حافظ محمد سعید رضا بغدادی

درس نمبر 10 آیت نمبر16، 17، 18 (سورۃ البقرہ)

حروفِ حلقی (اظہار) کا بیان

سوال : حروفِ حلقی کو حروفِ حلقی کیوں کہتے ہیں؟

جواب : ان کو حروفِ حلقی اس لئے کہتے ہیں کہ یہ ’’حلق‘‘ سے ادا ہوتے ہیں۔

سوال : حروفِ حلقی کون کون سے ہیں؟

جواب : حروفِ حلقی ’’ء، ھ/ع، ح/غ، خ‘‘ ہیں۔

سوال : حروف حلقی کی تعداد اور ان کا دوسرا نام بتائیں؟

جواب : ا۔ حروفِ حلقی چھ ہیں۔

ب۔ حروفِ حلقی کا دوسرا نام ’’حروفِ اظہار‘‘ ہے۔

سوال : اظہار کسے کہتے ہیں

جواب : اظہار کا مطلب نون ساکن (نْ) اور نون تنوین (_ً، ۔ ، _ٌ ) کو بغیر ’’غُنّہ‘‘ کے یعنی ظاہر کرکے پڑھنا ’’اظہار‘‘ کہلاتا ہے۔

أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَت

متن

أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَت

لفظی ترجمہ

یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے خریدلی گمراہی ساتھ ہدایت کے پس نہیں نفع دیا

عرفان القرآن

یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید ی۔ لیکن فائدہ مندنہ ہوئی

تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَO مَثَلُهُمْ

متن

تِّجَارَتُ هُمْ وَ مَا كَانُواْ مُهْتَدِينَ مَثَلُ هُمْ

لفظی ترجمہ

تجارت نے ان کی اور نہیں تھے وہ سب ہدایت پانیوالے مثال ان کی

عرفان القرآن

ان کی تجارت اور وہ (فائدہ مند اور نفع بخش سودے کی) راہ جانتے ہی نہ تھے۔ ان کی مثال

كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ

متن

كَ مَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ

لفظی ترجمہ

جیسے مثال اس شخص کی کہ روشن کی اس نے آگ پس جبکہ روشن ہوا اردگرد

عرفان القرآن

ایسے شخص کی مانند ہے جس نے آگ جلائی اور جب اس نے گردونواح کو روشن کر دیا۔

ذَهَبَ اللّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لاَّ يُبْصِرُونَO

متن

ذَهَبَ اللّهُ بِنُورِ هِمْ وَ تَرَكَ هُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لاَّ يُبْصِرُونَ

لفظی ترجمہ

سلب کر لیا اللہ روشنی انکی اور چھوڑ دیا انکو میں تاریکیوں نہیں وہ دیکھ سکتے

عرفان القرآن

تو اللہ نے ان کا نور سلب کر لیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا اب وہ کچھ نہیں دیکھتے۔

اشْتَرَوُاْ

کا معنی ہے خریدنا، قیمت ادا کرکے کوئی چیز لینا، یہاں اشتراء کا معنی تب درست ہو سکتا ہے جبکہ منافقوں کے پاس دولت ایمان ہوتی اور اسے دے کر وہ کفر خریدلیتے۔ وہاں تو پہلے بھی کفر ہی کفر تھا۔ لہذا علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اشْتَرَوُاْ بمعنی اِسْتَحَبُّوْا ہے۔ محاورہ عرب میں شراء کا لفظ ایک چیز کو دوسری چیز کے معنی میں بدلنے کے لئے خاص ہے۔

انہوں نے منافقت کا نقاب تو اس لئے ڈالا تھا کہ وہ مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہو کر دنیاوی فوائد حاصل کریں گے مال غنیمت سے انہیں حصہ ملے گا اور ان کی چودھراہٹ قائم رہے گی لیکن ان کی کوئی امید بر نہ آئی اللہ تعالی نے ان کا پردہ چاک کردیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر محفل ایک ایک کا نام لیکر اسے مسجد سے نکال دیا۔

رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ

نفع کمانا تو کجا ان احمقوں نے تو اپنا سرمایہ (فطرت سلیمہ) ہی تباہ کر دیا۔ چونکہ منافق لوگ زیادہ تر تجارت پیشہ تھے لہذا انہیں تجارت ہی کی مثال سے مخاطب کیاگیا۔

اسْتَوْقَدَ نَاراً

منافقوں کے دو گروہ تھے ایک وہ جو دل سے کفر پر جمے ہوئے تھے اور صرف زبان سے اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے۔ دوسرا وہ جو اسلام تو قبول کرتے تھے مگرمصائب ومشکلات سے گھبرا کر پھر اسلام سے دست بردار ہو جاتے پہلے گروہ کی مثال اس آیت میں بیا ن کی گئی ہے اور دوسرے گروہ کی مثال آیت أَوْ كَصَيِّبٍ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ میں (تفسیر ضیاء القرآن)

ایسے بھی منافق ہیں کہ جنہیں ایمان نصیب ہی نہیں ہوا پس نہ تو انہیں اس سودے میںفائدہ ہوا نہ راہ ملی بلکہ ہدایت کے چمنستان سے نکل کر گمراہی کے خارزار میں اور جماعت کے مضبوط قلعہ سے نکل کر فرقت کے تنگ جیل خانہ میں اور امن کے وسیع میدان سے نکل کر خوف کی اندھیری کوٹھری میں او ر سنت کے پاکیزہ گلشن سے نکل کر بدعت کے سنسان جنگل میں آگئے۔ (تفسیر ابن کثیر)

ف : قناعت کے بدلے حرص اور توجہ الی اللہ کی بجائے میلان دنیا روحانی خسارے کی علامتیں ہیں۔

(تفسیر منہاج القرآن)

قواعد

معرب و مبنی

آخرمیں تبدیلی کے لحاظ سے اسم کی دوقسمیں ہیں۔

  • معرب
  • مبنی

(i) معرب

جس اسم کے آخرمیں ضرورت اور موقع محل کے مطابق اعرابی تبدیلی ہوتی رہے وہ معرب کہلاتا ہے خواہ یہ تبدیلی حرکات کی ہو یا حروف کی۔

مثلاً رَسُولاً، رَسُولٍ، رَسُولٌ، مُسْلِمَانِ، مُسْلِمِيْنَ، مُسْلِمُوْنَ، مُسْلِمَيْنِ

(ii) مبنی

جو کلمہ مختلف حالتوں اور موقعوں کے باوجود ایک ہی شکل پر قائم رہے اور اعرابی تبدیلی قبول نہ کرے اسے مبنی کہتے ہیں عربی زبان میں ایسے الفاظ تقریباً پندرہ فیصد ہیں اور وہ درج ذیل ہیں۔

  1. تمام حروف جیسے اِنَّ، فِی، و، ب وغیرہ
  2. تمام ضمائر جیسے هُوَ، أنْتَ، نَحْنُ، ه، کَ، ي وغیرہ
  3. تثنیہ کے سوا تمام اسمائے اشارہ مثلاً هٰذَا، هٰذِهِ، ذٰلِکَ، تِلْکَ، ، هٰؤُلَآءِ، اُوْلٰئِکَ وغیرہ
  4. تثنیہ کے سوا اسمائے موصولہ مثلاً اَلَّذِی، اَلَّتِی، اَلَّآتِی، اَلَّذِيْنَ
  5. ایسے اسماء جن کے آخر میں الف مقصورہ یا الف ہو۔ مثلاً۔ طُوبیٰ، عِيسیٰ وغیرہ
  6. ایسے اسماء جن کے آخر میں متکلم کی ضمیر ’ی‘‘ ہو۔ مثلاً رَبِّی، اِيَّایَ وغیرہ

آئینہ دیکھنے کی دعا اَللّٰهُمَّ کَمَا حَسَّنْتَ خَلْقِی فَحَسِّنْ خُلُقِی ’’اے اللہ جیسے تونے میری صورت اچھی بنائی میری سیرت بھی اچھی بنا دے۔‘‘