تبصرہ کتب : فلسفہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ

عائشہ شبیر

شاہ است حسین پادشاہ است حسین
دیں است حسین دیں پناہ است حسین

سرداد نہ داد دست دردست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسین

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’’فلسفہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ‘‘ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں کمال خراج تحسین و نذرانہ عقیدت ہے۔ یہ کتاب آپ کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو آپ نے سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی کی عظمت و حقیقت دنیائے عالم پر آشکار کرنے کے لئے دیئے۔

’’فلسفہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ‘‘ سات ابواب پر مشتمل تاریخی دستاویز ہے اس کتاب کو پڑھتے ہی حق و باطل کے اس عظیم معرکے کی تصویر واضح ہوجاتی ہے جس نے دنیا کے لئے عظیم مثال قائم کردی۔ اب ہر دور، ہر زمانہ میں حسینیت حق اور یزیدیت فتنہ و فساد کی علامت بن گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ آج کی نسل کو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی عظیم قربانی و شہادت سے روشناس کروایا جائے تاکہ عصر حاضر میں وہ حسینیت و یزیدیت کو حق و باطل کی کسوٹی بناکر اپنے لئے راستہ حق و ہدایت کا انتخاب کرسکیں۔ بہت سی تصانیف اس موضوع پر نظر سے گزریں مگر ایک تشنگی اور پیاس کا احساس ہوتا کہ آخر شہادت کا وہ کونسا مقام ہوگا اور اس میں کونسی انفرادیت ہوگی جو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو ملی۔ وہ تشنگی ختم ہوجاتی ہے جب ’’فلسفہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ‘‘ میں شیخ الاسلام محبت حسین رضی اللہ عنہ کے جام بھر بھر کے پلاتے ہیں۔

’’فلسفہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ‘‘ کے دس ابواب پڑھ کر تصور شہادت واضح ہوجاتا ہے اور قاری شہید کے رتبے کو پانے کے لئے بے تاب ہوجاتا ہے پھر وہ ہر لمحے اس آرزو اور تمنا میں رہتا ہے کہ کاش میں اپنی جان اسی جلوہ حق کے لئے لٹادوں جس کے لئے امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے۔ یہ کتاب سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی اس عظیم شہادت کی انفرادیت کو واضح کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ کس طرح سے شہادت حسین رضی اللہ عنہ سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکمیل دیتی ہے۔ قرآن و حدیث کی گواہیاں دیتے ہوئے شیخ الاسلام، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصف شہادت کو شہادت حسین رضی اللہ عنہ سے تعبیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ، درحقیقت شہادت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور تام ہے، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حسین منی وانا من حسین۔ (سنن ترمذی) حسین (رضی اللہ عنہ) مجھ سے ہے اور میں حسین (رضی اللہ عنہ) سے ہوں اس فرمان کی روشنی میں ’’فلسفہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ‘‘ میں شہادت حسین رضی اللہ عنہ کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک باب اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات لا اہل گوشہ قرار دیا گیا ہے۔

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی کتاب فلسفہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ایک باب شہادت حسین رضی اللہ عنہ میں اس عظیم معرکہ کربلا کے حقائق کو دنیا پر اس طرح سے آشکار کیا ہے کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کا پس منظر اور پیش منظر اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ روز روشن کی طرح واضح ہوگیا ہے۔ کتاب کے اس باب کو پڑھنے کے بعد معاشرے میںواقعہ کربلا اور نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثال قربانی کے بارے میں پائی جانے والی تمام غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ یزیدی کردار کھل کر سامنے آجاتا ہے جو لوگ یزید کو حق بجانب سمجھتے ہیں وہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کربلا کے میدان میں جانثاری کی ایک نئی تاریخ رقم کرکے ایثار و قربانی کی ایک لازوال مثال قائم کی ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ جو کوئی بھی خود کو راہ حق میں قربان کردیتا ہے اسے وہ مقام عطا ہوتا ہے جو طالب حق کا منشاء و ماویٰ ہوتا ہے۔ یہ کتاب پڑھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ صبر حسین رضی اللہ عنہ کے مقام کو حاصل کرکے مقام رضا کا حقدار کیسے بنا جاتا ہے۔ حق کو پانے کے لئے خود کو قربان کیسے کیا جاتا ہے۔ آزمائشوں کا سفر کیسے استقامت کے ساتھ طے کیا جاتا ہے اور پھر اس پر کیا کیا انعام عطا کئے جاتے ہیں؟

شیخ الاسلام نے فلسفہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کے اس خوبصورت گلدستے میں اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے وہ تمام پھول اکٹھے کر دیئے ہیں کہ جس پھول کو سونگھیں حق کی خوشبو آتی ہے۔ حضور شیخ الاسلام نے اس کتاب میں پیغام محبت حسین رضی اللہ عنہ کے ذریعے فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے عظیم تر کاوش کی ہے۔ شیخ الاسلام کی یہ کتاب زبان حال سے پکارتی ہے کہ آؤ خون حسین رضی اللہ عنہ کا قرض چکائیں۔ آؤ شعور کربلا کو ہر سطح پر زندہ کریں اور تلاش حق کو مقصد حیات بنالیں۔ آؤ کربلا کے میدان سے شروع ہونے والی حق و باطل کی اس تحریک کو جاری رکھیں آؤ یزیدی اور طاغوتی قوتوں کو کچلنے کے لئے حسینیت کا کردار ادا کریں۔