الفقہ: اسلام میں ’’کفو‘‘ کا تصور

مفتی عبدالقیوم خاں ہزاروی

جواب: کفو کا لغوی مطلب نظیر اور برابری ہے۔ اسی سے نکاح میں کفاءت مراد ہے۔ وہ یہ ہے کہ خاوند کا حسب، دین، نسب اور گھر وغیرہ میں عورت کے برابر ہونا۔

(ابن منظور، لسان العرب، 1: 139)

کفو کا اصطلاحی معنی یہ ہے کہ نکاح میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لڑکا، لڑکی کے معیار سے کم اور نیچا تو نہیں ہے کیونکہ جو لڑکی صفات مخصوصہ ممتازہ کے اعتبار سے اعلیٰ ہو، وہ اس لڑکے کا فراش بننے کو ناپسند کرے گی جو اس سے صفات میں ادنیٰ ہو، نیز لڑکی کے وارث بھی اس بات کو اپنے لئے باعث عار سمجھتے ہیں۔

کفو میں عموماً چھ چیزوں کا لحاظ رکھا جاتا ہے:

  1. اسلام
  2. حریت یعنی آزاد ہو، غلام نہ ہو
  3. نسب
  4. مال و دولت
  5. تقویٰ اور دینداری
  6. صنعت و حرفت یعنی پیشہ

(در المختار، 2: 437)

کفو کی حقیقت اتنی ہے کہ لڑکے لڑکی میں ہر ممکن حد تک مناسبت کا لحاظ کیا جائے۔ بے جوڑ اور غیر مناسب رشتوں سے بچا جائے تاکہ دونوں میں ہم آہنگی، مطابقت و موافقت اور الفت ہو۔ کالے، گورے، سید، غیر سید، ذات پات کا نظام اسلام میں نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

النَّاسُ کَأَسْنَانِ الْمُشْطِ.

’’تمام لوگ کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر ہیں‘‘۔

(الشهاب، المسند، 1: 145، رقم: 195)

حجۃ الوادع کے موقع پر آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا:

یَا أَیُّهَا النَّاسُ، أَلاَ إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ، أَلاَ لاَ فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلَی أَعْجَمِیٍّ، وَلاَ لِعَجَمِیٍّ عَلَی عَرَبِیٍّ، وَلاَ لأَحْمَرَ عَلَی أَسْوَدَ، وَلاَ أَسْوَدَ عَلَی أَحْمَرَ، إِلاَّ بِالتَّقْوَی.

’’لوگو! سن لو، تمہارا خدا ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے، کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی سرخ کو کالے اور کسی کالے کو سرخ پر تقوی کے سوا کوئی فضیلت نہیں۔‘‘

(بیهقی، شعب الایمان، 4: 289، الرقم: 5137)

علامہ سرخسی اس حوالے سے ایک طویل بحث کے بعد لکھتے ہیں۔

’’تواضع اور انکسار کرنا اور کفو کی طلب کو ترک کرنا مستحب ہے اور کفو کا اعتبار کرنا لازم نہیں ہے اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ رضا کے وقت (غیرکفو) میں نکاح کرنا جائز ہے۔‘‘

(سرخسی، المبسوط، 5: 25)

اس عبارت سے یہ واضح ہو گیا کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک کفو کو طلب کرنا لازم نہیں ہے بلکہ مستحب یہ ہے کہ تواضع اور انکسار کو اختیار کر کے غیر کفو میں نکاح کیا جائے۔

قرآن مجید سے غیر کفو میں نکاح کا ثبوت

بعض لوگوں نے یہ کہا کہ غیر کفو میں نکاح کرنا حرام ہے اور یہ نکاح زنا کے مترادف ہے۔ خواہ ان کے ورثاء و اولیاء کی اجازت ہی سے کیوں نہ ہو۔ لیکن ان بزرگوں نے قرآن مجید کے حکم پر غور نہیں فرمایا کہ قرآن مجید نے سورۃ النساء کی آیت 24 میں ان تمام عورتوں کا ذکر فرمایا جو نسب، رضاعت، صہر، جمع فی النکاح اور منکوح غیر ہونے کے اعتبار سے حرام ہیں اس کے بعد فرمایا:

وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ.

’’اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لیے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاکدامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے‘‘۔

(النساء، 4: 24)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کلمہ ’’ما‘‘ عموم کا استعمال فرما کر بتادیا کہ مذکورہ حرام کردہ عورتوں کے علاوہ سب حلال ہیں اس میں کفو اور غیر کفو کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ.

’’ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لیے پسندیدہ اور حلال ہوں‘‘۔

(النساء، 4: 3)

مندرجہ بالا آیت میں بھی لفظ ’’ما‘‘ جو کہ عموم کے لئے ہے یعنی محرمات کے علاوہ جو عورتیں تمہیں پسند آئیں خواہ وہ کفو سے ہو یا غیر کفو سے ہوں، باہمی رضامندی سے نکاح کر لو۔

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

یٰاَیُّها النَّاسْ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰکُمْ.

(الحجرات؛ 49: 13)

’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو۔‘‘

محدثین و مفسرین نے اس آیت مبارکہ کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے :

أَمَرَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم بَنِي بَیَاضَةَ أَنْ یُزَوِّجُوا أَبَا هِنْدٍ امْرَأَةً مِنْهُمْ، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اﷲِ نُزَوِّجُ بَنَاتِنَا مَوَالِینَا؟ فَأَنْزَلَ اﷲُ عَزَّ وَجَلَّ {إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَأُنْثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ} [الحجرات: 13]

’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو بیاضہ کو حکم دیا کہ وہ ابو الہند کے ساتھ اپنی ایک عورت کی شادی کر دیں۔ انہوں نے کہا:کیا ہم اپنی بیٹیوں کا نکاح غلاموں سے کردیں ؟ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی۔۔۔‘‘

(ابو دؤد، المراسیل، 1: 195، رقم: 230)

ابو الہند حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فصد لگانے والا غلام تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آزاد عورت کا نکاح ایک غلام سے کر کے نسب و حسب اور صنعت و حرفت کے سارے بت توڑ دیئے۔

قرآن مجید سے غیر کفو میں نکاح کا ثبوت اس آیت سے بھی ملتا ہے، ارشاد فرمایا:

وَلاَ تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّط وَلَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَةٍ وَّلَوْ اَعْجَبَتْکُمْ.

’’اور تم مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح مت کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور بے شک مسلمان لونڈی (آزاد) مشرک عورت سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلی ہی لگے اور (مسلمان عورتوں کا) مشرک مردوں سے بھی نکاح نہ کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں۔‘‘

(البقره، 2: 221)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صراحتاً بتا دیا کہ مسلمان آزاد لڑکیوں کا نکاح غلام مسلمانوں سے کرنا جائز ہے۔ حالانکہ غلام، آزاد کا کفو نہیں ہوتا۔

احادیث سے غیر کفو میں نکاح کا ثبوت

احادیث مبارکہ میں بھی غیر کفو میں نکاح سے متعلق بے شمار ثبوت ہیں۔

1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

تُنْکَحُ الْمَرْاةُ لِارْبَعٍ لِمَالِها وَلِحَسَبِها وَجَمَالِها وَلِدِینِها فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدّینِ تَرِبَتْ یَدَاکَ.

’’عورت سے چار چیزوں کے باعث نکاح کیا جاتا ہے اس کے مال، اس کے حسب و نسب، اس کے حسن و جمال اور اس کے دین کی وجہ سے، تیرے ہاتھ گرد آلودہ ہوں، تو دیندار کو حاصل کر۔‘‘

(بخاری، الصحیح، 5: 1958، رقم: 4802)

2۔ ابوامامہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَا اسْتَفَادَ الْمُؤمِنُ بَعْدَ تَقْوَی اللّٰهِ خَیْرًا لَه مِنْ زَوْجَةٍ صَالِحَةٍ اِنْ امَرَها اطَاعَتْه وَاِنْ نَظَرَ اِلَیْها سَرَّتْه وَاِنْ اقْسَمَ عَلَیْها ابَرَّتْه وَاِنْ غَابَ عَنْها نَصَحَتْه فی نَفْسِها وَمَالِه.

’’مومن اللہ کے تقویٰ کے بعد جو اپنے لیے بہتر تلاش کرے وہ نیک بیوی ہے کہ اگر اسے حکم دے تو اطاعت کرے، اس کی جانب دیکھے تو خوش ہو، اگر وہ کسی بات کے کرنے پر قسم کھا لے تو اسے پوری کر دے۔ اگر شوہر کہیں چلا جائے تو اس کی غیر موجودگی میں اپنی جان و مال کی نگہبانی کرے‘‘۔

(ابن ماجه، السنن، 1: 596، رقم:1857)

3۔ یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا جَاء َکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ أَمَانَتَهُ وَخُلُقَهُ فَأَنْکِحُوهُ کَائِنًا مَنْ کَانَ، فَإِنْ لَا تَفْعَلُوا تَکُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیرٌ، أَوْ قَالَ: عَرِیضٌ.

’’ جب تمہارے پاس ایسے شخص کے نکاح کا پیغام آئے جس کی دینداری اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو اس سے نکاح کردو خواہ وہ کوئی بھی شخص ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت زیادہ فساد اور فتنہ پھیلے گا۔‘‘

(عبد الرزاق، المصنف، 6: 152، رقم: 10325)

4۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اِذَا خَطَبَ اِلَیْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِیْنَه وَخُلُقه فَزَوِّجُوْ اِلَّا تَفْعَلُوا تَکُنْ فِتْنَةٌ فِی الْارْضِ وَفَسَادٌ عَرِیْضٌ.

’’جب تمہیں ایسا شخص نکاح کا پیغام دے جس کا دین و اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے نکاح کر دو، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں بہت بڑا فتنہ بپا ہو گا۔

(ترمذی، السنن، 3: 394، رقم: 1084)

5۔ ’’حکم بن غینہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ایک انصاری کے گھر بھیجا تاکہ وہ اپنے رشتہ کا پیغام دیں۔ اس انصاری کے گھر والوں نے کہا کہ حبشی غلام۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہاکہ اگر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے تمہارے پاس آنے کے لئے نہ کہا ہوتا تو میں میں کبھی نہ آتا۔ انہوں نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں حکم دیا ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ہاں۔ انہوں نے کہا تم اس رشتہ کے مالک ہو۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جاکر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سونے کا ٹکڑا آیا۔ آپ نے وہ حضرت بلال کو عطا کیا کہ یہ اپنی بیوی کے پاس لے جانا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے دوستوں سے فرمایا تم اپنے بھائی کے ولیمے کی تیاری کرو‘‘۔

مندرجہ بالا حدیث حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آزاد عورت کا نکاح ایک حبشی غلام کے ساتھ کر کے ہر قسم کے تفاوت کو ختم کر دیا اور بتا دیا کہ اصل چیز مسلمان ہونا ہے، باقی چیزیں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔

(ابو دؤد، المراسیل، 1: 193-194، رقم: 226)

کفو میں کارفرما حکمت

اسلام میں شادی کے سلسلہ میں کفو کا لحاظ اسی لئے کیا گیا ہے کہ اخلاق کے ساتھ ساتھ قومی و قبائلی تعلقات کا لحاظ بھی کرلیا جائے تو رشتہ زوجیت و نکاح میں مزید پختگی پیدا ہونے کے امکانات پیدا ہوجائیں گے اور بس۔ یہ تمام تدابیر دراصل ایک ہی مسئلہ کے محکم و پائیدار کرنے کیلئے کی جاتی ہیں کہ رشتہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہو۔ میاں بیوی کے درمیان مثالی ہم آہنگی ہو، پیار ہو، ہمدردی ہو، میل ملاپ ہو، اور ان دو کی باہمی محبت کے ذریعے ان کے والدین اور پوری برادری و خاندان تک یہ خوشگوار تعلقات پھیلتے پھولتے چلے جائیں۔

پیغام نکاح دیتے وقت اس عورت کی خوبیوں کو دیکھنے میں بھی یہی حکمت کارفرما ہے تاکہ یہ رشتہ ہم آہنگی اور موافقت سے استوار ہو۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اِذَا خَطَبَ احَدُکُمْ الْمَرْاةَ فَاِنْ اسْتَطَاعَ انْ یَنْظُرَ اِلَی مَا یَدْعُوْ اِلَی نِکَاحِھا فَلْیَفْعَلْ.

’’جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو پیغام نکاح دے اگر اس کی ان خوبیوں کو دیکھ سکتا ہو جو اسے نکاح پر مائل کریں، تو ضرور ایسا کرے۔‘‘

(احمد بن حنبل،، المسند، 3: 334، رقم: 14626)

’’حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مغیرہ بن شعبہ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جاؤ اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اس سے نکاح کر لیا۔ بعد میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس نے اپنی بیوی کی موافقت اور عمدہ تعلق کا ذکر کیا۔‘‘

(احمد بن حنبل، المسند، 4: 249، رقم: 18179)

اسلام نے قوم و قبیلہ کی جاہلانہ حیثیت کو ختم کیا ہے۔ جس کی رو سے بعض قومیں اعلیٰ اور بعض ادنیٰ سمجھی جاتی تھیں اور اب جاہلیت جدیدہ میں بھی سمجھی جاتی ہیں۔ قرآن کریم نے واضح کیا کہ قوم قبیلہ، ذات برادری، محض جان پہچان کا ذریعہ ہیں ان کی بناء پر نہ کوئی اعلیٰ ہوتا ہے نہ ادنیٰ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :

یٰٓـاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَـآئِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ ﷲِ اَتْقٰـکُمْ.

’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو۔‘‘

(الحجرات، 49: 13)

اسلام کی نظر میں عزت و ذلت، بڑا اور چھوٹا ہونے کا دار و مدار ایمان و کردار پر ہے حسب و نسب پر نہیں۔ دین کی نظر میں ایمان و عمل میں پختہ، با کردار، صاحب علم و تقویٰ ہی بہت اعلیٰ و بزرگ تر ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی ہاشمی، قریشی، مکی مدنی ہے لیکن ایمان و عمل اور صالح کردار سے محروم ہے تو جتنا چاہے بڑا بنتا پھرے، اللہ کے نزدیک پرکاہ کے برابر ہے۔ عتبہ، شیبہ ولید، ہاشمی و قریشی ہو کر بھی ذلیل تر، حقیر تر اور کمین تر ہیں۔

نکاح میں کفو کی حیثیت

اسلام نے نکاح کا مقصد محبت و الفت بتایا ہے۔ لہٰذا نکاح کرتے وقت چند امور کو پیش نظر رکھنے کی ہدایت فرمائی، جس سے میاں بیوی میں جہاں تک ممکن ہو محبت، یگانگت اور ہمدردی پیدا کر دی جائے، رشتہ ازدواج کی پائیداری کا سبب ہو، میاں بیوی میں اتحاد و اتفاق ہو اور وہ پرسکون زندگی بسر کر سکیں۔یہ بنیادی بات ہے۔ اسلام نے یہ حق ہر مرد اور عورت کو دیا ہے لہٰذا کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی پر اپنی مرضی مسلط کرے یہاں تک کہ باپ، دادا کو بھی جبر کا اختیار نہیں۔

ولا یجوز للولی اِجبار البکر البالغة علی النکاح.

’’کنواری (خواہ بیوہ یا مطلقہ) بالغ لڑکی کا زبردستی نکاح کرنے کا، اس کے ولی کو (بھی) اختیار نہیں۔

ینعقد نکاح الحرة العاقلة البالغة برضائها واِن لم یعقد علیها ولی.

’’ہر آزاد، عقل مند بالغ لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر بھی نکاح کرے تو نکاح ہو جاتا ہے۔‘‘

وجہ الجواز انها تصرفت فی خالص حقها وهی من اهلہ لکونها عاقلة ممیزة ولهذا کان لها التصرف فی المال ولها اختیار الازواج... ثم فی ظهر الروایة لا فرق بین الکفء و غیر الکفء ولکن للولی الاعتراض فی غیر الکفئی.

’’جائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ عورت نے (اپنی پسند کا نکاح کر کے) خالص اپنے حق میں تصرف کیا ہے اور وہ بااختیار ہے کیونکہ عقل مند اور برے بھلے میں تمیز کر سکتی ہے، اسی وجہ سے وہ اپنے مال میں تصرف کا حق رکھتی ہے۔ اور اسے شادی کرنے کا اختیار ہے۔۔۔ پھر ظاہر روایت میں یہ ہے کہ نکاح کے جواز میں کوئی فرق نہیں، کفو میں ہویا غیر کفو میں ہو، ہاں غیر کفو میں کرے تو ولی کو اعتراض کا حق پہنچتا ہے۔‘‘

(مرغینانی، الهدایه، 1: 196)

تنقیح مسئلہ

عام علماء نے فرمایا لزوم نکاح کے لیے کفو شرط ہے کہ اس کے بغیر نکاح لازم نہیں ہوتا۔ امام کرخی رحمہ اللہ، امام مالک، سفیان ثوری رحمہ اللہ اور حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کفو لزوم نکاح کے لئے شرط نہیں۔

کفو کا اعتبار ضروری ہوتا تو خون میں ہوتا، ادنیٰ مقتول کے قصاص میں اعلیٰ ذات کا قاتل قتل نہ کیا جاتا۔ تو جب خون میں کفو کا اعتبار نہیں تو نکاح میں کیوں؟ احناف اور دیگر جن ائمہ نے کفو کا اعتبار کیا ہے انہوں نے بھی کبھی کہیں یہ نہیں فرمایا کہ غیر کفو میں نکاح نہیں ہوتا، بلکہ یہ فرمایا کہ بالغ لڑکی غیر کفو میں نکاح کرلے اور باپ یا دادا سے اجازت نہ لے تو ان حضرات کا حق ہے اور وہ قاضی کے پاس تنسیخ نکاح کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ اگر نکاح ہی نہ ہوتا تو اعتراض کس کا؟ اور تنسیخ کس کی؟

(بدائع الصنائع، 2: 317)

باپ یا دادا کی اجازت سے تو غیر کفو میں نکاح ناجائز ہونے کا کسی نے قول ہی نہیں کیا۔ سب کے نزدیک جائز ہے۔

خلاصہ کلام

درج ذیل عورتوں سے شرعاً نکاح کے حرام ہونے کی قرآن مجید نے صراحت فرمادی ہے:

مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، رضاعی مائیں، رضاعت میں شریک بہنیں، بیویوں کی مائیں، تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں جن سے تم صحبت کر چکے ہو، بیٹوں کی بیویاں، دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا، شوہر والی عورتیں۔

یہ ہے فہرست ان عورتوں کی جن سے نکاح حرام ہے۔ یہ قرآن کریم کی سورہ نساء کی آیت نمبر 23 اور 24 میں مذکور ہے۔ اس فہرست کو بار بار پڑھیں اور دیکھیں کہیں ایک برادری کو دوسری برادری پر حرام ہونا ثابت ہے؟ نہ قرآن میں، نہ حدیث میں، نہ فقہ میں، کہیں بھی منع نہیں ہے۔

یہ بھی یاد رکھیں کہ ہاشمی، قریشی، علوی اموی، پٹھان وغیرہ قومیں ہیں اور قوم و قبیلہ اللہ تعالیٰ نے محض تعارف یعنی باہمی جان پہچان کے لئے بنائے ہیں۔ عزت و عظمت کا دارومدار تقوی پر ہے۔ عقیدہ و عمل پر ہے۔ قوم و قبیلہ پر نہیں۔