پیکر عفت و حیا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ

جویریہ حسن

امیرالمومنین، خلیفۃ المسلمین، بارگاہ خداوندی میں انتہائی مقرب، رہنمائے اہل صفا و غناء، استاذ الصابرین، پیشوائے سالکین، منبع جودو سخا، متصف بالحیاء، ابوعبداللہ اور ذوالنورین کے لقب سے آراستہ، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جن کے لئے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا۔

الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ.

(البقرہ، 2 : 261)

’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا :

’’ہر پیغمبر کا ایک دوست ہوتا ہے اور میرے جنت کے رفیق عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہیں‘‘۔ (ابن ماجہ)

آپ رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ منبع خلائق ومرجع عبادات و سخا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ جمیع اوصاف کے مالک ہیں اور آپ رضی اللہ عنہ کی تمام زندگی اطاعت خدا و اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گزری۔ محبوب خدا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتہائی قریبی رفقاء میں آپ رضی اللہ عنہ کا شمار ہوتا ہے۔

آپ رضی اللہ عنہ کے اخلاق کریمانہ کا انتہائی اختصار سے جائزہ لیتے ہوئے زیر نظر مضمون میں آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت عظمیٰ سے حاصل ہونے والے نتائج کا تذکرہ کیا جائے گا تاکہ ایک عام مسلمان اپنی زندگی میں بنیادی اصول و قوانین کے لئے آپ رضی اللہ عنہ کے کردار کو مشعل راہ بناسکے۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اخلاق و کردار اور عادات کے اعتبار سے نہایت نیک اور اعلیٰ کردار کے حامل تھے۔ عفت و حیا اور پاک دامنی میں اپنی مثال آپ تھے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی برائی آپ رضی اللہ عنہ کو اپنی جانب مائل نہ کرسکی۔

ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن ثور القیمی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان فرمایا کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ رضی اللہ عنہ محصور تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ میرے نو خصائل اللہ رب العزت کے پاس محفوظ ہیں۔

  1. میں اسلام قبول کرنے والا چوتھا شخص ہوں۔
  2. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیوں کو میرے عقد میں دیا۔
  3. میں کبھی گانے بجانے میں شریک نہیں ہوا۔
  4. میں کبھی لہو ولعب میں شریک نہیں ہوا۔
  5. میں نے کبھی کسی برائی اور بدی کی خواہش نہیں کی۔
  6. اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے ہر جمعہ کو اللہ تعالیٰ کے لئے ایک غلام آزاد کیا اگر اس وقت ممکن نہ ہوا تو بعد میں کیا۔
  7. زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام میں، میں نے کبھی زناکاری کا ارتکاب نہیں کیا۔
  8. زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام میں، میں نے کبھی چوری نہیں کی۔
  9. میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے مطابق قرآن حکیم کو جمع کیا۔ (تاریخ الخلفاء)

آپ رضی اللہ عنہ کی شرم و حیا کا یہ عالم تھا کہ خود آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی حصرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیاء کا پاس و لحاظ رکھتے تھے۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حجرہ مبارک میں اس انداز سے محو استراحت تھے کہ آپ کی پنڈلی مبارک سے کپڑا ہٹا ہوا تھا اسی اثنا میں پہلے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت مرحمت فرمادی لیکن جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوراً سیدھے ہوئے اور اپنا کپڑا مبارک درست فرماتے ہوئے اپنی پنڈلی کو ڈھانپ لیا۔ بعد ازاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دریافت فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے حاضر ہونے پر یہ اہتمام نہیں فرمایا جیسا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے آنے پر فرمایا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

اے عائشہ رضی اللہ عنہا میں کیوں نہ اس شخص سے حیاء کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔

(صحیح مسلم جلد 2 / 105)

آپ رضی اللہ عنہ کا سیرت و کردار ہر لحاظ سے درجہ کمال پر فائز تھا۔ تادم مرگ آپ رضی اللہ عنہ راہ حق کے مسافر رہے اور شہادت کا درجہ پایا لیکن آپ رضی اللہ عنہ کے خلاف مخالفین نے سازشوں کا جال ایسی کامیابی سے بنایا جو آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر منتج ہوا۔

عبداللہ بن سبا نے مسلمانوں کے درمیان نفاق کا بیج بونے کے لئے سازشوں اور فتنوں کا آغاز کیا۔ جس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

یہ فتنہ ضرور بپا ہونے والا ہے جس کا دروازہ بہت جلد کھل جائے گا لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ اس فتنہ کا دروازہ کھولنے کا الزام مجھ پر عائد ہو۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں نے لوگوں سے سوائے نیکی اور اچھائی کے کچھ نہیں کیا۔ بہر حال فتنہ کے آغاز میں لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ پر بے بنیاد اعتراضات کی بوچھاڑ کردی آپ رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ عمال کو نااہل و بددیانت قرار دیا جانے لگا۔

ابن سبا کی سازش سے شوال 35 ہجری میں ہزاروں افراد پر مشتمل جماعت مصر، کوفہ، بصرہ سے مدینہ طیبہ کی طرف سے روانہ ہوئی۔ وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو معزول یا قتل کرنے کے خواہاں تھے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو بطور حاکم مقرر کیا لیکن ان بزرگ ہستیوں میں سے کسی ایک نے بھی اس تجویز کو پسند نہ فرمایا۔

حالات اس قدر شدت اختیار کرگئے اور منافقانہ سازشوں نے عوام کے ذہنوں پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے عداوت کا جال اس قدر تیزی سے بنا کہ لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا حتی کہ پانی بھی بند کردیا گیا اور کھانے کی کوئی چیز بھی اندر نہ جانے دی۔ جو کچھ گھر میں تھا سب کچھ ختم ہوگیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کو چالیس دن شدید بھوک و پیاس کی حالت میں گزارنے پڑے۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو محاصرہ میں چالیس دن ہوگئے آپ رضی اللہ عنہ اس اثنا میں مسلسل روزہ کی حالت میں رہے۔ رات کو آپ رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے روضہ اطہر سے باہر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اے عثمان رضی اللہ عنہ تمہیں بہت پیاس لگی ہے تم نے مسلسل چالیس دن تک روزہ رکھا ہے۔ کل روزہ تم ہمارے پاس آ کر کھولو گے، ہم حوضِ کوثر سے تمہارا روزہ کھلوائیں گے۔ خواب دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ کو یقین ہوگیا کہ اب شہادت ضرور ہوگی اور ایسا ہی ہوا۔

آپ رضی اللہ عنہ تلاوتِ قرآنِ حکیم میں مشغول تھے کہ بلوائیوں نے حملہ کرکے آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔ اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی عمر 82 برس تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ 18 ذی الحجہ 35ھ کو ایام تشریق میں جمعہ کے دن شہید ہوئے۔ چند بزرگ ہستیوں نے بلوائیوں سے سخت مزاحمت کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کو حاصل کرکے جشنِ کوکب میں دفنایا۔ انا للہ وانا علیہ راجعون۔

اللہ رب العزت ہمیں محبت صحابہ رضی اللہ عنہم و محبت اہل بیت پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین