رافعہ علی قادری

پہلی مجلس

محور کی اہمیت اور اس کی افادیت کو ایک مثال کے ذریعے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ پتھر کی دستی چکی جس کے ذریعے پرانے زمانے میں آٹا پیسا جاتا تھا اس کے نچلے باٹ کے درمیان میں لکڑی کی کیلی ہوتی تھی جس کے گرد اوپر والا پاٹ گھومتا تھا۔ اس کیلی کو اردو زبان میں محور کہتے ہیں۔ یہ محور جب تک قائم رہتا ہے پاٹ ایک دوسرے کے اوپر صحیح طور پر گھومتے ہیں اور اگر اسے الگ کردیا جائے تو چاہے جتنی بھی مہارت اور احتیاط کے ساتھ چکی کو گھمایا جائے اوپر والا باٹ صحیح طور پر نہیں گھوم سکتا۔ اندریں حالات چکی اور پاٹ بھی وہی ہوں گے، چلانے والا پورا زور بھی لگارہا ہوگا، اپنی مہارت اور احتیاط بھی بروئے کار لارہا ہوگا لیکن پاٹ صحیح طور پر نہیں گھومے گا اور ایک ہی چکر میں دونوں پاٹ ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے۔ نتیجہ بھی سعی لاحاصل کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ اس مثال کے ذریعے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ محور سلامت ہو تو ساری کوششیں نتیجہ خیز ہوتی ہیں اور اگر محور ہی سلامت نہ رہے تو ساری کاوشیں رائیگاں اور جملہ توانائیاں منتشر ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح دین، ایمان، علم، عمل، نیکی اور تقویٰ محض چند رسومات ادا کرنے کا نام نہیں بلکہ اپنی پوری زندگی اور دینی کدو کاوش کو ایک خاص مرکز و محور کے گرد گھمانے کا نام ہے اور وہ مرکز و محور حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات ہے۔ ہم میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو دین کی راہ سے بھٹک گئے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو دین کی راہ پر تو ہیں لیکن محور کی پہچان بھول گئے ہیں۔ جس طرح راستے سے بھٹک جانے یا منزل کو فراموش کردینے والا شخص عمر بھر چلتا رہے حتی کہ کائنات کی ساری مسافتیں بھی طے کر ڈالے تب بھی منزل مقصود کو نہیں پاسکتا اسی طرح محور دین کو فراموش کردینے والا شخص ساری زندگی کی سعی و کاوش اور ریاضت و مجاہدہ کے باوجود اپنی منزل کو نہیں پاسکتا۔ اس لئے سب سے اہم اور اولین بات یہ ہے کہ محور کو پہچانا جائے اور اس کی معرفت حاصل کی جائے۔ پس جب محور کی پہچان اور اس کی معرفت حاصل ہوجائے گی تو پھر محبت بھی بار آور ہوکر رنگ لائے گی، عبادتیں اور ریاضتیں بھی لذت و کیف آفریں ہوں گی اور مشقتیں اور مجاہدے بھی نتیجہ خیز ہوں گے۔

(نوٹ۔ اسلامی تحریکوں میں کام کرنے والے کارکنان کا اپنے قائد کے ساتھ اور بالخصوص تحریک منہاج القرآن کے رفقاء و کارکنان کی مشن کے ساتھ مضبوط وابستگی میں شخصیت قائد کی اہمیت کے لئے درج بالا مجلس بہت مفید اور موثر ثابت ہوسکتی ہے۔ )

دوسری مجلس

ارشاد خداوندی ہے اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ (النحل، 16 : 125) (اے رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ’’آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے‘‘۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ ایک خاص نکتہ سمجھا رہے ہیں اور وہ یہ کہ کہنے کو یوں بھی کہا جاسکتا تھا کہ اے محبوب! لوگوں کو رب کی طرف بلائیں، رب کا راستہ دکھائیں۔ یا یوں بھی کہا جاسکتا تھا کہ لوگوں کو کائنات کے رب کی طرف بلائیں، لوگوں کو ان کے رب کی طرف بلائیں، بات تو بہر صورت رب ہی کی ہوتی ہے وہی ہر ایک کا رب ہے۔ لیکن اللہ رب العزت نے اس انداز سے بات نہ کی بلکہ دیگر تمام نسبتوں کی بجائے اپنی ربوبیت کی بات اپنے محبوب کی نسبت و اضافے کے حوالے سے کی گویا یوں فرمایا کہ اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی طرف بلائیں۔ انہیں میری پہچان و معرفت کروائیں۔ انہیں میرا رب ہونا بتلائیں۔ لیکن اس طرح نہیں کہ سیدھے میری طرف بھاگتے چلے آئیں۔ انہیں میری پہچان اپنا رب ہونے کے ناطے سے کروائیں۔ انہیں میری یاد دلائیں لیکن ایسے نہیں کہ تجھے بھول جائیں۔ انہیں مجھ سے ملائیں لیکن ایسے نہیں کہ تجھ سے بے گانہ ہوکر ملنے کے لئے میری طرف آئیں۔ انہیں میری طرف بلائیں لیکن اس طرح کہ تیرے ذریعے مجھ تک پہنچیں۔ میری یاد انہیں تیری یاد سے اور میرا راستہ انہیں تیرے راستے سے ملے، میرا جمال انہیں تیرے جمال سے اور میرا کمال انہیں تیرے کمال سے میسر آئے، میرا تعلق انہیں تیرے تعلق سے، میری نسبت انہیں تیری نسبت سے اور میری بندگی انہیں تیری غلامی کے ذریعے ملے، میری رضا اور میری بارگاہ میں فنائیت انہیں تیری رضا اور تیری راہ میں فنائیت سے ملے۔ یہ میرے بنیں لیکن اس طرح کہ پہلے تیرے بنیں۔ میرے در پر آئیں لیکن ایسے کہ پہلے تیری دہلیز پر جھکیں۔ اسی صورت میں ہی ان کی مجھ تک رسائی قابل قبول ہے بصورت دیگر مردود نامقبول ہے۔ اللہ رب العزت نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اپنی مخلوق کو اپنی پہچان کروا رہا ہے۔ حالانکہ وہ اس کا محتاج نہیں، وہ بے نیاز ہے اور شان حمدیت کا مالک ہے۔ وہ کسی شے کا محتاج نہیں لیکن وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اپنی مخلوق کے لئے کرتا ہے۔ پس فرمایا کہ لوگو! مجھے پہچانو! لیکن یوں کہ اپنے محبوب کا رب ہونے کے حوالے سے پہچانو۔ اس لئے کہ اگر یہ نسبت قائم ہوگئی اور تم نے مجھے اپنے محبوب اور اپنے کارخانہ قدرت کے عظیم ترین شاہکار کا خالق اور رب ہونے کے حوالے سے پہچان لیا تو پھر کوئی تمہیں بھٹکا نہ سکے گا۔ چنانچہ یہ نکتہ ذہن نشین کرلیں کہ اللہ رب العزت کی معرفت اور اس تک رسائی نسبت رسالت کے بغیر ممکن ہی نہیں اور اگر کوئی شخص نسبت رسالت کے بغیر براہ راست اللہ تعالیٰ کی معرفت و پہچان حاصل کرنا چاہتا ہے تو یہ محض گمان باطل اور شیطان کا فریب ہے۔

تیسری مجلس

جس طرح دین و ایمان کا مرکز و محور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی قدر ہے اسی طرح جملہ دینی اعمال اور عبادات کا مرکز و محور بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوۃ غرضیکہ ہر عمل صالح کا مرکز و محور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ الحمد سے والناس تک پورے کا پورا قرآن پڑھ ڈالئے۔ نماز کے ضمن میں قرآن حکیم نے کسی بھی مقام پر یہ نہیں بتلایا کہ نماز کا طریقہ یہ ہے۔ اس طرح قیام کیا کرو۔ اس طرح تکبیر تحریمہ کیا کرو، رکوع اور سجدہ اس طرح کیا کرو بلکہ یہ ساری تفصیلات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمائیں۔ جب نماز کا حکم آیا کہ وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ (البقرہ، 2 : 43) (اور نماز قائم رکھو) تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا۔ آقا! ہم نماز کس طرح ادا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : صَلُّوْا کَمَا رَاَيْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ  ’’جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے دیکھو ویسے ہی تم بھی پڑھو (صحیح بخاری، کتاب الاذان 1 : 88) یعنی کسی الجھن میں پڑنے کی ضرورت نہیں مجھے دیکھ لو۔ جیسے میں کرتا ہوں تم بھی کرتے جاؤ، جو میں پڑھتا ہوں تم بھی وہی پڑھتے جاؤ۔ بس یہی نماز ہے‘‘۔ نماز، زکوۃ، روزہ، حج اور دیگر دینی اعمال کا بھی یہی طریقہ ہے۔ حج کے سلسلے میں قرآن حکیم نے کہیں بھی طواف کعبہ یا حجر اسود کو بوسہ دینے کا طریقہ بیان نہیں کیا، نہ ہی حطیم کعبہ کے آداب، آب زمزم اور مقام ابراہیم پر نفل پڑھنے کا تذکرہ تفصیلی طور پر کیا۔ نہ ہی یہ بیان کیا کہ صفا و مروہ پر چکر کتنے اور کیسے لگائے جائیں۔ عرفات، منیٰ اور مزدلفہ کے مقامات پر کب اور کتنا قیام کیا جائے اور کیا کیا مناسک کس کس انداز سے کئے جائیں۔ پورا قرآن پڑھ لیں کہیں مناسک حج کی تفصیلات موجود نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم حج کس طرح ادا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابیو! ’’مجھ سے مناسک حج سیکھو‘‘۔ (السنن الکبریٰ، للبیہقی 5، 125) یعنی میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ جو میں کرتا جاؤں وہی تم بھی کرتے چلے جاؤ۔ میری اداؤں سے حج سیکھ لو۔ میں اکڑ کرچلوں تم بھی اکڑ کر چلو اور میں اگر صفا و مرہ کے درمیان دوڑ پڑوں تو تم بھی دوڑنا شروع کرو۔ اگر حجر اسود کو چوموں تو تم بھی اسے چومنے لگ جاؤ اس طرح تمہارا حج ہوجائے گا۔ گویا ہر عمل کا معیار اور اس کامرکز و محور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہی ٹھہری۔