ام المصائب سیدہ زینب رضی اللہ عنہا

عرفانہ عفی ۔ چکوال

بہت سے لوگوں کا مشغلہ مطالعہ ہے وہ تاریخی ہستیوں کا مطالعہ صرف اپنے شوق کی وجہ سے کرتے ہیں اور اپنے فارغ وقت کا استعمال کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کو قصے کہانیاں پڑھنے کا شوق ہوتا ہے۔ وہ ہر کہانی کو اپنی دلچسپی کے لئے پڑھتے ہیں۔ بعض قوموں کی ترقی و زوال کے اسباب معلوم کرنا پسند کرتے ہیں۔ یوں وہ تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں۔ بعض لوگ تاریخ اس لئے پڑھتے ہیں کہ وہ تاریخ پڑھاتے ہیں یوں اپنے لیکچر کے لئے اپنے تئیں مطالعہ کرتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ تاریخ کو مشعل راہ کے طور پر پڑھتے ہیں۔ اس تاریخ سے استفادہ کرتے ہیں۔

بحیثیت مسلمان اسلامی تاریخ کا اور اللہ کے ہاں مقرب ہستیوں کا مطالعہ نہ صرف زندگی کے درس کے لئے بلکہ اللہ کے ہاں محبوب ہونے کی وجہ معلوم کرنے کے لئے بھی ہم کرتے ہیں۔ اگر ہم اسلامی تاریخ میں سے خواتین کا باب نکالیں تو سینکڑوں درخشاں ستارے تاریخ کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ اسلامی تاریخ ہمیں ہر خاتون کے عظیم اور اللہ کے ہاں مقبول ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ ان بلند کردار، باہمت، مجسمہ اخلاق حسنہ، پیکر عفت و عصمت میں سے اسلام قبول کرنے والی پہلی عظیم ہستی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی نواسی اور جنت کی عورتوں کی سردار، خدمت گزار، نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لاڈلی لخت جگر سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا اور آپ کے شوہر حیدر کرار رضی اللہ عنہ جن کی جرات بہادری کی داستان عرب کی ریگ زار پر آج بھی پڑھی جاسکتی ہے کی صاحبزادی اور جنت میں نوجوانوں کے سردار، امام حسن رضی اللہ عنہ و امام حسین رضی اللہ عنہ کی بہن حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ہیں۔

جی ہاں! عظیم المرتبت خاتون سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بنت علی رضی اللہ عنہ وہ عظیم خاتون ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں جانثار ہونے والوں کو، اللہ کی راہ میں قربان ہونے والوں کو، ناموس شکن۔۔۔ خون آشام۔۔۔ اسلام دشمن طاقتوں سے اس طرح نبرد آزما ہونا سکھایا۔۔۔۔ کہ آندھیاں رک گئیں۔۔۔ طوفان تھم گئے۔۔۔ زمین ہل گئی۔۔۔ آسمان سکتے میں رہ گیا۔۔۔ چرند پرند سہم گئے۔۔۔ آنکھیں برس پڑیں۔۔۔ ظلم کرنے والے فریاد کرنے لگے۔۔۔ آہوں اور سسکیوں سے کوفہ لرز گیا۔۔۔ غرور و تکبر ٹوٹ گیا۔۔۔ نیندیں اڑ گئیں۔۔۔

پھر کیا ہوا! تاریخ نے ایک باب کے ساتھ ایک دوسرا باب لکھا ایک باب تو صرف سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا لکھا گیا۔۔۔ کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی جیت گئیں۔۔۔ عظمتوں نے قدم جمالئے۔۔۔ رفعتیں فرش راہ بنیں۔۔۔ زنجیریں ٹوٹ گئیں۔۔۔ غرور جھک گیا۔۔۔ سیاست جواب دے گئی۔۔۔ تدابیر ختم ہوگئیں۔۔۔ کامیابیوں و کامرانیوں کے باب رقم ہوگئے۔۔۔ حق چھاگیا۔۔۔ اسلام زندہ ہوگیا۔

ان حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے الامۃ والسیاسۃ کے مؤلف ابن قتیبہ لکھتے ہیں کہ

عبیداللہ ابن زیاد کو یہ وقت بھی دیکھنا پڑا کہ بھرے ہوئے شہر میں جب وہ تقریر کرنے کھڑا ہوتا ہے تو عوام اس پر اینٹوں اور پتھروں کا مینہ برساتے ہیں۔ انقلاب کیا ہے؟ یہی تو انقلاب ہے۔۔ انقلاب کوئی پھولوں کی سیج نہیں۔۔۔ یہ تو پتھروں اور کانٹوں بھرا راستہ ہے۔۔۔ یہ قربانیوں اور خود کو لٹا دینے کا راستہ ہے۔۔۔ خود کانٹوں پر چلنا اور دوسروں کے لئے راہوں سے کانٹے ہٹاکر پھول بچھا دینا ہے۔۔۔ لیکن ہر مشکل کے ساتھ آسانی اور ہر شکست کا مقدر جیت ہی ہوتی ہے۔

ام المصائب حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا جو کہ تقویٰ و طہارت کی پیکر، علم پرور جہاندیدہ، ثابت قدم، نڈر، بلند پایہ، نور بصیرت، گرامی مرتبت، مقررہ، عالمہ، فاضلہ، عفت و عصمت کا پیکر، باحیا، باوفا اور بلند کردار کی حامل جب آزمائشوں کی یلغار میں کوفے پہنچی تو تاریخ ساز تقریر کی۔ اپنے باپ حیدر کرّار حضرت مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کے سے انداز میں بولیں!

کوفے والو! عذرو فریب کے پجاریو! رو رہے ہو؟ تمہارے یہ آنسو کبھی نہ رکیں۔۔۔ ہمیشہ فریاد کرتے رہو۔۔۔ مکاری کے پتلو! ظالمو!۔۔۔ تم ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہو گے۔۔۔ حق فروشو! تم نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلیجے کو پاش پاش اور ان کے حرم کو بے پردہ کردیا۔۔۔ کوفیو! تم اس وقت کیا جواب دو گے جب پیغمبر خدا تم سے کہیں گے کہ تم آخری امت ہو، تم نے میری اولاد، میرے اہل بیت، میری حرمت اور میری ناموس کے ساتھ یہ کیا کیا۔۔۔۔؟

کیوں!

میرے احسانات رشد و ہدایت کی یہی جزا تھی۔۔۔؟ یہ نواسی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریر کا کچھ حصہ تھا۔ جس میں آپ نے فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیئے۔

علی رضی اللہ عنہ کی جاہ و جلالت نمود کرتی ہے
زبان پہ جب کبھی زینب رضی اللہ عنہا کا نام آتا ہے

نیزے کی اَنی پر بھائی کا سر دیکھ کر کجاوے کی چوب سے اپنا سر زخمی کرنے والی۔۔۔ اپنے بھائی سرورِ شہیداں کی نعش پر کھڑی ہونے والی زینب رضی اللہ عنہا!

اس لمحے اپنے جد بزرگوار اپنے نانا کو کہتی ہے نانا۔۔۔! آسمان کے فرشتوں نے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد پر درود پڑھا! مگر! یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسین رضی اللہ عنہ ان ریگ زاروں پر یوں پڑا ہے کہ۔۔۔ نہ سر پر عمامہ! نہ عبا! سب لٹ گیا۔

حسین رضی اللہ عنہ پیارا رہے تیرا نام
زینب رضی اللہ عنہا اونچا رہے تیرا نام

وہ عالم عجب ہوگا۔۔۔ جب یزید کے دربار میں آگ لگی زلزلہ آیا۔۔۔ یزید کی امید کے چراغ بجھ گئے۔۔۔ وہ حواس کھو بیٹھا۔۔۔ وہ ہار گیا۔۔۔ کیوں!

کیونکہ اس کے سامنے جرات و شجاعت و ہمت کی پیکر خاتون تھی۔۔۔ جو اپنا گھر بار اولاد بھائی خاندان سب کچھ لٹا کر تن تنہا زمانے کے ناخدا۔۔۔ کے سامنے زندہ جاوید کھڑی اس کو انجام دکھارہی تھی۔

جناب زینب رضی اللہ عنہا شرم و حیا کا پیکر تھیں جو اپنے باپ سے بھی پردہ کرتی تھیں۔۔۔ وہ زینب کبریٰ شاہی دربار میں یزید جیسے ظالم سفاک بادشاہ اور سات سواعیان سلطنت اور بیرونی نمائندوں کی موجودگی میں سورہ روم آیت نمبر 10 پڑھتی ہیں اور پھر فرماتی ہیں۔

کیوں، یزید! زمین و آسمان کے تمام دروازے ہم پر بند کرکے اور خاندان نبوت کو عام قیدیوں کی طرح بند کرکے اور در بدرکرکے تو نے یہ سمجھ لیا کہ خدا کی بارگاہ میں ہمارا جو مقام تھا اس میں کوئی کمی آگئی ہے تو یہ تیری خام خیالی ہے۔ ٹھہر یزید ٹھہر! ایک دو اور سانسیں لے لے پھر دیکھنا تیرا کیا حال ہوتا ہے؟

اے ہمارے آزاد کردہ غلاموں کی اولاد! کیا یہی عدل ہے؟ اسی کو انصاف کہتے ہیں؟ کہ تیری عورتیں اور کنیزیں پردے میں ہوں اور نبی زادیوں کی چادریں چھین کر انہیں بے پردہ، سر برہنہ ایک شہر سے دوسرے شہر کشاں کشاں لے جایا جائے! اے یزید! تو احساس جرم کے بغیر جس ڈھٹائی سے کہتا جارہا ہے کہ

اگر اس وقت میرے اسلاف مجھے دیکھتے تو کتنے شاد ہوتے! وہ مجھے شاباش دیتے اور کہتے یزید! تیرے دست و بازو کو نظر نہ لگے! تو نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھرانے سے کیا خوب انتقام لیا ہے۔ یزید!

تو جو کچھ کر رہا ہے اور جو کچھ کہتا جارہا ہے وہ تیری اندرونی کیفیت کا اظہار ہے۔۔۔! ذرا دیکھو تو سہی بے ادب! اپنی چھڑی سے جس ہستی کے مقدس ہونٹوں کے ساتھ تو گستاخی کررہا ہے وہ جوانانِ جنت کا سردار ہے!

حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق
یکے حسین (رض) رقم کرد دیگرے زینب (رض)

حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ صبر و استقامت کسے کہتے ہیں؟ آپ نے اپنے عمل سے بتایا کہ ہر فرعون، ہر نمرود اور ہر یزیدی باطل قوت کے سامنے حق ڈٹا رہا اور بالآخر حق کو فتح ملی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے انقلاب کے لئے راہ ہموار کی، اصولوں پر سودا نہ کیا۔

حق بات پہ کٹتی ہے تو کٹ جائے زباں میری
اظہار تو کر جائے گا ٹپکے گا جو لہو میرا

دراصل حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی جیت ہر اس دختر حوا کی جیت ہے جسے ہر دور کی باطل قوت اور ہر زمانے کے یہود کا سامنا رہا ہے اور رہے گا۔ طاغوتی اور استحصالی و یزیدی طاقتیں مکرو فریب کے جتنے حربے استعمال کرسکتی ہیں وہ اسلام کے خلاف کرتی رہی ہیں اور کرتی رہیں گی۔ مگر!

دختران اسلام نے ہر دور میں ایسا زندہ کردار ادا کیا جس کی مثال نہیں۔ آج کے پرفتن، پر آشوب دور میں جہاں روز خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ جہاں دختر اسلام کی عفت و عصمت کی کھلی پامالی انفرادی سطح سے اجتماعی سطح پر ہورہی ہے۔ کہیں تو عورت کو رات کے اندھیرے میں اغوا کیا جارہا ہے۔ تو کہیں دن دیہاڑے اس کی پامالی کا سامان مہیا کیا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں NGO's عورت اور انسانیت کو کیا حقوق دیں گی؟

اول تو اسلام نے حقوق کے دائرے کو اتنا وسیع کر دیا ہے کہ عورت تو عورت بے زبان جانور کے بھی حقوق بتادیئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ عرب میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے عورت کی کیا قدر و قیمت تھی اور ظہورِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس عورت کو کتنا عظیم درجہ عطا کیا گیا۔

دوسرا عورت کمزور نہیں۔۔۔ نہ ہی کل کی عورت اور نہ ہی آج کی عورت۔۔۔ عورت اپنا دفاع خود کرسکتی ہے۔ بشرطیکہ اسے اعتماد وتحفظ فراہم کیا جائے۔ کل زینب رضی اللہ عنہا بنت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اہل و عیال کی قربانی دی۔ کوفہ و بصرہ کی گلیوں میں سر برہنہ زینب رضی اللہ عنہا کو ہی پھیرایا گیا۔ مسلمان خواتین نے عزت کا سودا نہ کیا۔ آج عراق، فلسطین، افغانستان، کشمیر، صومالیہ اور نہ جانے کتنے ملکوں میں خواتین کو استحصالی قوتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

کیونکہ جہاں حق کے پرستار، انسانی قدروں کے اصل علمبردار، دنیا کے ناخداؤں اور دنیا کی باطل طاقتوں کا چیلنج قبول کرتے ہیں، وہاں ظلمت و نور کا معرکہ شروع ہوجاتا ہے۔ اور ہر باطل قوت بالآخر سرنگوں ہوگی۔

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی

جتنے امتحان قافلہ کربلا کو پیش آئے۔۔۔ اور جتنے امتحان سے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا گزری۔۔ آج! انہی سے ملتے جلتے امتحانات کا سامنا امت مسلمہ کی بیٹیوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔ تو کیوں نا!

زینب رضی اللہ عنہا کی زندگی کو ہی مثال بنایا جائے۔ آج! زینب رضی اللہ عنہا کے کردار کو دہرانے کی اشد ضرورت ہے۔

آج اسی انقلاب کی ضرورت ہے جس کے لئے آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خون بہایا اور جس کو جلا سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے بخشی اور زینب رضی اللہ عنہا کی فتح ہر اس مسلمان ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی فتح ہے جو یزید جیسی سامراجی طاقت کے سامنے بولنے کی قوت رکھتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس کی عزت کہاں، کب اور کیسے محفوظ رہ سکتی ہے؟

ظاہری آسائشوں کے لئے وہ اپنی روح کو بیچ نہیں سکتی۔ تن کی خاطر من کا سودا نہیں کرسکتی۔ یہ استحصالی قوتیں کہیں تو بازاروں، چوکوں، اور کہیں ویگنوں میں، کہیں سکولوں کالجوں اور کہیں ملوں کارخانوں حتی کہ ہمارے بیڈ رومز تک کہیں، میگزین، کہیں انٹرنیٹ کہیں موبائل، کہیں ڈش، کہیں فیشن، کہیں روپیہ، پیسہ دولت، شہرت اور گلیمر کی چمک سے مسلمان عورت کا ضمیر خریدنے کے درپے ہیں۔

کیونکہ یزید آج بھی کسی نہ کسی روپ، کسی نہ کسی چہرے میں زندہ ہے۔ یزیدیت کو مات دینے کی بات یہیں پر ختم نہیں ہوگی۔ بقول جوش ملیح آبادی

عباس رضی اللہ عنہ نامور کے لہو سے دھلا ہوا
اب بھی حسینیت رضی اللہ عنہ کا علم ہے کھلا ہوا