ڈاکٹر محترمہ غزالہ حسن قادری نے یونیورسٹی آف برمنگھم یوکے سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا مقالہ بعنوان ’’پاکستان میں قانونِ خلع میں اصلاحات‘‘ تھا۔ محترمہ ڈاکٹر غزالہ حسن قادری نے اپنا مقالہ انگلش میں پیش کیا۔ جس کی نہایت اہمیت کے پیش نظر اس کا اردو ترجمہ محترم محمد حنیف (لیکچرار کالج آف شریعہ) سے کرواکر ویمن ڈے کی مناسبت سے نذر قارئین کیا جارہا ہے۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ کے انعام اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے اپنی بات کا آغاز کرتی ہوں۔ اپنا موضوع شروع کرنے سے قبل میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میرا مقالہ اس پر نہیں کہ عورت کی حصول خلع پر حوصلہ افزائی کی جائے۔ میں یہ نہیں چاہتی کہ عورت بہر صورت شادی ختم کرنے کے لئے عدالت سے رجوع کرے۔ اس موضوع کی میں اخلاقی طور پر حوصلہ افزائی نہیں کر رہی بلکہ میرا مقالہ اصول فقہ اور اسلامی تاریخ میں اس کا ایک تحقیقی جائزہ ہے۔ میرا مقالہ Women's Engagement اسلامی قانون کے تحت اس کی اصلاح، تقلید، اسلام میں شادی کے بارے میں عورت کی اپنی پسندیدگی اور رضا مندی، تلفیق اور اجتہاد سے متعلق ہے۔ میں خواتین کے حوالے سے ذاتی قانون میں اصلاح کے بارے میں بات کروں گی۔ میرا مقالہ خلع کے متعلق بہت زیادہ تفصیلات کا احاطہ کرتا ہے۔ لیکن میں وہ دو مسائل زیر بحث لاؤں گی جو کہ میرے مقالہ کا حصہ ہیں۔ ایک فقہ حنفی کی روشنی میں فلسفیانہ پہلو ہے جو پاکستان میں مروج ہے۔ دوسرا پاکستان میں خلع کے حوالے سے موجودہ قانون، قانون سازی اور مقدمات ہیں۔ وہ عورتیں جو خلع لینے کے مراحل میں تھیں یا جنہوں نے خلع لے لیا تھا، ان کے جملہ معاملات کا مشاہدہ کرنے اور ان سے انٹرویو لینے میں مجھے تقریباً پانچ ماہ لگے ہیں۔
تھیوری کی حد تک تو خلع کے قوانین بہت شاندار ہیں۔ مشاہدات اور انٹرویوز کے ذریعے میں نے محسوس کیا کہ خلع کے بارے میں اسلامی قوانین بہت واضح ہیں۔ لیکن جب آپ عملی زندگی میں خلع کے مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور جب خلع لینے کے لئے عدالتوں میں جاتے ہیں تو وہاں بے شمار بنیادی مسائل پیش آتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ میں نے خلع جیسا اختلافی موضوع کیوں چنا۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کا ایک مقصد پاکستان میں قومی سطح پر معاشرے کے ہر حصے میں خواتین کے کردار کو مضبوط کرنا ہے۔ منہاج القرآن پوری دنیا میں اسلام کا معتدل تصور پیش کرتا ہے جس کی رو سے عورت آزاد ہے۔ ایک معتدل دین ہونے کے ناطے اسلام نے عورت کو جہاں حقوق دیئے ہیں وہاں اس پر کچھ فرائض بھی عائد کئے ہیں۔ میں نے ویمن لیگ کا ممبر ہونے کے ناطے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے عظیم افکار سے خوشہ چینی کرتے ہوئے اس متنازعہ موضوع کو منتخب کیا ہے۔
منہاج القرآن خواتین کی سنت و سیرت نبوی کی روشنی میں جملہ امور پر رہنمائی کرتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشرے میں مردوں کے ظلم پر مبنی تسلط کو توڑا اور خواتین کا معاشرے میں مقام بلند کیا۔ نیز آپ نے خواتین کو ذاتی اور قانونی اعتبار سے ایک حقوق کا چارٹر عطا فرمایا۔ شیخ الاسلام نے اپنی بے پناہ علمی، تحقیقی و تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر درجنوں کتابوں اور سینکڑوں خطابات کے ذریعہ جو چشم کشا حقائق بیان کئے وہ عصر حاضر میں حقوق نسواں کے لئے ایک مینارۂ نور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ میرا مقالہ Law of the Khulah in Pakistan بھی منہاج القرآن ویمن کی عظیم قومی و بین الاقوامی خدمات و جدوجہد میں ایک ادنیٰ سی کاوش ہے۔
جہاں تک پاکستان کے حالات کا تعلق ہے تو یہاں پر جگہ جگہ جنسی اعتبار سے معاشرے میں ناہمواری نظر آئے گی۔ یہ ناہمواری گھر سے شروع ہوکر معاشرے اور ریاست میں ہر جگہ واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ تاہم پھر بھی پاکستان ہی دنیا کا پہلا اسلامی ملک ہے جس کی سربراہ ایک خاتون بنی تھی۔ مگر خواتین کی اکثریت غربت و جہالت کی زندگی بسر کررہی ہیں۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ گھریلو زندگی میں تشدد کا شکار ہونا ہے۔ ان پر تشدد خاوند کے ساتھ ساتھ ساس اور نند بھی کرتی ہیں۔ پاکستان میں خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی کوئی مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ کلچر کا حصہ ہے جو ہر جگہ واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ پسماندہ طبقہ کے ساتھ ساتھ متوسط اور اعلیٰ طبقہ کی خواتین بھی نفرت انگیز رویہ کا شکار ہوتی ہیں۔
بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی کو ادب سکھانے کے لئے سزا دے سکتے ہیں۔ وہ بیوی کو زدو کوب کرنے کے لئے سورہ نساء کی آیت نمبر34 کا حوالہ دیتے ہیں۔ آپ قرآن مجید کے اس مقام کا اردو، انگلش، روسی یا کسی بھی اور زبان میں ترجمہ دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ خواتین پر تشدد کیوں کیا جاتا ہے۔ اس کا ترجمہ کرتے ہوئے مترجمین نے عورت کو مارنے پیٹنے کی بات کی ہے۔ مگر علماء ربانی معانی قرآن کا ترجمہ کرتے وقت منشاء الہٰی، مزاج نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنت و سیرت کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ ایسے ہی علماء میں سے سیدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی ہیں۔ اگر آپ ان کے ترجمہ قرآن کا انگلش یا اردو میں اس مقام کا مطالعہ کریں تو آپ ان کی دقت نظری کا ادراک کرلیں گے۔
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اﷲُ بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ط فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اﷲُ ط وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَاهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْهُنَّ ج فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَـلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا ط اِنَّ اﷲَ کَانَ عَلِیًّا کَبِيْرًا.
(النساي: 34)
’’مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں، پس نیک بیویاں اطاعت شعار ہوتی ہیں وہ شوہروں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت کے ساتھ (اپنی عزت کی) حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔ اور تمہیں جن عورتوں کی نافرمانی و سرکشی کا اندیشہ ہو تو اُنہیں نصیحت کرو اور (اگر نہ سمجھیں تو) اُنہیں خواب گاہوں میں (خود سے) علیحدہ کر دو اور (اگر پھر بھی اِصلاح پذیر نہ ہوں تو) اُن سے (تادیباً) عارضی طور پر الگ ہو جاؤ؛ پھر اگر وہ (رضائے اِلٰہی کے لیے) تمہارے ساتھ تعاون کرنے لگیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ بے شک اللہ سب سے بلند سب سے بڑا ہے‘‘۔
شیخ الاسلام نے واضربوھن کا ترجمہ ’’ان سے (تادیباً) عارضی طور پر الگ ہوجاؤ‘‘ کیا ہے کیونکہ ضرب کا معنی صرف مارنا اور ضرب لگانا ہی نہیں۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کے ساتھ جبرو تشدد کا رویہ روا رکھا جاتا ہے، اس لئے یہ امر نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ مظلوم خواتین جو کہ ایک نہایت ہی ناخوشگوار ازدواجی زندگی کی چکی میں پس رہی ہوتی ہیں اور انہیں صورت حال کی بہتری کی کوئی سبیل دکھائی نہ دے رہی ہو تو خلع اس بندھن سے آزاد ہونے کی ایک سبیل ممکنہ ہے۔
ضرورت اس بات کی یہ ہے کہ علمی و فکری حلقے اس موضوع پر اظہار خیال کریں اور لکھیں کہ عورت کے از خود طلاق لینے میں اسے کیا حقوق حاصل ہیں اور رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد بطور بیوی کے اس کے کیا حقوق ہیں۔ میری خلع پر تحقیق کرکے Ph.D کا مقالہ لکھنے کی ایک وجہ مغرب اور یورپ میں اس قانون کو تنقید کا نشانہ بنانا ہے۔ مغربی محققین تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلام خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے۔ بالخصوص خواتین کے قانون خلع کے معاملہ میں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ مرد تو از خود تین طلاقیں دے کر بیوی کو فوراً فارغ کرسکتا ہے مگر جب عورت نے طلاق لینی ہو تو اسے بہر صورت عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
برطانیہ کے برصغیر پر دور حکومت میں اور آزادی کے بعد پہلے 15 سال تک پاکستان کے قانون کے مطابق عورت صرف اس وقت تک خلع لے سکتی تھی جب اس کا خاوند رضا مند ہو۔ عورت عدالت میں جاکر از خود کیسے ثابت کرسکتی ہے کہ اس کا خاوند ایک ظالم شخص ہے؟ کیا خاوند خود، ساس یا نند اس کے حق میں گواہی دیں گی؟ ایسا ہونا ممکن نہیں۔
1959ء اور بعد ازاں سپریم کورٹ میں ایک کیس میں فیصلہ سنایا گیا کہ خاتون اپنے خاوند کی رضا مندی کے بغیر بھی خلع لے سکتی ہے۔ مگر اس سہولت پر ایک نیا مسئلہ کھڑا ہوگیا۔ یہ تصور لوگوں کے ذہنوں میں بٹھادیا گیا کہ عورت کو خلع کے باب میں یہ سہولت اجتہاد کے ذریعہ دی گئی ہے نہ کہ فقہ حنفی کی روشنی میں۔ چنانچہ جب خلع کے اوپر آپ مسلم اور غیر مسلم اہل علم کی تحریریں پڑھتے ہیں تو وہ سب فقہ حنفی اور حنفی مذاہب پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام اعظم ابوحنیفہ اور تمام احناف کی رائے کے مطابق جب تک خاوند کی رضا مندی نہ ہو، عورت از خود خلع نہیں لے سکتی۔ مگر احناف کا خلع کے باب میں موقف الٹا کرکے پیش کیا گیا ہے۔
پچھلے تقریباً ایک سال میں عدالت میں جاکر خلع لینے والی عورتوں میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے یعنی ہزارہا عورتوں نے اپنے خاوندوں سے طلاق کے لئے مطالبہ کیا۔ اس کے رد عمل کے طور پر اسلامی نظریاتی کونسل آف پاکستان میں موجود علماء کی طرف سے تو یہاں تک بیان دے دیا گیا کہ خلع ایک غیر اسلامی عمل ہے۔ انہوں نے دلیل یہ دی کہ اسلام اور فقہ حنفی عورت کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ خاوند کی مرضی کے بغیر خلع لے سکے۔ اگرچہ پاکستان کے قانون کے مطابق عورت خاوند کی مرضی کے بغیر خلع لے سکتی ہے مگر اسلامی نظریاتی کونسل نے اسے خلافِ شریعت قرار دیا ہے۔ مغربی میڈیا ایسی خبروں کو خوب اچھالتے ہوئے کہتا ہے کہ تنسیخ نکاح کے معاملہ میں اسلام عورتوں کے خلاف ہے۔ نیز وہ یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ عورتوں پر مردوں کی ظالمانہ حاکمیت اور ہر طرح کے ظلم و ستم کی بنیاد اسلام فراہم کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خلع کے باب میں ہم قرآن و سنت اور اوائل دور کے فقہاء کی تحریروں کا مطالعہ کرکے نتیجہ تک پہنچیں نہ کہ فقہاء کی آراء پر اپنی رائے مسلط کریں۔
عوام الناس، وکلاء، اہل علم کی کثیر تعداد کی رائے ہے کہ خلع لینے والی عورت، از روئے شرع، خاوند سے لیا گیا اپنا حق مہر واپس لوٹائے۔ چنانچہ میں نے اپنے انٹرویوز میں جس جس جج، مرد، عورت سے اس موضوع پر سوال کیا تو ان سب نے کہا کہ اسلامی قانون کے مطابق خلع لیتے ہوئے عورت پر لازم ہے کہ وہ حق مہر واپس کرے بلکہ اہل مغرب اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ عورت کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔
آیئے اس امر پر غور کریں کہ کون سی عورت عدالت جاکر خلع لے گی؟ صرف ایسی عورت ہی خلع لے گی جو کسی بھی طرح شادی کے بندھن کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ بہت سے مرد ایسی صورت حال میں عورت کو طلاق دینے کی جگہ اسے اذیت دیتے ہیں۔ وہ بیوی کو اتنا تنگ کرتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ عورت خود طلاق مانگے تاکہ وہ بیوی سے حق مہر واپس لے سکیں۔
جب میں نے حضور سیدی شیخ الاسلام سے اس موضوع پر رہنمائی کے لئے استدعا کی تو آپ نے فرمایا کہ اگر اس موضوع پر تحقیق کرنی ہے تو اسلام کے اصل ماخذ کا مطالعہ کریں۔ سیدی شیخ الاسلام نے فرمایا کہ ان کی وہ رائے نہیں جو کہ عام علماء اور عوام الناس کی ہے کیونکہ وہ ہدایت و رہنمائی کے لئے اصل اسلامی ماخذ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
چنانچہ ان کی علمی رہنمائی کے بعد میں نے فقہ حنفی کے متبحر علماء و فقہاء کی آراء کا اس موضوع پر مطالعہ کیا۔ امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام شیبانی کی کتاب الاثر، جامع الصغیر، کتاب المبسوط اور پھر امام عینی، امام سرخسی، امام کسانی، ابن ھمام، ابن عابدین۔ الغرض آپ فقہ حنفی کے جس بھی امام کی تصنیف اٹھالیں وہ تمام اہل علم متفقہ طور پر لکھتے ہیں کہ خلع لینا عورت کا اپنا آزادانہ حق ہے اور اسے اپنے خاوند کی رضا مندی حاصل کرنا لازم نہیں ہے۔ اس وضاحت کے بعد کسی عالم دین کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ مرد کی رضا مندی کے بغیر (اگرچہ پاکستانی قانون کی روشنی میں تو درست ہے مگر) اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ مزید برآں یہ کہ خاوند سے خلع لینے کے لئے یہ لازمی نہیں کہ بیوی کوئی دلائل عدالت میں پیش کرے گی اور کوئی نقطہ ثابت کرے گی۔ اگر وہ خاوند سے ناخوش ہے یا اسے خاوند کی شکل و صورت پسند نہیں تو فقہاء کی آراء کے مطابق وہ عورت خلع کا حق رکھتی ہے۔ عورت کا خلع لینے کا اسی طرح حق ہے جیسے مرد کا حق ہے۔ مرد تو جب جہاں اور جس وجہ سے چاہے عورت کو طلاق دے سکتا ہے۔ جبکہ عورت کو خلع لینے کے لئے عدالت کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ اس فرق کے ساتھ طلاق دینے اور خلع لینے میں اسلامی قوانین میں مساوات ہے۔
فقہاء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اگر تو خاوند غلطی پر ہے اور وہ عورت سے زیادتی کرتا ہے، تو اس صورت میں عورت کی یہ ہرگز ذمہ داری نہیں کہ وہ خاوند کو حق مہر واپس لوٹائے۔ ایسی صورت میں عورت سے مہر واپس لینے کو بعض فقہاء نے حرام اور بعض نے مکروہ تحریمی قرار دیا ہے۔ اگر خاوند ایک اچھا انسان ہے اور بیوی سے ٹھیک برتاؤ کرتا ہے تو اس صورت میں فقہاء لکھتے ہیں کہ خاوند بیوی سے کچھ حق مہر واپس لینے کا حق رکھتا ہے اور اگر تو دونوں فریق کی غلطی برابر ہو تو پھر جج تفصیل سے دلائل سن کر اپنا فیصلہ دے گا۔
خلع کے باب میں یہ مشکلات صرف پاکستان میں ہی نہیں سامنے آتیں بلکہ دنیا بھر میں مسلم کمیونٹی کو پیش آتی ہیں مثلاً مصر میں حنفی مذہب کے پیروکار خواتین کے لئے حق مہر واپس لوٹانے کے سلسلے میں بڑی مشکل کا شکار ہیں کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ حق مہر کا بہر صورت واپس لوٹایا جانا ناگزیر ہے۔ عورتوں میں اپنے حقوق کے حصول کے لئے شعور بیدار کرنا چاہئے۔ چونکہ حق مہر حاصل کرنا عورت کا حق ہے اس لئے اسے اس کے حصول کا مطالبہ کرنا چاہئے۔
جب میں نے حنفی فقہاء کی آراء کا مطالعہ کیا تو مجھے بہت مسرت ہوئی۔ قرآن مجید میں خلع کے اثبات کے لئے مندرجہ ذیل آیت پیش کی جاتی ہے۔
وَالْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰـثَةَ قُرُوْٓءٍ ط وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ يَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اﷲُ فِیْٓ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ کُنَّ يُؤْمِنَّ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ط وَبُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْآ اِصْلاَحًا ط وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ط وَاﷲُ عَزِيْزٌ حَکِيْمٌ.
(البقرة، 2: 228)
’’اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں، اور ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے چھپائیں جو اﷲ نے ان کے رحموں میں پیدا فرما دیا ہو، اگر وہ اﷲ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں، اور اس مدت کے اندر ان کے شوہروں کو انہیں (پھر) اپنی زوجیت میں لوٹالینے کا حق زیادہ ہے اگر وہ اصلاح کا ارادہ کر لیں، اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے، اور اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے‘‘۔
اس آیت کے مطابق اگر بیوی اپنے خاوند سے طلاق کے ذریعے آزاد ہونا چاہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ کچھ معاوضہ خاوند کو دے دے۔ مفسرین اس کی تشریح کے طور پر خلع کا تصور دیتے ہیں۔ جب میں نے سیدی شیخ الاسلام سے استفسار کیا کہ ہر کوئی اس آیت سے استنباط کرکے عورت کے لئے خلع میں حق مہر واپس کرنے کو فرض قرار دیتا ہے تو آپ کی اس مسئلہ پر کیا رائے ہے۔ اس پر آپ نے مجھے مدلل اور محقق جواب کے لئے متن قرآن کے الفاظ ’’لاجناح‘‘ کی طرف توجہ دلائی جن کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر عورت کچھ واپس کردے تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔
اسلوب قرآن اور لغت عرب کے مطابق ’’لاجناح‘‘ کے ذریعے عورت کو حکم نہیں دیا جارہا کہ وہ خلع لیتے ہوئے حق مہر واپس لوٹانے کی پابند ہے۔ اس نقطے کو واضح کرنے کے لئے ’’لاجناح‘‘ کا معنی ’’کوئی گناہ نہیں‘‘ شیخ الاسلام نے میری توجہ 25 آیات قرآنی کی طرف دلائی ان آیات میں ’’لاجناح‘‘ کے ذریعے تخیر یعنی اختیار دیا جارہا ہے کہ اگر فلاں کام کرلو تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔ ان سے کسی کام کی فرضیت ثابت نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت کا مطالعہ کریں۔
لَيْسَ عَلَيْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْط فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اﷲَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْکُرُوْهُ کَمَا هَدٰکُمْ ج وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّآلِّيْنَ.
(البقرة، 2: 198)
’’اور تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں اگر تم (زمانہء حج میں تجارت کے ذریعے) اپنے رب کا فضل (بھی) تلاش کرو پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعرِ حرام (مُزدلفہ) کے پاس اﷲ کا ذکر کیا کرو اور اس کا ذکر اس طرح کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی، اور بے شک اس سے پہلے تم بھٹکے ہوئے تھے‘‘۔
اس آیت کی رو سے اگر حجاج دوران حج تجارت کرلیں تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔ مگر ’’لاجناح‘‘ کا ہرگز یہاں اور کہیں بھی، یہ معنی نہیں ہے کہ دوران حج تجارت اور خریدوفروخت ایک فریضہ ہے۔ جیسے حج کے دوران تجارت کرنے میں اختیار ہے نہ کہ یہ قرآنی حکم ہے۔ بالکل ایسے ہی طلاق لیتے ہوئے عورت کے لئے حق مہر واپس کرنا محض ایک صوابدیدی امر ہے۔ چاہے تو وہ اسے واپس کرے اور چاہے تو نہ لوٹائے۔ تاہم اس کا فرض ہونا نص قرآن سے ثابت نہیں ہوتا۔ ’’لاجناح‘‘ کے اس معنی کی وضاحت کے لئے آپ میرے مقالہ کا مطالعہ کرسکتے ہیں جس میں، میں نے تمام آیات درج کردی ہیں۔
جب آپ عصر حاضر میں فقہ حنفی کے خلع کے موضوع پر تحریروں کا مطالعہ کریں تو بظاہر آپ محسوس کریں گے کہ فقہ حنفی میں تنگ نظری اور خواتین کے خلاف تعصب پایا جاتا ہے حالانکہ حقیقت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ائمہ فقہ حنفی کے اصل موقف کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے کہ یہ فقہ تو خواتین کے حقوق کی حقیقی علمبردار ہے۔
اب میں پاکستان میں مروجہ عدالتی نظام پر کچھ بات کروں گی۔ میں نے چار سے پانچ ماہ تک وکلائ، مقدمہ کی پیروی کرنے والوں اور ججوں سے انٹرویوز کئے تاکہ میں یہ سمجھ سکوں اور پھر علمی حلقوں تک یہ بات پہنچا سکوں کہ خواتین کے ساتھ عدالتی نظام میں کیسے ناانصافی ہوتی ہے اور جگہ جگہ ان سے کیسے توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے۔ اکثر خواتین جن کے میں نے انٹرویوز کئے ان کی عمر 25 سال کے قریب تھی۔ مجھے اپنے انٹرویوز کی روشنی میں ایک خوشگوار انکشاف ہوا کہ 92 فیصد خواتین چاہے وہ امیر تھیں یا غریب، چاہے وہ پڑھی لکھی خواتین تھیں یا ان پڑھ، چاہے وہ Fashionable خواتین تھیں یا پسماندہ۔ خلع لینے کے مکمل طور پر خلاف تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عورت خلع لینے کی بجائے اپنے بچوں کے مستقبل، خاندان کی آبرو، اپنے تحفظ کے لئے اپنے خاوند کے بارے میں سوچ کر مصالحت کرے اور طلاق ہرگز نہ لے۔ وہ خواتین خلع کے اس لئے خلاف تھیں کہ اس کے ذریعے وہ ایک جہنم سے نکل کر دوسری جہنم میں چلی جائیں گی۔ اپنے بچوں کے ساتھ میکے گھر واپس جانے پر کون خوشدلی کے ساتھ اس کے ساتھ نباہ کرے گا؟ اس کا آئے روز نند کے ساتھ جھگڑا ہوتا رہے گا۔
مجھے بہت سی ایسی عورتوں سے ملنے کا اتفاق ہوا جن کو ازدواجی زندگی میں انتہائی تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ پھر بھی شادی کے بندھن میں ہیں اور اسے نبھانے کے لئے پرعزم ہیں۔ کئی خواتین معاشی مسئلہ حل کرنے کے لئے سکول، لوگوں کے گھروں یا دفتر کی ملازمت کرلیتی ہیں تاکہ ان کے بچے ماں باپ کے پیار میں پرورش پاسکیں۔
اب ہم اس مسئلہ کی طرف آتے ہیں کہ ہزارہا خواتین جو عدالتوں میں خلع لینے جاتی ہیں وہ کون ہیں؟ ان کی اکثریت غربت زدہ گھرانوں اور علاقوں سے تعلق رکھتی ہے لیکن خواتین کے خلع لینے میں سب سے بڑا عنصر گھریلو تشدد تھا۔ سسرال والوں کی مخالفت، منشیات کے استعمال اور طرح طرح کی دیگر خرافات کی بنا پر خاوند اپنی بیوی پر جسمانی تشدد کرتا تھا۔ صرف وہ خواتین طلاق مانگتی ہیں جو یہ سمجھیں کہ اب وہ مزید مارپیٹ اور جسمانی تشدد برداشت نہیں کرسکتیں۔
عورت کے خلع لینے کا قانون بظاہر سادہ اور آسان لگتا ہے مگر حقیقت میں یہ بڑا پرپیچیدہ، مہنگا اور توہین آمیز ہے۔ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ خلع کے لئے نوٹس بھیجنے پر خاوند آئے گا اور عورت کو جہنم والی زندگی سے آزادی مل جائے گا۔ مگر زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ جب ایک علاقے سے آئی ہوئی عورت سے جج اس کا نام پوچھتا ہے اور کہتا ہے کہ ثابت کرو کہ تم ہی اس نام کی حامل ہو تو وہ اپنا نام ہی ثابت نہیں کرسکتی۔ اس کے پاس جنم پرچی نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے ساتھ اپنا شناختی کارڈ ہوتا ہے۔ شادی شدہ ہونے کے باوجود اس کے پاس نکاح نامہ بھی نہیں ہوتا۔
اس پس منظر والی عورت جب ایک وکیل کی خدمات لیتی ہے اور عدالت جاتی ہے تو اس کے مسئلہ کی شنوائی اور حل کی بجائے اسے بوجوہ اگلے ماہ کی تاریخ دے دی جاتی ہے۔ اگلے ماہ وہ عورت پھر آتی ہے اور اپنے وکیل کو فیس دیتی ہے لیکن پھر کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ یہ سلسلہ مہینوں جاری رہتا ہے۔ پاکستان میں یہی عدالتی نظام رائج ہے۔
اگر نوٹس بھیجے جانے کے باوجود بھی خاوند عدالت میں نہ پہنچے تو خلع موقع پر دے دیا جانا چاہئے۔ اس طرح یہ سارا معاملہ صرف ایک ماہ میں طے ہوسکتا ہے مگر جج پھر اگلے ماہ تک معاملہ ملتوی کردیتا ہے۔ دوسرے مہینے بھی جج صاحب یہ کہہ کر اگلی تاریخ دے دیتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ خاوند کو نوٹس نہ ملا ہو۔ چنانچہ عدالتی جدوجہد کی یہ جنگ مہینوں پر محیط ہوتی ہے۔ بالعموم ایک عورت کو خلع لینے کے لئے چھ ماہ سے ایک سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔
اب میں آپ کو district family court کے بارے میں بھی کچھ بتاتی چلوں۔ جب میں District family court گئی تو میرے اوپر گھبراہٹ طاری ہوگئی۔ جب آپ گیٹ سے اندر داخل ہوں تو آپ کو کثیر تعداد میں مرد ملیں گے جو اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے پیش پیش ہوتے ہیں۔ جب ایک عورت اپنے بھائی یا باپ کے ہمراہ وہاں آتی ہے تو اسے شرمندگی اور ذلت محسوس ہوتی ہے۔ نہ تو اس عورت کا خاندان خلع پر راضی ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے اپنے رشتہ دار۔ گویا خلع لینا ایک معاشرتی جرم ہے۔
Family District court میں عورتوں کو ذلت و شرمندگی اس لئے محسوس ہوتی ہے کہ کسی بھی کورٹ روم کو فیملی کورٹ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی Criminal court ہوگی۔ جب میں Family district court گئی تو میں نے بیڑیوں میں جکڑے ایک شخص کو دیکھا۔ اس پر بدفعلی، قتل اور خواتین کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرنے کے لئے ڈرانے دھمکانے کے الزامات تھے۔ وہ اپنی بیوی کو مارنے کے لئے دوڑا اور اسے قتل کی سنگین دھمکی دی۔
ایک عورت سے جب Family district court میں بھرے مجمع میں ٹھٹھہ کرتے ہوئے مردوں کی موجودگی میں سوال کیا جاتا ہے کہ وہ خلع کیوں لینا چاہتی ہے، تو وہ ذلت و رسوائی محسوس کرتی ہے۔ وہ سب کے سامنے کیسے اپنے ذاتی مسائل کھول کر بیان کرسکتی ہے۔ اسے وہاں بیٹھنے کے لئے ایک کرسی تک نہیں پیش کی جاتی کہ وہ عزت سے اپنا طلاق لینے کا سبب ہی بیان کردے۔
خلع لینے کے لئے عورت اپنے جہیز کا سامان واپس لینے کے لئے جج کو اشیاء کی پوری لسٹ فراہم کرتی ہے۔ عدالت میں اپنی پیشی پر خاوند اپنی بیوی سے اختلاف کرتے ہوئے اضافی وقت مانگتا ہے تاکہ وہ بھی اپنا کیس مضبوط کرلے۔ عورت کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا کہ وہ جہیز میں فلاں فلاں شے لائی تھی۔ عام طور پر خوش نصیب خواتین کو بھی جہیز کی صرف چند ایک چیزیں ہی واپس ملتی ہیں۔ ججوں کے بقول انہوں نے کبھی بھی کسی بھی عورت کو طلاق کے موقع پر اپنا سارا جہیز واپس لیتے نہیں دیکھا۔
طلاق کے بعد عورت کا نان و نفقہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسلامی و حنفی قانون کی رو سے مرد طلاق کے بعد عورت کو عدت کے دورانیہ میں ہی نان و نفقہ دینے کا پابند ہے۔ مگر عصر حاضر میں اس مسئلہ پر تحقیق کی ضرورت ہے بلکہ میں تو کہوں گی کہ صرف اس Issue پر Ph.D اشد ضروری ہے جس عورت نے اپنی زندگی کے 20,10 یا 30 سال تک خاوند کی خدمت اور بچوں کی تعلیم و تربیت میں گزارے ہوں تو کیا وہ طلاق کے بعد صرف عدت کی مدت کے لئے ہی نان و نفقہ کی حق دار قرار پائے گی؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ عورت کو لاوارث نہ چھوڑا جائے۔
طلاق کے بعد بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اخراجات بھی ایک توجہ طلب امر ہے۔ جج تو کہہ دیتا ہے کہ خاوند اپنی سابقہ بیوی کو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اخراجات پہنچانے کا ذمہ دار ہے مگر جب عورت نے خود خلع لیا ہو تو خاوند اسے اپنی عزت پر ایک دھبہ تصور کرتا ہے۔ چنانچہ عزت دارانہ طریقہ سے اولاد کے اخراجات دینے کی بجائے، عورت کو ہر ماہ عدالت میں جاکر اخراجات لینے پڑتے ہیں۔ اس معاملہ میں قانون سازی کی ضرورت ہے۔
بعض مرد اپنی طلاق یافتہ بیوی کو اخراجات نہیں دیتے۔ جج کو اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ ذمہ داری سے کترانے والے مرد کے خلاف گرفتاری کے احکامات صادر کردے مگر ایسا بہت شاذ ہوتا ہے۔ اپنی تقریباً چھ ماہ کی تحقیق کے دوران میرے سامنے چھ کیسز میں مردوں کی گرفتاری کا حکم میرے سامنے آیا۔ ایسے مردوں کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کی بجائے، پولیس انہیں عدالتی حکم کے بارے میں بتاکر گرفتاری کے لئے جاتی ہے۔ اس طرح پولیس مردوں کی گرفتاری کی بجائے ان کے فرار میں ان کی ممدو معاون ثابت ہوتی ہے۔
خلع لینے والی عورت کے ساتھ جس طرح ذلت آمیز اور حقارت انگیز سلوک عدالتوں میں روا رکھا جاتا ہے، اس کی روشنی میں، میں کہہ سکتی ہوں کہ صرف وہی عورت خاوند سے طلاق مانگے گی جو انتہاء درجے کی مجبور ہوگی۔ وہ ناانصافی، ظلم و زیادتی اور تشدد کا اس قدر شکار ہوچکی ہوتی ہے کہ وہ اپنی خواہش اور اولاد کے مستقبل کے عدم تحفظ کے خدشات کے باوجود بھی رشتہ ازدواج برقرار نہیں رکھ سکتی۔
مجوزہ اصلاحات
- کچھ ایسے جج ہونے چاہئیں جو خاندانی قوانین کے ماہر ہوں۔ سیکشن 4 کے مطابق کوئی بھی District civil judge ایک Family court judge مقرر کیا جاسکتا ہے۔ سالہا سال تک مختلف قسم کے دیگر مقدمات میں سے گزرنے کے بعد جب اسے Family court judge کی حیثیت سے کام کرنا پڑتا ہے تو نظام بخوبی نہیں چلتا کیونکہ وہ خاندانی قوانین جو اس نے سالہا سال پہلے پڑھے تھے اور اب وہ انہیں بہت حد تک بھول چکا ہوتا ہے۔
اس لئے ضروری ہے کہ مزید Federal judicial training academies کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ججز کو خاندانی قوانین، مصالحت کروانے یا نہ کروانے اور دیگر امور کے حوالے سے مناسب حد تک تربیت ہونی چاہئے اور وقتاً فوقتاً ان کے لئے refresher courses بھی منعقد ہونے چاہئیں۔
- خلع لینے والی خواتین کو درست معلومات فراہم کرنی چاہئے۔ اسے نہیں بتایا جاتا ہے کہ خلع لینے میں اسے کل تقریباً کتنی رقم خرچ کرنا پڑے گی۔ بعض اوقات ایک وکیل کے پاس پانچ کیسز بھی ہوتے ہیں۔ وہ بیچاری مصیبت کی ماری خلع لینے والی خواتین کو ٹائم دے کر جان بوجھ کر نہیں آتا تاکہ ایک دوسرے Client کو توجہ دے سکے۔ جب وہ وقت مقررہ کے بعد Client تک پہنچتا ہے تو اس وقت تک عدالت کا وقت ہی گزر جاتا ہے۔ اگلے ماہ جب پھر عورت آتی ہے تو اسے گیارہ بجے عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا جاتا ہے مگر مقررہ وقت پر پہنچنے پر اسے پتہ چلتا ہے کہ جج چائے کے وقفہ کے لئے چلے گئے ہیں۔ پھر کبھی دوپہر کے کھانے کا وقفہ آجاتا ہے۔ اس طرح سے کیس طویل سے طویل تر ہوتا جاتا ہے۔ یہ وکلاء کی عمومی صورت حال ہے مگر ہر جگہ اچھے افراد بھی ہوتے ہیں۔
- آرٹیکل 25-I کے مطابق قانون کے سامنے، تمام شہری برابر ہیں۔ آرٹیکل 25-II کی رو سے خواتین کے تحفظ کے لئے قانون سازی کی جائے۔ Article-35 کے مطابق ریاست اس امر کی پابند ہے کہ وہ ازدواجی زندگی، خاندان، ماں اور اولاد کو تحفظ فراہم کرے۔ Article37cd سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ درج بالا قانونی شقیں خواتین کے لئے باعزت زندگی گزارنے کے لئے بنیاد فراہم کرتی ہیں تاکہ سرِ دست طلاق کی نوبت ہی نہ آئے اور اگر طلاق کے حالات پیدا ہوجائیںتو وہ باعزت طریقے سے گھمبیر صورت حال سے باہر نکل سکے۔
- Family court کو بالکل الگ تھلگ ہونا چاہئے۔ وہاں صرف خلع کے کیسز ہی حل ہونے چاہئیں۔ ان کا Criminal Courts اور Civil litigation courts سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔
- خلع لینے والی خواتین کے لئے ایک الگ سے انتظار گاہ بنائی جائے۔ مخلوط نظام میں خلع لینے والی خواتین کے ساتھ ان کا خاوند کسی وقت کوئی ظلم بھی کرسکتا ہے۔
- میری ذاتی رائے میں خلع لینے والی خواتین کے لئے حق مہر واپس کئے جانے کا مروجہ نظام ختم کردیا جانا چاہئے کیونکہ حق مہر لوٹایا جانا کوئی دینی فریضہ نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کیا جانا چاہئے کہ حق مہر کا لوٹایا جانا جج کی صوابدید پر چھوڑ دیا جانا چاہئے کہ وہ غلطی کا تعین کرکے حق مہر لوٹانے کا فیصلہ دے۔ اگر عورت غلطی پر ہو تو وہ 25 فیصد حق مہر لوٹائے لیکن اگر وہ غلطی پر نہ ہو تو وہ حق مہر سے کچھ بھی واپس نہیں کرے گی۔
- طلاق یافتہ عورت کی زندگی کو تلخی سے بچانے کے لئے ریاستی قوانین میں اصلاحات درکار ہیں۔
- نکاح نامہ میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ اس میں جہیز کی مختصر تفصیل دی جائے۔ مگر نکاح نامہ کے ساتھ جہیز کی اشیاء کی پوری لسٹ نتھی کی جائے اور خاوند ان کی وصولی کے دستخط کرے۔ اگر کسی شادی شدہ جوڑے میں طلاق کے ساتھ جدائی ہوجائے تو اس صورت میں خاوند پورا جہیز واپس لوٹانے کا پابند ہوگا۔
- نکاح رجسٹرار کے لئے لازم ہے کہ شادی سے ایک دن قبل نکاح نامہ پڑھ کر شادی شدہ ہونے والی عورت کو دلہن بننے سے پہلے پڑھ کر سنائے اور عورت پھر اپنے دستخط کرے۔ آیا عورت اپنی شادی منسوخ کرنے کا قانونی حق رکھنا چاہتی ہے یا نہیں۔ یہ اس کو خود فیصلہ کرنا چاہئے اور وہ یہ فیصلہ تبھی کرسکتی ہے کہ جب اسے سارا کا سارا نکاح نامہ پڑھ کر سنایا جائے۔
- عوام الناس کو ازدواجی زندگی خوشگورار طریقے سے گزارنے، خاوند و بیوی کے حقوق و فرائض، بچوں کے حقوق و فرائض اور طلاق کے بارے میں فریقین کے حقوق و فرائض پر تعلیم دی جانی چاہئے۔ نکاح رجسٹرار کو یہ تمام امور شادی سے پہلے مردو عورت کو بتانے چاہئیں۔ اگر مردو زن زوجین کے حقوق پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات سنیں تو انہیں یقینا بہت زیادہ فائدہ ہوگا اور میاں بیوی اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کی بجائے اپنے فرائض کی ادائیگی میں زیادہ کوشاں ہوں گے۔ مردو زن کے حقوق و فرائض کے بارے میں آگہی پیدا کرنے کے لئے طلباء و طالبات کو سکول اور کالج سے ہی ان امور کی تعلیم دی جانی چاہئے تاکہ وہ عملی زندگی میں ایک دوسرے کا حق پہچان کر اسے ادا کرسکیں۔