ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر رحیق احمد عباسی سے انٹرویو

ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی سے انٹرویو

پینل : صاحبزادہ محمد حسین آزاد، کوثر رشید، خالدہ رحمن

ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن جناب ڈاکٹر رحیق احمد عباسی کا تعلق مری کے ایک گاؤںسے ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مری ہی میں حاصل کی جبکہ فیڈرل بوائز سکینڈری سکول نمبر 6 اسلام آباد سے میٹرک کیا اور ہمیشہ اپنی کلاس میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد اسلام آباد کالج فاربوائز سے ایف ایس سی ( پری انجینئرنگ) میں کی۔ قائداعظم یونیوسٹی اسلام آباد سے ایم ایس سی کمپیوٹر سائنسز کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ جس کے بعد جزوی سکالر شپ پر آکسفورڈ (برطانیہ) اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے اور امتیازی نمبروں کے ساتھ ایم ایس سی کمپیوٹر سائنسز میں مکمل کیا تو یونیورسٹی نے انکی کارکردگی کی بنیاد پر PHD کے لئے سکالر شپ آفر کی اور وہ فل سکالر شپ پر پی ایچ ڈی کے لئے منتخب ہوئے۔ پی ایچ ڈی کے دوران وہ کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ میں ٹیچنگ بھی کرتے رہے اور یونیورسٹی سے باقاعدہ اعزازیہ حاصل کرتے رہے۔ مارچ 2003ء میں انہوں نے PHD کا مقالہ جمع کروایا تو قبلہ قائد محترم کے حکم پر بطور ناظم اعلیٰ تحریک مرکز میں تشریف لائے۔ ماہنامہ دختران اسلام کے قائد نمبر کی اشاعت کے موقع پر ان سے انٹرویو لیا گیا جو نذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔

میگزین : سب سے پہلے اپنی ابتدائی تحریکی زندگی کے بارے میں بتائیں کہ تحریک میں کیسے شمولیت اختیار کی؟

ناظم اعلیٰ : میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ماہنامہ دختران اسلام کے قائد نمبر کی اشاعت کے موقع پر میرا اس رسالے میں پہلا انٹرویو شائع کررہے ہیں۔ یہ 1985ء کی بات ہے جب حضور شیخ الاسلام نے اسلام آباد میں دروس قرآن کا سلسلہ شروع کیا تو اپنے والد محترم اور چچا جان کے ہمراہ مجھے بھی ان دروس میں شرکت کا موقع ملا اس وقت میری عمر 12 سال تھی۔ دسمبر 88ء میں ہونے والے ایک درس قرآن نے میرے دل کی کایا پلٹ دی اور مجھ پر آشکار ہوا کہ حضور قائد محترم صرف دینی شخصیت ہی نہیں بلکہ ایک عظیم انقلابی لیڈر بھی ہیں اور جملہ مسائل حیات کے حل کا جامع اور ہمہ گیر منصوبہ بھی رکھتے ہیں۔ باقاعدہ تنظیمی و تحریکی زندگی کا آغاز 89ء میں یوتھ لیگ کے پلیٹ فارم سے شمولیت حاصل کرکے کیا جس کے بعد قائد محترم کا پہلا سیاسی خطاب مصطفوی انقلاب کانفرنس راولپنڈی میں سنا جس کے بعد اسلام آباد دفتر سے کیسٹس کے حصول کا سلسلہ شروع کیا۔ قرآنی فلسفہ انقلاب کی مکمل سیریز سنی تو تحریک سے نظریاتی وابستگی کامل ہوگئی۔ ذہن میں اٹھنے والے تمام سوالات کا جواب مل گیا اور تحریک کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کا جذبہ پیدا ہوا۔

میگزین : 89ء میں یوتھ لیگ کی ممبر شپ سے لیکر ناظم اعلیٰ بننے تک کے تحریکی سفر کی مختصر روداد سے ہمارے قارئین کو آگاہ فرمائیں؟

ناظم اعلیٰ : یوتھ کی ممبر شپ اختیار کرنے کے بعد دفتر سے مسلسل رابطہ رہا ایک میٹنگ میں مجھے ناظم رابطہ یوتھ لیگ کی ذمہ داری سونپی گئی جس کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھا مگر سب نے تائید کی اور Propose کیا۔ کچھ عرصہ کام کیا تو نائب صدر یوتھ لیگ بنادیا گیا۔ 90ء میں یوتھ لیگ کے صدر کی ذمہ داری ملی اس دوران 90ء کی الیکشن مہم میں بھرپور حصہ لیا اور راتوں کو اپنے ہاتھوں سے چاکنگ کی، پوسٹر لگائے، بینر آویزاں کئے۔ جب NDA بنا اور قائد محترم اسلام آباد میں تشریف لائے تو سیکورٹی سمیت جملہ امور قائد محترم کے ساتھ انجام دیئے۔ 93ء کے شروع میں قائد محترم نے کارکردگی کی بناء پر مرکز میں بطور PA بلالیا۔ جب جاب مل گئی تو 10 ماہ بعد قائد محترم کی اجازت سے واپس اسلام آباد آگیا اور یہاں تحریکی احباب نے مجھے ناظم تحریک کی ذمہ داری تفویض کی جس کے ساتھ جاب بھی چلتی رہی۔ 5 ماہ بعد جب ایم ایس سی کمپیوٹر سائنسز میں داخلہ لیا تو جاب چھوڑ دی۔ بطور ناظم تحریک کشمیر، ہزارہ اور پنڈی ڈویژن میں بھرپور دورہ جات کئے۔ ڈویژن کی تنظیم سازی ہوئی تو مجھے ڈویژن میں لے لیا گیا۔ اس دوران MSC مکمل کرکے مارچ 98ء میں بیرون ملک چلا گیا۔ یہ سب کچھ قائد محترم کی براہ راست راہنمائی میں ہوا۔ جب PHD کرنے کا وقت آیا اور ایک سال کی بجائے تین سال کے لئے رکنا پڑا تو قائد محترم نے وہاں سپریم کونسل میں ممبر کی حیثیت سے شامل فرمایا اور جب برطانیہ میں نیشنل ایگزیکٹو کونسل بنی تو مجھے اس کا سیکرٹری جنرل نامزد کیا گیا۔ 2002ء میں جب قائد محترم یورپ کے دورہ پر تشریف لائے تو فرمایا کہ آپ کو مرکز پر ناظم اعلیٰ کے طور پر سوچا جارہا ہے۔ بعد ازاں بذریعہ فون قائد محترم نے حکم فرمایا کہ پی ایچ ڈی کا مقالہ جمع ہوتے ہی مرکز پر آجائیں۔ مرکز پہنچا تو مجھے اس نہایت اہم ذمہ داری پر فائز کیا گیا۔

میگزین : موجودہ ملکی اور بین الاقوامی حالات میں آپ تحریک کا کیسا مستقبل اور کردار دیکھتے ہیں؟

ناظم اعلیٰ : موجودہ ملکی اور بین الاقوامی حالات میں اس وقت قیادت کا بحران نظر آتا ہے جبکہ ہمارے پاس اولوالعزم قیادت اور تربیت یافتہ کارکنان موجود ہیں۔ ہماری قیادت جامع اور پراثر ہے۔ ہمارے کارکنان بڑے محنتی، سمجھدار اور Devoted ہیں اور مقصدِ تحریک سے آگاہ ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم بھی اس مقصد سے شناسا ہو اور اس کے لئے دو بڑے اہم کام کرنے ضروری ہیں۔

1۔ تحریک کی فکر اور سوچ کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچاناجو سراسر لوگوں کی اصلاح اور فلاح پر مشتمل ہے۔ ہماری قوم کو بھی بہت ساری ٹھوکریں لگ رہی ہیں۔ ہمارا ملک اس وقت سیاسی، معاشی، اقتصادی اور امن و امان کے حوالے سے زوال کا شکار ہے۔ جب یہ قوم ہمارے مقاصد سے آگاہی حاصل کرلے گی تو پوری قوم انقلاب کی راہ ہموار کرنے میں تعاون کرے گی۔

2۔ اسلام پر ہونے والے نظریاتی حملوں کا تدارک کرنا اس وقت اسلام کی فکر کو چیلنج کیا جارہا ہے، امت مسلمہ اور عالم اسلام پر، عالم مغرب کی جانب سے مختلف حملے ہورہے ہیں اور علمی و فکری اور اعتقادی محاذ پر تصادم کی فضا پیدا کی جارہی ہے۔ اسلام کو دہشت گرد اور انتہا پسند ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان اسلام دشمن عناصر کے لئے دو چیزیں بڑی پریشان کن ہیں۔

  1. مغرب میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت
  2. دین اسلام قابل عمل ضابطہ حیات ہونا

اس سلسلے میں ہماری ذمہ داری کچھ اس طرح ہونی چاہئے۔

  1. اسلام کو دہشت گرد مذہب کی بجائے امن پسند مذہب ثابت کیا جائے۔
  2. اسلام کا حقیقی صحیح پیغام پیش کیا جائے۔

3۔ محبت، امن اور بقائے باہمی پر مبنی تعلقات کو فروغ دے کر دنیا کو اسلام کا اصل خوبصورت چہرہ دیکھایا جائے۔ اس وقت مسلمانوں کو ایک ایسا وکیل چاہئے جوانکا کیس اچھی طرح Present کرے۔ قیادت میں Potential ہو جو اسلام پر ہونے والے حملوں کا Defend کرسکے۔ اسلام مخالف عناصر مغرب میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہیں اور انسانیت کے لئے اسلام کے قابل عمل ضابطہ حیات کو دیکھ کر وہ کہتے ہیں کہ اسلام کا گھناؤنا تصور پیش کیا جائے تاکہ مغرب کا نوجوان اسلام کی طرف راغب نہ ہو۔ اسی وجہ سے بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا الزام لگایا جارہا ہے۔ ان حالات میں عالمی سطح پر قائدین کو دیکھا جائے تو اس وقت صرف حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دین اسلام کے اسی حقیقی رخ کو متعارف کروارہے ہیں۔ قائد محترم کی اس سلسلے میں خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ میں نے پوری دنیا کی سیاسی اور اسلامی لیڈر شپ کا مطالعہ کیا ہے۔ میں اپنے مشاہدے کی بنا پر کہتا ہوں کہ پوری امت میں اس وقت کوئی ایسی تحریک اور کوئی ایسا لیڈر موجود نہیں ہے جو بقائے باہمی، رواداری، انسانیت کے تحفظ اور امن عالم کے قیام پر مبنی اسلامی تعلیمات کو پوری دنیا میں اجاگر کررہا ہو۔ یہی عالمی سطح پر تحریک کا اہم کردار ہے۔

میگزین : نوجوان نسل کو بے راہ روی اور بے مقصدیت سے بچانے کے لئے تحریک کا کام کس نہج پر ہورہا ہے؟

ناظم اعلیٰ : حضور شیخ الاسلام کی گئی تشخیص کے مطابق نوجوان نسل پر اس وقت چار محاذ پر طاغوتی حملے ہورہے ہیں۔

  1. مادیت
  2. اشراقیت
  3. متنبیت
  4. معرضیت

اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرکے ان کے عقیدے کو کمزور کیا جارہا ہے۔ ان حملوں کے جواب اور رد کے لئے ضروری ہے کہ آج کی زبان میں اور عقلی دلائل سے بات کی جائے۔ الحمدللہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نوجوانوں کو اسلام کی دعوت مذکورہ چار حملوں کی تشخیص کے بعد موجودہ دور کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی زبان میں تین بنیادوں پر کی ہے۔

  1. Scientific Presentation of Islam
  2. Spiritual Presentation of Islam
  3. Practical Presentation of Islam

ان تینوں سائنسی، روحانی اور عملی حوالے سے جب حضور شیخ الاسلام نے نوجوانوں کو مخاطب کیا اور قرآن کی دعوت پیش کی تو نہایت کم عرصہ ہی میں نوجوانوں کے ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر نے ان کی دعوت پر لبیک کہا اور پوری دنیا میں بالخصوص مغرب کا وہ نوجوان جو اپنے مسلمان ہونے پر شرمندہ تھا اب بڑے فخر کے ساتھ عقلی و نقلی بنیادوں پر دین اسلام کا تحفظ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

جو حملہ عملی طور پر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ نوجوان نسل اس حوالے سے پریشان ہے کہ اگرچہ اسلام کی تعلیمات برحق ہیں مگر اس کی  Application کیوں نہیں نظر آتی؟ مسلمان Practical کیوں نہیں ہیں؟ اہل دین کی زندگی میں اسلام نظر کیوں نہیں آتا؟ یوں نوجوان نسل دین سے دور ہوتی گئی۔

میں نے برطانیہ میں قیام کے دوران وہاں نوجوان نسل کو اسلام سے بالخصوص اور اہل سنت والجماعت سے بالعموم دور ہوتے دیکھا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے جو میں نے بیان کردی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دین دار طبقہ کی اپنی زندگیوں میں اسلام نظر کیوں نہیں آتا؟ علماء و مشائخ کے کریکٹر کو دیکھ کر بھی نوجوان نسل مایوس ہے۔ علماء و مشائخ کا اصل کردار تو یہ تھا۔ بقول اقبال

تیرے دین و آداب سے آرہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری

بالعموم علماء و مشائخ کی سنگت و صحبت سے انہیں روحانی تسلی و تشفی بھی حاصل نہیں ہورہی۔ کیونکہ آج روحانیت کے لبادہ میں پیری فقیری اور عاملوں کی وجہ سے لوگ روحانیت سے بدظن ہوگئے ہیں۔ تمام بیماریوں کا علاج شریعت کی پیروی میں ہے۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے زیر اہتمام روحانی بیماریوں کے علاج کے لئے گوشہ درود اور حلقہ درود قائم ہیں۔ نعت خوانی ہوتی ہے جس کا اپنا ایک سرور اور ایک لطف ہے آجکل نعت خوانی کے نام پر جو نئے سٹائل اور نئی دھنیں متعارف کروائی جارہی ہیں وہ مستحسن نہیں ہیں۔ اس سے نعت میں سوزو گداز کی کیفیت اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصل جذبات پیدا نہیں ہوتے۔ اس حوالے سے منہاج نعت کونسل کی Presentation بہت اچھی ہے جسے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک عالم مغرب میں بھی بہت سراہا جاتا ہے اور وہاں اس کے ذریعے نسبت و تعلق اور محبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فروغ ملا ہے۔

میگزین : قائد محترم کی بیرون ملک مصروفیات سے آگاہ فرمائیں؟ نیز مرکز میں کام کی نوعیت کیا ہے اور تحریکی معاملات کیسے چلتے ہیں؟

ناظم اعلیٰ : قائد محترم کی بیرون ملک مصروفیات تصنیف و تالیف سے متعلق ہیں۔ قائد محترم کی تین سو سے زیادہ نایاب کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان میں سرفہرست ترجمہ عرفان القرآن، منہاج السوی، کتاب التوحید، کتاب البدعہ، مقام محمود، امام ابوحنیفہ امام الائمہ فی الحدیث، اقتصادیات اسلام، آیۃ الکرسی، اربعینات اور عقائد پر کئی ضخیم کتب اور سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ احادیث کے عظیم مجموعہ ’’جامع السنہ‘‘ کی پہلی جلد کتاب المناقب شائع ہوچکی ہے، جبکہ فضائل، معجزات اور خصائص مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جلد کتب پرنٹ ہونے والی ہیں۔

ان کتب میں احادیث کی جانچ پرکھ اور صحت و ثقاہت کے اصول و قوانین کا بے حد لحاظ رکھا جاتا ہے اور تمام کتب تخریج کے ساتھ شائع ہوتی ہیں۔ قائد محترم نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا دورہ کروایا اور اس میں آپ نے عقیدہ اہل سنت اور مذہب حنفیت کو احادیث کے ذریعے جس طرح Defend کیا ہے وہ خود ایک بہت بڑا اجتہادی اور تجدیدی کام ہے۔ نیز آپ نے بے شمار علمی و فنی طریقوں سے مسلمانوں کو اتحاد امت کی دعوت دی ہے۔ برطانیہ میں سالانہ بنیادوں پر چار روزہ الہدایہ کیمپ میں بالخصوص نوجوانوں کو Address کیا جاتا ہے۔ جہاں تک مرکز اور تحریکی معاملات کا تعلق ہے تو قائد محترم کی شروع ہی سے خواہش تھی کہ دعوتی، تنظیمی و تربیتی نیٹ ورک اور تمام نظامتوں کو Establish کرکے اہل افراد اور ٹیم کے سپرد کیا جائے۔ الحمدللہ گزشتہ 4 سال سے اس سلسلے میں زبردست کامیابی ہوئی ہے اور اس کی عملی شکل سامنے آئی ہے۔ اب تحریک منہاج القرآن کی مجلس شوریٰ ہے، ایگزیکٹو کونسل ہے جس کے پورے پاکستان سے نمائندگان موجود ہیں۔ CWC (سینٹرل ورکنگ کونسل) ہے جو تمام تحریکی امور کے لئے تشکیل دی گئی ہے۔ جس میں تقریباً 25 ناظمین اور سربراہان شعبہ جات ممبر ہیں جسے ناظم اعلیٰ Head کرتا ہے۔ اسی طرح مجلس منتظمہ ہے جو انتظامی امور کو deal کرتی ہے۔ مرکز کے تعلیمی ادارہ جات کے لئے EEC (ایجوکیشنل ایگزیکٹو کونسل) تشکیل دی گئی ہے۔ اس طرح ایڈمنسٹریٹو کونسل MES (منہاج ایجوکیشن سوسائٹی) کے 17 ممبران ہیں اور فیلڈ سے متعلق لوگ اس کے ممبر ہیں یہ Policy Making ادارہ ہے۔ علی ھذالقیاس اگر ان سب کے فیصلہ جات کے خلاف کوئی اپیل کرنا چاہے تو اس سلسلے میں Review Council تشکیل دی گئی ہے۔ بیرون ملک سے متعلقہ جتنے امور ہیں ان کے لئے شعبہ DFA قائم ہے۔ بیرون پالیسیز کے لئے ناظم اعلیٰ کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی کمیٹی فیصلہ سازی کا اختیار رکھتی ہے۔ یورپین ممالک کے تنظیمی نیٹ ورک کے لئے یورپین کونسل تشکیل دی گئی ہے جو تمام تنظیمی امور کی نگرانی کرتی ہے اور ہر ملک کی اپنی نیشنل ایگزیکٹو کونسل بھی قائم ہے جس میں تمام امورکا فیصلہ مشاورت سے کیا جاتا ہے۔

Gulf Areas میں بھی بڑا نیٹ ورک ہے۔ وہاں کے لئے بھی گلف کونسل کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ قائد محترم کی رہنمائی میں اُن کی عملی Involvement کے بغیر بڑے اچھے طریقے سے منہاج القرآن انٹرنیشنل کام کررہا ہے۔ کالج آف شریعہ کے فارغ التحصیل سکالرز بڑی تعداد میں پوری دنیا میں بڑے اچھے طریقے سے ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ اُن کی بڑی تعداد مرکز میں بھی مختلف ذمہ داریاں نبھارہی ہے اس وقت تحریک کے ناظمین میں سے اکثر منہاجینز ہیں۔ منہاجینز کا عملی ذمہ داریوں کو سنبھالنا، قائد تحریک کے خواب کی عملی تعبیر ہے۔

اس وقت نظامت دعوت، تربیت اور علماء کونسل کے زیر اہتمام پاکستان میں 250 مقامات پر دروس قرآن ہورہے ہیں جو پاکستان میں سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔ عالمی سطح پر جہاں بہت بڑے بڑے جلسے جلوسوں میں نامور خطباء اور مشائخ کو بلایا جاتا تھا وہاں ہمارے فارغ التحصیل سکالرز کو خطاب اور تقریر کے لئے بلایا جاتا ہے۔ اب یہ نیٹ ورک پاکستان سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ یہ حضور شیخ الاسلام کی روحانی تربیت کا ثمر ہے کہ لاکھوں کے اجتماع سے منہاجینز خطابات کررہے ہیں اور مرکز کی نمائندگی کرتے ہوئے دعوت و تبلیغ کا فریضہ بحسن و خوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح FMRi میں بھی منہاجینز سکالرز قائد محترم کی کتب پر تحقیق و تدوین کا کام نہایت خوبصورت انداز میں کررہے ہیں۔ تحریک کی سپریم کونسل بھی ہے جو ابھی اس قدر متحرک نہیں ہے مگر جیسے ہی صاحبزادہ حسن محی الدین قادری اور صاحبزادہ حسین محی الدین قادری اپنی تعلیم مکمل کرکے پاکستان تشریف لائیں گے تو سپریم کونسل Active ہوجائے گی اور پھر ان کی قیادت میں تحریک ان شاء اللہ مزید ترقی کرے گی۔

میگزین : تحریک اس وقت کس مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور پاکستان میں تحریک کا کام کس نہج پر ہورہا ہے؟

ناظم اعلیٰ : جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ تحریک کا کام پانچ مراحل دعوت، تنظیم، تربیت تحریک اور انقلاب پر مشتمل ہے۔ ہماری اس وقت پہلے تین مراحل پر توجہ مرکوز ہے۔ تحریک کے مرحلے کو تھوڑا مؤخر کیا ہے کیونکہ ہم دعوت کو بہت زیادہ موثر انداز میں پھیلارہے ہیں۔ پاکستان کی تمام تحصیلوں اور یونین کونسلز میں دعوت اور تنظیم کا کام جاری ہے۔ غیر محسوس انداز میں تنظیمی نیٹ ورک پر توجہ دے رہے ہیں اور تربیتی Activities کروارہے ہیں تاکہ مرحلہ تحریک کے لئے کارکن بنائے جائیں۔

میگزین : شیخ الاسلام کے ہمراہ کوئی ایسا سفر جو یادگار ہو؟

ناظم اعلیٰ : حضور شیخ الاسلام کے ساتھ مجھے کئی مرتبہ سفر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اندرون پاکستان کے علاوہ بیرون ملک تین بڑے یادگار سفر کئے ہیں جن میں بنگلہ دیش، یورپ اور یمن شامل ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ قائد محترم کے ساتھ ایک لمحہ بھی جو گزرے وہ یادگار ہوتا ہے۔ ہم یہاں قائد محترم کی نجی زندگی کا مشاہدہ نہیں کرسکتے۔ مجھے آپ کے ساتھ وقت گزارنے کا بڑے قریب سے موقع ملا ہے اس دوران آپ کی ذات سے کئی گنا محبت بڑھ گئی۔ کئی گوشے لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ بنگلہ دیش، یورپ اور یمن کے دورہ جات کے دوران بڑے قیمتی لمحات تھے جو آپ کے ساتھ گزرے ہیں۔ ان میں سے ایک دو دلچسپ واقعات بیان کروں گا۔ ایک مرتبہ ناروے کے دورے کے دوران صبح تہجد اور نماز فجر پڑھ کر قائد محترم نے تھوڑا آرام کیا تو ہم بھی محترم حاجی گلزار، محترم داؤد مشہدی اور میں سوگئے مگر جب کسی جگہ میٹنگ میں جانے کا وقت ہوا تو ہم سوئے رہے مگر قائد محترم وقت مقررہ پر تیار ہوکر گاڑی میں بیٹھے تھے اور جب ہم تیار ہوکر پہنچے تو گاڑی میں ہمارا انتظار کررہے تھے اور مسکرارہے تھے۔

قائد محترم کا ذوقِ مطالعہ unbeleiveable ہے۔ ایک دفعہ ایک سفر کے دوران ہم جہاز میں بیٹھے ہوئے تھے۔ قائد محترم نے ایک ضخیم کتاب کھولی اور اسے پڑھنا شروع کیا۔ اس دوران ائیر ہوسٹس دو دفعہ آئی اس نے چائے وغیرہ رکھی۔ چائے دو دفعہ ٹھنڈی ہوئی۔ تیسری دفعہ میں نے عرض کیا مگر آپ نے ہاتھ کے اشارے سے ٹھہر جانے کا کہا۔ اس 3، 4 گھنٹے کے سفر کے دوران آپ نے سینکڑوں صفحات پر مشتمل کتاب پڑھ ڈالی اور اہم نکات کے hints لئے۔

آپ کو مطالعہ علم کا اتنا شغف ہوتا ہے کہ ایک دفعہ جب ہم سفر پر روانہ ہوئے تو جہاز پر سوار تھے۔ آپ نے تمام وقت وہاں بھی کتاب پڑھی جب ہم نیچے اترے تو آگے جانے سے پہلے ہمیں تھوڑی دیر کے لئے وہاں رکنا تھا۔ مگر قائد محترم نے وہاں بھی پڑھنا شروع کردیا۔ اسی طرح ایک دفعہ جب رات کے سفر سے تھک کر ہم چور ہوگئے تو اگلے سفر پر روانہ ہوتے ہی ہم سیٹوں پر سوگئے مگر قائد محترم نے وہاں مطالعہ شروع کیا اور آپ کے چہرے پر تھکن کے آثار نہ تھے اور یہ بھی آپ کی عادت ہے کہ آپ کبھی بھی بلا مطالعہ خطاب کے لئے تشریف نہیں لے جاتے۔

اہل علم سے آپ کی محبت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ حضر الموت اور وادی ترین میں جہاں علماء و مشائخ کا نیٹ ورک ہے مگر بہت زیادہ ترقی یافتہ نہیں ہیں۔ وہاں بیٹھنے کے لئے لوگ کرسی کا استعمال نہیں کرتے مگر قائد محترم کو چونکہ کمر کی تکلیف ہے جس بھی عالم شیخ سے ملاقات کے لئے جاتے وہاں کرسی نہ ہوتی۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے کہ قائد محترم گھنٹوں علماء و مشائخ کی صحبت میں بغیر کرسی کے بیٹھے رہتے تھے۔ جب قائد محترم انہیں اپنی کتابیں دکھاتے تو وہ دنگ رہ جاتے تھے۔

جب ہم بنگلہ دیش میں تھے تو ایک دلچسپ واقعہ ہوا اس وقت ہماری رہائش ایک عالیشان ہوٹل میں تھی۔ میزبانوں نے بہت اچھی گاڑیوں کا بندوبست کیا ہوا تھا جو رات کو پارکنگ کے لئے چلی جاتیں اور صبح واپس آجاتیں اس کے علاوہ پولیس کے اعلیٰ افسران ایک پوری ٹیم اور سکواڈ کے ساتھ حفاظتی فرائض سرانجام دیتے۔ محترم احمد نواز انجم صاحب کے کسی جاننے والے نے رات گئے قبلہ قائد محترم کو ناشتے پر Invite کیا۔ اس وقت میزبانوں کی گاڑیاں جاچکی تھیں اور صبح انہوں نے طے شدہ شیڈول کے مطابق ناشتہ کے بعد آنا تھا۔ جب ہم نے گاڑی کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ میرے پاس گاڑی ہے آپ اس میں چلے جائیے گا۔ صبح 7 بجے وہ اپنی ایک چھوٹی سی پرانے ماڈل کی گاڑی لیکر حاضر ہوا جس میں ڈرائیور کے علاوہ بمشکل دو آدمی کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ میں اور احمد نواز انجم صاحب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے کہ اب کیا ہوگا مگر خیر ہم دونوں کسی طرح پیچھے بیٹھ گئے اور حضور شیخ الاسلام ڈرائیور کے ساتھ تشریف فرما ہوئے مگر اس پر بھی آپ نے ناگواری کا اظہار نہ کیا اور میزبان کی خوشی کے لئے اس کے ساتھ اس کی چھوٹی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اس وقت آپ کی کمر میں شدید درد تھا۔ اسی حالت میں 4، 5 کلومیٹر کا سفر کرکے اس کے گھر میں پہنچے حالانکہ میں نے عرض کیا کہ حضور کسی اور گاڑی کا انتظام کرلیتے ہیں۔ لیکن قائد محترم نے کہا نہیں بیٹا کوئی بات نہیں ہم نے تو سفر ہی کرنا ہے۔ اب ان کا دل ٹوٹے گا اور میں اپنی سہولت کے لئے کسی کا دل کیسے توڑ سکتا ہوں۔

میگزین : تقریباً 24 گھنٹوں کی ڈیوٹی میں آپ اپنے اہل خانہ کے لئے کیسے وقت نکالتے ہیں؟

ناظم اعلیٰ : Actually سب گھر والے مشن کو سمجھنے والے اور حضور شیخ الاسلام سے محبت کرنے والے ہیں۔ اسلام آباد میں 85ء میں والد صاحب کے ہمراہ قائد محترم کا درس قرآن سننے جایا کرتا تھا۔ اس وقت عمر بہت کم تھی مگر قائد محترم کو سننے اور انکو دیکھنے کا شغف عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا۔ والدہ صاحبہ اور والد صاحب دونوں قائد محترم سے نہایت محبت کرنے والے اور عقیدت رکھنے والے ہیں۔ اہلیہ بھی تحریکی فیملی سے Belong کرتی ہیں۔ میری اہلیہ خود چونکہ تحریکی ہیں اس لئے وہ گھریلو امور خود بطریق احسن سرانجام دیتی ہیں۔ ان کی وجہ سے مجھے گھریلو ذمہ داریوں سے کسی حد تک چھٹکارا مل جاتا ہے۔

میگزین : آپ کی زندگی کی سب سے اہم دلی خواہش جس کے پورا ہونے کا آپ کو شدت سے انتظار ہو؟

ناظم اعلیٰ : مصطفوی انقلاب کے پورا ہونے کی شدید خواہش ہے اس کے علاوہ الحمدللہ ایسی کوئی خواہش نہیں جو پوری نہ ہوئی ہو۔

میگزین : QTV پر شیخ الاسلام کے خطابات سن کر تحریک میں لوگوں کی شمولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے ان کو مشن سے وابستہ کرنے کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کیا گیا ہے؟

ناظم اعلیٰ : QTV کے ذریعے بہرحال دعوت کے عمل میں تیزی پیدا ہوئی ہے۔ ان کے ذریعے ہمیں Image Building میں مدد مل رہی ہے۔ مگر لوگوں کو تحریک سے متعارف کروانا اور انہیں کارکن بنانا یہ بہرحال ہمارے کارکنوں اور تنظیمات کا کام ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے اگر ہم طے شدہ منصوبہ جات پر عمل کریں۔ دعوت کو پھیلائیں اور مشن کا پیغام Door to Door پہنچائیں پھر ان لوگوں کو Trace Out کریں جو تحریک اور مشن کے ساتھ مکمل وابستگی قائم رکھ سکتے ہیں اور ان کے ذہنوں کو مصطفوی انقلاب کے لئے تیار کریں۔

میگزین : منہاج القرآن ویمن لیگ کے حوالے سے آپ کیا کہنا پسند فرمائیں گے۔ نیز ماہنامہ دختران اسلام کے قارئین کو کیا پیغام دیں گے؟

ناظم اعلیٰ : ویمن لیگ کی خواتین عظیم مجاہدات ہیں۔ ان کا کام ہم مردوں سے زیادہ مشکل اور کٹھن ہے۔ اسلامی شریعت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے گرمی اور سردی میں گھروں سے باہر نکل کر خواتین کا دین کا کام کرنا ایک بہت بڑا جہاد ہے۔ بالخصوص پاکستان جیسے روایت پسند معاشرے میں جو خواتین دین کی عملی جدوجہد میں شریک ہوتی ہیں ان کی Contribution کئی مردوں سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ اس لئے منہاج القرآن ویمن لیگ کے کام کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ منہاج القرآن ویمن لیگ اس وقت پورے پاکستان میں خواتین کے لئے کام کرنے والی سب سے بڑی منظم اور متحرک تنظیم ہے مگر ابھی ہمیں اس میدان میں بہت کام کرنا ہے۔ 55فیصد خواتین کو اہم کردار ادا کرنا ہے۔ ایک خاتون کی فکر کو تبدیل کرنے سے پورے خاندان کی فکر کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ بعض ایسی تنظیمیں ہیں جو خواتین کے ذریعے پورے خاندان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ہمیں بھی انقلابی تقاضوں کی تکمیل کے لئے خواتین کو مضبوط کرنا ہوگا۔ خواتین خود انقلاب کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ خدمت دین کے کام کو اپنی نسل تک منتقل کرنا ہمارا سب سے اہم فرض ہے۔ پاکستان میں انقلابی تقاضے پورے کرنے کے لئے ہمیں منظم انداز میں کام کرنا ہوگا۔ انقلاب ہم سب کی بڑی شدید خواہش ہے جس کے لئے دن رات کام کرنا ہوگا۔ اس میں مائیں اور بہنیں اپنا جتنا اہم کردار اد ا کریں گی اتنا ہی آئندہ نسل کا مستقبل بہتر اور شاندار ہوگا۔ دختران اسلام ایک معیاری مجلہ ہے جو دین اسلام کی خدمت اور مشن کے پیغام کو عام کرنے میں مصروف ہے۔ میرا پیغام ہے کہ اس کا مطالعہ جاری رکھیں اور دین اسلام پر استقامت کے ساتھ کاربند رہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی مدد شامل حال فرمائے۔ رسالے کی ٹیم کی کارکردگی لائق صد تحسین و مبارکباد ہے۔