اے روح قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ

صدام حسین عباسی۔ اسلام آباد

قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کے یوم پیدائش پر خصوصی تحریر

اگر پاکستان کے لفظ پر غور کریں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ میں ہی سارا خطہ سمویا ہوا ہے ’’پ‘‘ سے پنجاب ’’ک‘‘ سے کشمیر، ’’س‘‘ سے سرحد و سندھ اور ’’تان‘‘ سے بلوچستان ہے۔

پاکستان کا حصول صرف ایک ٹکڑے کا حاصل کرنا نہ تھا بلکہ اس میں اسلامی اصولوں کو آزمانا اور ان پر عمل پیرا ہونا تھا۔

1857ء کی جنگ آزادی مسلمانوں کے لئے قیدو بند بن کر نازل ہوئی۔ اس جنگ میں انگریز گماشتوں نے تخریب کاری کے نئے طریق کو اپنانے کی سعی کی مگر اللہ تعالیٰ نے مسلمان زعماء و قائدین کی صورت میں اس تخریب کاری کو کچلنے کا سامان فراہم کیا۔ مسلمان زعماء و قائدین نے اپنی انتھک کاوشوں اور بے مثال جدوجہد کے ذریعے انگریز کے ناپاک عزائم کا منہ توڑ جواب دیا۔ ان زعماء و قائدین میں سرفہرست نام قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جنہوں نے اس خطہ کے حصول کے لئے اپنی جان ومال کی پرواہ نہ کی بلکہ اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر اس خطے کے ناممکن حصول کو ممکن بنادیا۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے شب غلامی کو سحر آزادی میں بدل دیا۔ اعداءِ دین کو سر اٹھانے کا موقع ہی نہ دیا۔ وہ ہندو اور انگریز جو دین اسلام کی دھجیاں فضائے آسمانی میں بکھیرنے کے خواہشمند تھے ان کو خس و خاشاک کی مانند بہادیا۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے زمین کے نقشے کو بدل کر ایک نئی اسلامی سلطنت کا آفتاب طلوع کیا، بنجر زمینوں میں پھول اگائے اور پھر ان کی خوشبوؤں سے سارے گلستان کو معطر کرنے کا عزم مصمم کیا مگر آج کے اس دور میں وہ پاکستان جس کا خواب علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا، جس کے نام کی تخلیق چوہدری رحمت علی اور تعبیر قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے کی تھی اس کا حال بدل چکا ہے۔

وہ پاکستان جسے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خون جگر سے بہاروں کا مسکن بنایا تھا اب وہ خزاں کی دلدل میں پھنس چکا ہے، وہی پاکستان جسے اپنوں نے سہارا دینا تھا مگر اپنوں ہی کے دست سفاک سے برباد ہورہا ہے۔

وہ پاکستان جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اسی میں بے حیائی، ظلم و جبر، ناانصافی اور قتل و غارت گری عام ہورہی ہے۔ وہ سلطنت جو دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے روپ میں ابھری تھی وہی ایک بازو (بنگلہ دیش) کٹوا کر اپنی قوت بے بدل سے محروم ہوچکی ہے۔ وہ چمن جس کی آبیاری کی خاطر جوانوں نے اپنی جوانیاں، بچوں نے اپنی معصومیت اور ماؤں، بہنوں نے اپنی عزتیں داؤ پر لگادیں۔ وہی لوگ اس گلستان کا سارا حسن و جمال لٹارہے ہیں جس نے اسلام کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو بھنور سے نکال کر ساحل سمندر پر لانا تھا۔ اسی پاکستان میں اسلام کی کشتی کو موجوں کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ وہ جس کے افق سے امید کا سورج طلوع ہونا تھا اسی میں بے بسی و مایوسی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے۔ جس نے اسلام کا مضبوط قلعہ بننا تھا اسی میں اسلام کی اساس کو کھوکھلا کیا جارہا ہے۔ جس نے اسلام دشمن طاقتوں اور ظلم و جبر کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر مقابلہ کرنا تھا انہی کے سامنے بے بسی کی تصویر بن کر اپنی مدد کے لئے پکار رہا ہے۔

اے روح قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ ! دیکھ اقتدار کے بھوکے بھیڑیئے پیارے دیس کی بوٹیاں کس طرح نوچ رہے ہیں یہ خونخوار درندے اپنی شکم پروری کی جنگ میں مصروف عمل ہیں یہ اعدائے ملت، ملت وحدہ کو پارہ پارہ کرنے کے لئے کوشاں ہیں، لسانی آگ کو ملت وحدہ میں بھڑکا کر اس کی قوت کو کمزور کرنے میں مصروف ہیں یہ دشمنان ملک صوبہ پرستی کے پروئے ہوئے موتیوں کے ہار کو گلے میں ڈال کر ملی وحدت کو منتشر کررہے ہیں۔

اے روح قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ ! دیکھ یہ ملت و قوم کی رفعتوں اور عظمتوں کے امین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین منبر و محراب سے فرقہ پرستی کے کس طرح گولے برسا رہے ہیں یہ لوگ کس طرح زہریلی گولیاں قوم کو کھلا رہے ہیں اور اسلام کے نام پر اسلام کے تناور درخت کو کیسے کاٹ رہے ہیں اور یہ لوگ قوم کے دلوں میں کیسے کیسے خار دار درختوں کو پروان چڑھا رہے ہیں اور ان لوگوں کی گفتگو غبار بن کر دلوں کے پیارو محبت کی بستیوں کو کیسے ویران کررہی ہے؟

اے روح قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ ! جس مقصد کے حصول کے لئے پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا تھا اس پر کیسے تلوار بے نیام چلائی جارہی ہے۔ ایک طرف پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے جارہے ہیں اور دوسری طرف اس کی قدروں کو ملیا میٹ کیا جارہا ہے۔ ایک طرف اس کو پاک سرزمین کے نام سے تعبیر کیا جارہا ہے اور دوسری طرف بے حیائی، فحاشی و عریانی کے اڈے کھول کر ناپاک کیا جارہا ہے۔ ایک طرف اسلامی قوانین کے نفاذ کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے اور دوسری طرف کرسی اقتدار کی خاطر اسلامی قوانین کے نفاذ کے بل کو نامنظور کیا جارہا ہے۔ ایک طرف دین اسلام کو تمام مشکلات کا حل گردانا جاتا ہے اور دوسری طرف ہر شخص اپنے آپ کو اسلام کے Label سے پاک کررہا ہے۔ ایک طرف یہ دعوے کئے جارہے ہیں کہ اسلام ہی ہمارا تاجدار ہے اور دوسری طرف اسی کی دھجیاں فضائے آسمان میں منتشر کی جارہی ہیں۔ بقول الطاف حسین حالی

وہ دین جو بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے

وہ دیں کہ ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں
اب اس کی مجالس میں بتی نہ دیہ ہے

اے روح قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ ! آپ کا وہ فرمان ’’ایمان، اتحاد، تنظیم‘‘ ماضی کے دھندلکوں میں غائب ہوچکا ہے قوم پیسے کی پیر اور ا سکے حصول میں فقیر بن چکی ہے۔ اس اجڑے ہوئے گلستان کا بلبل نالاں ہے۔ آپ کا پیغام قوم کے گوش گزار کرتا ہوں شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔

اے پاکستان کے باشندو، اے کشتی ملت کے رکھوالو، اے قوم وملت کے پاسبانو، اے وارثان قوم وملت کے جوانو، اے مسند اقتدار پر جلوہ افروز حکمرانو! خدارا آنکھیں کھولو، شمال مغرب کی پہاڑیوں سے روسی استبداد ہمیں ہڑپ کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ مشرق سے ہندو ازم ہمارے خلاف منصوبے تیار کررہا ہے۔

آؤ ہم اتحاد و اتفاق اور قومی یگانگت کے لباس کو اوڑھ کر قوم وملت کے دُرّ نایاب کو گلے میں لٹکا کر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام بن کر اور عصر حاضر کے عظیم رہنما ڈاکٹر محمدطاہرالقادری کے ہراول دستے میں شامل ہوکر ایک ہی پلیٹ فارم کو اپنا مسکن بنالیں تاکہ ہم اسلام دشمن اور پاکستان دشمن طاقتوں کا پنجہ مروڑ سکیں اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق غلامی کا پختہ رشتہ استوار کرسکیں۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ

بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے

اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشاں کو
وہ داغ محبت دے جو چاند کو شرما دے

رفعت میں مقاصد کو ہمدوش ثریا کو
خود داری ساحل دے آزادی دریا دے