماتے۔ ان کی اچھی باتوں کو سراہتے تاکہ ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو۔

اپنے نواسوں حسنین کریمین علیہما السلام سے کمال درجہ محبت فرماتے، انہیں چومتے، اپنے کندھوں پر سوار کرتے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی تسکین خاطر کے لیے انہیں اپنی زبان اقدس چوساتے۔ زینب بنت سلمہ کے ساتھ کھیلتے اور انہیں یا زوینب یا زوینب (اے چھوٹی سی زینب، اے چھوٹی سی زینب) کہہ کر مخاطب فرماتے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایام طفلی ہی سے دس سال تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں رہے جن پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقت و رحمت اور لطف ومہربانی کا یہ عالم تھا کہ ان دس سالوں میں کبھی انہیں ڈانٹ تک نہیں پلائی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا چھوٹا بھائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آتا تو اس سے مزاح فرماتے یا اباعمیر ما فعل النغیر (اے ابو عمیر نغیر (پرندہ جس کے ساتھ وہ کھیلتا تھا ) کیسا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار کے گھروں میں تشریف لے جاتے تو ان کے بچوں کو سلام فرماتے اور ان کے سروں پر دست شفقت پھیرتے۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ دعوتِ اسلام قبول کرنے والے اولین بچے تھے جو جوان ہو کر حیدرکرار اور خیبر شکن بنے۔ یہ آغوش نبوت کی تربیت کا اثر تھا جس نے انہیں ایک عظیم انسان بنا دیا۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے بچوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و تعظیم اور محبت کا درس دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقت و مہربانی سے ان بچوں کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق حبی کو مزید تقویت ملتی تھی اور براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت نے ان میں نہایت اعلی اخلاق کو جنم دیا تھا۔

دور حاضر میں بچوں کو محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شناسا کرنے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:

ادّبوا اولادکم علی ثلاث خصال:حبّ نبیکم و حبّ أهل بیته و قراءة القرآن.

’’اپنی اولاد کو تین چیزوں کی خصلتیں سکھاؤ،اپنے نبی کی محبت، نبی کے اہل بیت کی محبت اور کثرت کے ساتھ تلاوت قرآن۔ ‘‘

(الجامع الصغیر للسیوطی،1: 25، رقم: 311)

جشن میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بہترین ذریعہ ہے جس سے والدین اپنے بچوں کو محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم دے سکتے ہیں۔ بچے والدین کے ساتھ شوق سے محافل میلاد میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ورثہ کو جو انہوں نے اپنے بزرگوں سے حاصل کیا ہے اگلی نسلوں میں منتقل کریں۔ اپنے بچوں کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت وافادیت سے آگاہ کریں۔ انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کے ان پہلووں کا ذکر کریں جو بچوں سے متعلق ہے۔ اس طرح ان کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق حبی مضبوط سے مضبوط تر ہو گا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اس پہلو کو درج ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

’’فی زمانہ اولاد کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سکھانے کا اس سے مؤثر اور نتیجہ خیز طریقہ اور کوئی نہیں کہ جب وہ شعور و آگہی کی عمر کو پہنچیں تو انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانے کی ترغیب دی جائے۔ زیادہ سے زیادہ ایسی محافل کا انعقاد کیا جائے جن میں تذکار سیرت و رسالت ہوں، نعتیں پڑھی جائیں اور ایک خاص اہتمام کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کی مجالس بپا کی جائیںتاکہ اوائل عمری ہی سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یک گونہ ذہنی و جذباتی وابستگی پختہ تر ہوتی چلی جائے۔ ‘‘

(میلاد النبی صلی الله علیه وآله وسلم، ص: 685)

اگر بچوں کی اس نہج پر تربیت کی جائے گی تو ان شاء اللہ وہ ایک بہترین انسان اور بااخلاق و باکردار مسلمان کی حیثیت سے معاشرے کا بہترین فرد بن کر سامنے آئیں گے۔

5۔ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا حصول

ہر مسلمان چاہتا ہے کہ میرا رب راضی ہو جائے۔ ہمارے ہر عمل میں رضائے الٰہی کا حصول ہماری نیتوں میں شامل ہوتا ہے۔ کوئی عمل اس وقت خالصیت کے درجہ پر نہیں پہنچتا جب تک اس میں للہیت کا پہلو نہ ہو۔ وہ کام جس میں باری تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا شامل نہ ہو وہ ریا کے زمرے میں آتا ہے۔ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسا عمل ہے کہ جو بہر صورت رضائے الٰہی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر خوشی منانا اس کی رضا کا سبب ہے۔ اس موقع کثرت سے درود وسلام پڑھا جاتا ہے اور درودو سلام ایک ایسا عمل ہے جو بارگاہ خداوندی میں ہمہ وقت مقبول ہے۔

6۔ غرباء و مساکین کی اعانت

یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غریبوں کے آقاو مولا کی ولادت کا دن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت کریمہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غرباء و مساکین کا خیال رکھتے۔ ان کی ضرورتوں کو پورا فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھوکوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے۔ احادیث مبارکہ میںکسی بھوکے شخص کو کھانا کھلانے بہت اجر و ثواب بیان ہوا ہے۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر عشاقان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھانے کھلانے کا وسیع انتظام و انصرام کرتے ہیں اور اطعام الطعام کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اطعام الطعام ایک ایسا عمل ہے کہ جو اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند ہے اور جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ ہے۔

صاحب ثروت حضرات کی طرف سے اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں غرباء و مساکین کو ملبوسات اور دیگر اشیائے ضرورت کے تحائف دینا ایک مسنون، مندوب اور محبوب عمل ہے۔

7۔ سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے واقفیت

محافلِ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچوں کو سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روشناس کرانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ محافل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے ذیل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسب و نسب، ایام ولادت،ایام طفولیت، ایام شباب اور عہد نبوت کا تذکرہ ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب اور شمائل و خصائص بیان کیے جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے مختلف پہلوؤں پر سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں۔ بعض اشاعتی ادارے کتب سیرت کی نمائش،منعقد کرتے ہیں۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر مقالات پڑھے جاتے ہیں۔ مقابلہ سیرت نویسی کروایا جاتا ہے اور بہترین سیرت نگاروں کو انعام و اکرام اور اسناد سے نوازا جاتا ہے۔ آئندہ نسلوں تک سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام پہنچانے کا یہ بہترین موقع سمجھا جاتا ہے۔ بچوں اور بڑوں میں مطالعہ سیرت کا ذوق پیدا ہوتا ہے اور وہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انقلاب آفریں زندگی کو اپنی آئندہ زندگی کے لیے اسوہ اور نمونہ بنانے کا عزم بالجزم کرتے ہیں۔

8۔ قلبی و روحانی سکون واطمینان کا حصول

دور حاضر میں ہر دوسرا انسان پریشانیوں کا شکار ہے۔ طرح طرح کے مسائل نے اس کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ماہ ربیع الاول میںمیلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروگرام میں شرکت سے انسان کے دکھوں کا مداوا ہوتا ہے۔ غمگسار عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واقعاتِ میلاد کا تذکرہ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر عنایات کا ذکر پریشان حال دلوں کی طمانینت کا باعث بنتا ہے۔

جب یاد آگئے ہیں
سب غم بھلا دیئے ہیں۔

9۔ اسلامی ثقافت کی ترویج و اشاعت

جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثقافتی ضرورت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلامی ثقافت کے فروغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس موقع پر بعض حلقوں کی طرف سے میلاد فیسٹیول منعقد کیے جاتے ہیں جن میںکتب سیرت کے علاوہ اسلامی فنون لطیفہ کے اسٹال بھی لگائے جاتے ہیں۔ اہل فن اپنے فن پارے اور اہل ہنر اپنی مصنوعات متعارف کرواتے ہیں۔ بایں صورت یہ ثقافتی ورثہ نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔

اسی طرح عرب کے ماحول اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرنے کے لیے اس دن پہاڑیاں بنائی جاتی ہیں۔ مختلف قسم کے ماڈل رکھے جاتے ہیں اور تلاوت و نعت کی ریکارڈنگ چلائی جاتی ہے۔ بچے اور نوجوان اس کام کو بڑی دلچسپی اور ذوق و شوق کے ساتھ سرانجام دیتے ہیں۔ اگر ان امور میں کوئی غیر شرعی عمل شامل نہ کیا جائے تو یہ بچوں اور نوجوانوں تک اسلامی ثقافت کو پہنچانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

لمحہ فکریہ!

انتہائی دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے کچھ نوجوان جشن میلاد کے دن کے تقدس کو انجانے میں پامال کرنے کی جسارت کرتے ہیں اور اس دن ریکارڈنگ چلا کر ناچنا کودنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ایک غیر شرعی اور قابل مذمت فعل ہے۔ اہل اسلام کا کوئی مسلک اس کی اجازت نہیں دیتا۔ چونکہ نیکی اور بدی کی جنگ کا سلسلہ ازل سے جاری ہے، شیطان اور اس کے چیلے انسان کو نیکی سے روکنے کے درپے رہتے ہیں، لہٰذا اس موقع پر بھی شیطان اپنے حربے استعمال کرتا ہے اور بعض نوجوانوں کو ورغلا کر رقص و سرود میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ نوجوان ابلیس لعین کا آلہ کار بن کر اس دن کے تقدس اور احترام کا خیال نہ کرتے ہوئے لغویات میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بجائے حصول ثواب کے عذاب کی لعنت مول لے لیتے ہیں۔ یہ نوجوان اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کو شیطان کے چنگل سے چھڑا کر راہ راست پر گامزن کرنا داعیان اسلام کی ذمہ داری ہے۔ اہل علم کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے حلقہ اثر میں ان چیزوں کی مذمت کریں اور انتظامیہ کا بھی فرض ہے کہ نوجوانوں کو اس طرح کی غیر شرعی حرکات سے باز رکھیں اور قانون کی عملداری کو یقینی بنائیں۔

بعض نادان حلقے ان فضول حرکتوں کو دیکھ کر جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدف تنقید بنانا شروع کر دیتے ہیں جو سراسر ناانصافی اور جہالت ہے۔ چند لوگوں کی خرابی کی وجہ سے کوئی عمل برا نہیں ہو سکتا۔ وہ عمل اپنی جگہ پر نیک ہے اور نیک ہی رہے گا۔