آل پاکستان وکلاء کنونشن

رپورٹ: عین الحق بغدادی

پاکستان عوامی تحریک کے زیر اہتمام 14 دسمبر 2017ء کو آل پاکستان لائرز کنونشن منعقد ہوا۔ کنونشن میں شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو انصاف دلوانے کیلئے 5 نکات پر مشتمل قرارداد کی منظوری دی گئی۔ کنونشن پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں لاہور ہائیکورٹ بار، لاہور بار کے عہدیداروں، سپریم کورٹ، ہائیکورٹ کے سینئر وکلاء، ریٹائرڈ ججز اور عوامی لائرز ونگ، پاکستان مسلم لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور سول سوسائٹی کی نمائندگی کرنے والے وکلاء رہنماؤں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کو انصاف دلوانے کیلئے ڈاکٹر طاہر القادری، پاکستان عوامی تحریک اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا ہر ممکن ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ وکلاء رہنماؤں نے انصاف کیلئے جدوجہد کرنے اور ظالم حکمرانوں کے مقابل کھڑے ہونے اور استقامت کا مظاہرہ کرنے پر شہداء کے ورثاء، عوامی تحریک کی قیادت اور کارکنان کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔

وکلاء رہنماؤں نے کہا کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ کا پبلک ہونا انصاف کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس کا سہرا شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی استقامت کے سر ہے۔ وکلاء رہنماؤں نے اس بات پر بھی خوشی کا اظہار کیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکنان انصاف کیلئے پاکستان کی تاریخ کے ظالم ترین خاندان کے سامنے ڈٹے رہے، ان کے ہر قسم کے لالچ اور خوف کو مسترد کر دیا۔

5 نکاتی مطالبات

آل پاکستان وکلاء کنونشن میں شہدائے ماڈل ٹاؤن کے انصاف کیلئے 5نکاتی مطالبات پر مشتمل قرارداد کی متفقہ طور پر منظوری بھی دی۔ قرارداد سینئر وکیل رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے پیش کی۔ قرارداد کے مطابق:

  1. آج کا آل پاکستان وکلاء کنونشن مطالبہ کرتاہے کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ میں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کو قتل عام کا براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے لہٰذا یہ دونوں فوری طور پر Step Down کریں اور خود کو قانون کے حوالے کریں جیسا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے خود اعلان کیا تھا کہ اگر کمیشن کی رپورٹ نے میری طرف اشارہ بھی کیا تو مستعفی ہو جاؤں گا۔
  2. سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتل عام کی منصوبہ بندی، حکم اور اس کی تعمیل میں ملوث پولیس افسران اور بیوروکریٹس کو مقدمہ کے فیصلہ تک عہدوں سے برطرف کیاجائے اور انہیں قانون کے حوالے کیاجائے۔
  3. سانحہ میں ملوث تمام ملزمان کو گرفتار کر کے عام ملزمان کی طرح جیل بھیجا جائے، ان کے ساتھ قانون کی برابری کی بنیاد پر سلوک کیا جائے۔
  4. پاناما کی طرز پر غیر جانبدار اور بااختیار جے آئی ٹی بنائی جائے تاکہ اس کی از سر نو تفتیش ہوسکے۔ اس جے آئی ٹی کی مانیٹرنگ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے معزز جج کریں جس طرح عدالت عظمیٰ نے نواز شریف فیملی کے احتساب کیسز کی نگرانی کیلئے مانیٹرنگ جج مقرر کیا تھا۔
  5. سانحہ میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا جائے، ان کا جسمانی ریمانڈ لے کر حسب ضابطہ آلات قتل برآمد ہوں اور پھر ایک مفصل رپورٹ زیر دفعہ 173 ضابطہ فوجداری عدالت میں پیش کی جائے۔

قرارداد میں پیش کیے گئے تمام مطالبات کی وکلاء نے ہاتھ کھڑے کر کے منظوری دی اور انصاف کیلئے شہداء کے ورثاء کے شانہ بشانہ جدوجہد کا اعلان کیا۔

خطاب قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

کنونشن سے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:

میں آج کے کنونشن میں صمیم قلب سے سپریم کورٹ بار، ہائیکورٹ بار، لاہور بار کے سینئر وکلاء، عہدیداران اور معزز ریٹائرڈ ججز صاحبان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ وکلاء نے ہمیشہ ظلم کے خلاف علمِ جہاد اٹھایا۔ انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے پس منظر اور جسٹس باقرنجفی کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے شرکائے کنونشن کو پس منظر سے تفصیل سے آگاہ کیا اور مطالبہ کیا کہ سانحہ کے مرکزی ملزمان شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ ہیں، ان کو گرفتار کیا جائے۔ میرے وہی مطالبات ہیں جو اس قرارداد میں منظور کیے گئے ہیں۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف، شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور دیگر ملزمان جنہیں شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی طرف سے دائر استغاثہ میں طلب نہیں کیا گیا، انہیں طلب کیا جائے اور گرفتار کیا جائے اس کیلئے ہم نے عدالتوں سے رجوع کررکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذمہ داروں کی گرفتاری کے بعد پھر ان کی ضمانتیں لینا یا نہ لینا عدالتوں کا کام ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا منصوبہ نواز شریف، شہباز شریف نے بنایا، عمل رانا ثناء اللہ نے کروایا، انتظامیہ معاون تھی۔ بیریئر ہٹانا محض عنوان تھا، اصل ایجنڈا میری وطن واپسی کو روکنا اور احتجاج کے آئینی حق کو کچلنا تھا۔ جسٹس باقر نجفی نے اپنی رپورٹ میں لکھ دیا کہ پولیس نے وہی کیا جس کا اسے حکم دیا گیا تھا۔ انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے تمام ذمہ داران حقائق چھپانے اور ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش کرتے رہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا پولیس کو پیچھے ہٹنے کا حکم ثابت نہیں ہو سکا ۔انہوں نے اپنی 17 جون 2014ء کی پریس کانفرنس میں بھی اس کا ذکر نہیں کیا۔ رانا ثناء اللہ اور ہوم سیکرٹری نے بھی اپنے بیان حلفی میں وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی یہ حکم ثابت ہو سکا۔ جسٹس باقر نجفی کمیشن نے لکھا کہ افراد جھوٹ بولتے ہیں مگر حالات اور واقعات نہیں۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے عوامی تحریک کے ذمہ داران سے کہا میرا کنٹینر 24 گھنٹے تیار رکھیں۔ اس میں مظلوموں کی مدد کا بہت سارا سامان ہے۔ کارکن بھی تیار رہیں،کسی وقت بھی نکلنے کی کال دے سکتا ہوں۔ میں نے عمرہ پر جانا تھا، یہ فیصلہ تبدیل کر دیا، عمرہ ایک نفلی عمل ہے جبکہ مظلوموں کیلئے انصاف کی جدوجہد کرنا فرض ہے۔ عجلت میں کوئی فیصلہ نہیں کرینگے۔ انصاف کے راستے میں رکاوٹ محسوس ہوئی تو دھرنے کی کال بھی دینگے۔

انہوں نے کہا کہ میری پی ایچ ڈی کریمنالوجی پر ہے، ساری عمر لاء پڑھایا۔ قانون اور جرم کے فلسفے کو سمجھتا ہوں۔ پنجاب حکومت نے عدالت کے حکم پر جو رپورٹ جاری کی ہے وہ شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کو مجرم ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔ رپورٹ کے نامکمل ہونے کا پروپیگنڈا دھوکا دہی پر مبنی ہے۔ رپورٹ میں جگہ جگہ ذمہ داروں کا تعین کیا گیا ہے۔ جسٹس باقر نجفی نے کمیشن کی کارروائی کا آغاز کرتے وقت پنجاب حکومت کو انکوائری ایکٹ کے سیکشن 11 کے تحت خط لکھا تھا کہ مجھے ذمہ داروں کے تعین کیلئے بھی اختیارات دئیے جائیں جو شہباز شریف کے حکم پر نہیں دئیے گئے۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ رپورٹ میں یہ رقم ہے کہ بیریئر عدالت کے حکم پر لگے تھے اور 16 جون 2014ء کی میٹنگ کا ایجنڈا ڈاکٹر طاہر القادری کی وطن واپسی تھا اور اس میٹنگ میں شریک سب جانتے تھے کہ بیریئر عدالت کے حکم پر لگے تھے۔ باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کا صفحہ 66 اور 67 انتہائی اہم ہے۔ جسٹس باقر نجفی کمیشن نے لکھا کہ پولیس کی نفری اور غیر مسلح کارکنوں کے درمیان کوئی توازن، تناسب نظر نہیں آتا، یعنی اگر یہ آپریشن بیریئر ہٹانے کا تھا تو پولیس کی اتنی بھاری مسلح نفری کیوں بھیجی گئی۔رپورٹ کے مطابق گولی چلانے کا حکم کم از کم اے ایس پی، ڈی ایس پی یا ایس پی کی سطح کا افسر دیتا ہے مگر کمیشن میں پیش ہونے والے تمام ذمہ داران سے سوال کیا گیا کہ گولی چلانے کا کس نے حکم دیا تو سب خاموش رہے اور حقائق کو چھپاتے رہے۔ جسٹس باقر نجفی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ یہ طے شدہ سمجھوتا تھا کہ کوئی کمیشن کو معلومات فراہم نہ کرے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ کمیشن کی رپورٹ کے صفحہ 68 پر لکھا ہے حالات بتاتے ہیں کہ پیچھے کوئی آرڈر دینے والا تھا جس کی تعمیل کے سب پابند تھے۔ انہیں یہ ٹاسک دے کر بھیجا گیا تھا کہ ہر حال میں مقصد حاصل کرنا ہے، چاہے کتنی ہی لاشیں کیوں نہ گرانی پڑیں۔ سچ کو دفن کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ کمیشن نے یہ بھی لکھا کہ حقائق وہ نہیں ہیں جو کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے ذمہ داران بتانے کی کوشش کرتے رہے بلکہ حالات اس کے برعکس ہیں۔ کمیشن نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ آئی جی مشتاق سکھیرا کو کن وجوہات کی بنا پر ہنگامی طور پر تعینات کیا گیا اور ڈی سی او لاہور کو ٹرانسفر کیا گیا؟

انہوں نے کہا کہ گریڈ 22 کے افسر کی تقرری اور ایک صوبے سے دوسرے صوبے ہونے والی تعیناتی وزیراعظم کی اجازت کے بغیر نہیں وہ سکتی۔ مشتاق سکھیرا کی تعیناتی نواز شریف کے سانحہ سے تعلق کو قائم کرتی ہے۔ شہباز شریف نے جھوٹا بیان حلفی دیا کہ مجھے ٹی وی کے ذریعے 17 جون 2014ء صبح ساڑھے نو بجے علم ہوا حالانکہ وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ 16 جون کی میٹنگ میں شریک تھے اور انہوں نے شہباز شریف کا پیغام اور ارادہ شرکاء تک پہنچایا۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ جسٹس باقر نجفی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ بیریئر پولیس کی نگرانی میں لگے اور پولیس ان بیریئر کی حفاظت بھی کرتی رہی اور تین سال میں کسی ایک شہری کی طرف سے ان بیریئر کی وجہ سے کوئی شکایت ریکارڈ پر نہیں آئی۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی طرف سے یہ کہنا کہ سابق آئی جی خان بیگ کو بدلنے جانے کی وجوہات بیان نہیں کی گئیں۔ ان پر نااہلی یا کوئی اور محکمانہ کوتاہی کا الزام نہ تھا۔ جسٹس باقر نجفی نے صفحہ 69 پر لکھا کہ حقائق حکومتی موقف کے برعکس نظر آتے ہیں۔ انہوں نے رپورٹ کے آخر میں ایک اہم جملہ بھی لکھا کہ رپورٹ پڑھنے والا خود ذمہ داری فکس کر لے گا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار کون ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار اب سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔ سب پارٹیاں رابطے میں ہیں ۔تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی میرے دائیں، بائیں ہونگی۔ جماعت اسلامی، پاکستان مسلم لیگ، مجلس وحدت المسلمین، پاک سرزمین پارٹی، سنی اتحاد کونسل سمیت دیگر جماعتیں ہماری ساتھ ہونگی۔ ہمیں اس مرتبہ کالے کوٹ والوں کی بھی بھرپور مدد اور حمایت حاصل ہے۔ دو ٹکے کی نوکری کیلئے وزیر جھوٹ بول رہے ہیں۔ ان وزارتوں کیلئے ضمیر گروی رکھ رہے ہیں جن کے ختم ہونے میں چند دن باقی ہیں۔ جھوٹ بولنے والے یاد رکھیں کہ اللہ کی عدالت بھی لگنی ہے، وہ پیسوں کیلئے اور دنیا داری کیلئے اپنے ضمیروں کا سودا مت کریں، سچ کا ساتھ دیں۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی کہتے ہیں کوئی پلان بن رہا ہے،  کوئی پلان نہیں بن رہا، اللہ کا گریٹر انتقام شروع ہو چکا ہے۔ سابق نااہل وزیراعظم! آپ نے انسانیت کا قتل عام کیا، اس ملک میں جمہوریت اور آئین کا قتل عام کیا، آپ نے اس ملک کے آئینی، اخلاقی اور جمہوری طرز حکومت اور اقدار کا قتل عام کیا، آپ نے معاشرے سے انسانی اقدار اور شرافت کا قتل عام کیا، آپ نے صداقت، دیانت کا قتل عام کیا اور اب ان سارے جرائم کا عدالت نے آپ کو سرٹیفکیٹ بھی دے دیا، آپ نے اداروں کو بے توقیر کیا، ان سے احترام اور آزادی کو چھین لیا، آپ نے قانون سے سکت اور طاقت چھین لی، آپ نے انسانیت سے جینے کا حق چھین لیا اور ماؤں، بہنوں، بیٹیوں سے عزت اور ان کی زندگی بھی چھینی، آپ نے اس دھرتی سے انسانی حقوق چھین لیے، آپ نے آئین سے اس کی روح چھین لی، اس کے نتیجے میں قانون، انصاف، شفافیت اور انسانیت کے قتل عام ہونے پر اللہ کے گریٹر انتقام کا آغاز ہوا۔ یہ پانامہ بھی اسی گریٹر انتقام کا حصہ ہے۔ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کا آنا بھی اسی انتقام کا حصہ ہے۔ اب معاشرے کے ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ حرمت انسانیت اور خون ناحق کا قرآن و سنت اور آئین کے مطابق انتقام لینے کیلئے اکٹھے ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ بات بھی بتانا چاہتا ہوں کہ لوگ کہتے ہیں ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس عوامی احتجاج کا آپشن زیر غور نہیں ہے۔ میں اپنے فیصلے خود کرتا ہوں۔ میرے پاس عوامی احتجاج کا آپشن ہے اور میں اپنی پلاننگ کے مطابق چل رہا ہوں۔ ہم پہلے قانونی آپشنز پر عمل کررہے ہیں۔ یہ بھی سن لیں کہ قانونی آپشنز ہمارے تمام آپشنز نہیں ہیں۔ سیاسی آپشن بھی ہے، عوامی اور احتجاجی آپشن بھی ہے۔ قاتلوں، لٹیروں اور بربریت کرنے والوں پر مکمل انصاف ملنے تک دباؤ بڑھاتے چلے جائینگے۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حرمت پر یقین رکھنے والی تمام جماعتیں سانحہ ماڈل ٹاؤن پر ظلم کے خلاف ہمارے ساتھ ہیں۔ ناحق قتل عام پر جن کا دل دھڑکا، جن کی آنکھیں بھیگیں، جنہیں ان ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کادرد ہے وہ ہمارے ساتھ ہے۔ ہم پرامن لوگ ہیں، پہلے قانون کا سہارا لیتے ہیں پھر احتجاج کرتے ہیں۔ ہم نے کبھی گملہ نہیں توڑا، ہمارے لاکھوں افراد بھی ڈسپلن کے ساتھ احتجاج کرتے ہیں، پر امن احتجاج ہمارا آئینی حق ہے، اگر انصاف کے معاملے میں قاتل حکمرانوں نے مزید روڑے اٹکائے تو پھر فیصلہ کن اور زور دار احتجاج ہو گا۔ آج نواز شریف کہتا ہے مجھے کیوں نکالا، بہت جلد شہباز شریف بھی کہے گا مجھے کیوں لٹکایا؟ شہیدوں کا خون قاتلوں کو انجام تک پہنچائے گا۔

اظہار خیال ماہرین قانون

  • کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے احمد اویس سابق صدر لاہور ہائیکور ٹ بار نے کہا کہ میں نے رپورٹ کے ہر صفحے پر خون کے چھینٹے دیکھے، یہ بیریئر نہیں ڈاکٹر طاہر القادری کی تحریک کو ختم کرنے کا آپریشن تھا۔ گناہگاروں کے نام لکھنے سے جسٹس باقر نجفی کو روکا گیا۔ رانا ثناء اللہ نے لاقانونیت کا بازار گرم کررکھا ہے۔ ورثاء کو انصاف دلوانے کے عزم کے ساتھ اس کنونشن میں شریک ہوئے ہیں۔ پاکستان قانون کی بالادستی کیلئے حاصل کیا گیا، ظلم کے خاتمے اور اصول پر اکٹھے ہوئے ہیں۔ ظالموں کے محاسبہ کیلئے جان بھی دینا پڑی تو وکلاء پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہ کرپٹ بھی ہیں، ظالم بھی اور بزدل بھی۔ جسٹس باقر نجفی نے عدل کا علم بلند کیا ہے۔
  • سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ جسٹس(ر) جاوید نواز گنڈاپور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس باقر نجفی نے کینسر ایکسپرٹ کی طرح مرض کی تشخیص کی ہے اور بتا دیا کہ ذمہ دار کون ہے لہٰذا اب اس مرض کا علاج چھوٹے موٹے آپریشن سے نہیں بڑے آپریشن سے ہو گا۔
  • ارشد جہانگیر جھوجھہ ایڈووکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نجفی کمیشن رپورٹ میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ذمہ داروں کو سزائیں کیسے ملتی ہیں؟ ظالم کو اس کے ظلم کی سزا نہیں ملے گی تو سوسائٹی میں امن نہیں آئے گا۔ وکلاء برادری مظلوموں کو انصاف دلوانے کیلئے جامع حکمت عملی طے کرے۔
  • جسٹس (ر) پرویز عنایت نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ظلم کو دیکھنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ جہاں عدل نہ ہو وہاں قومیں اور معاشرے اور ریاستیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ علی باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ استغاثہ اور ایف آئی آر کو اکٹھا کریں اور سارے معاملہ کی تحقیق کی جائے۔ پیپلز پارٹی پہلے دن سے اس ظلم پر مظلوموں کے ساتھ ہے۔ اب تو ہمارے صدر آصف زرداری کا بھی حکم آگیا ہے۔ جنرل ضیاء کی اولاد نے صرف ظلم کرنا سیکھا ہے۔
  • محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مظلوموں کی آہ عرش تک جاتی ہے، آج وقت کے فرعون اور قارون ذلیل و رسوا ہورہے ہیں۔ ایسے سیاسی لیڈر کی ضرورت ہے جسے مذہب کا بھی علم ہو۔ رپورٹ نے ثابت کر دیا کہ یہ قتل و غارت گری اور دہشت گردی تھی جبکہ بیریئر قانونی تھے۔ اشرافیہ، حکومت اور ریاست باہم متصادم ہیں۔
  • سابق صوبائی وزیر چودھری غلام عباس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس ملک میں ایف آئی آر کے اندراج کیلئے فوج کے سربراہ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے اور پھر بھی انصاف نہ ہو تو ایسے ملک میں فیصلے سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ پوری قوم سانحہ ماڈل ٹاؤن کا انصاف چاہتی ہے۔
  • پیر مسعود احمد چشتی ایڈووکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ریاستی دہشتگردی کی بدترین مثال ہے۔
  • فرحان مصطفی جعفری ایڈووکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہداء کے انصاف کیلئے ڈاکٹر طاہر القادری اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے ساتھ ہیں، سانحہ کے ملزمان کیفر کردار تک پہنچنے چاہئیں۔
  • عامرراں ایڈووکیٹ سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ قاتلوں کے نام سن سن کر تھک چکے ہیں، ڈاکٹر صاحب تحریک کی کال دیں تاکہ قاتلوں کو ان کے انجام تک پہنچائیں۔ ہائیکورٹ بار اور پورے ملک کے وکلاء آپ کے ساتھ ہونگے۔
  • راشد جاوید لودھی وائس پریذیڈنٹ لاہور ہائیکورٹ بار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کی جنگ اب کالے کوٹ والے لڑیں گے۔گولیاں چلانے والوں نے سمجھا شاید وہ اس خونریزی سے اقتدار بچا لیں گے مگر آج اقتدار کے ساتھ ساتھ ان کی ہر چیز کی خاک اڑ رہی ہے۔ ساڑھے تین سال تک مظلوموں کو انصاف نہیں ملا کیا اسے ریاست نظام اور ادارے کہتے ہیں۔ کمیشن نام نہیں لکھتے صرف حقائق جمع کرتے ہیں۔ جلیانوالہ باغ کے بعد سانحہ ماڈل ٹاؤن ریاستی دہشتگردی کا دوسرا بڑا سانحہ ہے۔
  • نظامت کے فرائض اشتیاق چودھری ایڈووکیٹ اور ایم ایچ شاہین ایڈووکیٹ نے انجام دئیے۔ وکلاء کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے ایک ڈاکومنٹری بھی دکھائی گئی جس میں پولیس کو فائرنگ کرتے اور انسانیت سوز تشدد کرتے دکھایا گیا، ڈاکومنٹری دیکھ کر وکلاء آبدیدہ ہوگئے۔ خرم نواز گنڈاپور نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔

اس موقع پر چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، صدر منہاج القرآن ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان، جی ایم ملک، سید الطاف حسین شاہ، فیاض وڑائچ، بشارت جسپال، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، شکیل ممکا ایڈووکیٹ، سردار غضنفر حسین ایڈووکیٹ، لہراسب گوندل ایڈووکیٹ، جواد حامد،  ساجد محمود بھٹی، و دیگر رہنما ؤں نے شرکت کی۔