منہاج یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام دو روزہ عالمی کانفرنس

رپورٹ: رابعہ علی

منہاج یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس "International Conferences on religious pluralism and world peace" کے عنوان سے 11 اور 12 نومبر2017ء کو منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں بین الاقوامی سکالرز نے اپنے مقالہ جات پیش کیے جن کا مرکزی خیال مذاہب کا امن کے قیام کے حوالے سے کردار تھا۔ موضوع کی انفرادیت، افادیت اور ناگزیت کے اعتبار سے اپنی نوعیت کی یہ پہلی بین الاقوامی کانفرنس ہے جس میں سنگاپور، آسٹریلیا، سری لنکا، انڈیا، ملائیشیا سے بین الاقوامی شہرت یافتہ سکالرز نے شرکت کی۔ اس بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کے روح رواں منہاج یونیورسٹی لاہور کے بورڈ آف گورنر کے وائس چیئرمین ڈاکٹر حسین محی الدین قادری تھے جن کی ذاتی کاوش سے بین الاقوامی شہرت یافتہ سکالرز نے انتہائی اہم موضوع پر پاکستان میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت پر آمادگی ظاہر کی۔ بین الاقوامی سکالرز نے عالمی امن کے قیام کے حوالے سے مختلف مذاہب کے دہشت گردی کے انسدادکے نظریہ بارے شرکائے کانفرنس کو تفصیل سے آگاہ کیا۔

اس عالمی کانفرنس کی خاص بات وہ اعلامیہ ہے جو کانفرنس کے اختتام پر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے پیش کیا۔ انسانیت کو سیاسی، معاشی چیلنجز درپیش ہوں یا عالمی امن کو خطرات لاحق ہوں، عالم اسلام پیچیدہ علمی مسائل سے دو چار ہو یا مختلف نوعیت کے سماجی بحران، تحریک منہاج القرآن اور اس کے بانی و سرپرست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کواللہ تعالیٰ نے یہ توفیق اور اعزاز بخشا کہ ا نہوں نے سب سے پہلے امت مسلمہ وانسانیت کی علمی اور تحقیقی اعتبار سے رہنمائی کی اور اپنی قومی، ملی و بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انسانیت کی خدمت کے حوالے سے جو علمی و تحقیقی روایات قائم کی ہیں، تحریک منہاج القرآن انھیں نہایت ذمہ داری اور جانفشانی سے لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ اسی درخشندہ روایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے منہاج القرآن انٹرنیشنل کے صدر و منہاج یونیورسٹی لاہور کے وائس چیئرمین ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اس تاریخی عالمی کانفرنس کے اختتام پر ایک اعلامیہ پیش کیا جسے کانفرنس میں شریک بین الاقوامی سکالرز، سینکڑوں طلبہ و طالبات اور زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات نے سراہا اور اس اعلامیہ کی ہر شق کی متفقہ طور پر منظوری دی۔

کانفرنس کا اعلامیہ

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اعلامیہ پیش کرتے ہوئے کہا:

  1. دہشت گردی کی کوئی بھی شکل دنیا کے کسی بھی مذہب کے لیے قابل قبول نہیں ہے اور یہ ہر سطح پر قابل مذمت ہے۔ مذہب کی غلط تعبیر و تشریح کو مکالمہ کے ذریعے روکنا ہو گا اور مذہبی سکالرز ہی اتھارٹی ہیں۔
  2. اعلامیہ میں ایک کونسل تشکیل دینے کی تجویز بھی دی گئی جو مختلف ممالک کی حکومتوں سے مل کر فروغ امن کے لیے کئے گئے فیصلہ جات پر عملدرآمد میں اپنا کردار ادا کر سکے۔
  3. اعلامیہ میں ایک انتہائی اہم نقطہ کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا گیا کہ عالمی مذہبی رہنمائوں کو مل بیٹھ کر ایک ضابطہ اخلاق طے کرنا چاہیے کہ نفرت اور مختلف مذاہب کے بانیان اور مقدس شخصیات کے خلاف نفرت انگیزی کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اور ایسے معاملات میں کونسل کو مداخلت اور محاسبہ کا اختیار ہونا چاہیے۔
  4. اعلامیہ میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر بھی زور دیا گیا۔ بالخصوص برما کے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور کہا گیا کہ طاقت کے بل بوتے اور تشدد کے ذریعے کسی اقلیت کے حقوق پامال نہیں کیے جا سکتے اور تسلیم شدہ حقوق کو پامال کرنے والوں کے خلاف عالمی سطح پر جہاد ہونا چاہیے۔

اعلامیہ کی منظوری کے بعد معزز مہمانوں نے عالمی کانفرنس کے انعقاد کی عظیم کاوش کو سراہا اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی عالمی امن کے قیام، انسداد دہشت گردی و انتہا پسندی کے حوالے سے علمی و تحقیقی کاوشوں کو سراہا۔

مقررین کے خطابات

دو روزہ عالمی کانفرنس سے وائس چانسلر منہاج یونیورسٹی لاہور پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم غوری، ڈی جی پنجاب ہائر ایجوکیشن محمد شاہد سروہا، ڈاکٹر محمد نظام الدین، ڈاکٹر ہربرٹ، ڈاکٹر نعیم مشتاق، ایم یو ایل کے سکول آف ریلجنز اینڈ فلاسفی کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر ہرمن، آسٹریلیا سے آئے ہوئے Dr. Adrian Feldmann، سنگا پور سے آئے ہوئے ڈاکٹر روہن گنارتنا، ملائشیاء سے آئے ہوئے ڈاکٹر آغس یوسوف، انڈیا سے آئے ڈاکٹر شیو نے فروغ امن میں مذہب کے کردار کے حوالے سے معلومات سے بھرپور گفتگو کی اور انتہا پسندی سے نجات کے حوالے سے تجاویز بھی دیں۔

عالمی کانفرنس کے خوبصورت مقرر ڈاکٹر روہن تھے۔ ڈاکٹر روہن عالمی سطح پر انسداد دہشتگردی اور کریمنالوجی کے ایک ایکسپرٹ کے طور پر جانے جاتے ہیں اور دنیا کی مختلف حکومتیں ان کے علم، تجربات، صلاحیتوں سے بطور ایکسپرٹ استفادہ کرتی رہتی ہیں۔ ڈاکٹر روہن اس سے قبل پاکستان کا متعدد بار دورہ کر چکے ہیں اور وہ پاکستان کے حالات، اس کے تاریخی پس منظر، کلچر و ثقافت کی معلومات کے حوالے سے کسی بھی عام پاکستانی سے زیادہ باخبر ہیں۔ ڈاکٹر روہن نے اپنے مدلل خطاب میں انتہا پسندی سے نجات اور فروغ امن و ہم آہنگی کے لیے قابل قدر تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ

نفرت کرنے سے نفرت کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہے، اسی طرح تشدد سے صرف تشدد فروغ پاتا ہے۔ اصلاح احوال اور کسی فرد کے اندر مثبت تبدیلیاں لانے کے لیے مذہب کا کردار بنیادی نوعیت کا ہے۔ مذہب برائیوں سے روکنے کے حوالے سے سب سے بڑی تحریک پیدا کرتا ہے اور اس کے بعد مذہبی شخصیات کا بڑا اہم کردارہے۔ کسی بھی مذہب کی شخصیت اپنی مذہبی تعلیم کو کس انداز سے سمجھتی اور اس کا ابلاغ کرتی ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ کوئی بھی مذہب ایسا نہیں جو دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہو یا بے گناہوں کی جان لینے پر اکساتا ہو۔ مذہب کی غلط تعبیر ایک حل طلب مسئلہ ہے اور مذہب کی غلط تعبیر و تشریح کو روکنا ہو گا۔

ڈاکٹر روہن کا کہنا تھا کہ دوسرے نمبر پر استاد کا کردار بہت اہم ہے چونکہ بچہ والدین کے بعد سب سے زیادہ وقت استاد کے پاس گزارتا ہے اور استاد بچے کے ذہن کی خالی تختی کو اپنے فہم و ادراک کے مطابق پر کرتا ہے۔ اگر استاد کی تربیت اور فہم و فراست میں کمی ہو گی تو اس کا اثر بچے کی شخصیت پر بھی آئے گا اور اگر استاد بلند کردار، بڑی سوچ اور مثبت رویوں کا حامل ہو گا تو اس کے اثرات لامحالہ بچے کی شخصیت پر مرتب ہونگے۔ اس کے بعد حکومت کا کردار انتہائی اہم ہے۔ حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ اور انہیں برائی کی قوتوں سے بچانے کی ذمہ دار ہے۔ حکومتیں گڈگورننس، مساوات اورقانون کے یکساں اطلاق کے ذریعے سوسائٹی کے امن کو بگڑنے اور عدم توازن سے دو چار ہونے سے بچاتی ہیں۔

ڈاکٹر روہن نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ جیلوں میں بند سنگین جرائم کے قیدیوں کو سوسائٹی سے مت کاٹا جائے، ان کے جرم کی وجہ سے انہیں تنہا نہ کیا جائے، کسی کے جسم کو قید کرنے سے یا سزا دینے سے ذہن جرم سے خالی نہیں ہوتا، اس کے لیے سوسائٹی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ علمائے کرام، سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو جیلوں کے دورے کرنے چاہئیں اور سنگین جرائم میں ملوث سزا یافتہ قیدیوں کے ساتھ انٹرایکشن کرنا چاہیے تاکہ انہیں سوسائٹی کے اندر پنپنے والے منفی رویوں کے بارے میں آگاہی حاصل ہو اور اس کے ساتھ ساتھ جیلوں میں قید قیدیوں کو ایک اچھا انسان اور شہری بنانے کے لیے لائحہ عمل بنانے کا موقع ملے۔

ڈاکٹر روہن نے تجویز دی کہ جیل میں بند کسی بھی قیدی سے اس کے رشتہ داروں کو ملوانے کا باقاعدہ اہتمام کرنا چاہیے، بالخصوص قیدی کے بزرگوں کو قیدی سے ملوانا چاہیے، یقینا خاندان کے بزرگ کسی بھی شخص کی مجرمانہ سرگرمیوں سے لاعلم ہوتے ہیں ان کے بچے یا بچی کا قید ہو جانا ان کے لیے بھی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جب ایک بزرگ، دادا یا دادی، نانا یا نانی قیدی سے سوال کریں گے کہ’’ ہم نے تو تمہارے لیے کوئی اور بڑا خواب دیکھا تھا اور تم کہاں کھڑے ہو ؟‘‘ بعض دفعہ کوئی ایک جملہ انسان کے اندر کی دنیا کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ اسی طرح ہیلتھ اور ایجوکیشن کے ڈیپارٹمنٹس کو بھی سنگین جرائم کے قیدیوں کی صحت و صفائی اور علمی آبیاری کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے اور دہشت گردی یا سنگین جرائم کے مجرموں کو مذہب کی اصل تعلیمات سے آگاہ کرنا چاہیے تاکہ ان کے جو بنیادی تصورات ہیں وہ واضح ہو سکیں۔ مذہب کی غلط تشریح کی تصیح ہونی چاہیے۔ انہوں نے صدق دل سے اس بات کا اعتراف کیا کہ عالم اسلام میں قابل قدر سکالرز ہیں جن کی تحقیق عالمی معیار پر پورا اترتی ہے۔

سوال و جواب کے سیشن میں ایک طالبہ نے ڈاکٹر روہن سے سوال کیا کہ انتہا پسندانہ رجحانات سے بچنے کے لیے کیا اقدامات ہونے چاہئیں؟ ڈاکٹر روہن نے جواب دیا:

آپ رومی کو پڑھیں، انتہا پسندی سے دور رہیں گے۔ رومی میرا پسندیدہ دانشور ہے۔ اس جواب پر شرکائے عالمی کانفرنس نے دیر تک والہانہ تالیاں بجائیں اور داد دی۔ ڈاکٹر روہن کا مزید کہنا تھا کہ سپورٹس، ثقافتی سرگرمیاں اور صوفی میوزک متوازن سوسائٹی کیلئے اہم کردار کے حامل ہیں۔

ڈاکٹر روہن نے بتایا کہ دنیا کی6 عظیم تہذیبوں میں سے تین کا تعلق پاکستان کی دھرتی سے ہے، اس میں موہنجوداڑو، ہڑپہ اور گندھارا شامل ہیں۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہوئے انتہائی پرامید اور پراعتماد تھے کہ دنیا کے امن کا ڈی این اے اسی خطے میں ہے۔ صدیوں سے یہ دھرتی پیار کرنے والوں کی آماجگاہ رہی ہے۔

ڈاکٹر روہن نے منہاج القرآن سیکرٹریٹ اور فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا دورہ بھی کیا اور وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے نظم و نسق، مختلف ادارہ جات کی تشکیل اور ان کے حسن انتظام کے بارے میں انتہائی مسرور تھے۔ انہوں نے FMRI کے لائبریری ہال میں بھی کچھ وقت گزارا اور سکالرز سے مختلف موضوعات پر گفت و شنید بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ شیخ اسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری انسانیت کی خدمت کررہے ہیں۔ انہوں نے شیخ الاسلام کے انسداد دہشتگردی پر لکھے گئے ضخیم فتویٰ کو بے حد سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ شیخ الاسلام نے اس دستاویز کے ذریعے انتہا پسندی کے الزام کو اسلام کے پرامن تشخص سے کامیابی کے ساتھ جدا کر دیا۔

کانفرنس میں بدھ ازم کے مقلد ڈاکٹر ایڈرائن بھی شریک تھے۔ سوال و جواب کے سیشن میں ان سے سوال کیا گیا کہ روہنگیا مسلمانوں کو بے دردی کے ساتھ ذبح کیا جارہا ہے، ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے، کیا برمامیں بدھ ازم کی تعلیمات پر عمل نہیں ہو رہا یا انسانیت کے احترام کی تعریف میں تحریف ہوگئی؟ ڈاکٹر ایڈرائن نے جواب میں کہا کہ برما میں جو کچھ ہو رہا ہے میں اسے Own نہیں کرتا البتہ دہشتگردی اور حقوق غصب کرنے کی تعلیم کسی بھی مذہب کا حصہ نہیں ہے۔

عالمی کانفرنس میں خواتین بالخصوص ہائر کلاسز کی طالبات بڑی تعداد میں شریک تھیں اور سوال و جواب کے سیشن میں سب سے زیادہ سوال خواتین کی طرف سے کیے گئے جو اس بات کا انتہائی مثبت اور حوصلہ افزاء اشارہ ہے کہ پاکستان کی خواتین علم و آگہی اور غور و فکر کے اعتبار سے آج ماضی کی نسبت کہیں آگے ہیں۔

کانفرنس میں پنجاب بھر سے مختلف یونیورسٹیز کے پروفیسرز نے بھی شرکت کی جن میں بیکن ہائوس کے پروفیسر مسٹر رضا نعیم، ڈاکٹر نسیم اسحاق، مسٹر فرحت اللہ، ڈاکٹر رمضان شاہد، ڈاکٹرمحمداقبال چاولہ، قیام الدین خان، عبد الولی خان، فائزہ ارشد، ڈاکٹرفرحت اللہ، ڈاکٹرجان عالم، ڈاکٹرمصفیح الرحمان، نایاب ناصر، قیصربلال، امیر حسین بردی، ڈاکٹراحمد علی، حسنین جاوید، ڈاکٹرجینس خان، ڈاکٹر کلیان سنگھ کلیان، صابر ناز، ڈاکٹربادشاہ رحمان، ایم قاسم، ڈاکٹر نودیربخت، سلمہ ناز، ڈاکٹر محمد اکرم رانا نے طلبہ و طالبات کے سیشنزسے خطابات کئے۔ اختتامی سیشن میں ڈاکٹر جیمز چنن بھی شریک ہوئے اور انہوں نے دعائیہ کلمات ادا کئے۔ وائس چانسلر منہاج یونیورسٹی لاہور ڈاکٹر محمد اسلم غوری نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا جس میں انہوں نے مختلف ممالک سے آئے ہوئے غیر ملکی مہمانوں، یونیورسٹیز کے فیکلٹی ممبران، طلبہ و طالبات اور میڈیا کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ منہاج یونیورسٹی لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے وائس چیئرمین ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے دعائے خیر کروائی اور مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عالمی کانفرنس کے اختتام کا باضابطہ اعلان کیا۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض میڈم ثمرین، خرم آفتاب نے سرانجام دئیے۔ تقریب کے اختتام پر اچھی کاکردگی کا مظاہرہ کرنیوالے انتظامی کمیٹیوں کے ذمہ داران کو انعامی شیلڈز سے نوازا گیا۔